• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

مہک رہی ہے غزل، ذکرِ زُلفِ خوباں سے ...

تحریر: نرجس ملک

ماڈل: مقدّس سعید

میک اَپ/ہیئر اسٹائلنگ: اسپاٹ لائٹ

بیوٹی سیلون بائے: اسماء ناز

کوارڈی نیشن: محمّد کامران

عکّاسی: ایم کاشف

لے آؤٹ: نوید رشید

ایک ہیئر اسٹائلسٹ کا قول ہے کہ ’’جو لوگ کہتے ہیں کہ خُوشی، پیسوں سے نہیں خریدی جاسکتی، تو دراصل اُنہیں کبھی کوئی اچھا بیوٹی سیلون نہیں مِلا۔‘‘ اِسی طرح ایک بیوٹیشن کا کہنا ہے کہ ’’یہ ہیئر ڈریسرز/اسٹائلسٹس مبارک باد کے مستحق ہیں، کیوں کہ یہ لوگوں کے اصل حُسن کو نکھارتے، نمایاں کرتے ہیں۔‘‘ جب کہ معروف بزنس وومین، ماڈل اور سابق امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کی سابقہ اہلیہ ایوانا میری ٹرمپ کا ایک مشہور جملہ ہے کہ ’’خُوب صُورت بال بہترین انتقام ہیں۔‘‘ (گرچہ ہمارے یہاں محترمہ بے نظیر بھٹو کی نسبت سے یہ مقولہ "Democracy is the best revange" کی صُورت مقبول ہے)۔ 

نیز، ہیئر ٹریٹمنٹ پراڈکٹس کے حوالے سے معروف نام، پیٹر کوپولا سے بھی ایک قول منسوب ہے کہ ’’جب آپ ایک صحیح ہیئر ڈریسر سے ملتے ہیں، تو آپ کی زندگی کہیں زیادہ خُوب صورت ہوجاتی ہے۔‘‘ بے شک، بال، حُسن کا جال ہیں۔ بنگال کا کالاجادو بھی تمثیلاً وہاں کی خواتین کی کالی سیاہ، ناگن سی بَل کھاتی دراز زلفوں اور کجرارے کالے نینوں ہی کے سبب مشہور ہے۔ بالوں سے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ وہ تاج ہے، جو ہم کبھی اپنے سَر سے اُتارنا پسند نہیں کرتے، خصوصاً خواتین کے بال تو اُن کی زندگی، اُن کا سب سے قیمتی قدرتی زیور ہیں، جن کے بغیر وہ کبھی جینے کا تصوّر بھی نہیں کرتیں۔

ویسے تو آپ کو شُوٹ دیکھ کے ہی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ آج یقیناً ’’بال کی کھال‘‘ نکالی جائے گی، لیکن ہم نے ساتھ ہی آپ کو کچھ معلومات فراہم کرنے کا بھی اہتمام کیا ہے اور اِس کے لیے بطورِ خاص اپنی ہیئر اسٹائلسٹ سے خاصی پروفیشنل گفتگوکی۔ مثلاً ’’فرنٹ ٹوئسٹ اینڈ بیک سوئس‘‘ ہیئر اسٹائل سے متعلق اُن کا کہنا ہے کہ ’’یہ خاصا منفرد ہیئراسٹائل ہے، جو خاص مواقع ہی کے لیے بنایا جاتا ہے۔ 

اِس میں آگے کی طرف کے بالوں کوٹوئسٹ کی شکل دی جاتی ہے، جو چہرے کی سمت ہوتا ہے، جب کہ پیچھے کے بالوں کو سوئس رول کی سی شیپ دیتے ہیں، اِس اسٹائل کےلیے مختلف ہیئر ایکسیسریز، ہیئر اسپرے اور ہیئرپِنز وغیرہ استعمال کی جاتی ہیں تاکہ بالوں کا لُک تقریب کےاختتام تک خراب نہ ہو۔ یہ اسٹائل درحقیقت پرسنالٹی کو خاصا Enhance کرتا ہے۔‘‘ ’’میسی ہیئر اسٹائل‘‘ کے حوالے سے اسٹائلسٹ کا کہنا ہے کہ ’’یہ اسٹائل زیادہ تر منہدی، مایوں یا دیگر روایتی فنکشنز کے موقعے پر بنایا جاتا ہے۔ اِس میں بالوں کو مختلف طرز کی چوٹیاں (Braids) بنا کر باندھا، سمیٹا جاتا ہے۔ اور اِن چوٹیوں کی مزید دل آویزی کے لیے اِن میں پھول، موتی، بیڈز یا دیگر آرائشی لوازمات پروئے جاتے ہیں۔‘‘

’’ہائی کرائون ہیئراسٹائل‘‘ کےضمن میں بتایا گیا کہ ’’یہ خاصا ٹرینڈی ہیئر اسٹائل ہے، جس میں بیک کامبنگ کے ذریعے بالوں کو نسبتاً بلندی کی طرف شیپ اَپ کیا جاتا ہے۔ یہ اسٹائل خاصاماڈرن لُک دیتا ہے، لیکن بنانےسےپہلے چہرے کی ساخت کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے۔ گول فیس پر یہ اسٹائل اچھا تاثر نہیں دیتا، البتہ ذرا لمبوترے چہرے کے ساتھ خُوب ہی جچتا ہے۔ اہم تقریبات میں یہ انداز، آرائش و زیبائش کو صرف چار نہیں، چار سو چاند لگا دیتا ہے۔ اور ’’فرنٹ بریڈ‘‘ بھی ایک سدا بہار سا ہیئر اسٹائل ہے۔ 

اِس میں ہر دَور میں خاصی جدّت و ندرت لائی گئی۔ ویسے بنیادی طریقۂ کار میں فرنٹ ہیئرز کو اُٹھا کر چوٹی گوندھی جاتی ہے۔ اب وہ خواہ ایک سائیڈ سے دوسری سائیڈ تک ایک چوٹی کی شکل میں ہو، چھوٹی چھوٹی کئی چوٹیوں کی صُورت یا تھوڑی لُوز یا خاصی ٹائٹ سی چوٹی کی شیپ میں۔ بہرحال، یہ کیژول ہیئر اسٹائل کہلاتا ہے اور نوجوان لڑکیوں سے لے کر 40، 50 برس کی خواتین تک کے بالوں میں اچھا لُک دیتا ہے۔‘‘

جب کہ ’’جیل بیک جُوڑے‘‘ سے متعلق ہیئر اسٹائلسٹ کا کہنا تھا کہ ’’یہ شادی بیاہ کی تقریبات ہی کے لیے موزوں اسٹائل ہے اور عموماً بھاری بھرکم پہناووں، کام دار ساڑیوں، بَھری بَھری پشوازوں، فراکوں جیسے ملبوسات ہی کے ساتھ اچھا تاثر دیتا ہے۔ نیز، اِن دنوں ہر قسم کے ہیئر اسٹائل کے ساتھ خوب صُورت ہیئر ایکسیسریز سےبالوں کو سنوارنے کا ٹرینڈ بھی بہت بڑھ گیا، جن میں منفرد طرز ہیڈ بینڈز، کلپس، کلچز، اسکرنچیز، ہیئر ٹائز، بیریٹس (Barrettes)، ٹیاراز(Tiaras)اور ہیئر کامبز سے لے کر آرٹی فیشل فلاورز تک سب شامل ہیں۔‘‘

کہیے، کیسے رہی، ہماری آج کی بزم، اِک انفرادیت کے احساس کے ساتھ، آپ کی اگلی کئی تقریبات کا بڑا مسئلہ ’’آج کون سا ہیئراسٹائل بنائوں؟‘‘ بھی کسی حد تک تو حل ہوا ناں!! نسلِ نو کا ماننا ہے کہ ’’ایک خُوب صُورت سیلفی میں90 فی صد کردار اچھے بالوں/ہیئراسٹائلز ہی کا ہوتا ہے۔‘‘ اور اگر شعرائے کرام کی بات کریں، تو انہوں نے تو زُلفوں پہ لکھ لکھ کے قلم ہی توڑ دیئے ہیں۔

مِیر کے ؎ ’’ہم ہوئے، تم ہوئے کہ مِیر ہوئے…اُس کی زُلفوں کے سب اسیر ہوئے‘‘، غالب کے ؎ ’’کون جیتا ہے، تِری زلف کے سَر ہونے تک‘‘ اور مجاز کے ؎ ’’بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا…تِری زُلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے‘‘ سے لے کر ساحر لدھیانوی کے ؎ ’’یہ زُلف اگر کُھل کے بِکھر جائے، تو اچھا…اس رات کی تقدیر سنور جائے تو اچھا‘‘، مصطفیٰ زیدی کے ؎ ’’کسی زُلف کو صدا دو، کسی آنکھ کو پکارو…بڑی دھوپ پڑ رہی ہے، کوئی سائباں نہیں ہے‘‘، امجد صاحب کے ؎ ’’چہرے پہ مِرے زلف کو پھیلائو کسی دن…کیا روز گرجتے ہو، برس جائو کسی دن‘‘، فیض کے ؎ ’’رنگ پیراہن کا، خُوشبو زُلف لہرانے کا نام…موسمِ گُل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام‘‘ اور پروین شاکر کے ؎ ’’خوش بُو کہیں نہ جائے، یہ اصرار ہے بہت…اور یہ بھی آرزو کہ ذرا زُلف کھولیے‘‘ تک اِک زُلف کی شان میں کیا کیا قصیدہ آرائیاں نہ ہوئیں۔ بہرکیف، ہم علی سردار جعفری کے ان اشعار پر بزم سمیٹتے ہیں کہ ؎ خیالِ یار کو دیجیے، وصالِ یار کا نام…شبِ فراق کو گیسوئے مُشک بُو کہیے…مہک رہی ہے غزل، ذکرِ زُلفِ خُوباں سے..... نسیمِ صُبح کی مانند کُو بہ کُو کہیے۔