• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت ملک کے پاس سالانہ 67لاکھ ٹن یوریا بنانے کی صلاحیت موجود ہے جبکہ اس کی مانگ 60لاکھ ٹن کے لگ بھگ ہے لیکن یہ پیداوار اوپن مارکیٹ تک نہیں پہنچ پارہی۔ ربیع کے سیزن میں جب بوائی کے بعد کاشتکاروں کو کھاد کی خریداری کا مرحلہ درپیش ہے ،اس سال بھی ذخیرہ اندوز مافیا سرگرم دکھائی دیتا ہے اور مصنوعی قلت پیدا کرکے غریب کسانوں کو مشکل سے دوچار کیا جارہا ہے۔اطلاعات کے مطابق صرف ایک ہفتے میں یوریا کی 50کلو گرام بوری ایک ہزار روپے تک مہنگی ہوکر پانچ ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔ادھار پیسے لے کرخریدنے والے غریب کسان صبح سے شام تک کھاد کی تلاش میں مارے مارے پھرنے پر مجبور ہیں ۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے محکمہ زراعت اور ہر ضلعی انتظامیہ کے توسط سے کسانوں کو بیج اور کھاد کنٹرول نرخوں پر فراہمی کا مکینزم بنا رکھا ہے لیکن اس کے باوجود مارکیٹ کی صورتحال میں بگاڑ پیدا ہونا معمول بنا ہوا ہے۔جب غذائی پیداوار میں خودکفیل پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس کی 85فیصد آبادی دیہی تھی جس کا ذریعہ روزگار کاشتکاری اور کھیت مزدوری تھا ۔زرعی مسائل کی وجہ سے اب تک 40فیصد سے زیادہ افراد پیداوار دیتی ہوئی زمینیں فروخت کرکے شہروں میں منتقل ہوچکے ہیں اور رفتہ رفتہ زیر کاشت رقبہ کم ہورہا ہےجبکہ غریب کاشتکار بیج ، کھاد اور ڈیزل کی قیمتیں آسمان پر پہنچ جانے سے مسلسل پریشان ہے۔ غذائی قلت بڑھنے سے ہر سال قیمتی زرمبادلہ خرچ کرکے اس کی کمی کو پورا کرنا پڑ رہا ہے ۔نگران وفاقی حکومت نے دو لاکھ میٹرک ٹن یوریا درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو موجودہ صورتحال میں بہر حال ضروری ہے تاہم اسکی تقسیم منصفانہ بنیادوں پر کرتے ہوئے غریب کسانوں کو حسب ضرورت کھاد کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین