• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے معاشی حالات کی بہتری کے لئے تھرکول کا منصوبہ وقت اور حالات کی ضرورت ہے۔ اس سے بجلی کی قلت کے بحران میں کمی ممکن ہے، بشرطیکہ اس پر کام طے شدہ پلان کے مطابق ہو، اس منصوبے کی سیاسی نقطہ نظر سے خاص بات یہ ہے کہ اس میں پہلی بار وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری ایک ساتھ نظر آئے۔ جس کے بعد مئی2013ء سے پہلے بظاہر سیاسی حریف ایک دوسرے کے حلیف بن کر اپنی مسکراہٹوں سے قوم کو بتارہے تھے کہ جمہوریت کے استحکام کے لئے ہم ایک ہیں۔ اس حوالے سے وہ تھرکول کے منصوبہ میں ضامن بھی ٹھہرے۔ اب پاکستان کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے قائدین کم از کم آئندہ کسی موقعہ پر اس منصوبہ کو متنازعہ نہیں کہہ سکیں گے بلکہ اس کا کریڈیٹ لے سکتے ہیں۔اس منصوبے کی افتتاحی تقریب میں وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر کے یہ الفاظ ملکی ماہرین اور غیر ملکی سفارتکاروں کے لئے حیران کن تھےکہ سیاسی قیادت متحد ہے، ہوسکتا ہے کسی کو ہمارا مل بیٹھنا اچھا نہ لگے۔ معلوم نہیں ان کا اشارہ پاکستان آرمی کی طرف تھا یا اپنے نئے سیاسی مخالف عمران خان کی طرف۔ اس لئے کہ دینی جماعتیں جتنا مرضی بڑا اتحاد بنالیں میاں نواز شریف کو ان سے کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی مزاجاً وہ ان کے بارے میں ایسی ذومعنی بات کہہ سکتے ہیں۔ تھرکول منصوبہ کی تقریب میں نواز شریف اور آصف علی زرداری کا اکٹھے ہونا مری ڈیکلریشن کے تحت دونوں بڑی پارٹیوں کے درمیان اس معاہدے کی تجدید ہے جسے میثاق جمہوریت کا نام دیا گیا تھا اور بعد میں اس میثاق میں نفاق بڑھتا گیا تاہم اب پھر سیاسی حالات میں بہتری نظر آرہی ہے جو اس لحاظ سے خوش کن ہے کہ اس سے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کے کئی خدشات دور کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔کاش اس حوالے سے اہم قومی اقتصادی ایشوز کے حل کے لئے حکومت اور اپوزیشن مل کر مشترکہ حکمت عملی تیار کریں جس سے عوام کو ملکی وسائل کی لوٹ مار کرنے والوں سے نجات مل سکے اور ملک میں امن و استحکام لانے میں مدد مل سکے۔ اس صورتحال میں ملکی پیداوار بڑھانے اور معاشی سرگرمیاں بڑھانے کے لئے حکومت اور نجی شعبہ کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس وقت پاکستان کے 85 فیصد سے زائد عوام بجلی، گیس اور دوسری سروسز کی لوڈشیڈنگ اور بدانتظامی کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ بے قابو مہنگائی نے تو ہر گھرنے کو لاتعداد مسائل و مشکلات سے دو چار کررکھا ہے۔
بجلی اور گیس کی پیداوار اور سپلائی میں کمی سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے اس سے بدامنی ،لاقانونیت اور امن و امان کی صورتحال مزید بگڑرہی ہے۔ اخبارات میں وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کو اکٹھے اور مسکراتے دیکھ کر مختلف حلقوں میں یہ تبصرے کئے جاتے رہے کہ ہم عوام ایسے ہی بے وقوف بنے رہے، یہ تو اب پتہ چلا کہ دونوں ایک ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان دونوں کا ایک ہونا ملک کی سلامتی اور خوشحالی کے لئے مفید ثابت ہوسکتا ہے بشرطیکہ دل صاف کرکے ملکی مفاد کو تمام سیاسی مقاصد پر ترجیح دی جائے ۔دنیا بھر کی مہذب جمہوریت میں حکمران اور اپوزیشن کے قائدین ایسے ہی مسکراتے ہوئے ملتے ہیں اور پھر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بیٹھ کر ایک سوچ کے ساتھ عوام کی بہتری کے لئے سوچتے ہیں۔ کاش یہی سوچ ہمارے ہاں قومی سطح پر رواج پکڑے اور جیسے لاکھڑا کول پر دونوں بڑے قائدین اکٹھے ہوئے ہیں اس طرح وہ وقت بھی جلد آئے ، جب دونوں قائدین(نواز شریف اور آصف علی زرداری) کالا باغ ڈیم کے منصوبے کے آغاز کے لئے ایک ہی تقریب میں اکٹھے ہوں اور اس طرح مسکراتے ہوئے اس طرف بھی پیش قدمی کریں۔ اس سے بھی ملک و قوم کے حالات میں مزید بہتری لانے کی راہ ہموار ہوگی اور سیاسی طور پر قائدین پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ اس لئے کہ جو قومی منصوبے بھی حکمرانوں اور اپوزیشن کے باہمی مفاد سے شروع ہوتے ہیں وہ پایہ تکمیل پر بھی پہنچ جاتے ہیں۔ کاش! ہمارے عوام کو ایسے سیاسی قائدین مل جائیں جو ملک اور عوام کا پہلے خیال کریں اور اس کے لئے اپنے سیاسی مفادات کو قربان کردیں اسی سے ان کا قد مزید اور عوام کا بھی جمہوریت پر یقین بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات کا بھی تقاضا ہے کہ الزام تراشی اور پوائنٹ اسکورنگ کی سیاست سے گریز کرکے ’’قومی مفاد‘‘ سب سے پہلے کے نعرے کو آگے بڑھایا جائے اس سے ملکی معاشی اور سماجی حالات میں بہتری لانے میں کافی مدد مل سکتی ہے اور ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے راہ ہموار ہوسکتی ہے اس حوالے سے آئندہ آٹھ دس ہفتوں میں کافی کچھ ہونے والا ہے۔ خدا کرے آنے دنوں میں پاکستان کے حالات میں بہتری آئے اور یہاں امن اور استحکام کے لئے کئے جانے والے اقدامات نتیجہ خیز ثابت ہوں۔
تازہ ترین