• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین جانے کی خواہش تو اُس وقت ہی سے دل میں گھر کرگئی تھی، جب ابنِ انشاء کی کتاب ’’چلتے ہوتو چین کو چلیے‘‘ پڑھنے کا موقع ملا۔ کتاب میں چین کے حوالےسے بیش بہا معلومات کے ساتھ معاشی و اقتصادی ترقی کے لیے چینی قوم کی اَن تھک محنت، لگن اور جدوجہد پر مبنی داستانیں گویاذہن میں نقش ہوکر رہ گئی تھیں، مگر دورئہ چین کی کوئی سبیل نہ بن پاتی تھی۔ 

ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد، جب کتاب میں پڑھی بہت سی باتیں بھی نہ صرف ذہن سے محو ہوگئیں، بلکہ وہاں جانے کی خواہش اور تمنّا بھی دَم توڑچکی تھی، اکتوبر2018ء میں ایک روزایک نجی یونی ورسٹی کے کیمپس ڈائریکٹر، ڈاکٹر قیصر عباس نے اچانک ہمیں بلایا اور’’حوبے یونی ورسٹی، چائنا‘‘ کے تحت ہونے والے ایک سیمینار کا ذکر کیا کہ ’’اس میں شرکت کے لیے آپ کا بھی انتخاب کیا گیا ہے، آپ پاکستانی وفد میں شامل ہوں گے۔‘‘ یوں اچانک چین جانے کی اپنی دیرینہ خواہش پوری ہوتے دیکھ کر بے انتہا خوشی کے ساتھ حیرت بھی ہوئی۔ چین کے اس دورے کے حوالے سے ہونے والی میٹنگ میں بتایا گیا کہ مذکورہ بین الاقوامی مالیاتی کانفرنس کا انعقاد، سی پیک کے تناظر میں ’’ایک خطّہ، ایک شاہ راہ‘‘ کے عنوان سے ’’ہوبے یونی ورسٹی‘‘ میں کیا جارہا ہے۔

پروگرام کے مطابق ہم بیجنگ کے ڈیکسنگ ائرپورٹ پہنچے، تو ہمارا استقبال ایک انتہائی پُھرتیلی خاتون، ڈاکٹرسومن نے کیا۔ تھوڑی دیر بعد دیگر ممالک کے مندوبین بھی آن پہنچے۔ یہاں سے اگلا سفر اسپیڈ ٹرین کے ذریعے کرنا تھا، جس کے لیے ہمیں بس میں سوار کروا کے اسٹیشن کی جانب لے جایا گیا۔ شاہ راہوں پر ٹریفک کا رش ہونے کے باعث اسٹیشن تک پہنچنے میں کافی دیر لگی، لیکن اس دوران مختلف ممالک سے آئے مندوبین کو ایک دوسرے سے تعارف کا موقع مل گیا۔ 

منگولیا، پیرو اور برازیل سے آنے والے شرکاء کے ساتھ اچھی گپ شپ رہی۔ ڈاکٹر سومن، جو تیس پینتیس برس سے زیادہ کی نہیں لگ رہی تھیں، اُن سے اُن کے عہدے اور عُمر سے متعلق استفسار کیا، تو جان کر حیرت ہوئی کہ چند ماہ بعد پچاس برس کی ہوجائیں گی۔ ہم نے اُن کے اس قدر پُھرتی سے تمام امور انجام دینے پر توصیف کی کہ ہمارے ہاں تو عموماً پچاس برس کی خواتین گھٹنوں، کمر درد کا رونا روتے نہیں تھکتیں۔ اسپیڈ ٹرین میں سوار ہونے سے قبل سامان کی مکمل اسکیننگ کے بعد ہمارے ہاتھوں میں ٹکٹس تھما کر قطار میں کھڑا کردیا گیا اور پھر پلیٹ فارم پرٹرین کے آتے ہی سب باری باری سوار ہوکراپنی منزل ’’حوبے یونی ورسٹی‘‘ کی جانب رواں دواں ہوگئے۔

ڈبے میں مجموعی طور پر خاموشی تھی، مگرہم چوں کہ آمنے سامنے کی نشستوں پر براجمان تھے، اس لیے گپ شپ کا سلسلہ جاری رہا۔ وفد میں شامل فاروقی صاحب نے الیکٹرانک ڈسپلے کی طرف توجّہ مبذول کروائی کہ ’’ہم اس وقت تین سو کلو میٹر فی گھنٹے سے بھی زیادہ کی رفتار سے سفر کررہے ہیں۔‘‘ اُن کی بات پر ایک صاحب نے اپنے درمیان میز پر رکھے پانی کے گلاس کی طرف اشارہ کیا اور کہا ’’دیکھیے، پانی میں ذرا بھی ہلچل نہیں ہے۔‘‘

 
حوبے کی ایک مسجد
حوبے کی ایک مسجد

سفر کے دوران ایک دل چسپ واقعہ پیش آیا۔ ایک خاتون جوسز، پانی اور دیگر اسنیکس فروخت کررہی تھیں، اپنی ٹرالی کے ساتھ وہ سامنے سے گزریں، تو کسی نے ایک جوس اٹھایا اور یوآن (چینی کرنسی) دینے چاہے، تو خاتون نے جواب دیا، ’’نومنی، نومنی، وی چیٹ، وی چیٹ۔‘‘ یعنی میں کیش پر فروخت نہیں کرتی، آپ وی چیٹ کے ذریعے الیکٹرانک پیمنٹ کریں۔‘‘ 

ظاہر ہے ہم میں سے کوئی وی چیٹ نہیں کرسکتا تھا، جس پر جوس کا ٹِن واپس رکھ دیا گیا، تو میزبانوں میں سے ایک صاحب نے یک دَم اپنا موبائل فون اُن خاتون کے موبائل کے قریب کیا اور وی چیٹ کے ذریعے ادائی کرتے ہوئے اشارہ کیا کہ آپ جوس لے سکتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ انتظارگاہ میں بھی پیش آیا۔ مجھے واش روم جانا تھا، لیکن ٹوائلٹ رولز باہر لگے ہوئے تھے۔ لوگ آتے اپنا موبائل آگے کرتے، مشین کی مخصوص آوازآتی اور ٹشوپیپر باہر آجاتے۔ مَیں نے وہاں کھڑے شخص کو اشارے سے بتایا کہ میرے موبائل میں یہ صلاحیت نہیں ہے، تو اس نے ایک سائیڈ روم سے ٹوائلٹ رول نکالا اور مجھے دے دیا۔ مَیں نے حسبِ ضرورت ٹوائلٹ پیپر لیا اور رول اسے واپس کردیا۔

رات گیارہ بجے حوبے کی مشہور یونی ورسٹی کے وسیع احاطے میں قائم، فور اسٹار سہولتوں سے مزّین ہوٹل پہنچے، تو طلبہ اور اساتذہ کے ایک گروپ نے ہمارا بھرپور استقبال کیا۔ چوں کہ رات خاصی ہوچکی تھی، لہٰذا جلد ہی ہمیں اپنے اپنے کمروں میں پہنچادیا گیا۔ اگلے دن صبح ناشتے پر میزبانوں اور دیگر ممالک سے آئے شرکاء کے ساتھ گھلنے ملنے اور بات چیت کا کافی وقت ملا۔ افتتاحی تقریب میں حوبے یونی ورسٹی کے سربراہ، ڈاکٹر ڈائے نے تمام شرکاء کی آمد پر تشکّر کے کلمات کے بعد ’’ایک خطّہ، ایک شاہ راہ‘‘ کے حوالے سے منعقدہ کانفرنس کی غرض و غایت تفصیل سے بیان کی۔ 

اُن کے خطاب کے بعد ہمارے وفد میں شامل ڈاکٹرخیرالزّماں نے پُرمغز خطاب کیا۔ چائے کے وقفے کے بعد باہمی گفتگو پر مبنی دوسرے سیشن میں ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے مقرر نے ’’ہنڈی اور حوالہ‘‘ کے موضوع پر سیرحاصل گفتگو کی، جس کے بعد موجودہ مالیاتی نظام کی خامیوں پر شرکاء نے اپنی اپنی رائے اور خیالات کا اظہار شروع کردیا۔ ہم نے بھی موقع غنیمت جانا اورتمام شرکاء کی توجّہ سودی نظام سے پیدا ہونے والی مشکلات کی طرف مبذول کروائی، تواس کے مثبت اثرات سامنے آئے۔ روس کے وفد کے سربراہ نے بتایا کہ اُن کے ملک کے کچھ مسلم اکثریتی علاقوں میں اسلامی بینکاری نظام کے حوالے سے اصلاحات ہورہی ہیں۔ 

کانفرنس میں شریک پاکستانی مندوبین
کانفرنس میں شریک پاکستانی مندوبین

اس گفتگو کا فائدہ یہ ہوا کہ دوسرے دن کےاجلاس میں باقاعدہ اسلامی مالیاتی نظام سے متعلق مزید آگہی کے لیے اقدامات کی سفارش کی گئی۔ شیڈول کے مطابق ہمارے وفد میں شامل تمام شرکاءکی تقاریر کانفرنس کے پہلے ہی روز مکمل ہوگئیں، جس کے بعد ہم چین کی سیّاحت اور دیگر پروگرامز کے لیے مستعد ہوگئے۔ جن میں انٹرنیشنل ایکروبیٹک شو، پاکستان ریسرچ سینٹراور حوبے بزنس اسکول کا دورہ اور مقامی کلچرل شو میں شرکت شامل تھی۔

رات آٹھ بجے انٹرنیشنل ایکروبیٹک شو دیکھنے کے لیے ایک بہت بڑے ہال میں داخل ہوئے، تو پتا چلا کہ اسٹیج کے قریب ہماری نشستیں پہلے ہی سے محفوظ ہیں۔ یہاں ڈیڑھ گھنٹے کے دوران ایک درجن سے زائد مظاہرے دیکھنے کو ملے۔ چین، کوریا، منگولیا، روس، برازیل اور دیگر کئی ممالک کے بازی گروں اور قلابازوں نے دم بخود کردینے والے کرتب پیش کیے۔ 

دوسرے روزکانفرنس کے اختتامی اجلاس کے بعد ہمارے وفد کو ’’پاکستان ریسرچ سینٹر‘‘ کا دورہ کروایا گیا۔ ریسرچ سینٹر میں ایک مفصّل میٹنگ میں تجارتی، ثقافتی اور تعلیمی تعاون کے علاوہ ’’سی پیک‘‘ کے حوالے سے دونوں ممالک کی طرف سے عوامی اور حکومتی سطح کے افرادکی شرکت کے ساتھ مستقبل میں پیداواری و دیگراقدامات کے حوالے سے ایک خاکہ بھی تیار کیا گیا۔ ’’حوبے بزنس اسکول‘‘ کے دورے نے تو ہم سب کو دم بخود ہی کردیا۔

ہمارے وفد میں شامل اراکین، نہ صرف مغربی دنیا کی یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل تھے، بلکہ ان ممالک میں پڑھانے کا تجربہ بھی رکھتے تھے، سب ہی حوبے بزنس اسکول کے لرننگ ماڈل سے متاثر ہوئے۔ یہاں بزنس کی تعلیم کے ہر پہلو کو عملی طورپر طلبہ کے سامنے پیش کرنے کا بہترین انتظام ہے۔ بینکاری سے آگاہی کے لیے ایک کمرے میں بینک سے متعلق مکمل سہولتوں کے ساتھ طلبہ اپنے پراجیکٹس کے سلسلے میں حقیقتاً اکائونٹ کھلواتے، کاروباری معاہدات طے کرتے اور منافعے یا نقصان کی تقسیم کاری کرتے ہیں۔ 

بینک سے لے کرمختلف نوعیت کے کاروبار تک تمام معاملات طلبہ خود ہی چلاتے ہیں، اساتذہ صرف رہنمائی اور نگرانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ حوبے بزنس اسکول میں ہمارے لیے سب سے حیران کُن بات سپلائی چین، گوداموں کے انتظام، خام مال اور مینوفیکچرنگ سے ہوتے ہوئے تیارمصنوعات کی تیاری تک ایک مکمل اور مربوط یونٹ کی موجودگی تھی۔ جہاں دورانِ تعلیم طلبہ خام مال کی وصولی سے لے کرمصنوعات کی تیاری تک کے تمام مراحل خود انجام دیتے ہیں اور پھر مکمل آگہی اور عملی تجربے کے بعد ہی متعلقہ انڈسٹری میں قدم رکھتے ہیں۔ یہ ایک حیران کُن انتظام تھا، جو کسی یونی ورسٹی میں ہم نے پہلی مرتبہ دیکھا۔

حوبے یونی ورسٹی میں ہونے والی کانفرنس سے فراغت کے بعد ہمیں بیجنگ لے جایا گیا، جہاں ہماری پہلی منزل دیوارِ چین تھی۔ دیوارِ چین کئی صوبوں میں پھیلی ہوئی ہے اور حوبے سے بھی گزرتی ہے، لیکن میزبانوں نے بتایا کہ بیجنگ سے دیوارِ چین جانا زیادہ بہتر اور قدرے آسان ہے۔ چین کی بہت سی خصوصیات ہیں، دورِجدید میں تو چین کی ترقی حیران کُن ہے، لیکن پہلی مرتبہ چین کے دورے پر آنے والوں کے لیے دیوارِ چین دیکھنا خصوصی اہمیت رکھتا ہے، اور پھر بعض خلانوردوں نے تو یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ خلا سے زمین پر نمایاں نظر آنے والے مقامات میں سے ایک ’’دیوارِ چین‘‘ بھی ہے۔ یہ انسانی ہاتھوں سے تعمیر کردہ واقعی ایک عجوبہ ہے۔ 

ان تمام خیالات کے ساتھ ہمارا سفر جاری و ساری تھا کہ تقریباً آدھے گھنٹے بعد ڈرائیور نے ایک جگہ گاڑی روک دی اور بتایا کہ یہاں سے آگے کا سفر مخصوص بسوں میں کیا جائے گا۔ سو، وہاں سے ایک چھوٹے سے بازار سے گزر کر مخصوص سرخ رنگ کی بس میں سوارہوگئے اور بس ہمیں لے کر بلندی کی طرف گام زن ہوگئی۔ تھوڑی ہی دیر بعد یہ بس بھی ایک جگہ رُک گئی اور ایک بار پھراُترنے کو کہا گیاکہ یہاں سے پیدل چڑھائی طے کرکے لفٹ تک جانا تھا۔

لفٹ تک پہنچتے پہنچتے اکثر افراد ہانپنے لگے۔ پھرچند منٹوں میں لفٹ نے ہمیں دیوارِ چین کے پہلومیں پہنچا دیا۔ ہم نے دیوارِ چین سے متعلق بے شمار داستانیں، واقعات اور کہانیاں سن اور پڑھ رکھی تھیں، بعض قصّے تو اچھے خاصے دیو مالائی بھی تھے اور کچھ جدید سائنسی دور کے تصدیق شدہ مثلاً دیوارِ چین کا چاند سے نظر آنا۔ شاید انہی باتوں کا اثر تھا کہ یہاں قدم رکھتے ہی یوں لگا، جیسے چاند پر پہنچ گئے ہوں۔

مقامی ہوٹل کا ایک روبوٹ
مقامی ہوٹل کا ایک روبوٹ

دیوار چین کہنے کو تو ایک دیوارہے، لیکن حقیقتاً اچھی خاصی دو رویہ سڑک جتنی کشادہ ہے، جس پربآسانی گاڑیاں دوڑائی جاسکتی ہیں۔ موسم کی خوش گواری اور مخصوص پُرسکون فضا کے باعث وہاں چہل قدمی بہت بھلی لگی۔ وہاں ہررنگ و نسل کے افراد نظرآرہے تھے اور سب ہی دیوار کی حیران کُن تعمیر، کشادگی اور ماحول سے لُطف اندوز ہورہے تھے۔ پہاڑ پر بَل کھاتی دیوارِ چین، پہاڑوں ہی کی طرح کسی جگہ ہم وار، کہیں عمودی تو کہیں ایک دَم نیچے کی طرف جاتی نظرآتی ہے۔ 

گرچہ مختلف فاصلوں پر سیڑھیاں موجود ہیں، اس کے باوجود یہ خم دار اُتارچڑھائی جسمانی صلاحیتوں کا خُوب امتحان لیتی ہے اور بظاہر آسان نظر آنے والے رستے سانس پُھلا دیتے ہیں۔ ایک جگہ نسبتاً ہم وار سطح پردوکمرے بنے نظر آئے، جن سے متعلق بتایا کہ ’’یہ اِردگرد نظررکھنے اور محافظوں کے مورچوں کے لیے بنائے گئے تھے۔‘‘ بہرحال، دیوارِ چین محض ایک دیوار نہیں، بلکہ اس میں ایک مکمل مربوط نظام پوشیدہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، ہر سال تقریباً ایک کروڑ سیّاح اسے دیکھنے آتے ہیں، جب کہ جابجا ماڈلنگ بھی ہوتی دکھائی دیتی ہے کہ کئی نئے شادی شدہ جوڑے دیوارِ چین کے ساتھ یادگار لمحات کو کیمرے کی آنکھ میں ضرور محفوظ کرتے ہیں۔ ہم سب نے تقریباً پورا دن وہاں گزار دیا، مگروقت گزرنے کا پتا ہی نہ چلا۔

بیجنگ میں بلند و بالا عمارات کے علاوہ ٹینامن اسکوائر، گریٹ ہال اور زیرزمین ریل کا نظام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ہمارے پاس وقت کم تھا، لہٰذا، قریب کھڑے مخصوص قسم کے رکشے سے ٹینامن اسکوائرجانے کی بات کی، تو جس طرح اکثر ہر اجنبی کے ساتھ ہوتا ہے، ہمارے ساتھ بھی ہوا کہ رکشا ڈرائیور نے کرائے کی مَد میں اچھی خاصی رقم اینٹھی اور چھے سات سو میٹر آگے جاکر ہمیں پھر اُسی شاہ راہ پرلے آیا اور کہا کہ ’’دائیں طرف ٹینا من اسکوائر ہے، یہاں سے آگے کوئی گاڑی نہیں جاسکتی، لہٰذا آپ کو پیدل ہی جانا ہوگا۔‘‘ ہم نے جزبز ہوکر کہا کہ یہ تو آپ ہمیں پہلے بھی بتا سکتے تھے، تووہ بے نیازی سے کندھے اُچکا کر آگے بڑھ گیا۔ بہرحال، ٹینا من اسکوائرمیں خوب سیر و تفریح کے بعد رات گیارہ بجے ہوٹل پہنچے۔ صبح روانگی تھی، واپسی کی تیاری کرتے ہوئے ہم مطمئن تھے کہ ہمارا چین کا پہلادورہ بہت سے اہداف لیے خاصا کام یاب ثابت ہوا۔

چائنیز فوڈ اسٹریٹ
چائنیز فوڈ اسٹریٹ

اگست2023ء میں حوبے یونی ورسٹی سے’’ایک خطّہ، ایک شاہ راہ‘‘ کے موضوع پر ہونے والی دوسری کانفرنس میں شرکت کے لیے ہمارے گزشتہ وفد ہی کو ایک بار پھر دعوت دی گئی۔ دعوت نامہ موصول ہوتے ہی ہم نے ابنِ انشاء کی کتاب ’’چلتے ہو تو چین کو چلیے‘‘ ڈائون لوڈ کرکے اُس کا عرق ریزی سے مطالعہ شروع کردیا۔ مذکورہ کانفرنس میں پاکستان سے مجھ سمیت صرف تین افراد شریک ہوسکے۔ اور اس بار ہم لاہور سے دوحا، قطر سے ہوتے ہوئے ایک لمبے سفر کے بعد ڈیکسنگ بیجنگ اُترے، تو مسٹر ’’ما‘‘ اور اُن کے دیگر ساتھی ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ہمیں ما نے بتایا کہ سری لنکا کے بریڈلی ایمرسن بھی پہنچنے والے ہیں، اس لیے ہمیں اُن کا انتظار کرنا پڑے گا۔ مَیں نے اس وقت کو غنیمت جانا اور ما سے کہا کہ مجھے سِم خریدنی ہے، کیوں کہ چین میں واٹس ایپ اور فیس بُک وغیرہ نہیں چلتے۔

ما کی انگریزی مناسب تھی، گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا، تو انھوں نے بتایا کہ ’’ہمارے آبائو اجداد مسلمان تھے، ہم نہ شراب پیتے ہیں، نہ ہی سوَر کھاتے ہیں۔ تاہم، اسلام سے متعلق زیادہ نہیں جانتے۔‘‘ شرکاء اکٹھے ہوگئے، تو ما ہمیں بیجنگ سی اسٹیشن کی طرف لے چلے، جہاں سے بذریعہ اسپیڈ ٹرین حوبے پہنچنا تھا۔ اس بار بھی اسپیڈ ٹرین کا سفر خوش گوار تھا، لیکن سیکیوریٹی کے انتظامات کچھ زیادہ سخت نہ تھے، جب کہ چار سال قبل خاصی سخت سیکوریٹی تھی۔ خیر، رات گیارہ بجے نیو ورلڈ ہوٹل پہنچے تو ڈاکٹر آکٹیویاگوا نے یونی ورسٹی کے دیگر اسٹاف کے ساتھ ہوٹل سے باہر استقبال کیا اور پُرجوش انداز میں خوش آمدید کہا، پھر جلد ہی کمروں کے کِی کارڈز اور صبح کا پروگرام بتا کر رخصت ہوگئیں۔

صبح ناشتے کے بعد یہ جان کر الجھن ہوئی کہ محض ایک گروپ فوٹو کے لیے آدھا گھنٹہ مختص کیا گیا ہے۔ ناشتے کے بعد آٹھ بجے سے پانچ منٹ قبل گروپ فوٹو کھنچوانے کے لیے تقریباً تمام شرکاء پہنچ چکے تھے۔ مجھ سمیت غیرملکی مندوبین کے نام آویزاں تھے، جہاں انھیں بیٹھنا یا کھڑے ہونا تھا۔ ٹھیک آٹھ بجے مہمانِ خصوصی اپنی مخصوص نشست پر براجمان ہوگئے۔ پھر ایک خاتون ہدایات دینے لگیں۔ 

شرکاء کو اُن کے قد کے مطابق ترتیب سے کھڑا کیا، سب کے باڈی پاسچرز درست کیے گئے اور وہ یہ تمام ہدایات مائیک پر اسپیکر کے ذریعے دیتی رہیں، تاکہ متعلقہ شخص کو سننے میں دقّت نہ ہو۔بالآخر تقریباً20منٹ کی محنت کے بعد انہوں نے فوٹوگرافر کو اشارہ کیا، جس نے چند لمحوں میں گروپ فوٹو لے لیا، تب جا کر ہمیں اپنی جگہ چھوڑنے کی اجازت ملی۔اس دوران مَیں یہی سوچتا رہا کہ وہ قوم، جو ایک گروپ فوٹواس قدر باریک بینی سے بناتی ہے، وہ باقی کام بھی اسی تَن دہی سے کرتی ہوگی۔ تب ہی تو آج چین، دنیا بھر کے معاشی نظام پر تقریباًمکمل کنٹرول حاصل کرچکا ہے۔

کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں پانچ ممالک کے نمائندوں نے تقاریر کیں، جن میں پاکستان، برازیل، پیرو، سری لنکا اور برطانیہ کے علاوہ چین کے مختلف اداروں کے نمائندے بھی شامل تھے۔ دیوار پر ایک بڑی اسکرین آویزاں تھی، جو دو حصّوں میں تقسیم تھی، ایک حصّے میں پریزینٹیشن سے متعلق اور دوسرے میں مندوبین کے حوالے سے تفصیلات بتائی جارہی تھیں۔ 

افتتاحی تقریب میں ڈاکٹر ڈائے نے اپنی تقریر کے دوران اسلامی مالیاتی نظام کی خوبیوں اورسود کی خرابیوں کا مفصّل تذکرہ کیا۔ اس بار کانفرنس ایک روزہ ہی تھی۔ تین متوازی سیشنزاور پاکستانی مندوبین کی تقاریر کے بعد شام چھے بجے کانفرنس اختتام پذیرہوگئی۔ جس کے بعد ہم فارغ اور شہر کے مختلف مقامات ہمارے منتظر تھے۔ سو، ہم نے سب سے پہلے چین کے صدر، شی جن پنگ کا آبائی شہر، ژنگ دنگ دیکھنے کا فیصلہ کیا۔

بس میں سوار ہونے سے قبل اسٹاپ کے سامنے خُوب چہل پہل نظر آئی، تو ہمارے استفسار پر بتایا گیا کہ یہ فوڈ اسٹریٹ ہے۔ بس کی روانگی میں آدھا گھنٹہ باقی تھا، لہٰذا ہم فوڈ اسٹریٹ کی جانب بڑھ گئے۔ وہاں طرح طرح کے چائنیز کھانوں کے اسٹال لگے ہوئے تھے۔ باربی کیو، نوڈلز، چاول اور اَن گنت چھوٹے بڑے اسٹالز پر بے شمار پکوان سجے ہوئے تھے، صفائی کا معیار بھی بہترین تھا۔ 

اپنے اپنے اسٹالزپر خواتین وحضرات کاموں میں مصروف تھے اور روایتی انداز میں خوش آمدید کہنے کے ساتھ اپنے پکوانوں کی طرف بھی توجّہ مبذول کروارہے تھے۔ایک اسٹال پر ہماری نظر پـڑی تو دم بخود رہ گئے۔ وہاں بڑے بڑے بچّھو، موٹی موٹی مکھیاں اورچیونٹیاں لکڑی کی سیخوں پر لگی ہوئی تھیں، جنھیں ڈیپ فرائی کرکے کھانے کے لیے رکھا گیا تھا۔ یہ ہمارے لیے حیران کُن ہی نہیں، طبیعت خاصی مکدّر کرنے کا باعث بھی بنا کہ ہم تو یہ کیڑے مکوڑے، خصوصاً بچّھو دیکھ کر ہی گھبراجاتے ہیں۔ یہاں اُنھیں باقاعدہ فرائی کرکے کھایا جارہا تھا۔

اگلے دن صبح مقامی بدھ مندر کے دورے کا پروگرام تھا، اس قدیم اور وسیع وعریض مندرمیں الگ الگ تین عبادت گاہیں بھی ہیں۔ جہاں عبادت کے لیے آنے والے مَردو زن، بدھا کے مجسّمے کے سامنے رکھے چھوٹے سے نرم دیوان پر یا تو ماتھا ٹیک دیتے یا گھٹنے کے بَل سر جُھکا کر بیٹھ جاتے اور ہاتھ باندھ کر دعائیں مانگتے اور پھر آگے بڑھ جاتے۔ مندر کے باہرایک جگہ ڈھیروں سُرخ پٹیاں بندھی نظر آئیں، قریب ہی ایک جوڑا سُرخ پٹیوں پر کچھ لکھ رہا تھا۔ ہمارے استفسار پر بتایا گیا کہ یہ سب پٹیاں خواہشات کی تکمیل کے لیے لگائی گئی ہیں اور یہ جوڑا بھی اسی اُمید پر یہاں اپنی لکھی ہوئی پٹّی لٹکا رہا ہے کہ اُن کی دلی مُراد پوری ہوجائے۔

شہر کی سیّاحت کے بعد چیک آئوٹ کے لیے ایک بار پھر ہمیں حوبے یونی ورسٹی اور پھر وہیں سے ائرپورٹ جانا تھا۔ اپنے ہوٹل نیو ورلڈ سے نکل کر لفٹ میں سوار ہونے لگے، تو ایک دَم ایک روبوٹ سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ ہوا کچھ یوں کہ ہم لفٹ میں داخل ہونے لگے تو اچانک ایک رُوبوٹ نے، جو پہلے ہی سے لفٹ میں موجود تھا، انگریزی میں کہا ’’ٹھہرئیے، مجھے اُترنے دیجیے۔‘‘ تو ہم فوراً پیچھے ہٹ گئے اور رُوبوٹ لفٹ سے باہر آگیا۔ 

پھر باہر نکلتے ہی وہ مخصوص انداز میں گویا ہوا ’’میری وجہ سے آپ کو تکلیف ہوئی، جس کی مَیں معذرت چاہتا ہوں۔ میری دُعا ہے، آپ کا دن اچھا گزرے۔‘‘ اورپھر ’’بائے‘‘ کہتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ بہرحال، شام کے کھانے کے بعد مسڑما ہمیں بیجنگ تک چھوڑنے آئے، جہاں سے ہمیں واپسی کی فلائٹ لینی تھی۔ اور یوں ہمارا چین کایہ خوب صورت سفر اچھی یادوں کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔