دُھوپ کی حدّت بڑھ گئی تھی۔ نگران جیپ پھر قافلے سے کچھ فاصلے پر چلی گئی تھی۔ ڈرائیور کی نشست کے ساتھ بیٹھا گِدھ کی چونچ جیسی ناک والا افسر شاید بیٹھے بیٹھے سو گیا تھا۔ جیپ کے جھٹکوں سے اس کی گردن ہلکورے لے رہی تھی، لیکن پچھلی نشست پر بیٹھے تینوں سپاہی چوکنّا تھے۔ ان کی بندوقوں کا رُخ قافلے کی طرف تھا۔ پہلا سپاہی امریکی تھا۔ جیپ جب قافلے کے قریب سے گزری تھی، تو اسمٰعیل نے اُس کے لمبے قد کے سبب اُسے پہچان لیا تھا۔ دوسرے کا رنگ سُرخ تھا اور رُوسی معلوم ہوتا تھا، جب کہ تیسرا غالباً انگریز یا جرمن یا فرانسیسی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی وسیع سر زمین سے سمٹ کر یہ سارے ابلیس فلسطین کی تنگ وادی میں جمع ہو گئے تھے۔
’’مسلمانوں کے جان و مال کو اب اللہ تعالیٰ ہی ان شیطانوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ یہ سب قیامت کی نشانیاں ہیں۔‘‘ بوڑھے لطیفہ گو، نعم بن احسان نے اسرائیلی حملے کی خبر سُن کر زندگی میں شاید پہلی بار کوئی سنجیدہ بات کہی تھی۔ وہ لوگ اُس وقت عشا کی نماز پڑھ کر حسبِ معمول خویلد کے احاطے میں جمع ہوئے تھے اور پیش قدمی کرتی اسرائیلی فوج کے بارے میں اس طرح بے فکری سے گفتگو کر رہے تھے، جیسے کھجوروں کی اگلی فصل سے متعلق پیش گوئی کر رہے ہوں۔ ’’مَیں تمہیں بتا رہا ہوں کہ جلد یا بدیر یہودی اس علاقے پر قبضہ کر لیں گے۔‘‘ خویلد نے کہا۔ ’’ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘ ابنی معنیٰ نے کہا ’’مَیں آج دن بھر دمشق اور قاہرہ کے پروگرام سُنتا رہا ہوں۔‘‘
پورے قبیلے میں صرف اُس کے پاس ہی ٹرانزسٹر ریڈیو تھا اور وہ گفتگو کے دوران اکثر اُس کا ذکر لے آتا ۔ ’’مصری فوج ایلات اور غزہ میں کیل کانٹے سے لیس کھڑی ہے۔ جنگ شروع ہوتے ہی اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔‘‘ خویلد نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا، ’’میری یہ بات اچّھی طرح ذہن نشین کر لو کہ اسرائیل اتنی آسانی سے ختم نہیں ہو گا۔ دجّال کا ظہور قریب ہے۔ یہ وہ دَور ہے، جس سے رسول کریمﷺ بھی اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔ اللہ کے نیک بندے دجّال سے جہاد کرتے ہوئے شہید ہو جائیں گے، جب کہ دوزخی اس کی حکومت پر قانع ہوں گے۔ چالیس سال تک …سُنتے ہو چالیس سال تک یا چالیس مہینے تک وہ انسانی آبادیوں پر اس قدر ظلم کرے گا کہ لوگ زمین سے کہیں گے، شق ہو جا اور ہمیں پناہ دے۔
یہ دجّال مصری فوج کے ہاتھوں نہیں بلکہ حضرت عیسیٰ ابن مریم ؑ کے ہاتھ سے مارا جائے گا۔ جانتے ہو، کس جگہ مارا جائے گا۔ لدّا نامی ایک پُختہ اور اس قدر چکنا میدان ہو گا کہ گھوڑے اُس پر دوڑ نہیں سکیں گے۔ وہاں حضرت عیسیٰؑ اُسے اپنے نیزے سے ہلاک کریں گے۔‘‘ ’’یہودیوں نے اپنا ہوائی اڈّا لدّا ہی میں قائم کیا ہے۔‘‘ ارقم نے لقمہ دیا۔ ’’ یہودیوں کے جنرل کا نام موشے دیّان ہے اور سُنا ہے کہ وہ ایک آنکھ سے کانا بھی ہے۔‘‘ نعم بن احسان نے کہا۔ اور پھر سب نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا، جیسے حضرت عیسیٰؑ آسمان سے اُتر چکے ہوں۔
انہوں نے دجّال کو ہلاک کر دیا ہو اور اب کہیں کوئی خطرہ نہ ہو۔ نیز، صلیب توڑ دی گئی ہو اور خنزیر سب کے لیے حرام قرار دے دیا گیا ہو۔ پھر جب تم کافی رات گئے چوپال سے گھر واپس گئے، تو تم نے یہ ساری گفتگو اُمّ القریش کو سُنانے کے بعد کہا کہ’’ اُس وقت شاید ہماری قریش موجود ہو گی اور حضرت عیسیٰؑ کا دیدار کرے گی۔‘‘ پھر تم نے اور اُمّ لقریش نے قریش کو پیار کیا، جو سوتے میں کسمسارہی تھی اور سو گئے۔
پھر فجر کی نماز سے پہلے دھماکوں سے تمہاری آنکھ کھلی، تو بئرالجنّہ کی جھونپڑیاں اور کھجوروں کے درخت جل رہے تھے۔ سب سے پہلے چار سال کی قریش تخت سے کُود کر کھڑی ہو گئی۔ تم اور اُمّ القریش اپنا کمبل، چادر اور صندوق مکان سے باہر پھینک رہے تھے، تو قریش نیند میں بھاگتی ہوئی باہر نکل گئی اور جب تم دونوں اپنی بندوقیں اور کارتوسوں کی پٹّیاں اُٹھائے باہر آئے، تو قریش غائب تھی۔
قبیلے کی تمام جھونپڑیاں اور خیمے جل رہے تھے اور اُونٹ میدان کی طرف بھاگ رہے تھے۔ قیامت کی اُس سُرخ آگ کی طرح، جو یمن سے شروع ہو گی اور پورے رُوئے ارض کے لوگوں کو ہانکتی ہوئی میدانِ حشر کی طرف لے جائے گی، یہ بھی ایک قیامت خیز آگ تھی، جو بنوسلام کے مَردوں، عورتوں اور بچّوں کو ہانک کر بئرالجنّہ کی کھجوروں کی طرف لے جارہی تھی، لیکن نفسا نفسی کا عالم نہیں تھا۔ لوگ اپنا ضروری سامان، اسلحہ اور بچّے ساتھ لانا نہیں بُھولے تھے۔ اُمّ القریش دیوانوں کی طرح جلتی چٹائیوں اور چٹختی لکڑیوں کے درمیان اپنی چہار سالہ بیٹی کو ڈھونڈھ رہی تھی اور تم اُس کے پیچھے دوڑتے ہوئے اُسے بھاگنے سے منع کر رہے تھے، کیوں کہ آسمان پر ایک دوسرا جہاز نمودار ہو گیا تھا، جو فضا میں غوطے لگا کر لوگوں کی بھاگ دوڑ کا مشاہدہ کر رہا تھا۔
پھر تمہیں ابن معنیٰ دکھائی دیا، جس نے اُمّ القریش کو حاصل کرنے کے لیے تمہیں راستے سے ہٹانا چاہا تھا، جس نے تمہیں ابوالمحیط کی گھاٹی میں مباہلے کے لیے للکار ا تھا اور پھر مقابلے میں شکست کھا کر ایک شریف عرب کی طرح تمہارے حق میں دست بردار ہو گیا ۔ ابنِ معنیٰ نے اپنی گود میں بے ہوش قریش کو اُٹھا رکھا تھا۔ آسمان میں اُڑتے عفریت کا، جو اپنے ساتھ جہنّم لائے تھے، کوئی شعلہ قریش کی ننّھی ننّھی ٹانگوں کو جُھلستا ہوا گزر گیا تھا۔ تم آگے بڑھتے رہو اسمٰعیل! قریش اب شاید کبھی نہ چل سکے گی۔ وہ تمہاری پُشت پر بے ہوش پڑی ہے اور اس وقت وہ ابنِ معنیٰ کی گود میں بے ہوش پڑی تھی۔ اُمّ قریش نے اُسے ابنِ معنیٰ کی گود سے نہیں لیا اور اُسے گھورتی ہی رہ گئی۔ اب تم جب بھی اُمّ القریش کو چشمِ تصوّر سے دیکھو گے، تو وہ تمہیں پتّھر کے بُت کی طرح ہی نظر آئے گی۔
اُس کی پتھرائی ہوئی ا ٓنکھیں خلا میں گھور رہی ہوں گی، جہاں امریکا، جرمنی اور برطانیہ سے آئے عفریت پرواز کرتے ہیں اور نہتّی اور پُر امن آبادیوں پر نیپام بم پھینکتے ہیں۔ تم آگے چلتے رہو اسمٰعیل! قریش کی ٹانگیں جل گئی ہیں اور اُمّ القریش پتّھر کا بُت بن گئی ہے۔ تم نے اس کا بازو پکڑ کر بئرالجنّہ کی طرف کھینچا، جیسے کنویں کا ٹھنڈا پانی اُس آگ کو بُجھا دے گا، جس نے اُس کی رُوح کو جُھلسا دیا ہے۔
پھر جب لوگ کھجوروں کے چھتنارے میں جمع ہو گئے، تو خویلد نے اُن کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’دجّال کا ظہور ہو چُکا ہے اور اس سے پہلے کہ اُس کا لشکر نخلستان کا محاصرہ کرے اور ہمارے بھاگنے کی تمام راہیں مسددود ہو جائیں، ہمیں ندی کی طرف بھاگ جانا چاہیے۔‘‘ لیکن ابنِ معنیٰ نے اس کی مخالفت کی۔ اس نے کہا کہ ’’شمال اور مغرب سے ہمارے دوست ممالک کے جہاز بس آیا ہی چاہتے ہیں۔
جنگ اب شروع ہو گئی ہے اور تم دیکھنا کہ جب رُوسی اسلحے سے لیس مصری فوج تل ابیب میں داخل ہو گی، تو اسرائیلی جہازوں کو یہاں تک پہنچنے کی مُہلت ہی نہیں ملے گی۔‘‘ ارقم بن مغیرہ نے بھی بھاگنے کی مخالفت کی۔ گرچہ اُس کی بوڑھی ماں بھی بم باری میں شہید ہو گئی تھی اور اسے کہیں سے مدد ملنے کی اُمید بھی نہیں تھی، لیکن اُس نے کہا کہ ’’تمہیں کیا ہو گیا ہے۔
کیا تم اس سرزمین سے اپنی جان کا تحفہ بچا لے جانا چاہتے ہو، جو تمہیں ارضِ حجاز کے بعد ساری دُنیا سے زیادہ عزیز ہے۔ کیا تم اُس راستے پر اُلٹے پائوں بھاگ جانا چاہتے ہو، جس کے ہر گام پر تمہارے آبائو اجداد کی قبریں ہیں۔ کیا تم ریت کے ان ذرّوں پر اپنے بھاگتے ہوئے قدموں کا سایہ ڈالنا چاہتے ہو، جنہیں تمہارے دادا، حضرت ابراہیمؑ کے مبارک قدموں نے روندا اور جنہیں ابو عبیدہؓ، خالدؓ اور ضرارؓ کے لشکر کے گھوڑوں کی ٹاپوں نے پامال کیا اور وہ بھی محض اس لیے کہ ساری دُنیا کے یہودی سمٹ کر تمہاری پُر امن بستیوں میں جمع ہو گئے ہیں اور ان پر اپنا حق جتا رہے ہیں۔
خدا کی قسم! ہم نے اس زمین کو اُس وقت بھی نہیں چھوڑا تھا کہ جب پورے یورپ کے عیسائی صلیبی جنگوں میں یہاں اپنا حق جتانے کے لیے جمع ہو گئے تھے اور ہم اسے آج بھی نہیں چھوڑیں گے کہ جب سارے یورپ اور امریکا کے ہتھیار اور ہوائی جہاز ہمارے مقدّس مقامات کی بے حرمتی کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔‘‘ جواب میں خویلد نے ایک بار پھر تقریر کی، لیکن اب کی بار اُس کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔ اُس نے کہا، ’’ہم اس لیے بھاگ رہے ہیں کہ ہمارے پاس ہتھیار نہیں ہیں۔ ہم دجّال کے لشکر سے نہیں لڑ سکتے۔‘‘ اور اے اسمٰعیل! تب تمہیں بھی جوش آگیا اور تم نے کہا،’ ’مگر ہم جان دے سکتے ہیں۔ ہماری جانیں قبّۃ الصخریٰ سے زیادہ قیمتی نہیں، جہاں تمام انبیاء نے ہمارے رسول اکرم ﷺ کی اقتداء میں نماز ادا کی تھی اور جو ہمارا قبلۂ اوّل ہے۔
ہماری بیویاں، ہماری اولاد اور ہمارا مال، یہ سب اس دُنیا میں رہ جانے والی اشیاء ہیں۔ خدا کے سامنے ہمیں خالی ہاتھ جانا ہے۔ پھر وہ ہم سے پوچھے گا کہ تم نے اس مقدّس زمین کی حفاظت کیوں نہیں کی، جو مَیں نے تمہارے حوالے کی تھی۔ وہ ہم سے پوچھے گا کہ تم نے کیوں یہ یقین کرلیا تھا کہ یہ دجّال کا لشکر ہے، جب کہ دُنیا میں اسلام ابھی باقی تھا اور قیامت کی دوسری نشانیاں ظاہر نہیں ہوئی تھیں اور اگر واقعی تم نے اسے دجّال کا لشکر سمجھا تھا، تو اپنی آخری سانس تک اس کے خلاف جہاد کیوں نہیں کیا، جب کہ تمہارے ہاتھ چلتے تھے اور تم میں بندوق اُٹھانے کی سکت ابھی باقی تھی۔ نیز، تم یہ بھی جانتے تھے کہ دجّال کے ظاہر ہونے کے بعد دو ہی طرح کے لوگ باقی رہ جائیں گے۔ ایک وہ لوگ، جو اپنی آخری سانس تک اس کے خلاف جہاد کریں گے اور دوسرے وہ، جو اس کے مقابلے سے بھاگیں گے اور اس کے ظلم سہیں گے۔‘‘
چلتے رہو اسمٰعیل ! اپنی بئر الجنّہ والی تقریر مت دُہرائو۔ تمہاری اس تقریر نے اُمّ القریش کی پتھرائی آنکھوں میں چمک پیدا کر دی تھی۔ یہ چمک بھی تم کبھی نہیں بُھول سکتے۔ خویلد نے اپنی غلطی تسلیم کرلی۔ اس نے کہا کہ ’’حملہ آور چاہے اسرائیلی دجّال کا لشکر ہوں یا نہ ہوں، بیت المقدس کی حفاظت کے لیے جان دینا ہر مسلمان کا فرض ہے ۔ پھر قبیلے نے اطمینان کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی اور ندی کی طرف جانے کی بہ جائے بیت المقدس جانے کا عزم کیا۔ مَرد اپنی عورتوں کو ندی کی طرف بھیجنا چاہتے تھے، لیکن وہ جانے پر آمادہ نہ تھیں۔ اسی اثنا ابن معنیٰ نے ٹرانزسٹر کھول دیا۔
عمّان سے ایک پُر عزم آواز سُنائی دی۔ ’’اللہ کے سپاہیو! پوری دنیائے اسلام کی آنکھیں تم پر لگی ہیں۔ قبلہ ٔ اوّل کی حفاظت کے لیے آخری قطرہ ٔخون بھی بہا دو۔ ہمیں کسی دُنیاوی مدد کی ضرورت نہیں۔ کوئی مادّی مقصد ہمارے سامنے نہیں۔ ہماری جزا صرف خدا کے پاس ہے۔ ہم اُس پرچم کو سرنگوں نہ ہونے دیں گے، جسے غازی صلاح الدّین ایّوبی نے پورے یورپ کے پے درپے حملوں کے سامنے بلند رکھا تھا۔ ہم اپنے ہتھیاروں سے لڑیں گے۔
اپنے دانتوں سے لڑیں گے۔ کسی رات کا اندھیرا اور کسی دن کا اُجالا ہمیں بیت المقدس کے سامنے اپنی ایڑیوں پر خون گراتے نہیں دیکھے گا۔‘‘تب قبیلے کا جوش اپنی انتہا کو پہنچ گیاتھا۔ سب نے یک بارگی ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ لگایا۔ عورتوں کی آواز بھی اس نعرے میں شامل تھی۔ جوانوں نے اپنی بندوقیں اور تلواریں ہوا میں اُچھالیں۔ بوڑھوں نے اپنے کارتوسوں کی پیٹیوں پر ہاتھ پھیرا اور اب یہ بات گویا طے ہو گئی کہ جوان عورتیں، مَردوں کے ساتھ رہیں گی اور صرف بوڑھی عورتیں، بچّے اور چند ضعیف مَردوں کے ساتھ ندی کے پار چلے جائیں گے۔ (جاری ہے)