• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ کے زیر اہتمام دبئی میں جاری ماحولیاتی کانفرنس کوپ28 میں زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت پر قابو پانے کی خاطرمثبت پیش رفت پوری انسانی برادری کے لیے لائق اطمینان ہے۔ فوسل فیول یعنی حیاتیاتی ایندھن کا ساری دنیا خصوصاً ترقی یافتہ ملکوں میں بڑے پیمانے پر استعمال کاربن کے اخراج میں اضافے کا سبب بن کر زمین کے درجہ حرارت کو مسلسل بڑھا رہا ہے جس کی وجہ سے اس سیارے پر موجود انسانی ، حیوانی اور نباتاتی غرض ہر قسم کی زندگی کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔درجہ حرارت بڑھنے سے دنیا کے ایک بڑے حصے میں پانی کی قلت اور اس کے نتیجے میں زرعی پیداوار میں کمی واقع ہورہی ہے۔ حیاتیاتی ایندھن کا استعمال ختم کرکے اور اس کی جگہ قابل تجدید توانائی یعنی پانی، سورج ، ہوا اور دیگر ذرائع سے بجلی کی تیاری کو فروغ دے کر درجہ حرارت کو کنٹرول نہ کیا گیا تو کچھ خطے خطرناک حد تک گرم ہو سکتے ہیں ۔ جنگلوں میں آگ لگنے کے بڑھتے ہوئے واقعات بھی اسی صورت حال کا نتیجہ ہیں اورمطلوبہ اقدامات نہ کیے گئے تو ان میں تیزی سے اضافہ ہوسکتا ہے ۔گلیشیروں کے پگھلنے اور سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے وسیع آبادیاں پانی میں غرق ہوسکتی ہیں۔ طوفانی بارشیں اور سیلاب ہولناک تباہی کا سبب بن سکتے ہیں جس سے پاکستان بھی دو سال پہلے دوچار ہوچکا ہے۔ اس تناظر میں کوپ 28 کے میزبان ملک متحدہ عرب امارات کایہ انکشاف یقینا خوش آئند ہے کہ تقریباً 120 ممالک نے 2030 ءتک دنیا کی قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو تین گنا بڑھانے کے معاہدے پر دستخط کردیے ہیں۔ یہ ممالک رواں دہائی کے آخر تک عالمی قابل تجدید توانائی کی پیداواری صلاحیت کو کم از کم گیارہ ہزار گیگا واٹ تک لانے کے لیے مل کر کام کریں گے۔ کانفرنس میں تیل اور گیس پیدا کرنے والی 50 کمپنیوں نے 2050 تک کاربن فری ہونے کا اعلان کیا ہے۔ سعودی عرب کی سرکاری تیل کمپنی آرامکو اور متحدہ عرب امارات کی اے ڈی این او سی اُن 29سرکاری کمپنیوں میں شامل ہیں جنہوں نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس میں میتھین کا اخراج صفر کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ کوپ 28 کے صدر سلطان الجابر نے کہا ہے کہ وہ توانائی کی کارکردگی میں بہتری کی عالمی اوسط سالانہ شرح کو دوگنا کرنے کیلئے مل کر کام کرنے کا بھی عہد کرتے ہیں۔ سلطان الجابر کے مطابق 117 ممالک نے معاہدے پر دستخط کردیے ہیں۔ یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے کہا ہے کہ 2050 تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو مکمل طور پر ختم کرنے کے عالمی ہدف کے لیے ہوا، شمسی اور دیگر قابل تجدید توانائیوں کو بڑھانا انتہائی اہم ہے۔ قابل تجدید توانائی کو تین گنا کرنا سرمایہ کاروں اور مالیاتی منڈیوں کو ایک بہت مضبوط پیغام بھیجتا ہے کہ پوری دنیا اس مقصد کی طرف بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ ہم اس منزل تک بروقت پہنچ جائیں گے لیکن جس پہلو پر ہمیں مزید محنت کرنی ہے وہ رفتار ہے۔کوپ28 ماحولیات کے معاہدے پرمذاکرات میں شامل تقریباً 200 ممالک کو حیاتیاتی ایندھن کے مستقبل پر جاری کانفرنس میں سخت مذاکرات کا سامنا کرنا پڑے گاتاہم ترقی یافتہ ملکوں کا فرض ہے کہ وہ زمین پر زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے جلد از جلد حیاتیاتی ایندھن کے بجائے قابل تجدید توانائی کا راستہ اختیار کریں نیز ترقی پذیر ملکوں کو ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے درپیش مسائل سے نمٹنے میں مدد دینے کی خاطر قائم کیے جانے والے فنڈ میں کشادہ دلی سے شرکت کریں، پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے بھی اس ضمن میں 100 ارب ڈالر کے وعدوں کی فوری تکمیل کی جانب بالکل درست طور پر توجہ دلائی ہے، دولت مند ملکوں ہی کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک ماحولیاتی مسائل کا شکار ہیں لہٰذا یہ مالی تعاون ان کا فرض ہے۔

تازہ ترین