اِن دنوں کانگو بخار کی وبا نے بلوچستان کے عوام کے لیے ایک مسلسل بے چینی اور خوف کی فضا قائم کر رکھی ہے۔ لوگوں نے اِس وبا کے سبب گوشت کھانا چھوڑ دیا ہے،جب کہ دوسری طرف، جو لوگ مال مویشی یا گوشت کے کاروبار سے منسلک ہیں یا قصاب ہیں، وہ بھی سخت خوف زدہ ہیں بلکہ نفسیاتی مریض بنتے جار ہے ہیں، حالاں کہ صوبائی حکومت نے اِس بخار پر قابو پانے کے لیے صوبے بھر میں ایمرجینسی نافذ کردی ہے۔
یاد رہے، صوبہ بلوچستان صوبے میں گزشتہ دو تین دہائیوں سے یہ بخار وقتاً فوقتاً سر اُٹھاتا ہے، جس کی ایک وجہ عوام میں شعور و آگہی کا فقدان بھی ہے۔ اِس مرض کا پورا نام’’کریمین کانگو ہیموریجک فیور‘‘(سی سی ایچ ایف)ہے۔اس کی پہلی بار تشخیص1944 ء میں کریمیا میں ہوئی اور پھر1956 میں کانگو، افریقا میں بھی پایا گیا، اسی لیے اس کا نام’’کریمین کانگو ہیموریجک فیور‘‘ پڑا۔
کانگو وائرس، دراصل ایک خاص قسم کے کیڑا سے، جسے عام طور پر’’ چیچڑ‘‘ کہا جاتا ہے، پھیلتا ہے۔ یہ کیڑا گائے، اونٹ، بکری وغیرہ کی جِلد میں پایا جاتا ہے اور اپنی خوراک کے لیے اُن کا خون چوستا ہے۔ یہی کیڑا کانگو وائرس کو جگہ فراہم کرتا ہے اور اس کی ایک سے دوسری جگہ منتقلی کا بھی ذریعہ بنتا ہے۔ اگر کوئی شخص ایسے جانوروں کے ارد گرد رہے، جو اِن کیڑوں کی لپیٹ میں ہوں یا اُس کا ان جانوروں کے فضلے، خون یا کچّے گوشت سے تعامل ہو، خاص طور پر کلیجی کے استعمال سے وہ کانگو بخار میں مبتلا ہو سکتا ہے۔
یہ وائرس، انسانی جسم میں اُس کی کم زور جِلد، خون یا سانس کے ذریعے داخل ہوتا ہے اور اس کے جسم میں داخل ہونے کے تقریباً پانچ سے چھے دن بعد علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں، جن میں اچانک تیز بخار، پورے بدن میں درد، فوٹو فوبیا، جگر کی سوزش، بدن کے مختلف حصّوں سے خون کا رسنا اور جِلد پر نیلے دھبّے پڑ جانا شامل ہیں۔ یہ وائرس جسم میں پلیٹ لیٹس کی تعداد کم کر دیتا ہے اور پھر اِس کمی کی وجہ سے جسم کے مختلف اعضاء سے خون رسنا شروع ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اعضا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، جس سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
کانگو بخار میں اموات کی شرح10 سے20 فی صد تک ہے۔یوں تو یہ مرض، ہر شخص ہی کو متاثر کر سکتا ہے، تاہم چرواہے، لائیو اسٹاک ورکرز، سلاٹر ہاؤس ورکرز اور ہیلتھ کیئر ورکرز اس کا زیادہ اور با آسانی شکار ہو جاتے ہیں۔ماہرین اِس مرض سے بچاؤ کے ضمن میں لمبی آستین والے کپڑے، دستانے، ماسک اور ہیلتھ کیئر ورکرز کے لیے مخصوص کٹس کے استعمال کا( جسے’’ پی پی ای کٹ‘‘ کہتے ہیں) مشورہ دیتے ہیں۔
کانگو بخار کی تشخیص مختلف لیبارڑی ٹیسٹس کے ذریعے کی جاتی ہے، لیکن اب تک اس مرض کے علاج کی کوئی مخصوص دوا یا ویکسین سامنے نہیں آسکی۔ اگر کسی کو یہ مرض لاحق ہو جائے، تو طبّی ماہرین ایسے شخص کے مختلف اعضاء کو متاثر ہونے سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ علاج کے ضمن میں پلیٹ لیٹس کا ٹرانسفیوژن، آکسیجن کی فراہمی اور آئی سی یو کیئر شامل ہے، البتہ RIBAVARINE ایک ایسی دوا ہے، جس کے فوائد اکثر اسٹڈیز سے ثابت شدہ ہیں اور یہ دوا مرض کے ابتدائی مراحل میں استعمال کروائی جاتی ہے۔
کانگو وائرس سے بلوچستان کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال، سِول اسپتال، کوئٹہ کا ایک وارڈ بھی متاثر ہو چُکا ہے، جہاں متاثرہ مریض کے علاج کے دوران طبّی عملہ اس وائرس کی زد میں آیا، جس میں ڈاکٹرز، پیرا میڈکس اور اسٹاف نرسز شامل ہیں۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِس مرض کا علاج کرنے والے بھی اس سے محفوظ نہیں۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ سِول اسپتال، کوئٹہ اور بی ایم سی جیسے اہم اسپتالوں میں کانگو وائرس سے متعلق آئیسولیشن وارڈز قائم نہیں کیے گئے اور جو وارڈ فاطمہ جناح اسپتال میں مختص کیا گیا ہے، اُس کی حالتِ زار بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ علاوہ ازیں، سِول اسپتال، کوئٹہ اور بی ایم سی کے مختلف وارڈز بند کر دیئے گئے ہیں اور جن مریضوں کے پلیٹ لیٹس کم ہو رہے ہیں، اُنہیں فاطمہ جناح اسپتال بھیجا جا رہا ہے، خواہ وہ سی ایل ڈی کے مریض ہوں یا ملیریا کے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ کانگو وائرس کے تدارک کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔ بڑے سرکاری اسپتالوں میں نہ صرف آئسولیشن وارڈز بنائے جائیں، بلکہ مریضوں کو مناسب سہولتیں بھی فراہم کی جائیں، جب کہ عوام کے شعور و آگہی کے لیے میڈیا کے مختلف ذرائع سے باقاعدہ تشہیر بھی اشد ضروری ہے۔
( مضمون نگار، فاطمہ جناح انسٹی ٹیوٹ آف چیسٹ ڈیزیز، کوئٹہ کے ڈائریکٹر ایڈمن ہیں)