تحریر: نرجس ملک
ماڈل: بسمہ چوہان
ملبوسات: فائزہ امجد اسٹوڈیو
(ڈی ایچ اے، لاہور)
آرائش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
احمد فرؔاز کی خُود اپنی پسندیدہ غزلوں میں سے ایک غزل ہے ؎ سُنا ہے، لوگ اُسے آنکھ بَھر کے دیکھتے ہیں… سو، اُس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں… سُنا ہے، ربط ہے اُس کو خراب حالوں سے… سو، اپنے آپ کو برباد کرکےدیکھتے ہیں… سُنا ہے، اُس کو بھی ہے شعر و شاعری سےشغف… سو، ہم بھی معجزے اپنے ہُنر کے دیکھتے ہیں… سُنا ہے، بولے تو باتوں سے پھول جَھڑتے ہیں… یہ بات ہے، تو چلو بات کر کےدیکھتے ہیں… سُنا ہے، رات اُسےچاند تکتا رہتا ہے… ستارے بامِ فلک سے اُترکے دیکھتےہیں… سُنا ہے، دِن کو اُسے تتلیاں ستاتی ہیں… سُنا ہے، رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں… سُنا ہے، حشر ہیں اُس کی غزال سی آنکھیں… سُنا ہے، اس کو ہرن دشت بَھرکے دیکھتے ہیں… سُنا ہےرات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اُس کی… سُنا ہے شام کو سائے گزر کےدیکھتے ہیں… سُناہے، اُس کی سیہ چشمگی قیامت ہے… سو، اُس کو سُرمہ فروش آہ بَھر کے دیکھتے ہیں… سُنا ہے، آئنہ تمثال ہے جبیں اُس کی… جو سادہ دل ہیں، اُسے بَن سنور کے دیکھتے ہیں… سُنا ہے، جب سے حمائل ہیں اُس کی گردن میں… مزاج اورہی لعل و گہر کے دیکھتے ہیں… بس اِک نگاہ سے لُٹتا ہے قافلہ دل کا… سو، رہروانِ تمنّا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں… رُکے تو گردشیں اُس کا طواف کرتی ہیں… چلے تو اُس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں… کہانیاں ہی سہی، سب مبالغے ہی سہی… اگر وہ خواب ہے، تعبیر کرکے دیکھتے ہیں… اب اُس کےشہر میں ٹھہریں کہ کُوچ کرجائیں… فرازؔ! آؤستارے سفر کےدیکھتے ہیں۔
کسی حُسنِ مجسّم، کافرادا، شعلۂ جوّالا معشوق کی ایسی قصیدہ گوئی پڑھ کے اکثر خیال آتا ہے کہ ’’بس شعراء ہی کوایسے چودہویں کے چاند، بدرِ کامل مِل جاتے ہیں، وگرنہ تو آج تک کوئی مِس یونی ورس، مِس ورلڈ بھی اتنی پرفیکٹ دکھائی نہیں دی۔‘‘ مگر، پھر وہ ایک حد درجہ معروف مقولہ یاد آجاتا ہے کہ ’’حُسن تو دیکھنے والی نگاہ میں ہوتا ہے۔‘‘ اور یہ ایک عالم گیر سچائی ہے، جس کی لاتعداد مثالوں سے ماضی و حال بَھرا پڑا ہے۔ یہاں تک کہ شاہوں، شہزادوں نے جن کی خاطر تخت و تاج ٹُھکرا دیئے، لوگوں کی نگاہوں میں تو وہ بھی بہت عام سے چہرے ٹھہرے۔
وہ سینٹ آگسٹین نے کہا تھا ناں کہ ’’چوں کہ محبّت آپ کے اندر پلتی بڑھتی ہے، تو درحقیقت یہ آپ کے مَن اندر، آپ کے قلب و رُوح کی خُوب صورتی ہے۔‘‘ مطلب بات وہی ہے کہ حُسن سے زیادہ حُسن کو سراہنے والی نظر حَسین ہوتی ہے۔ جب کہ آسکرا وائلڈ کا کہنا ہے کہ ’’کوئی بھی چیز اِتنی خُوب صُورت نہیں ہوتی کہ بعض حالات میں بدصُورت نظر نہ آئے۔‘‘ اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ’’مہِ کامل‘‘ میں بھی داغ تو ہے۔ ہاں، یہ الگ بات ہے کہ احساسات و جذبات کا ایسا غلبہ ہو کہ خامی بھی خُوبی دکھائی دینے لگے (محبوب کی تو ڈیفی نیشن میں شامل ہے کہ جس کی خامیاں بھی خُوبیاں لگتی ہوں) وقتی طور پر صرفِ نظر کر دیا جائے۔ یا پھر ابھی جو نگاہوں سے اوجھل ہے، وہ چڑھتی، اُترتی تاریخوں میں واضح ہوجائے۔
وہ کیا ہے کہ رستہ حسین ہوناں، تو ہم اکثر یہ پوچھنا ہی بھول جاتے ہیں کہ یہ جاتا کہاں ہے۔ اِسی طرح اگر منزل کا تصوّر ’’پھولوں کی سیج‘‘ سا ہو، تو کانٹوں بَھری راہ گزر بھی ہنستے کھیلتے پار کر لی جاتی ہے۔ کیوں کہ انسان فطرتاً حُسن پسند، حُسن پرست ہے۔ اب خواہ مسافت حسین ہو، ہم راہی و ہم سفر یا پھر منزل، بہرحال، سفرِ حیات کے قدم قدم پر قلب و ذہن میں کہیں نہ کہیں ایک خوب صُورت و دل کش سا احساس ضرور جاگزیں رہتا ہے۔ جیسے آج اِس ’’اسٹائل بزم‘‘ کی روش روش پر ایک بہت دل رُبا، دل آویز و دِل افروز سا احساس ہمارے ہم قدم ہے کہ ہم راہی کا ماورائی، ملکوتی سا حُسن جو نگاہیں خیرہ کیے دے رہا ہے۔
گرچہ چہرے سے نظریں ہٹا کے ملبوسات پہ مرکوز کرنا آسان نہیں، مگر پہناووں کی بھی بات تو کرنی ہی پڑے گی۔ تو ذرا دیکھیے، آف وائٹ میں حُسنِ نوخیز کی سُندرتا اور پوتّرتا کمال ہے، تو نیلے رنگ کے ایمبرائڈرڈ پہناوے پرگمان ہورہا ہے، جیسے کسی پُرسکون نیلگوں سمندر کی لہریں بَل کھانا بھول گئی ہوں، جیسے آسمان جُھک کے دھرتی سےکوئی سرگوشی کرتا ہو۔ گلابی، شربتی رنگ پہناوا اپنے منہ سے کہہ رہا ہے کہ ’’مَیں بَنا ہی اِس گلابی پَری کے لیے ہوں۔‘‘ تو سیاہ رنگ کے شان دار پہناوے سے مزیّن سراپے کے لیے ’’اماوس کے چاند‘‘ سے بہتر تشبیہہ کیا ہوگی، جب کہ کاسنی رنگ کے نیٹ، لیس سے آراستہ و پیراستہ لباس و ملبوس کے لیے بس یہی کہا جاسکتا ہے ؎ جہاں دَر پر کھڑے چھتنار گُولر پر.....رُوپہلی، چمپئی اور کاسنی پریاں اُترتی ہیں۔ ہجر ناظم علی خان کا شعر ہے ؎ جچتا نہیں نگاہ میں کوئی حسین بھی ہجؔر…جب سے کسی کی چاند سی صُورت نظر میں ہے۔‘‘ اب پتا نہیں، واقعتاً یہ صُورت حسیں ہے یا ہمارا ہی حُسنِ نظر ہے۔ مگر ..... کچھ تو ہے کہ آج قلم کاری، دل داری کے مِثل معلوم ہوئی۔