• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چھ روز کی مختصر جنگ بندی کی آڑ میں اسرائیل نے غزہ اور دوسرے علاقوں میں نہتے فلسطینیوں پر قیامت ڈھانے کی جو شیطانی منصوبہ بندی کی تھی اس پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے اور امریکہ کے بعد برطانیہ بھی فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی میں باضابطہ طور پر شریک ہو گیا ہے۔ دو امریکی بحری بیڑے پہلے فوجی سازو سامان کے ساتھ اسرائیل کی مدد کیلئے موجود ہیں جبکہ ایک برطانوی جنگی جہاز بھی کمک لے کر پہنچ گیا ہے جس کا بظاہر مقصد فلسطینیوں کی جاسوسی کر کے ان کی خفیہ اطلاعات تل ابیب کو پہنچانا ہے۔ اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے کے مطابق غزہ سمیت اب بے یارومددگار فلسطینیوں کیلئے کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں۔ اتوار کو اسرائیل کی فضائی اور زمینی فوج نے فلسطینیوں کے گھروں، مہاجر کیمپ اور ہسپتالوں پر بے دردی سے چار سو حملے کئے جن میں ایک ہی روز میںسات سو فلسطینی شہید ہو گئےاس طرح 8 ہفتے کی اسرائیلی بربریت کے دوران شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 16ہزار سے تجاوز کر گئی جن میں نصف سے زائد معصوم بچے اور خواتین شامل ہیں۔ اسرائیلی طیارے رہائشی علاقوں پر بمباری کر رہے ہیں جس سے فلسطینیوں کے پورے کے پورے خاندان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس تباہ کن صورتحال کو بیان کرنے کیلئے اس کے پاس الفاظ نہیں۔ اس دوران امریکی ایوان صدر وائٹ ہائوس کے ترجمان نے فلسطینیوں سے ’’اظہار ہمدردی‘‘ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اسرائیل کو ’’کم سے کم شہریوں‘‘ کو مارنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ عرب اور اسلامی ممالک اسرائیل کی پرزور مذمت کے سوا کوئی عملی قدم اٹھانے کے اس لئے اہل نہیں کہ تقریباً ہر ملک میں اسرائیل کے سرپرست امریکہ کے اڈے اور فوجی موجود ہیں جنہیں برطانیہ سمیت دوسرے سامراجی ملکوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ صورتحال اتنی ابتر ہے کہ حماس کے ترجمان نے عرب ملکوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اور کچھ نہیں کر سکتے تو غزہ کا محاصرہ توڑنے کیلئے اپنے وفودہی بھیجیں۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق اسرائیلی طیاروں کی بمباری سے مہاجر کیمپ جبالیہ کا ایک رہائشی بلاک مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ اسرائیلی طیارے رہائشی عمارتوں کے علاوہ ہسپتالوں ، سکولوں، مساجد، کیتھولک گرجا گھروں اور دوسری عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ ہسپتال تباہ ہو چکے ہیں اور ان کے فرش شہدا کے خون سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ اب تک غزہ کے 18لاکھ شہری جو کل آبادی کا 75فیصد بنتے ہیں بے گھر ہو چکے ہیں اور دربدر پھر رہے ہیں، اسرائیلی فوج نے مزید علاقوں سے فلسطینیوں کے انخلا کا حکم دیا ہے اور ظلم کی انتہا یہ ہے کہ جب لوگ اپنے گھر چھوڑ کر دوسرے علاقوں کا رخ کرتے ہیں تو راستے میں بمباری کر کے انہیں قتل کر دیا جاتا ہے۔ مہاجر کیمپوں یا قدرے محفوظ علاقوں میں پناہ لینے والے فلسطینیوں کے پاس کھانے کو خوراک ہے نہ پینے کو پانی کیونکہ اسرائیل نے ان تک امدادی سامان پہنچانے کے تمام راستے بند کر رکھے ہیں ۔ اسرائیلی فورسز شام اور لبنان کو بھی بمباری کا نشانہ بنا رہی ہے۔ بہانہ یہ ہے کہ وہاں سے حزب اللہ اور حوثیوں کے رضاکار ان پر حملے کرتے ہیں۔ حماس بے سروسامانی کے باوجود اسرائیلی فوج اور بڑی طاقتوں کی قہرمانیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہے۔ پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑنے ایک بار پھر دو ریاستی حل کو اس قضیےکا واحد حل قرار دیا ہے مگر یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب امریکہ اور اس کی اتحادی سامراجی طاقتیں اسرائیل کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لیں ۔ ظلم کی انتہا ہو چکی ہے۔ اب انہیں ایسا کر لینا چاہئے ورنہ آگے چل کر کسی مرحلے پر تیسری عالمی جنگ کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔

تازہ ترین