• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیرپور رِپورٹ شائع ہوئی، تو کانگریس کی طرف سے اُس میں لگائے گئے الزامات کی پُرزور تردید کی گئی۔ اِس پر بنگال کے وزیرِاعظم اے کے فضل الحق نے خود تحقیق کر کے رپورٹ مرتب کی اور 15 دسمبر کے ’’اسٹیٹس مین‘‘ میں شائع کرائی۔ وہ رِپورٹ کے آغاز میں لکھتے ہیں کہ ’’کانگریسی وزارتوں نے حکومت سنبھالتے ہی عجیب و غریب حرکتیں شروع کر دی تھیں۔ مثال کے طور پر سرکاری افسروں کے نام پہ احکام جاری ہوئے کہ اہم انتظامی امور میں مقامی کانگریسی کمیٹی سے مشورہ کیا جائے، سرکاری اور نیم سرکاری عمارتوں اور اسکولوں پر کانگریس کا ترنگا جھنڈا لہرا دِیا جائے، تمام تقریبات میں بندے ماترم گایا جائے اور ہندی زبان اور ہندی کلچر کی پوری حوصلہ افزائی کی جائے۔ اِن احکام سے ہندوؤں میں یہ احساس غالب آ گیا کہ رام راج قائم ہو گیا ہے جس کا اُنہیں ایک مدت سے انتظار تھا۔‘‘پیرپور رِپورٹ نے کانگریس کی بدترین فسطائیت پوری طرح بےنقاب کر دی تھی، اِس لیے ہندو زعما یہ ثابت کرنے پر سارا زور صَرف کر رہے تھے کہ اِس رپورٹ میں لگائے گئے تمام الزامات بےبنیاد ہیں، لیکن یوپی کے گورنر سر ہیری ہیگ، وزیرِ ہند لارڈ زیٹنڈر، برطانوی پارلیمنٹ کے مشہور ٹوری ممبر کوئٹس ہوپرگ اور ایک انگریز صحافی پٹرک نے اِن الزامات کی توثیق کی۔ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی نے اپنی کتاب ’’ہماری قومی جدوجہد‘‘ میں اُن کے نام اور اُن کے ریمارکس محفوظ کر دیے ہیں۔قائدِاعظم نے وائسرائے سے مطالبہ کیا کہ پیرپور رِپورٹ کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ججوں پر مشتمل ایک رائل کمیشن مقرر کیا جائے جس کا صدر پریوی کونسل کا کوئی لارڈ ہو۔ وائسرائے نے یہ مطالبہ اِس خوف سے منظور نہیں کیا کہ اگر پیرپور رِپورٹ کے تمام واقعات کی عدالتی تحقیقات میں تصدیق ہو جاتی ہے، تو وہ اَور صوبائی گورنر اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی آئینی ذمےداری پوری نہ کرنے کا کیا جواب دیں گے۔کانگریسی وزارتوں کی طرف سے مسلم دشمنی کے بارے میں چاروں رپورٹوں سے ملک کے اندر اَور ملک سے باہر کانگریس کا امیج خراب ہو گیا تھا اور پیرپور رِپورٹ ہی وہ عظیم دستاویز تھی جس نے برِصغیر کے مسلمانوں میں آزاد وَطن کی شدید تڑپ اور اُمنگ پیدا کی تھی۔ یہ رپورٹ انگریزی میں تھی جو اَب دستیاب نہیں۔ خوش قسمتی سے اِس کا اُردو ترجمہ ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ کے اگست 1982ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ ترجمہ جناب مشتاق احمد بھٹی (ایم اے) نے غیرمعمولی احتیاط سے کیا۔ ہم ادارے کے شکریے سے یہ تلخیص اپنی کتاب میں شامل کر رہے ہیں۔ یہ دستاویز اُن اصحاب کے لیے یقیناً چشم کشا ہو گی جو آج بھی یہ رائے رکھتے ہیں کہ پاکستان کا قیام غیرضروری تھا اور ہم ہندوؤں کے ساتھ رہ کر ایک آبرومندانہ زندگی بسر کر سکتے تھے۔ہندوستان کے حالات سے واقفیت رکھنے والا کوئی بھی شخص اِس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ کانگریس، اقلیتوں کے اندر اِعتماد پیدا کرنے میں بری طرح ناکام رہی اور مذہبی اور ثقافتی آزادی کی ضمانت دینے کی بار بار قراردادوں کے باوجود اُنہیں اپنے ساتھ لے کر نہیں چل سکی۔ وہ ہر اعتبار سے ایک ہندو تنظیم تھی اور نیشنلِزم کے وعدوں اور دعووں کے باوجود اُس کے ارکان کی بہت بڑی اکثریت حددرجہ تنگ نظر فرقہ واریت کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔صوبائی انتخابات میں کامیابی پر بدمست کانگریسی رہنماؤں نے اِس اعلان سے ’’دربندی‘‘ کی حکمتِ عملی اختیار کی کہ وہ قانون ساز اداروں میں ہر قسم کی شراکت یا اتحاد کے خلاف ہیں۔ یہ حقیقت اُن کی آنکھوں سے اوجھل رہی کہ علیحدگی اور خلوت پسندی، قومی زندگی کی صحت مند نشوونما کے لیے کسی طور سازگار نہیں، کیونکہ اِس طرح سیاسی عمل اَن گنت دشواریوں میں گِھرا رَہتا ہے۔انڈین نیشنل کانگریس کا نظریۂ قومیت اکثریتی فرقے کی قومی حکومت کے تصوّر پر مبنی تھا۔ اِس تصوّر میں دوسری قومیں اور فرقے محض ثانوی حیثیت رکھتے تھے، چنانچہ مسلمان یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اکثریت کے ظلم سے زیادہ شدید اور کوئی ظلم نہیں ہو سکتا۔ اُن کا عقیدہ تھا کہ صرف وہی حکومت مستحکم ہوتی ہے جو تمام فرقوں کو، خواہ وُہ کتنے ہی چھوٹے کیوں نہ ہوں، مساوی اور یکساں مواقع فراہم کرنے پر یقین رکھتی ہو۔ فقط یہی اصول مسلمانوں اور دُوسری اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کر سکتا تھا۔ مسلمان کئی بار اِس بات کا واشگاف اعلان کر چکے تھے کہ مذہب، ثقافت، زبان اور شخصی قوانین کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اُن کے مستحکم مستقبل کے لیے اتنا ہی اہم اور نازک مسئلہ سیاسی حقوق کا تحفظ اور حکومت اور ملکی انتظام میں مناسب حصّے کا حصول ہے، کیونکہ ہندوستان کا فرقہ وارانہ مسئلہ دوسرے ممالک کے اقلیتی مسائل سے یکسر جدا ہے۔ دنیا بھر میں کوئی اور ایسا ملک نہیں جہاں ابھی تک چھوت چھات کی لعنت اور اُس کا سخت کڑا نظام چل رہا ہو۔پیرپور رِپورٹ میں یہ حقیقت بیان کی گئی کہ اِس نظام کی وجہ سے نہ صرف دوسرے فرقے ہندو فرقے سے الگ رہتے ہیں، بلکہ اچھوتوں کو بھی وہ حقوق حاصل نہیں جن سے اعلیٰ ذات کے ہندو فیض یاب ہوتے ہیں۔ شہروں، قصبوں اور دیہات کے اندر صفائی کے معاملات اچھوتوں کے ذمے ہیں۔ جانوروں کی لاشیں ٹھکانے لگانا، جھاڑو دَینا اور غلاظتیں اُٹھانا اُنہی کی ذمےداری ہے۔سرکاری ملازمت کے دروازے اگرچہ سب کے لیے کھلے ہیں، مگر ہر شخص کی ذات اُس کا پیشہ متعین کرتی ہے۔ ملک کے اندر مختلف پیشوں پر بعض مخصوص ذاتوں کے لوگ چھائے ہوئے ہیں۔ اگر کسی دوسری ذات کا آدمی اُن میں سے کسی اور ذَات میں داخل ہونا چاہے، تو اُس کی راہ میں سخت رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اُس کی مخالفت اکثر اوقات کاروبار میں بھی مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔اِن حالات میں یہ بھی ممکن ہے کہ محض طبی اور صحت و صفائی کے عذر کی بنا پر قانون سازی کر کے کسی خاص فرقے کے تجارتی مفادات پر کاری ضرب لگا دی جائے۔ دوسرے ممالک میں کاروباری حکمتِ عملی خالص معاشی بنیاد پر ہوتی ہے، ہندوستان میں بالعموم اِس کی بنیاد فرقہ واریت پر ہے۔ ایسے بےشمار وَاقعات رونما ہوئے جن میں کسی خاص جنس یا پیداوار پر محض فرقہ واریت کی بنیاد پر امتیازی ٹیکس لگائے جاتے رہے۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین