• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور میں ہنوز ایک طوفان برپا ہے۔تھانوں کے حوالات اسکول جانے والے بچوں سے بھرے ہوئے ہیں جن کے بیگ بھی تصویروں میں نظرآرہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ کم عمر بچے بغیر لائسنس موٹر سائیکلیں چلاتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔قانون نے ایکشن لیا اور بالکل ٹھیک لیا۔ لیکن صورتحال انتہائی مضحکہ خیز ہوکرخوفناک ہوتی جارہی ہے۔ بنیادی طور پر ٹریفک کا نظام درست کرنے کی بجائے ٹریفک پولیس کا سارا زور بچے پکڑنے پر ہے۔ یہ بچے جنہیں حوالات میں بند کرکے بظاہر انہیں خوف میں مبتلا کیا گیا ہے کیا یہ باہر آکر خوف کا شکار ہوں گے یا بے خوف ہوجائیں گے؟ہر بات کا حل تھانے میں بند کردینا ہی نہیں ہوتا۔لائسنس کا عمل ایک مشقت مانگتا ہے ، ذرا جاکر دیکھیں کہ باری کتنی دیر بعد آتی ہے۔ایسے بھی کوئی حوالات بنائیں جہاں لائسنس کے لیے خوار کرنے والے اہلکاروں کو بھی بند کرکے ان کی تصویریں جاری کی جاسکیں۔پولیس کے اہلکار بغیر ہیلمٹ، ون وے کی خلاف ورزی کرتے دندناتے پھرتے ہیں لیکن کوئی اہلکار انہیں روکتا ہے نہ تھانے میں بند کرتا ہے۔ ذرا چیک کروائیں کہ خود پولیس کے کتنے اہلکاروں کے لائسنس بنے ہوئے ہیں۔ گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے کے لیے لائسنس سے زیادہ تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جن لوگوں کے لائسنس بنے ہوئے ہیں کیا وہ محفوظ ڈرائیونگ کر رہے ہیں؟ لاہور میں تو ٹریفک کا یہ حال ہے کہ اشارہ کھلا بھی ہو تو سہم کر آگے بڑھنا پڑتا ہے کہ دوسری طرف سے لازمی کوئی نہ کوئی آن موجود ہوتاہے۔یہ بھی دیکھئے کہ کون سے ٹریفک وارڈنز رش میں پھنسی ٹریفک کے دوران ایک طرف کھڑے ہوکر اطمینان سے موبائل پر گپیں لگا رہے ہوتے ہیں۔یہ جو چھوٹے بچے تھانے میں دہشت گردوں کی طرح بند کیے گئے ہیں ان میں سے اکثر اپنے گھر کے ’بڑے‘ ہیں۔کئی بچے ایسی جگہوں سے آتے ہیں جہاں سے آنے کے لیے تین تین ویگنیں بدلنا پڑتی ہیں۔یا تو ایک آرڈر اسکول والوں کے لیے بھی پاس کریں کہ اسکول کالج کی اپنی ٹرانسپورٹ ہونا لازم ہے اور وہ ہر بچے کے گھر کے قریبی مین روڈ تک لازمی جایا کرے۔ اِن بچوں میں سے اکثر کی فیملیاں رکشہ افورڈ نہیں کرسکتیں۔ یہ اپنی بہنوں کو بھی اسکولوں کالجوں میں چھوڑنے جاتے ہیں، گھر کے چھوٹے موٹے کام بھی موٹرسائیکل پر کرتے ہیں۔موٹرسائیکل اب ایسی سواری نہیں رہی جسے سیکھنے کے لیے ڈرائیونگ اسکول میں داخلہ لینا پڑے۔میں ذاتی طور پر موٹرسائیکل کو انتہائی خطرناک سواری سمجھتا ہوں لیکن اس کا متبادل نہیں ملتا۔ سائیکل چلانا اچھی بات ہے لیکن ایک غریب اور متوسط طبقے کے لیے موٹرسائیکل ہی ایک ایسی سواری ہے جس پر آیا جایا جاسکتاہے۔ویسے بھی لاہور کی سڑکوں پر سائیکل چلانے کی جگہ ہی کہاں ہے؟

قانون کی پابندی ضرور کروائیں لیکن ان بچوں کو تماشا نہ بنائیں۔ قانون کی آڑ میں رشوت کا جو منہ کھلا ہے اسے بھی بند کروانے کا بندوبست کریں۔ہر سڑک پر ایک خوفناک اسکواڈ موجود ہے جو بے شک پیچھے والے موٹرسائیکل والے کو رکنے کا اشارہ کرے، روح آگے والی کی فنا ہوجاتی ہے۔عالی جاہ! جس نے ہیلمٹ نہیں پہنا ، اسے جرمانہ کریں اور جرمانے کی رقم سے ہیلمٹ گفٹ کریں۔ جو بغیر لائسنس کے ہیں ان کا چالان کریںاور موقع پر ہی انہیں لرنرلائسنس جاری کریں۔جن کی عمریں پندرہ سولہ سال ہیں اُنہیں جونیئر لائسنس جاری کرتے ہوئے کسی ٹریفک تربیتی پروگرام میں دو ہفتے شامل ہونے کی سزا دیں۔جو اِس سے بھی کم عمر ہیں ان سے محبت سے پیش آئیں اور تین دفعہ وارننگ لیٹر جاری کریں۔

لاہور شہر میں ٹریفک کا نظام محض موٹرسائیکل اور گاڑیاں چلانے والوں کی وجہ سے برباد نہیں ہوا۔ وحدت روڈ پر پھلوں والی ریڑھیاں آدھی ٹریفک روک کرکھڑی ہوتی ہیں۔ جین مندر کے اردگرد فروٹ منڈی لگی ہوتی ہے۔نسبت روڈ اور لکشمی چوک پر جس کا جہاں دل چاہتا ہے گاڑی پارک کرکے کھسک جاتاہے۔جو سڑکیں تنگ اور ون وے ہیں وہاں بھی ٹو وے ٹریفک دھڑلے سے جاری ہے۔شہر کے فٹ پاتھ دکانوں سے بھرے ہوئے ہیں۔پیدل چلنے والے بھی رواں دواں ٹریفک کے دوران سڑک پر چلنے پر مجبور ہیں۔لوگوں کا جینا حرام کرنے کی بجائے ان مسائل کو دور کیجئے تاکہ ٹریفک کی روانی میں خلل نہ پڑے۔شہر میں جاری ترقیاتی کاموں کو بروقت تکمیل تک نہ پہنچانے والوں کو بھی تھانے میں بند کریں کہ لوگوں کے لیے گھر پہنچنا عذاب بن گیا ہے۔جب سیف سٹی کے کیمرے لگے ہوئے ہیں تو آدھی سڑک پر قبضہ کرکے وہاں ٹریفک کا ناکا لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ کیمروں میںدیکھیں اور جو کوئی بھی ٹریفک کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا جائے اس کے گھر چالان بھیج دیں۔لوگ مہنگائی کی وجہ سے ویسے ہی ڈپریشن کے مریض بنتے جارہے ہیں اوپر سے بات بات پر ریاست انہیں دبوچنے کے لیے بے تاب بیٹھی ہے۔رات غالباً دس بجے کے بعد اورنج ٹرین اور میٹرو بس بند کردی جاتی ہے، ان اوقات میں سفر کرنے والے کیا کریں؟ اِن روٹس پر ویگنیں بند کردی گئی ہیں، اسپیڈو بسیں بھری ہوئی آتی ہیں۔ایسے میں ذاتی سواری موٹرسائیکل نہ ہوتو کیا ہو؟ٹی وی پروگرام میں یہی بات میں نے سی ٹی او صاحب سی پوچھی تو فرمایا کہ لوگوں کو چاہیے اپنے بچوں کو رکشے پر اسکول بھیجا کریں۔ کیا صائب مشورہ دیا ہے۔یہ بھی بتا دیں کہ جن کے بچے اور بچیاںمختلف اسکولوں میں پڑھتے ہو ں وہ کیا کریں؟ شام کو جو بچے اکیڈمی جاتے ہیں وہ اس کے لیے الگ رکشہ لگوائیں۔

ایک آخری بات....شہریوں کی جان کی حفاظت ضرور کریں لیکن کسی کی جان عذاب میں مت ڈالیں....بڑی مہربانی، بڑی نوازش!

تازہ ترین