اسلام آباد میں سول جج کی اہلیہ کے ہاتھوں بدترین تشدد کا شکار بننے والی کمسن گھریلو ملازمہ رضوانہ کو صحت یاب ہونے پر چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد کے سپرد کر دیا گیا۔
رضوانہ نے صحت یاب ہونے کے بعد آج پہلی بار میڈیا، جیو نیوز سے گفتگو کے دوران کہا کہ میں بہت خوش ہوں، سب نے میرا بہت خیال رکھا ہے، پہلے میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی، ڈاکٹروں اور نرسوں نے میرا بہت خیال رکھا۔
رضوانہ کا کہنا تھا کہ اللّٰہ نے مجھے دوسری زندگی دی ہے، مجھے کوکنگ کا شوق ہے، چائلڈ پروٹیکشن میں کوکنگ سیکھو گی، میری بڑی بہن سونیا بھی میرے ساتھ رہے گی۔
رضوانہ نے جیو نیوز سے گفتگو کے دوران مزید کہا کہ امی کی یاد آ رہی ہے، امی کو بتایا ہے کہ میں اسپتال سے جارہی ہوں۔
رضوانہ نے تلخ ماضی سے متعلق بات کرتے ہوئے جیو نیوز کو بتایا کہ گلا دبا کر مارا جاتا تھا اور آنکھوں میں سیدھی انگلیاں ماری جاتی تھی، سر پر ڈنڈے مارتے تھے اور پرانے زخموں پر بھی ڈنڈے مارے جاتے تھے، مجھے کبھی بھی کسی ڈاکٹر یا اسپتال نہیں لے جایا گیا۔
رضوانہ کا کہنا ہے کہ کپڑے برتن دھوتی تھی، دن میں 3 سے 4 بار صفائی کرتی تھی، آٹا گوندھتی تھی اور سبزیاں بھی کاٹ کر دیتی تھی، مالکن کو جو چیز ملتی تھی اس سے مارتی تھی۔
رضوانہ نے گفتگو کے دوران مزید کہا کہ مجھے انصاف چاہیے، مالکن کا خاوند اور بچے بھی مارتے تھے، کھانا بھی نہیں دیا جاتا تھا، میں نے بہت بار کہا بس میں بیٹھا دیں میں گھر چلی جاؤ، میری حالت خراب ہوئی تو مالکن صومیہ بس اڈے پر چھوڑنے آئی تھی۔
چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد نے بھی جنرل اسپتال میں رضوانہ سے ملاقات کی، اس موقع پر رضوانہ کو سارہ احمد کے حوالے کر دیا گیا۔
یاد رہے کہ بر وقت علاج نہ ہونے پر رضوانہ کے زخموں میں کیڑے پڑ گئے تھے۔
میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچی کے سر سمیت جسم پر 15 جگہ چوٹوں کے نشان تھے، بچی کے اندرونی اعضا بھی متاثر تھے۔
رضوانہ کو علاج کے لیے سرگودھا سے لاہور منتقل کیا گیا تھا۔
رضوانہ تقریباً 5 ماہ جنرل اسپتال میں زیرِ علاج رہی ہے۔