ضیا محی الدین کے تین عشق تھے، پہلا اسٹیج، دوسرا ہائی سوسائٹی (اشرافیہ) کا طرزِ تکلم و اندازِ زیست اور تیسرا مفکّر و دانش وَر داؤد رہبر۔ میری اُن سے جب بھی ملاقات یا گفت گو ہوئی، فوت شدہ داؤد رہبر ہمارے بیچ زندہ و تابندہ موجود رہے۔ ایک مرتبہ اُن کا فون آیا، کہنے لگے۔’’آصف فرخی پرآپ کا لکھا خاکہ مَیں نے پڑھا، اُس پرمجھے ایک اعتراض ہے۔‘‘ مَیں ہمہ تن گوش تھا۔ ’’جس جگہ آپ نے داؤد رہبرکا تذکرہ کیا ہے، وہاں بہ طور انسان اُن کی بڑائی اور ایثار کُھل کر سامنے نہیں آتے۔
اِسے یوں لکھیےکہ اُن کی مروّت اور ایثار زیادہ واضح ہوکرسامنے آئیں۔‘‘ ادیب و نقّاد آصف فرخی کی رحلت کو چند ماہ ہوئے تھے۔ مَیں نے اُن کے خاکے میں داؤد رہبر کا ضمناً تذکرہ کیاتھا۔ داؤد رہبرکی تصانیف،بالخصوص ’’کلچرکے روحانی عناصر‘‘ نے مجھے بےحد متاثر کیا تھا۔ مَیں حیران تھا کہ ہمارے ہاں اُس نادرِروزگار دانش وَر کی ایسی پذیرائی کیوں کر نہ ہو پائی، جس کے وہ مستحق تھے۔ بعد ازاں، سمجھ میں آیا کہ دانش کی قدر تہذیبی و فکری رفعت کے حامل معاشروں میں ہوتی ہے، فکری افلاس کے شکار زوال آمادہ معاشرے تفکّر و تدبّر کی جا نہیں۔
میری ضیا محی الدین سے گنتی کی چند ملاقاتیں رہیں، بیش تر مختصر، دوطویل، سَو، اُن پر قلم اُٹھاتے ہوئے اُن کے رفقاء، اعزّہ اور مختلف مضامین سے بھی اکتساب کیا گیا۔ نتیجتاً سامنے آیا کہ وہ بَلا کے صاحبِ مطالعہ تھے، پرانی روایات کو سینے سے لگائے، اپنے اوپر پُرتکلف زبان و اطوار کا لبادہ مدّت تک ایسے اوڑھے ہوئے کہ یہ اُن کی شخصیت کا حصّہ بن گیا اور اندر کا آدمی کہیں کھوگیا۔
حد درجہ محنتی، حسین و ذہین خواتین سے متاثر ہونے کے باوجود روایتی مردانہ فکرکے پیرو، کھانے میں محتاط اورپینےمیں باذوق، زبان سے متعلق حسّاس، جدید آلات سےدُور اور ناشناسا، موٹاپے اور گنوارپَن کو ناپسند کرنے والے، بھٹو اور ضیاء الحق سے دل چسپ وچشم کُشا ملاقاتوں کے راوی اور اِن سب سے بڑھ کر بےحد تنہا آدمی۔ مَیں نے ضیا صاحب کی خواہش کے مطابق آصف فرخی کے خاکے میں ردّوبدل، اضافہ کیا اور اُنھیں ڈاک کے ذریعے بھجوا دیا۔ چند روز بعد اُن کا فون آیا۔
وہ اب بھی پوری طرح مطمئن نہ تھے۔ اُن کی خواہش تھی کہ داؤد رہبر کی نجی زندگی میں درپیش مسائل کا تذکرہ کیا جائے اور بتایا جائے کہ اُن جیسے اعلیٰ پائے کے دانش وَر نے کس طرح خانگی مسائل کا مقابلہ کرتے ہوئے تدریس و اکتسابِ علم کا سلسلہ جاری رکھا۔ چناں چہ حتمی مسوّدے میں، (جس سےوہ کچھ حد تک مطمئن ہوئے) مذکورہ خاکے میں داؤد رہبر کا تذکرہ یوں ہے۔ ’’ایک امریکی دورے کے دوران آصف فرخی وہاں مقیم فلسفی، دانش وَر اور صاحب ِطرز ادیب داؤد رہبر سے ملنےخاص طور پر گئے۔
داؤدرہبر ضیا محی الدین صاحب کےکزن تھےاورضیا صاحب اُنھیں اپنا مرشد مانتے تھے۔ اُن سے ملاقات کے بعد جب وہ پاکستان واپس آئے، تو خاصے اداس تھے۔ اُنھوں نے بتایا کہ داؤد رہبر جیسے نستعلیق آدمی اور اہم اسکالر کو گھریلو زندگی میں خاصی آزمائشوں کا سامنا تھا۔ اُن کی اہلیہ صبیحہ بیگم شادی کے چند برس بعد ہی ذہنی توازن کھو بیٹھی تھیں۔ چھپّن برس تک داؤد صاحب نے اپنی بیوی کی ایک نرس کی طرح خدمت کی، اُس کے پوتڑے دھوئے، اُس کی ہر واہی تباہی برداشت کی، گھر کا کھانا خُود بنایا اور برتن، کپڑے دھوئے، مگر کبھی حرفِ شکایت لبوں تک نہ لائے۔ جب کوئی اُنھیں تعلق ختم کرنے کا مشورہ دیتا، تو وہ ایثار پیشہ دانش وَر کہتا ’’اگر مَیں بھی چھوڑ دوں، تو پھر اِس بے چاری کا خیال کون رکھے گا۔‘‘
ضیا محی الدین سے میرے ذاتی تعارف کی وجہ بھی داؤد رہبر ہی بنے۔ داؤد رہبر نہ صرف اسکالر بلکہ ضیا صاحب کے کزن اور بچپن، لڑکپن کے قریبی دوست بھی تھے۔ مَیں نے اپنی خاکوں کی کتاب ’’دروازے‘‘ میں اپنے عزیز دوست، ادیب ومترجّم محمّد عاصم بٹ کا خاکہ ’’دھندلا آدمی‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا۔ کتاب کی اشاعت کے عرصے بعد مجھے اُس وقت حد درجہ خوش گوار حیرت ہوئی، جب ایک دوست نےمجھے ضیا محی الدین کی صداکاری کا ایک کلپ بھیجا، جس میں مذکورہ خاکے کا ایک حصّہ وہ کسی تقریب میں پڑھ رہے تھے۔
مَیں اپنی خامیوں اور کوتاہیوں سے آگاہ ہوں، خُوب جانتا تھا کہ اِس تحریر میں ایسی کوئی خُوبی نہ تھی کہ ضیا جیسا نابغہ اُسے منتخب کرتا، بالخصوص جب کہ اُنھوں نے زندہ لوگوں میں سے کم کم مشتاق احمد یوسفی، اسد محمّد خان اور ایک دو دیگر لوگوں کی تحریریں ہی پڑھی تھیں۔ مَیں عرصے تک تذبذب میں رہا۔ اب جو مَیں آئینۂ عقب نُما میں دیکھتا ہوں، تو معلوم ہوتا ہے کہ منتخب اقتباسات میں ایک جگہ داؤد رہبر کا بہ طور’’الفاظ کا سامری‘‘ تذکرہ تھا۔
سو، یہ خاکہ اُن کے دل کے قریب ٹھہرا اوراُنھوں نے اِسے پڑھنے کے لیے منتخب کرلیا۔ اُن کے ’’دھندلا آدمی‘‘ پڑھنے سے میری اپنی زبان کی بھی درستی ہوئی۔ایک جگہ میں نےشبِ عروسی کو ’’شبِ زناف‘‘ لکھا تھا اور اُسے یوں ہی پڑھتا آیا تھا۔ جب ضیا صاحب نے اسے’’شبِ زفاف‘‘ پڑھا، تومجھے اُس کی درست اِملا معلوم ہوئی۔ اُس کلپ کو سننے کے بعد مَیں پہلی مرتبہ ضیا صاحب سے ملنے ’’ناپا‘‘ گیا۔ ملاقات میں اُن کا شکریہ ادا کیا۔ اُنھوں نے بتایا کہ وہ باقاعدگی سےتازہ کتب کا مطالعہ کرتے ہیں اوردورِ حاضر میں کم کم کتابیں ہی اُن کے ذوق پر پوری اُترتی ہیں۔
اُنھوں نے ایسی کئی کتابوں کا ذکرکیا، جو ماضی قریب میں شائع ہوئیں اوراُن کے زیرِ مطالعہ رہیں۔ اُس ملاقات میں اُنھوں نے بتایا کہ وہ زبان کی صحت کا اِس حد تک خیال رکھتے ہیں کہ منتخب اقتباسات کےایک ایک لفظ پر اعراب لگاتے اور تلفّظ سے متعلق خُوب چھان پھٹک کرتے ہیں۔ بعدازاں، میری خاکوں اور سوانحی مضامین کی دوسری کتاب ’’سُرخاب‘‘ شائع ہوئی، تو مَیں نے اُنھیں پیش کی۔ چند روز بعد اُن سے بات ہوئی تو وہ پوری کتاب کا مطالعہ کرچُکےتھے۔ بحیثیتِ مجموعی پسندیدگی کااظہارکرتےہوئے ایک اعتراض کیا کہ ’’پروین شاکر پرآپ کی تحریر ’’پارو‘‘ پڑھی۔ آپ نے اُن کی شخصیت کو جس طرح بڑھا کر رومانیت کے ساتھ پیش کیا ہے، حقیقتاً وہ مناسب حد تک اچھی شاعرہ تھیں، مگر اتنی بلند پایہ شخصیت نہ تھیں، جتنی خاکے میں نظر آتی ہیں۔‘‘
ضیا صاحب مغربی اطوار کے شخص ضرور تھے، مگر جدید دنیا کے باشندے نہ تھے۔ ایک صبح میں اُن کے ’’ناپا‘‘ کے دفتر میں اُن کے سامنےبیٹھاتھا۔ اُن کی ایک ضروری کال موبائل فون میوٹ (Mute)ہونے کی وجہ سے مِس ہوگئی تھی اور متعلقہ صاحب کو بارہا فون کرنے کے باوجود اُن سے رابطہ نہیں ہوپا رہا تھا۔ جھنجھلا کرکہنے لگے۔ ’’یہ جدید آلات مجھے استعمال کرنے نہ آئے۔ سادہ سا موبائل فون لے رکھا ہے کہ نئی وضع کے فونز کی مجھے سمجھ نہیں آتی۔ کم بخت یہ سادہ فون بھی استعمال کرنا نہیں آرہا، کبھی ایک بٹن دَب جاتا ہے، کبھی دوسرا۔‘‘ یہ کہہ کرانھوں نے موبائل ایک جانب دھکیل دیا۔
پہلی ملاقات میں داؤد رہبر کےتذکرے پروہ کھِل اُٹھے۔ ’’مَیں اُنھیں ’’مہاراج‘‘ کہتا تھا، وہ میرے مہاراج تھے۔‘‘ ناپا کی تاریخی عمارت کے دفتر میں بیٹھے وہ اپنے بچپن، لڑکپن کے ماڈل ٹاؤن، لاہور پہنچ گئے تھے۔ ’’ناپا‘‘ (نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس) بہ الفاظِ اُردو، جو اُس کی ویب سائٹ پر دیے گئے ہیں ’’قومی اکادمی برائے فنونِ موسیقی و بازی گری‘‘، کراچی ہندو جِم خانہ کی تاریخی عمارت میں واقع ہے۔ کولونیل دَورکی اس مغلئی فنِ تعمیر کی نمایندہ عمارت کو ابتدائی طور پر’’سیٹھ رام گوپال گووردَھنداس موہا ہندو جِم خانہ‘‘ کا طویل نام دیا گیا۔
جب مَیں ضیا محی الدین سے اس تاریخی عمارت میں پہلی مرتبہ مِلا، تو ابتدائی47 ہزار مربع گز کے رقبے پرقائم عمارت سُکڑ سمٹ کر ساڑھے چار ہزار مربع گز پر رہ گئی تھی۔ اعتماد الدولہ کے 1628ء میں آگرہ میں قائم کیے گئے مقبرے کے ڈیزائن سے متاثر ہو کر تعمیر کردہ اِس تاریخی عمارت میں ضیا محی الدین جیسا نابغہ ہی جچتا تھا۔ جیسےکوئی منظر کسی فریم میں ایسے سما جائے، جیسے اُسی کے لیے تخلیق کیا گیا ہو، ایسےہی بعض مخصوص لوگوں کو قدیم تاریخی محلات، حویلیوں اوربالا خانوں سے ایسی نسبت ہوتی ہے کہ وہ باہم لازم وملزوم ہوجاتے ہیں۔
سماجی و ثقافتی مرکز، ہندو جِم خانہ قریباً پون صدی بعد دوبارہ ثقافت کا گہوارہ بن گیا تھا۔ ضیا محی الدین ایسے نستعلیق، خُوش وضع، خُوش ادا، خُوش لحن، گلاب دہن رام گوپال کی عمارت میں یوں سجتے تھے، جیسے شاہی تاج کی پیشانی پر جَڑا آندھرا پردیش کی کولرکان سے نکالا گیا کوہِ نور ہیرا۔ اُنھوں نے داؤد رہبر کا خاکہ ’’کبیرے کا پنتھی‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا۔ ’’ہمارا مکان داؤد رہبر کے گھر سے خاصا قریب تھا، لیکن ماڈل ٹاؤن میں جہاں ہم رہتے تھے، کسی گھر کومکان نہیں کہاجاتاتھا، کوٹھی کہتے تھے اور اُن کی کوٹھی بہت بڑی تھی، جس کے تین اطراف مختلف طرح کے باغ تھے۔
اُن میں سب سے بڑا باغ ٹینس کورٹ کی طرح چوکور تھا، جس کے چاروں طرف کوئی ڈیڑھ فٹ اونچی پٹری تھی اوراُس سے منسلک خاصی گھنی باڑ تھی۔ دوپہر میں اُس باڑ کا آڑا ترچھا سایہ پٹری پر پڑتا۔ اُسی سائے میں بیٹھ کر مَیں ٹُوٹا پُھوٹا طبلہ بجاتا اور یہ دیش کار(میگھ راگ کی پانچ راگنیوں میں سے ایک راگنی) اور پوریا دھناسری (سمپورن راگ) کی مشق کرتے۔ اِس انہماک سے داؤد رہبر باغ بانی کرتے کہ ہیرے تراشنے والوں کو بھی رشک آجائے۔ ایک ڈیڑھ ایکڑ کی زمین کو انھوں نے گل و گل زار کر دیا۔ کیسے کیسے پودے اور کیسے کیسے بیل بُوٹے لگائے۔
گرمیوں کی دوپہرکوبھی کُھرپا لیے چھوٹی چھوٹی کیاریوں کی پرورش کرتے رہتے، ماڈل ٹاؤن میں دستورتھا کہ نہر کا پانی ہر پندرہ دن بعد چھوڑا جاتا۔ ہرکوٹھی کے باہر گہری خندقیں تھیں، پانی اُن میں بَھرآتا، تو مالی بند باندھ کر پانی کا بہاؤ اپنے باغ کی طرف کر لیتے، جب باغ سیراب ہوجاتا، تو بند کھول کر بہاؤ اگلے گھر کی طرف کردیاجاتا۔ لیکن ایسی دوپہروں میں جب پتّا بھی دَم نہ مارتا تھا، یہ اپنی اولاد سینچنے کے لیےاکثراگلی کوٹھی میں جانے والے پانی کو اپنے قبضے میں رکھتے۔
اس کے علاوہ شاید ہی کوئی بےایمانی ہو، جو اُنھوں نےکسی کے ساتھ روا رکھی ہو۔ جن دِنوں سے میری یادوں میں چراغاں ہے، وہ چڑھتی گرمیوں کی صُبحیں ہیں۔ داؤد رہبر اپنے کمرے کو بڑے قرینے سےرکھتےتھے۔ لکھنے کی میز پر موتیا کے پھول ایک طشتری میں رکھ دیتے، پھر پنکھے کی ہلکی ہَوا میں اُن کی بھینی مہک سے کمال فرحت و تازگی کا احساس ہوتا۔ یہ میز پر نہیں بیٹھتے تھے۔ مَیں جب اُن کے کمرے میں جاتا، تو زمین پر پنجے اُٹھائے گُھٹنوں کے بَل، کمرجھکائے بڑے بڑے پیلے پروف کے کاغذوں میں تحقیق کی دنیا میں گُم نظر آتے۔‘‘
داؤد رہبر کی وفات کے بعد ضیا محی الدین ایک تقریب میں اُن سے متعلق تحریر پڑھتے ہوئے اپنی آواز کی لرزش، آنسوؤں پرقابو نہ رکھ پائے تھے اور اُنھیں بَھری تقریب بیچ میں چھوڑنا پڑی تھی۔ داؤد رہبر کی وفات کی خبر آصف فرخی سےکہہ کرخاص طور پر ٹی وی پرچلوائی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ کسی کام یاب انسان کا ظرف اور خوبیٔ کرداردیکھنی ہو، تو اُس کے بچپن کے دوستوں، پرانے ملازمین و معاونین کو دیکھ لیا جائے۔
ضیا صاحب کا اپنے بچپن کے عزیز اوردوست سے تعلق جس حد تک مستقل، گہرا اور پرُجوش تھا، وہی اُن کا وسیع ظرف اور مضبوط کردار جانچنے کے لیے کافی ہے۔ ’’مضبوط‘‘ کا مادہ ’’ضبط‘‘ ہے، کبھی کبھار وہ ضبط کا دامن چھوڑ بھی دیتے تھے، خاص طور پر جب بات صحتِ زبان و تلفّظ کی ہو۔
زبان سے اُن کے جذباتی تعلق کا اندازہ ایک ایسے واقعے سے بھی لگایا جا سکتا ہے، جس نے اُن کی زندگی بدل دی۔ معروف گلوکارہ ٹینا ثانی کےہاں دعوت تھی۔ ضیا بھی اُس میں مدعو تھے۔ محفل کےاختتام پرایک خاتون نے موسیقار ارشد محمود سےکہا کہ وہ اپنے ڈرائیور کو فون کردیتی ہیں تاکہ وہ اُنھیں آکر لے جائے۔ ضیا صاحب کے مَن کو وہ خاتون بھا گئی تھیں۔
سو، بےاختیاربولے۔’’واپسی پرمَیں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ خاتون نے مُسکراتے ہوئے اپنے نانا کے قریبی دوست، جوش ملیح آبادی کاحوالہ دیتے ہوئے کہا ’’جوش صاحب تو کہتے تھے، ’’کبوتر چھوڑےجاتے ہیں، لوگ تو پہنچائے جاتے ہیں۔‘‘ ’’ضیا صاحب جو مجھ سے پہلے ہی Smitten (گھائل) ہوچُکےتھے،میری زبان کی نزاکت سے بہت متاثر ہوئے۔‘‘ وہ خاتون عذرا تھیں، جو بعدازاں 1994ء میں اُن کی تیسری، آخری اور حتمی بیگم بنیں اور یہ واقعہ اُنھوں نے خُود سُنایا۔ اُنھوں نےمزید بتایا۔ ’’ضیا صاحب کی بہن میری بہت اچھی سہیلی تھیں۔
جب اُنھوں نے مجھ میں ضیا صاحب کی دل چسپی دیکھی، تو اُن سےکہا کہ عذرا میری بہت اچھی دوست ہے، اِسےکبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے۔ ضیا صاحب نے اپنی بہن کو پوری طرح مطمئن کیا کہ وہ مجھے کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچنےدیں گے۔ اوروہ ایسے جینٹلمین تھے کہ پھر پوری زندگی اِس وعدے پر قائم رہے۔‘‘ عذرا نے اپنی بات جاری رکھی۔ ’’وہ جہاں کہیں بھی میرے ساتھ جاتے، تو مجھ سے ایک دو قدم پیچھے چلتے۔ گاڑی میں بیٹھتے وقت، ہال میں داخل ہوتے ہوئے چند قدم خُود پیچھے ہٹ جاتے، تاکہ مَیں اُن سے پہلے اور آگے داخل ہوجاؤں۔‘‘
یہ اُن کی عذرا سے شادی کے دِنوں کی بات ہے کہ انگریزی اخبار ’’دی نیوز‘‘ کے ہفتہ وار میگزین میں اُن کا کالم شائع ہوا کرتا تھا۔ کالم تو اُسےروایتاً کہہ دیا جاتاتھا۔ درحقیقت وہ انگریزی کی دل کش نثر اورمَن موہنے اسلوب کا مضمون ہوتا تھا۔ وہ نثر پارہ تاریخ، سماج، ثقافت، ادب اورفنون پردل چسپ واقعات اور یادگار مکالمات کا مونتاژ ہوتا تھا۔ اُسی دَور میں ایک کالم میں ضیا صاحب نے اپنے ایک سفر کی رُوداد لکھی اوربیچ میں کہیں جھنجھلا کرلکھا کہ جب اُنھوں نے ہوٹل کے کمرے میں اپنا بیگ کھولا، تو اُن کی بیگم غالباً الیکٹرک شیور،سامان میں پیک کرنا بھول گئی تھیں۔
تحریر میں بےساختگی اور برجستگی تھی اور اِسی رَو میں وہ یہ بات لکھ گئے تھے۔ پھراُن کے اگلےکالم میں اِس کی باقاعدہ وضاحت موجود تھی کہ اُن کی بیگم نے سامان درست پیک کیا تھا، مطلوبہ شے بیگ کے بالائی خانے میں موجود تھی۔ اُنھوں نے اعتراف کیا کہ یہ اُن کی اپنی کوتاہی تھی کہ وہ صحیح طرح دیکھ نہ پائے۔ درحقیقت اِس وضاحت اور اعتراف سے عیاں ہوگیا کہ وہ اِک مردِدانا، مصلحت کوش تھے اور بوقتِ ضرورت ’’سرنڈر‘‘ کرنےپریقین رکھتےتھے۔ ضیا صاحب کی پہلی بیوی، سرور بیگم وفات پاچُکی ہیں۔ اُن کا بیاہ پندرہ سولہ برس چلا۔
اُن سے ضیا کے دو بیٹے ہیں۔ جب ضیا ابھی خام تھے اور کچھ بننے کے مراحل میں تھے، تو سرور نے اُن کا بہت ساتھ دیا۔ سرور پی آئی اے میں معروف کرکٹ کمنٹیٹر اور صاحبِ طرز لکھاری عُمر قریشی کےماتحت پبلک ریلیشنزآفیسرکے پُروقار عُہدے پر کام کررہی تھیں۔ ایک وقت میں وہ گھرکی واحد معاشی کفیل تھیں۔ ہر انسان کی زندگی میں کچھ کم زورلمحات آتے ہیں، جب وہ ایسے فیصلے کر بیٹھتا ہے، جنھیں جب پلٹ کر دیکھتا ہے، تو پھرخُود سے سوال کرتا ہے، ’’کیا یہ فیصلہ واقعی مَیں نے کیا؟‘‘ ایک جذباتی اُبال کےنتیجےمیں ضیا اور سرورمیں مستقل علیحدگی ہوگئی۔
سرور کی بہن، بیگم شہر بانو ظفر اقبال کے گھرانے سے میرا برسوں سے گہرا تعلق ہے۔ سو، جب اُن سے ضیا صاحب کے متعلق بات ہوئی تو وہ بےتکلفی سے بتانے لگیں۔ ’’سرور اور ضیا کی جوڑی مثالی تھی۔ وہ ہر بات میں اپنی بیوی سے مشورہ کرتے تھے۔ انگلینڈ میں ضیا کو "A Passage to India" سے بہت کام یابی ملی۔ مجھ سے وہ ایسی محبّت کرتے تھے کہ کراچی میں تھیوسوفیکل ہال میں ’’رومیو اینڈ جولیئٹ‘‘ ڈراماپیش کیا،تواُس میں مجھے جولیئٹ کارول دیا۔ بعد ازاں، انگلینڈ میں اُن کو ڈھنگ کا کام ملنا کم ہوگیا، تو اُنھوں نے پاکستان لوٹنےکا فیصلہ کیا۔
سروراس فیصلے کے خلاف تھیں۔ اُن دونوں کے بیچ پہلا گہرا اختلاف اِسی بات پر ہوا۔‘‘ ’’جب ضیا صاحب کا تذکرہ ہو، تو آپ کے ذہن میں اُن کا فوری تاثر کیا آتا ہے؟‘‘ مَیں نے کُریدا تو بولیں۔ ’’ایک جینٹلمین کا۔ وہ اُردو اور انگریزی پر یک ساں مہارت رکھتے تھے۔ اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فیصل آباد کے پنجابی گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود وہ پنجابی زبان اور کلچر سے فاصلہ رکھتے تھے۔ جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ عام زندگی میں نہ صرف پنجابی بولا کرتے تھے بلکہ اپنی بہنوں سے اکثر پنجابی ہی میں بات کیا کرتے تھے۔
فیض صاحب اور اُن کے گھر قریب قریب تھے۔ اور اُن کی فیض صاحب سے بہت ملاقاتیں رہیں، یہاں تک کہ یہ تعلق ارادت مندی سے بڑھ کرجذباتی ہوگیا۔ جذباتی تو وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پرہوجاتے تھے۔ شام کی چائے عین پانچ بجےملنی چاہیے، کپ پورا بَھرا ہوا نہیں ہونا چاہیے، صبح ہماری بہن جب اُن کےساتھ ناشتے پر بیٹھیں، تو پورے میک اَپ میں ہوں، ناخنوں پرنیل پالش لگی ہونی چاہیےوغیرہ وغیرہ۔
مزاج کا اُتار چڑھاؤ اپنی جگہ، مگر وہ ایک نفیس جینٹلمین تھے۔‘‘ جب مَیں نے پوچھا کہ کیا ضیا کو سرور سےعلیحدگی پر کبھی پچھتاوا ہوا، تو بیگم شہر بانو کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئیں، پھرگویا ہوئیں۔ ’’ہمارے خیال میں اُنھیں پچھتاوا تھا۔‘‘ ایک مرتبہ مَیں نے بیگم شہربانو کے اہلِ خانہ سےضیا صاحب اورسروربیگم کی تصاویر کا پوچھا تو اُنھوں نے بتایا کہ ’’سرور بیگم نے وہ تصاویرجلاڈالی تھیں۔‘‘ سرور بیگم نے دوبارہ شادی نہ کی۔ بیگم شہربانو کےداماد، ایچ ایم نقوی انگریزی زبان کے ممتاز ادیب ہیں اور اُن کی بیٹی عالیہ نقوی ہارورڈ یونی ورسٹی سے تعلیم یافتہ، بہت نستعلیق، پُروقار خاتون ہیں۔
عالیہ نقوی نے اپنی والدہ کی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’میری خالہ سرور کو ہم ’’بیا خالہ‘‘ کہتے تھے۔ بیا اور ضیا کا رومانس اور محبّت کی شادی غیرمعمولی نوعیت رکھتے تھے۔ وہ کراچی کے تھیٹرسرکلز میں مِلے تھے۔ بیا، ضیا کی صلاحیتوں پربہت اعتماد کرتی تھیں۔ یہ تب کی بات ہے، جب ضیا ابھی ایک گُم نام آدمی تھے۔ ضیا کو ضیا محی الدین بنانے میں اُن کا بہت ہاتھ تھا۔ جب اُنھوں نے دوسری شادی کا ارادہ ظاہر کیا، تو بیا سے یہ برداشت نہ ہوا۔ ضیا، بیا کوقعطاً چھوڑنا نہیں چاہتے تھے، لیکن ناہید سے دوسرا بیاہ بھی کرنا چاہتے تھے، جو بیا کو کسی صُورت قبول نہ تھا۔
سو، انجام علیحدگی ٹھہرا۔‘‘ انھوں نے اپنا موقف بیان کیا۔ ’’جب بیا خالہ فوت ہوئیں، توضیا صاحب ہمارے گھر آئے اورمیری والدہ سے کہا ’’بیا حقیقتاً ایک شان دار خاتون تھیں۔‘‘آخری دس پندرہ برس میں اُن کے باہمی تعلقات میں نرمی آگئی تھی۔ جب وہ بیمار پڑیں، تو ضیا صاحب کئی مرتبہ اُن کی عیادت کو آئے تھے۔ خالہ نے بھی یقینی بنایا تھا کہ وہ ضیا صاحب کی کتب کی تقاریبِ رُونمائی اور اُن سے گفت گو کی محافل میں جائیں۔ وہ ہمیشہ اُنھیں دعوت نامہ بھیجا کرتے تھے۔ جب تقریب کے بعد ضیا صاحب کے اِردگرد اُن کے چاہنے والوں اورکتابوں پر دست خط لینے والوں کا ہجوم ہوجاتا تھا، تو وہ اپنی جگہ پر بیٹھی رہتی تھیں۔ آخر میں ضیا صاحب چل کراُن کے پاس ملنے آتے تھے۔ آخری برسوں کے ایسے تعلق کو شاید پچھتاوا تو نہ کہا جائے، البتہ وقعت و عزت دینا ضرور کہا جائے گا، جو وہ بیا کو دیتے تھے۔‘‘
عذرامحی الدین کا کہنا ہے۔ ’’میرے حصّے میں جو ضیا محی الدین آئے، وہ بہت نرم خُو،صلح جُو، صحیح معنوں میں ایک جینٹلمین تھے۔ وہ اتنی عزت اور احترام دیتے تھے کہ مَیں اپنی بیٹی سے کہتی کہ ’’ابّا میاں جیسا نہیں ہوگا، جو آپ کو ملے۔‘‘ وہ میرے معمولات میں مداخلت نہیں کرتےتھے۔ اُنھوں نے اتنی مصروف زندگی گزاری کہ اپنی پہلی اولاد کو زیادہ وقت نہ دے پائے تھے۔ جب ہماری بیٹی ہوئی، تو اُنھوں نے اُسے پروان چڑھتے دیکھا اور اس رشتے سے بہت لُطف اٹھایا۔ وہ مجھے صبح سوتے سے نہیں اُٹھاتے تھے۔
جانتے تھے، مجھے میگرین (درد ِشقیقہ) ہوجاتا ہے۔ اگر شام میں مَیں گھر پر نہ ہوتی، تومعترض نہ ہوتے۔ البتہ چند عادات پختہ تھیں۔ وہ ہر چیز کو Proper اورPerfectدیکھنا چاہتے تھے۔ کانٹا اپنی جگہ ہوناچاہیےاورچمچ اپنی جگہ۔ دنیا داری کے معاملات میں بہت سادہ تھے۔ مثلاً اپنے پوتے کو پہلی مرتبہ دیکھنے گئے، تو عموماً ایسے موقعے پر ہاتھ میں رقم یا کوئی تحفہ دیا جاتا ہے، مگروہ ایسی رسمیں ذہن میں نہ رکھ پاتے۔ بعد میں جب مَیں اُن سے گِلہ کرتی تو لاعلمی کا اظہار کرتے۔ جب مَیں کہتی کہ یہ توکامن سینس کی بات ہے تو کہتے، ’’بھئی، میرے پاس کامن سینس ہی تو نہیں ہے۔‘‘
وقت یقیناً آدمی کو بدل دیتا ہے۔ ضیا صاحب نے ایک مکالمے میں بتایا تھا ’’مَیں ہمیشہ سے کچھ تنہائی پسند رہاہوں۔ میرےکبھی زیادہ دوست نہیں رہے اورنہ ہی مجھے گھر سے باہر جانے کی زیادہ خواہش رہی۔‘‘ اُن کی آواز میں حسرت تھی۔ ’’اتناعرصہ تنہا رہنے کی وجہ سے مجھے تنہائی کی عادت پڑگئی ہے۔ قریباً ہر وہ شخص، جسےمَیں جانتا تھا، دنیا سےرخصت ہوچُکا ہے۔ داؤد رہبر، ہیرلڈلینگ، فرینک ہاسنر۔ اپنی گہری بےچینیاں اور الجھنیں بانٹنے کے لیے…‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رُک گئے اور یہ کہتے ہوئے بات ادھوری چھوڑدی۔ ’’نہیں، یہ بات میری بیوی کو تکلیف دےگی۔‘‘
کیف غزنوی، اُن کے تھیٹر کا نمایاں ترچہرہ رہی ہیں، ہم سے پرانے گھریلو مراسم کے باعث وہ بےتکلفی سے ضیا صاحب کی باتیں کر رہی تھیں۔ ’’مجھے ایک انگریزی ڈرامے کی Adaptation میں مرکزی کردارادا کرنا تھا۔ ضیا صاحب مجھ سے زیادہ واقف نہ تھے۔ ڈرامے کے معاملے میں وہ حد درجہ سنجیدہ آدمی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ تاریخ میں جتنا عُمدہ اور بین الاقوامی سطح کا تھیٹر’’ناپا‘‘ میں پیش کیا گیا، اُس کا عُشرِعشیر بھی پاکستان میں کہیں اور پیش نہیں کیا گیا۔
بہرحال، اُس ڈرامے کی کاسٹنگ کے دوران انھوں نے مجھ سے کہا کہ مَیں اُنھیں کیٹ واک کرکے دکھاؤں۔‘‘ ’’اُن کے دفتر ہی میں…؟‘‘مَیں نے پوچھا۔ ’’ہاں اُن کے دفتر ہی میں۔ جب مَیں نے چل کر دکھایا، تو اُن کی جانچتی نظروں میں ایک سچّے فن کار کی سنجیدگی اور پرکھ تھی۔ اُنھیں موٹاپے سے کد تھی۔ وہ خُود بھی اسمارٹ، بلکہ اسٹائلش آدمی تھے، اپنے وزن کو قابو میں رکھتے تھے، خُوش لباس تھے، جو اُن پرجچتا بھی تھا۔ نوّے برس کی عُمرمیں بھی سیڑھیاں پھلانگتے، بھاگ کرچڑھتے تھے، اتنی توانائی تھی اُن میں۔‘‘ ضیا صاحب پرانی طرز کےآدمی تھے۔شیکسپیئرکےایک ڈرامے "Measure for Measure" کو پیش کرنے کی تیاری کررہے تھے۔ اُس کھیل میں ایک معمّا تھا، جس کی صدیوں سے مختلف توضیحات کی جاتی رہی ہیں۔
مختصراً ونسینشیو، ویانا کا ڈیوک ہوتا ہے، جو شہرسےجاتے ہوئے سخت گیرجج اینجلو کو اپنا نائب مقرر کرتا جاتا ہے۔ اینجلو، غیر اخلاقی سرگرمیوں پر سخت سزاؤں کا اعلان کرتا ہے، مگرخُود ایک ملزم کلاڈیو کی بہن ازابیلا کی جانب مائل ہوجاتا ہے۔ وہ ازابیلا سے سودا کرنا چاہتا ہے کہ اگروہ اِس کی صحبت میں آجائے، تو ملزم کو معاف کردیا جائے گا۔ ازابیلا ایک مضبوط کردار کی خاتون ہونے کے باعث کسی قسم کے غیراخلاقی تعلق سے انکارکردیتی ہے۔ کہانی میں اہم موڑ آتاہے،جب معلوم ہوتا ہےکہ درحقیقت ڈیوک، ویانا سے گیا ہی نہیں تھا بلکہ راہب کا بھیس اختیارکرکے حالات کا جائزہ لے رہا تھا۔
وہ ازابیلا سے دوستی کرکے اُسےآمادہ کرتا ہے کہ وہ بہ ظاہر اینجلو کی فرمائش پوری کرنے کی ہامی بَھرلے، البتہ شرط رکھے کہ سب کچھ تاریکی میں ہوگا۔ دریں اثنا، وہ اینجلو سے محبّت کرنے والی اُس کی منگیترماریانا کو تیار کرتی ہے کہ ملاقات کے وقت وہ اُس کی جگہ لے لے۔ ایسا ہی ہوتا ہے اور اینجلو ماریانا کو ازابیلا سمجھ لیتا ہے۔ ڈیوک اپنے اصل بھیس میں ویانا آتا ہے، تو ماریانا اور ازابیلا اُس کے پاس فریاد لے کرآتی ہیں۔ وہ حقائق سے آگاہ ہوتا ہے، سو، اینجلو کو حُکم دیتا ہے کہ ماریانا کو اپنےعقد میں لےآئے اور خُود ازابیلا کو بیاہ کی پیش کش کرتا ہے۔
ازابیلا خاموشی اختیار کرتی ہے۔ اُس دَور کی روایت کے مطابق خاموشی کو رضامندی سمجھا جاتا ہے۔ مختلف شارحین، ازابیلا کی خاموشی کی مختلف تاویلات پیش کرتے آئے ہیں۔ ضیا محی الدین اُس قبیل سے تعلق رکھتے تھے، جو سمجھتے تھے کہ عوام میں سے ایک لڑکی کے لیے ریاست کے حُکم ران کا بیاہ کا پیغام، اُس کی خوش بختی کی علامت تھا۔ سو، اُس کی خاموشی یقیناً اُس کی رضامندی ہی تھی۔ کیف غزنوی اور حقوقِ نسواں کی علم بردار دیگر خواتین کا موقف تھا کہ لازم نہیں کہ رعایا میں سے ایک لڑکی کو حُکم ران کا پیغام جائے، تو اُسے اُس لڑکی کی خوش بختی ہی سے تعبیر کیا جائے۔
عین ممکن ہے کہ حُکم ران اُس کی پسند کے معیار پر پُورا نہ اُترتا ہو۔ ’’آخر عورت بھی تو انسان ہوتی ہے، اُس کے خواب، اُس کی خواہشات مختلف بھی ہوسکتی ہیں۔ بعض اوقات لڑکیاں مصلحتاً بھی توخاموش رہتی ہیں۔‘‘ کیف اپنا نقطۂ نظربیان کرتے ہوئے جذباتی ہوگئیں۔ ’’ہم نے ضیا صاحب سےخاصی بحث کی، مگر وہ اپنے روایتی مردانہ نقطۂ نظر پرڈٹے رہے۔ اُن کا کہنا تھاکہ کھیل کو اُس دَور کے تناظر اور روایت کے مطابق دیکھا جانا چاہیے۔‘‘ ’’نتیجہ کیا نکلا؟‘‘ مَیں نے استفسار کیا۔ ’’نتیجہ کیا نکلنا تھا، وہ وَن اینڈ اونلی ضیاصاحب تھے۔
بالآخر ازابیلا کی خاموشی کواُس کی رضا مندی ہی سمجھا گیا۔ شیکسپیئر، حُکم رانوں کا چہیتا، شاہی ڈراما نگار تھا۔ سو، اُن کی روایات کا پیرو تھا۔ عوام، حُکم رانوں کی نقّالی کرتے آئے ہیں۔ جب حُکم رانوں نے اُسے سرآنکھوں پر بِٹھایا تو عوام نے تواُسےقبولیت بخشنی ہی تھی۔ شیکسپیئر، مردانہ بالادستی والا شاہی ملازم!‘‘کیف کے تاثرات اور لہجے میں جھلاہٹ تھی۔
مَیں نے موضوع بدلتے ہوئے پوچھا کہ اُن کے ساتھ اتنے برس گزارکراُن کی شخصیت کو کیسا پایا۔ ’’اسٹائلش، ایلیٹسٹ، عُمدہ کھانا، بہترین مشروبات اور اعلیٰ ریستوران کا انتخاب کرنے والے۔ وہ اُن لوگوں میں سے تھے، جو تَھڑے پر بیٹھ کریا سڑک کنارے کھڑے ہو کرکھانے میں آسانی محسوس نہیں کرتے۔ اُن کی جسمانی پیدائش یہاں کی تھی، مگر ذہنی پرورش برطانوی اشرافیہ اور لارڈزکی طرزپرہوئی تھی۔ایک مرتبہ مَیں نے اُنھیں کھانے پر مدعو کیا۔ انھوں نے ریستوران کا نام پوچھا، مَیں نے ایک اعلیٰ ریستوران کا نام لے دیا۔ اُنھوں نے اطمینان سے ہاں کردی۔
مجھے اُن کے مزاج کا علم تھا۔ سو، ڈنر کی ریزرویشن ہی اُس ہائی اینڈ ریستوران میں کروائی تھی۔‘‘ کچھ توقف کے بعد کیف نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’وہ بےحد محنتی تھے۔ جب کسی پراجیکٹ پرکام کررہےہوتے، تورات گئے تک بھی دفتر میں بیٹھے رہتے۔ نوّے برس کی عُمرمیں بھی ہشّاش بشّاش ہوتےتھے۔ایک دوپہر ہمیں دفترہی میں ورک شاپ کرنا تھی۔ وہ وقت کے بہت پابند تھے۔ اُس روز اُنھیں آنے میں دیر ہوگئی۔ آتے ہی معذرت کی اور بتایا کہ وہ اپنے زیرِ مطالعہ کتاب کا ایک طویل اقتباس یاد کر رہے تھے۔ جب تک حرف بہ حرف حافظے میں محفوظ نہ کرلیا،تسلّی نہ ہوئی۔
مَیں نے پوچھا کہ اِس عُمر میں ایسے غیرضروری کام پراتنی محنت کیوں کرتے ہیں، تو اُنھوں نے بتایا کہ یہ امراُن کے فوکس کو بہتر کرتا ہے، اور اُن کی حسیات تیز رہتی ہیں۔‘‘ ’’ویسے وہ ایک بہترین صداکار ہونے کےساتھ اچھے اداکار بھی تھے۔‘‘ مَیں نے لُقمہ دیا، تو کیف نے کہا۔ ’’ایک پرانی کہاوت ہے کہ اگرآپ اپنے اوپر کسی کردار کو مدّتوں طاری رکھیں، تو آپ خُود وہی بن جاتے ہیں۔ یہ اُن پرصادق آتی ہے۔ انھوں نے سُپربرٹش شخصیت کو اپنے اوپر ایسا طاری رکھا کہ خُود بھی سُپربرٹش ہوگئے۔ اُنھیں دو باتیں بہت ناپسند تھیں۔‘‘ میری آنکھوں میں سوال پڑھ کر کیف نے وضاحت کی۔ ’’ملاوٹ اور گنوارپَن۔ وہ زبان میں ملاوٹ کے سخت خلاف تھے۔
جب اُردو پڑھتے یا بولتےتو بالکل خالص اورجب انگریزی پڑھتے اوربولتے، تو بھی خالص۔ اُنھوں نےاُردوکا حُسن برقرار رکھا اورثابت کیا کہ اُردو، انگریزی کی ملاوٹ کے بغیر بھی مسلسل بولی جاسکتی ہے۔ دوسری شے گنوار پَن تھی۔ گنوار پَن سے مُراد دیہی سادگی نہیں، بلکہ اطوارمیں ناشائستگی ہے۔ ایک روز کہنے لگے "It took me my whole life to take the rustic out of me"۔ وقت کی پابندی، گفت گو میں شائستگی، اطوار میں تہذیب اور معمولات پرحد بندی اُنھی کا وتیرہ تھا۔ وہ اتنے بڑے آدمی تھے کہ اُن کے ہوتے ہوئے ’’ناپا‘‘ کسی اور قد آورشخصیت کو سامنے نہیں لاسکتا تھا، جیسے کسی چھتن اور درخت کی چھاؤں میں پودے پَھل پُھول کر تن آور درخت نہیں بن پاتے۔
جب اُن سے پوچھا جاتا کہ اُن کا جانشین کون ہوگا، تو کہتے ’’پُورا ناپا۔‘‘ میرے ذہن میں آیا کہ اُن کا جانشین کوئی نہیں ہوگا۔ایک مکمل تہذیبی روایت چاہیے ہوتی ہے، ایسے لوگوں کی ذہنی تربیت کے لیے۔ زبان واطوار کی جوتربیت ابتدائی دَور کا پی ٹی وی کرتا تھا، اب تا حدِّنگاہ ایسا ادارہ نہیں۔ تہذیبی روایت کے تربیت یافتہ کو برطانوی ماحول ایسا پکائے کہ فرد کے نقوش مخصوص شکل میں ڈھل کر پختہ ہوجائیں، تو ایک ضیا محی الدین جنم لیتا ہے۔ ‘‘
ضیا صاحب اپنے اوپر لکھی تحریریں نہیں پڑھتے تھے، وہ ایسا کرنے کو خُود ستائشی سمجھتےتھے۔ بلند پایہ ادیب، مزاح نگار، مشتاق احمد یوسفی نےاُن پرلکھےاپنے مضمون ’’ضیا محی الدین اور لفظ کا ٹھاٹ‘‘ میں لکھا تھا۔ ’’ضیا محی الدین نےنثرپڑھنےکاجوانتہائی پرُتاثیرانداز اپنایا ہےاورخوانِندگی کا جو اعلیٰ معیار قائم کیا ہے، اُس میں صرف ایک عیب ہے۔ وہ یہ کہ جس کسی نے نقّالی میں اُن کی طرح پڑھنے کی کوشش کی،وہ ماراجائے گا۔ یہ راگ اور سنگھار اوریہ ساز اُنھی کو سجتا ہے۔‘‘ وہ بلند خوانی کو داستان گوئی سے علیحدہ شمارکرتے ہوئے اُسی مضمون میں رقم طراز ہیں۔ ’’سب سے نام وَر داستان گومیرباقرعلی، افیم کھا کر داستان کہتے تھے۔
اُن کی ایک داستان کا متن، جو اُن کے کسی مداح نے مرتّب کیا تھا، ہم نے بھی پڑھا اور اس نتیجے پر پہنچےکہ استاد افیم ناحق کھاتے تھے۔ افیم تو سُننے والوں کوکھانی چاہیے۔‘‘ ضیا صاحب کی خوانِندگی کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں۔ ’’زرگزشت سے ایک اقتباس سُن کر ہمارے ہم دَم و ہم رازمرزاعبدالودود بیگ ہماری پیٹھ تھپتھپا کر کہنے لگے کہ واللہ! ضیا محی الدین نےتحریر میں جان ڈال دی۔‘‘ اُن کے کمپلی مینٹ کا شکریہ ادا کرنے کے بعد ہمیں کچھ اور گمان گزرا تو ہم نے کہا۔ ’’مگر مرزا! جان تو مُردے میں ڈالی جاتی ہے۔‘‘بولے ’’اور کیا۔
ضیا محی الدین نے یہی تو کیا ہے۔ بے جان بولتا ہے مسیحا کے ہاتھ میں۔‘‘ مزید لکھتے ہیں۔ ’’اُدھر چند برسوں سےضیا محی الدین صاحب… یہاں یہ واضح کرتا چلوں کہ مَیں اُنھیں دوسری اور آخری مرتبہ صاحب کہہ رہا ہوں۔ کسی نام وَر آرٹسٹ یاادیب کوصاحب کہناصرف دو صُورتوں میں جائزہے۔ اوّل، قضائے الٰہی یا تقاضائے عوام سے وفات پا چُکا ہو۔‘‘ بُلند خوانی کے حوالے سےفرماتے ہیں۔’’ایک شاعر تھے، جو مصرعے کا پہلا لفظ پڑھنے سے پہلے ہی ہاتھ چلانا شروع کردیتےتھے۔ پہلے دایاں چلاتے، وہ تھک جاتا توپھربائیں سےنِرت بھاؤ بتاتے۔ شعر پڑھتے وقت جوشؔ صاحب کی طرح دونوں ہاتھ بہ یک وقت نہیں چلاتے تھے۔ اِس خوف سےکہ اگر دونوں تھک گئے، تو کاہے سے مطلب ادا کریں گے۔‘‘
ضیا صاحب کی اپنی تحریروں میں ایک لطافت ہے، جسے اُن کی صداکاری کے نمایاں تذکروں میں فراموش کر دیا جاتا ہے۔ اپنی یادداشتوں کی کتاب "The God of My Idolatory" میں وہ ایک تھیٹراداکارہ کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ’’جوڈی ڈینچ کی پیدائش ایک ایسے گھرانے میں ہوئی، جسے تھیٹر سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ اُس کا باپ ایک ڈاکٹر تھا اوراُس کی ماں، ایک خوش فطرت خاتون، اپنی بیٹی سے خاصی توقعات اور اُمیدیں وابستہ ہونے کے باوجود وہ امریکی ماؤں کی طرح جارحانہ مزاج نہ رکھتی تھی۔
اُس خاندان کے سب افراد ایک دوسرے سے بہت قربت رکھتےتھے۔ ماں باپ اپنی بیٹی کی ہرپیش کاری (پرفارمینس)پر یقینی طور پرموجود ہوتے تھے۔ جوڈی نے مجھے خُود بتایا کہ ایک پرفارمینس میں ماں باپ موجود تھے، جس میں وہ جولیئٹ کا کردار ادا کررہی تھی۔ ایک سین، جس میں نرس جولیئٹ کو اطلاع دیتی ہے کہ رومیو نے ٹائبالٹ کو ایک دوبدو لڑائی میں مار دیا ہے۔ جولیئٹ پریشانی سے نڈھال ہو کرچلا اٹھتی ہے۔ ’’نرس! میرے ماں باپ کہاں ہیں؟‘‘ جوڈی کی ماں، جو حاضرین میں موجود تھی، کھڑے ہوکر بےاختیار پکارتی ہے’’ڈارلنگ ہم یہاں بیٹھے ہیں، قطار ایم، سیٹ نمبر29اور 30۔‘‘ یہ جدید تھیٹر کے چند مزاحیہ واقعات میں سے ایک ہے۔
اکلوتے ٹی وی چینل، پی ٹی وی پرچند گھنٹے چلنے والی نشریات میں شامل ’’ضیا محی الدین شو‘‘ نےاُنھیں ایسا عروج دیا کہ حُکم رانوں سے ملاقاتیں اُن کے لیے ایک عام سی بات ہوگئی۔ اُن کے سُنائے دو واقعات بھٹو صاحب اور ضیا الحق صاحب کے مزاجوں کی کیا عُمدہ عکّاسی کرتے ہیں۔ یہ دو واقعات نہیں، دو کُوزے ہیں جن میں اِن دو حُکم رانوں کی شخصیات سما جاتی ہیں۔
’’ابتدائی دِنوں میں بھٹو صاحب مجھے اُٹھ کر، کھڑے ہوکےگرم جوشی سے مِلا کرتے تھے۔ مَیں، اُن سے شروع سے اصرار کرتا رہا تھاکہ پاکستان میں باقاعدہ تھیٹرقائم ہونے چاہئیں۔ اِدھر سادہ سے ہالز کو تھیٹر کا نام دے دیا گیا تھا، جب کہ تھیٹر کا طرزِ تعمیر ہی مختلف ہوتا ہے۔ وہ مجھ سےاتفاق کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اُن کی خواہش بھی تبدیل ہوگئی۔
وہ چاہتےتھے کہ لاڑکانہ میں اُن کے گھر کے لان میں ایک اوپن ایئر تھیٹر مستقل طور پر قائم کر دیا جائے۔ شاہد سجّاد، مجسمہ ساز تھے۔ اُنھیں ذمّے داری سونپی گئی کہ لاڑکانہ جاکر ابتدائی جائزہ لیں۔ مَیں بھی لاڑکانہ پہنچ گیا۔ عموماً بھٹو صاحب سترہ اٹھارہ حمایتی افراد کاوفد ساتھ لے کرچلا کرتے تھے۔ البتہ اُس مرتبہ جب وہ آکر مجھے ملے، تو تنہا تھے۔ اُن کے ساتھ ان کے دو پالتو چھوٹے کتّے تھے۔
اُن کا مصافحہ ڈھیلا تھا، ابتدائی گرم جوشی عنقا تھی۔ مَیں نے اُن سے تھیٹر کی بات کی تو بولے۔ ’’مَیں ایک ایسا تھیٹرچاہتا ہوں، جس میں صرف ایک اسٹار ہو اور وہ میں ہوؤں۔‘‘ تب ہی مَیں نے استعفیٰ دے کر لندن جانے کا فیصلہ کرلیا۔‘‘ جنرل ضیا الحق کے حوالے سےانھوں نے ماہ نامہ نیوز لائن کو بتایا تھا۔ ’’1978ء کے بعد جنرل ضیا الحق چاہتے تھےکہ مجھےبھٹو کےخلاف استعمال کیاجائے۔‘‘ ضیا محی الدین کے انکار کے نتیجے میں اُن کے پاسپورٹ پر بیرونِ مُلک جانے پر پابندی کی مُہرثبت کردی گئی۔
کئی بااثر دوستوں کی کوششوں کے نتیجے میں اُنھیں نیا پاسپورٹ جاری کیا گیا۔ ’’چند برس بعد میری جنرل ضیا الحق سے تب ملاقات ہوئی، جب میں ’’کریسنٹ آف دی مون‘‘ پروڈیوس کررہا تھا۔ وہ مجھے گلے لگا کر بہت محبّت سے ملے اور یوں ظاہر کیا، جیسے اُنھیں قطعی علم نہ ہو کہ اُن کی خواہش پرمیرے ساتھ کیا سلوک کیا گیا تھا۔‘‘ یہ واقعہ سُنا کر انھوں نے قہقہہ لگایا تھا۔ البتہ یہ علیحدہ معاملہ ہے کہ اُنھوں نے ناپا جیسا اعلیٰ ادارہ جنرل پرویز مشرف کی مدد سے قائم کیا۔
ایوب رہے، نہ یحییٰ، ضیا الحق رہے، نہ مشرف، رہےنام اللہ کا۔ فن کار کودیگر پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ اِک صاحبِ اولاد کی تیسری نسل اُس کا نام اور قبر تک بھول جاتی ہے، البتہ اِک صاحبِ کمال فن کار، قلم کار، ماہرِ فنِ تعمیر اپنی نقّاشی، تصویر اور حرف کی صُورت نسل درنسل زمانہ در زمانہ چلتا ہے۔ ضیا محی الدین کی صداکاری، بلند خوانی، پڑھت، پڑھنت، قراَت اورخوانِندگی کا ایساچرچا ہواکہ اُس کے پیچھے اُن کی خوبیٔ تخلیق و تحریرچُھپ گئی۔ ’’آخری عُمر میں اُنھیں ایک پچھتاوا تھا۔
وہ حسرت سے کہا کرتے تھے۔’’ابھی تو مَیں نے اتنا پڑھا ہی نہیں، اتنا کچھ پڑھنے کوہے، ابھی تومَیں نے کچھ بھی نہیں کیا۔‘‘ عذرا بیگم نے مجھے اُداسی سے بتایا۔ مَیں جب اُن کے انگریزی مضامین کی تین کُتب اور اردو کے متفرق مضامین تلاش کرنے نکلا، شہر شہر تلاش کے بعد بہ مشکل، بہ صد مشکل دو کتب ہاتھ لگیں، خستہ و سال خُوردہ۔
عبداللہ حسین کہا کرتے تھے۔ ’’میرے مرنے کے بعد بھلے کسی شہر کا نام میرے نام پررکھ دیا جائے، میری بلا سے۔‘‘ سو، ضیا محی الدین کی کتب مِلیں نہ مِلیں، اُن کی بلا سے۔ البتہ اِس میں اس سماج کا نقصان ہے، بڑا نقصان۔ عبداللہ حسین اورضیا محی الدین میں اِک اور نسبت بھی تھی۔ دونوں قریباً نصب صدی ولایت میں(لندن میں عبداللہ حسین پینتالیس برس اورضیامحی الدین سینتالیس برس) گزار کروطن لوٹے تھے۔ بہ قول عبداللہ حسین ’’شام کو بالآخر پرندے اپنے گھروں، گھونسلوں ہی کو لوٹتے ہیں۔‘‘
سو، ضیا محی الدین اپنے گھر لوٹے تھے۔ وطن آکر انھوں نے اِک اندرسبھا سجائی تھی۔ کیا محفل، کیسی مجلس جمائی تھی انھوں نے۔ وہ شمعِ محفل، روحِ انجمن تھے، صدرنشین تھے۔ اِک بھرپور، مگر تنہا تنہازندگی گزار کروہ چُپکے سے دبے پاؤں محفل سےچلےگئے۔ محفل سجی ہے، بس جانِ محفل ندارد ہے۔ وقت نے کس شبیہ کوخواب و خیال کردیا۔ بس نام رہے گا، اللہ کا، جوغائب بھی ہے، حاضر بھی۔