بیتِ ابراہیم ؑکی پہاڑی کا موڑ کاٹتے ہی سورج کی شعائیں سیدھی آنکھوں سے ٹکرائیں۔ دھوپ کی حدّت اچانک بڑھ گئی تھی۔ کچھ دیر میں سورج سوا نیزے پر آجائے گا۔ یہاں سے ندی، ندی سے عمّان اور پھر عمّان سے بھی آگے تک اب اُنہیں کہیں بھی چھائوں نصیب نہیں ہو گی۔ دُھنکی ہوئی رُوئی کے گالوں کی طرح بادلوں کے چند ٹکڑے آسمان پر تیر رہے تھے۔
فلک کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اُسے برص کا مرض لگ گیا ہو۔ بادلوں سے بہت اوپر ایک چیل یا پھر شاید گِدھ فضا میں معلّق تھا۔ فضا کے اس بے کراں سکوت میں وہ نہ جانے کیا تلاش کر رہا تھا۔ وہ اپنے اوپر تنی آسمان کی بوسیدہ اور تپیدہ چادر کے پگھلنے کا منتظر تھا یا پھر صحرا میں چلتے قافلے کو حیرت سے تَک رہا تھا۔ صحرا، جو اُفق تا بہ اُفق پھیلا ہوا ہے اور قافلہ، جس کے سامنے کوئی منزل نہیں۔
یہودی فوجیوں کی نگران جیپ، جو حمض کی جھاڑیوں سے بچنے کے لیے کچھ دُور ہو گئی تھی، پھر قریب آگئی اور مکھیوں کا وہ غول اچانک غائب ہو گیا، جو بئرالجنّہ سے یہاں تک ان کے زخموں سے رِستے لہو کا پیچھا کرتا آیا تھا۔ احمق مکھیاں ٹپکتا، رِستا لہو تو دیکھ سکتی تھیں ،لیکن جمے ہوئے لہو کے نیچے بننے والا ناسور اُن کی آنکھوں سے اوجھل تھا یا وہ وادیٔ ایمن کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی تھیں، جہاں اُن کے لیے اور اُس گِدھ کے لیے بھی، جو نہ جانے کیوں اپنی اُس برادری سے علیحدہ ہو گیا تھا، جو غزہ سے بیت المقدس اور قنطارہ سے ایلات تک ضیافت اُڑانے میں مشغول ہے، کافی غذا موجود تھی۔
وہ تنِ تنہا فضا میں معلّق ہے اور اُس قافلے کو حیرت سے دیکھ رہا ہے، جو وادیٔ ایمن سے زندہ واپس جا رہا ہے۔ اس لُٹے پٹے کارواں میں سیکڑوں بوڑھے، اپاہج مَرد و عورتیں اور کئی ایسے تنومند جوان شامل ہیں، جن کے دونوں ہاتھ پہونچوں سے کَٹے ہوئے ہیں۔ ان کی پیٹھ پر ننگے، بُھوک و پیاس سے نڈھال، زخمی اور جھلسے ہوئے بچّوں کا بوجھ ہے، جب کہ سامنے کوئی مستقبل نہیں، لیکن اس کے باوجود ان کے قدم معلوم سے نامعلوم اور امن و سلامتی کے ننّھے مُنّے گہوارے سے خوف و بے یقینی کی لامحدود وسعتوں کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں کوئی حرکت نہیں۔
جُھکے ہوئے شانوں سے بازو یوں جُھول رہے ہیں، جیسے ان کے جسم کا حصّہ ہی نہیں ہوں۔ چمڑے کی چوڑی پٹّیاں، جن میں باندھ کر انہوں نے بچّوں کو اپنی پُشت پر لادا ہے، ان کی پیشانیوں میں جذب ہوتی جا رہی ہیں اور انہیں اس تکلیف کا احساس تک نہیں ہو رہا۔ خُون، پسینے اور دُھول کی دبیز تہہ میں بنو سلام کے بوڑھے مَردوں کی داڑھیاں اُونٹ کی کمائی ہوئی کھال کی طرح ان کے رخساروں کی دونوں جانب لٹک رہی ہیں اور اُنہیں یہ احساس ہی نہیں کہ اُن کی خواتین کے چار خانے والے کمبل راستے میں کہیں گر گئے ہیں یا انہوں نے بوجھ کم کرنے کے لیے خود ہی گرا دیے ہیں۔
بُھوک، پیاس اور تکان کی سوجن نے اُن کے چہرے کی سلوٹیں ختم کر دی ہیں اور اُن کے قدم بے اختیار آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ جو بچّے بے ہوش نہیں، وہ بھی اپنی ماں یا دادا کی پُشت پر لدے اس طرح خاموش ہیں، جیسے صحرا کے اسی سکوت نے انہیں جنم دیا ہو اور احساسات سے انہیں کوئی واسطہ نہ ہو۔ کارواں جا رہا ہے، لیکن احساسات اور متاعِ کارواں پیچھے رہ گئی ہے۔
نگران جیپ سے ایک فائر ہوا۔ اسمٰعیل نے چونک کر دیکھا، تو ایک بوڑھی عورت تکان کے سبب یا ٹھوکر کھا کر گر گئی تھی۔ فائر اُس کے شوہر پر ہوا تھا، جو شاید اُسے اٹھانے کے لئے رُک گیا تھا۔ جیپ سے آنے والی گولی نے اُسے بھی بیوی کے پہلو میں لٹا دیا۔ یہ بنو سلام کا ہر دِل عزیز لطیفہ گو، نعم بن احسان تھا۔ وہ اب اس وادیٔ ایمن کو چھوڑ کر نہیں جائے گا اور اُس کی بیوی بھی نہیں جائے گی، جو ابھی تک زندہ ہے اور ناتواں ہونے کے باعث اپنے شوہر کی لاش کو سیدھا تک نہیں کرسکتی۔ قافلے والوں نے صرف ایک بار اس جوڑے کو پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دیکھا اور پھر قدم بڑھا دیے۔
تم بھی چلتے رہو اسمٰعیل! تمہارے ہاتھ پہونچوں سے آگے خالی ہیں اور تمہاری پُشت پر قریش کا بوجھ ہے، جو اپنی جُھلسی ہوئی ٹانگیں بار بار تمہاری بے حِس کمر پر مار رہی ہے۔ آگے بڑھتے رہو… کیوں کہ تمہارے بازوئوں کا آخری قطرۂ خون بھی بئرالجنّہ کی نم زمین میں جذب ہو چُکا ہے اور تمہاری ہتھیلیوں اور انگلیوں سے بنو سلام کے کُتّے کھیل رہے ہیں یا گِدھ ان کا گوشت اُتار رہے ہیں۔ بئرالجنّہ کا میٹھا پانی پیچھے رہ گیا ہے۔ تم آگے بڑھتے رہو… کھجوروں کے چھتنارے میں نرم بھیگی ریت کی سوندھی سوندھی خوش بُو اور رہٹ کی دل کَش آواز سب کچھ پیچھے رہ گیا ہے۔
سنگتروں کے باغ میں آنکھ مچولی کے کھیل، جمعۃ الوداع کی نماز پڑھنے کے لیے بیت المقدس کا طویل اور دل کش سفر، عیدین کے میلے میں نیزہ بازی کے مقابلے، رات کے الائو کے گرد نوجوانوں کی قصیدہ گوئی اور ان کارناموں کی آپ بیتیاں بھی، جو بنو سلام کے بوڑھوں نے تُرکی کے خلیفہ کی فوج میں انجام دیے تھے، سب پیچھے رہ گئے ہیں۔ تم آگے بڑھتے رہو اسمٰعیل! مسجدِ صخریٰ کا طلائی گنبد، مسجدِ عُمر کا محراب اور تمہارے جدّ ِامجد کا مزار بھی پیچھے رہ گیا۔
بنو سلام کا بوڑھا لطیفہ گو، نعم بن احسان بھی پیچھے رہا جا رہا ہے۔ اُسے پلٹ کر نہ دیکھو۔ عید کے میلے میں بنو سلام کے بوڑھے زمین سے زقند لگا کر گھوڑوں کی ننگی پُشت پرجا بیٹھتے تھے اور ان کے جوان بیٹے فخر سے ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ لگاتے تھے۔ نعم بن احسان کی بوڑھی بیوی نہ جانے کتنی دیر اپنی موت کا انتظار کرے گی۔ آسمان کی پہنائیوں میں معلّق گِدھ نے شاید اُسے دیکھ لیا ہے اور وہ آہستہ آہستہ نیچے اُتر رہا ہے۔
بوڑھی عورتیں کھجوروں کے چھتنارے میں بیٹھ کر سارا سارا دن چرخہ چلایا کرتی تھیں۔ چرخے کے ساز پر اُن کے جوانی کی یادوں سے لب ریز گیت پکی ہوئی کھجوروں کی خوش بُو سے بوجھل ہوا میں ارتعاش پیدا کرتے ، چٹائی کی چھت والے مٹّی کے گھروندوں اور بئرالجنّہ کی منڈیر تک پہنچتے، تو نوبیاہتا دُلہنیں منہدی لگے ہاتھ منہ پر رکھ کر آپ ہی آپ لجاتیں اور قبیلے کی دوشیزائیں کنویں کے بڑے ڈول سے گاگر میں پانی اُنڈیلتے کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے مسکراتیں۔
وہ مسکراہٹیں کہاں گئیں؟ وہ منہدی لگے ہاتھ کہاں گئے؟ جوانی کی یادوں سے لب ریز گیت اب ان بوڑھے ہونٹوں سے کبھی نہیں اُبھریں گے، جنہیں بُھوک، پیاس اور بے حسی نے پتّھر کر دیا ہے۔ بچپن کی معصوم مسکراہٹیں چٹائی کی چھتوں کے ساتھ ہی جل کر خاکستر ہو گئیں اور اوائلِ شباب کی ارمان زدہ کراہیں ان وادیوں میں بھٹک رہی ہیں، جہاں گرم اور چنگھاڑتی ہوا اچانک ریت کے تودوں کو ہر ے بھرے نخلستانوں پر لا ڈالتی ہے۔ جوانی کا وہ اوّلین احساس، محبّت کی وہ پہلی کسک… اُمّ القریش! جب یوں معلوم ہوتا تھا، جیسے ساری کائنات کسی کے پائے ناز پر قربان کرنے کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔
ابتدائے گرما کے دنوں میں جب ریت کے تودے آہستہ آہستہ نخلستان کی جانب بڑھتے، تو تم کھجوروں کے گرد مدافعتی باڑھ باندھنے کے بہانے گھنٹوں دُھوپ میں کھڑے رہتے کہ شاید کوئی تانبے کی گاگر اُٹھائے بئرالجنّہ سے پانی بھرنے آئے گا۔ تم ابوالمحجوب کی پہاڑی کے پاس اُونٹ چراتے ہوئے پورا پورا دن کیکر کے تنہا درخت سے ٹیک لگا کر تصوّر میں کسی سے باتیں کرتے گزار دیتے۔
جنگلی بیر کی نئی جھاڑیوں کی تلاش میں تمہارے اونٹ حدِّ نظر سے دُور نکل جاتے اور شام کے وقت اُنہیں تلاش کرنے میں اتنی دیر لگتی کہ ہجرووصال کے جذبات سے پُر کئی نظمیں تیار ہو جاتیں اور جب جاڑے کی راتوں میں بنو سلام کے تمام مَرد ایک بڑے سے الائو کے گرد جمع ہوتے، تو تم بھی قبیلے کے دوسرے جوانوں کے ساتھ اپنے بزرگوں کے بار بار دُہرائے گئے لطیفوں پر اتنے بلند قہقہے لگاتے کہ جیسے تم سے زیادہ زندہ دل اس دُنیا میں اور کوئی نہ ہو۔ تب تمہارے ہر ساتھی کی یہی خواہش ہوتی کہ اُس کے قہقہے کی صدا اُس کی منگیتر تک پہنچ جائے، جو کچھ فاصلے پر ایک دوسرے الائو کے قریب اپنی سہیلیوں کے جُھرمٹ میں بیٹھی ہے اور اپنی پیٹھ جان بوجھ کر مَردوں کی طرف کر رکھی ہے۔
وہ رشک و حسد، وہ مردانہ مقابلے… جب تم نے ابنِ معنیٰ کی للکار کا سرِ میدان جواب دیا تھا۔ آسمان سے آگ برستی رہی اور زمین کا سینہ شق ہو گیا، لیکن تمہاری آنکھ سے آنسو نہ نکلے۔ تمہیں رونا چاہیے تھا اسمٰعیل! تمہیں رونا چاہیے تھا۔ یہودی دو ہزار برس تک دیوارِ گریہ پر روتے رہے اور اب آنسوئوں کی دیوار بہہ کر تمہارے سامنے آگئی ہے، لیکن تم نہیں رو سکو گے۔ تمہاری آنکھیں پتّھر ہو چُکی ہیں اور آنسوؤں کے سوتے خشک ہو گئے ہیں۔’’یہ لوگ کیوں روتے ہیں؟‘‘ بچپن میں ایک بار تم نے اپنے باپ سے پوچھا تھا، تو اُس نے جواب دیا تھا کہ ’’کیوں کہ یہ خدا کی پھٹکاری ہوئی ملعون اور مغضوب قوم ہے۔ اس نے اللہ کے پیغام کو جُھٹلایا اور اللہ نے اس کا شیرازہ بکھیر دیا۔ اب یہ لوگ ہر اُس اُمّت کے لیے نمونۂ عبرت ہیں، جو اچّھوں کو جُھٹلاتی اور بُروں کو اپنا سردار بناتی ہے۔ اے میرے بیٹے! میری بوڑھی آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ جو حشر اس قوم کا ہوا، وہی ہمارا ہونے والا ہے۔
بنو اسرائیل کی جتنی نشانیاں اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بیان کی ہیں، وہ سب ہم میں ظاہر ہو چُکی ہیں۔ ہم نے اپنے ہاتھوں اپنی مرکزیّت کا خاتمہ کر دیا ہے اور نِت نئے نعروں کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ ہم نے دُنیا کو اپنا حاصل بنالیا ہے اور عاقبت کو فراموش کر چُکے ہیں۔ بیٹا! کبھی کبھار قرآنِ شریف کی تلاوت کرتے ہوئے مُجھے محسوس ہوتا ہے کہ جہاں جہاں اللہ تعالیٰ نے ’’یا بنی اسرائیل‘‘ کہا ہے، وہاں اس کا مخاطب مَیں اور میری قوم ہیں۔‘‘ اپنے باپ کی یہ بات اُس وقت تمہاری سمجھ میں نہیں آسکتی تھی، لیکن وہ اپنے جذبات کی رَو میں اس طرح بہہ رہے تھے کہ تم درمیان میں بول نہیں سکتے تھے۔
پھر بھی تم نے ہمّت کرکے دوبارہ سوال کیا کہ ’’لیکن یہ لوگ روتے کیوں ہیں؟‘‘ تو تمہارے باپ نے جواب دیاکہ ’’یہ اپنی سلطنت کو روتے ہیں۔ کئی ہزار برس قبل یہ لوگ یہاں آئے اور اللہ نے انہیں کچھ عرصہ یہاں حکومت کرنے کا موقع دیا، پھر انہوں نے سونے کی پرستش شروع کر دی اور خدا کے کلام کو جُھٹلا دیا۔ اپنے بُروں کی سرداری پر راضی ہوئے اور اچّھوں کو صلیب پر چڑھا دیا۔
آخر کار، اللہ نے ان کا شیرازہ منتشر کردیا۔ ان سے اقتدار چھین لیا اور اب ان کے لیے اللہ کی وسیع سرزمین میں کہیں کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔ ان کے مقدّر میں کوئی سلطنت نہیں ہے، سوائے اس کے کہ دوسروں کی مدد سے یہ کوئی ریاست بنالیں اور پھر دوسروں ہی کی مدد سے وہ قائم رہے یا خود اللہ تعالیٰ اپنے نافرمان بندوں کو سزا دینے کے لیے ان شیطانوں کو اُن پر مسلّط کر دے۔‘‘ (جاری ہے)