ایک حالیہ سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 35؍ سال سے زائد عُمر کی ایک کروڑ سے زیادہ خواتین شادی کے انتظار میں بوڑھی ہو رہی ہیں۔ ہمارے مُلک کے خصوصاً بڑے شہروں میں لڑکیوں کی شادی ایک بڑا، گمبھیر مسئلہ بنتی جارہی ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف والدین بہت پریشان ہیں بلکہ ایسی بہت سی لڑکیاں، جن کی شادی میں کافی تاخیر ہو چُکی ہے، متعدّد نفسیاتی الجھنوں کا بھی شکار ہو رہی ہیں۔ حقیقتاً لڑکیوں کی شادی میں تاخیرکی درج ذیل اہم وجوہ ہیں۔
٭لڑکیوں کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا ٭مُلکی حالات کی وجہ سے لڑکوں کی بے روزگاری یامناسب روزگار نہ ملنا ٭خاندان / برادری میں شادی کرنا ٭پہلے بڑی بیٹی کا رشتہ طے کرنے پر مُصررہنا ٭جہیز اور دیگر فضول رسومات کے ضمن میں مالی پریشانیاں ٭ دینِ اسلام کے اصولوں پر عمل پیرا نہ ہونا۔
عمومی طور پر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے دوران لڑکیوں کی عُمریں بڑھ جاتی ہیں۔ پھر جو لڑکیاں ڈاکٹرز، انجینئرز بن جائیں یا ماسٹرز وغیرہ کی ڈگری یافتہ ہوں، تو لڑکوں کی ایک بڑی تعداد سے اُن کا صحیح جوڑ نہیں بن پاتا۔ لڑکے فطرتاً کم سنجیدہ، لا ابالی ہوتے ہیں۔
پڑھائی، ملازمت،کسی ہُنر میں طاق ہونے کے لیے بھی جلد سنجیدہ نہیں ہوتے، تو اُن کو ویل سیٹل ہونے میں بھی وقت لگتا ہے، جب کہ عموماً والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹیوں کے لیے کوئی ویل سیٹلڈ لڑکا ہی موزوں رہے گا۔
نیز، یہ کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی اگر ملازمت پیشہ بھی ہو تو اُس کی آمدن، کم تعلیم یافتہ لڑکے کی آمدن سے زیادہ ہوتی ہے، تو ایسے لڑکوں سے بھی لڑکیوں کے والدین رشتے کے لیے راضی نہیں ہوتے۔ پھر ہمارے معاشرے میں خاندان، برادریوں میں شادی کا رواج عام ہے۔ برادری میں مناسب رشتہ نہ ہو تو والدین سخت سوچ بچار کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔
نیز، جہیز کی لعنت بھی اپنی جڑیں بہت مضبوط کرچُکی ہے۔ حالاں کہ یہ بھاری بھرکم جہیز، فضول رسومات اور بارات کا کھانا وغیرہ ہندوانہ کلچر ہے، جو برِصغیر ہند میں ہندوؤں کے ساتھ رہ کر ہم نے اپنایا۔ اسلام میں بارات کا کوئی تصوّر نہیں۔ قرآن شریف، احادیث، حتیٰ کہ عربی زبان میں بارات کا لفظ تک موجود نہیں۔
مگر ہمارے یہاں لڑکے والے سیکڑوں لوگوں کو باراتی بنا کر شادی کے لیے لے جاتے ہیں اور لڑکی کے والدین کو اُن کے لیے مختلف اقسام کے کھانے شادی ہال وغیرہ کے انتظامات کی مَد میں لاکھوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں، اس کے علاوہ منہدی، مایوں جیسی فضول رسومات بھی مالی پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔
محض معاشرتی دباؤ کے سبب دکھاوے، جھوٹی شان و شوکت پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کی روایت بھی لڑکیوں کی شادیوں میں تاخیر کا باعث بن رہی ہے۔ ان سب مسائل کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے دین کے احکامات نظر انداز کردیئے ہیں۔ ہمارے مذہب میں ہر معاملے میں سادگی، میانہ روی اختیار کرنے پر زور دیا گیا ہے، خصوصاً لڑکیوں کی شادی کے ضمن میں والدین پر کسی قسم کی کوئی مالی ذمّے داری نہیں ڈالی گئی۔
شادی کی اصل خوشی تو لڑکے والوں کو ہوتی ہے کہ لڑکے کا گھر بس رہا ہوتا ہے۔ لڑکی کے والدین کے لیے تو کسی قدر دُکھ کا موقع ہوتا ہے۔ اُن کی نازوں پلی بیٹی رخصت ہوتی ہے۔ والدین، بہن بھائیوں، عزیز و اقارب، سکھیوں سہیلیوں سے جدائی کا دُکھ آنسوئوں کی شکل میں بہتا ہے۔
دوم، والدین بیٹی کے مستقبل کے حوالے سے فکرمند بھی ہوتے ہیں کہ جانے سسرال میں اُس کے ساتھ کیسا برتاؤ ہوگا، وہ خوش رہے گی یا نہیں۔ بہرکیف، بچیوں کی شادی میں تاخیر جیسے اہم مسئلے کے حل کے حوالے سے درج ذیل تجاویز مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔
٭لڑکا تعلیم اور مالی لحاظ سے لڑکی کے برابر نہ بھی ہو تو سمجھوتا کرکے رشتہ طے کرنے پر غور کرنا چاہیے، البتہ لڑکے کے کردار ،خاندان کی اچھی طرح چھان پھٹک ضروری ہے۔ ٭چھوٹی بیٹی کا اچھا، مناسب رشتہ آجائے تو فوراً طے کردیا جائے، بڑی کے انتظار میں چھوٹی کی عُمر ہرگز نہ نکالی جائے۔ ٭لڑکا عُمر میں برابر یا تھوڑا کم بھی ہو اور باقی معاملات مناسب ہوں، تو رشتے سے انکار نہیں کیا جائے۔
ہمارے پیارے نبی ﷺ کی پہلی شادی 25؍ سال کی عُمر میں ہوئی تھی، جب کہ حضرت خدیجہؓ کی عُمر 40؍ سال تھی۔ ٭خاندان، برادری میں شادی کا رواج عموماً دیہی علاقوں میں زیادہ ہےاور وہاں علماء کرام کی ہدایات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے، لہٰذا مقامی سرکردہ افراد سے درخواست کی جائے کہ وہ اپنا فرض سمجھ کرمساجد وغیرہ میں خطاب کے ذریعے لوگوں کو سمجھائیں کہ اسلام میں شادی بیاہ کے لیے ذات برادری کی قید نہیں، کردار و اخلاق کو اہمیت دیں۔ ٭شادی بیاہ میں حتی الامکان سادگی اختیار کی جائے، خاص طور پر لڑکی کے والدین پر کوئی بوجھ نہ ڈالا جائے۔
پاکستان ایک اسلامی مُلک ہے، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ اس حوالے سے قانون سازی کرکے اُس پر سختی سے عمل درآمد بھی کروایا جائے۔ قانون بنایا جائے کہ نکاح صرف مسجد یا گھر میں ہوگا اور بہتر ہے کہ عصر کے وقت ہو تاکہ کھانے وغیرہ کا انتظام نہ کرنا پڑے، صرف چھوہارے یا کھجور نکاح کے بعد تقسیم ہوں۔
مغربی ممالک میں لڑکا، لڑکی چرچ جاکر سادگی سے شادی کی رسم ادا کرتے ہیں۔ تو اِس معاملے میں بھی مغربی روایت قابلِ تقلید ہے،نہ کہ صرف بڑھتی عریانیت ہی کو بطورمثال اپنایا، پیش کیا جائے۔ ٭ صرف ولیمے کی تقریب کی اجازت ہونی چاہیے، جس میں ایک کھانے کا (one dish) قانون پاس کرکے اُس پر عمل یقینی بنایا جائے۔ ٭ قانوناً مہمانوں کی تعداد 200؍ سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے کہ اِس طرح نہ صرف اسراف سے نجات ملے گی بلکہ عام آدمی عزت و آبرو کے ساتھ اپنے فرض سے سبک دوش ہو سکے گا۔٭ ہمارے یہاں عروسی ملبوسات پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کا چلن بھی عام ہے، جب کہ محض ایک دن پہننے کے بعد یہ پہناوے یادگار کے طور پر رکھ دیئے جاتے ہیں۔
حالاں کہ آج کل پاکستان میں بھی یہ ڈریسز کرائے پر بآسانی مل جاتے ہیں۔ جب ایک دن کے استعمال کے بعد پہناووں کو سوٹ کیسز میں سنبھال کر ہی رکھنا ہوتا ہے، تو کیا کرائے پر لے کر پہننا کہیں بہتر آپشن نہیں۔ یوں ’’کم خرچ، بالا نشین‘‘ کا اصول اپنا کر لاکھوں کے زیاں سے بچا جاسکتا ہے۔
لوگوں کے شعور و تربیت کے معاملے میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہے، خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کا۔ اِس کے ذریعے لوگوں کو فضول رسومات سے اجتناب برتنے، سادگی اختیار کرنے پر راغب کیا جائے، جیسا کہ زیادہ ترٹی وی ڈراموں، مارننگ شوز ہی کے ذریعے انہیں پروموٹ کرکے زیادہ رواج دیا گیا، وگرنہ ماضی میں گھروں میں لڑکیاں بالیاں اکٹھے ہو کر تھوڑے بہت ہلّے گُلے کے ساتھ منہدی، مایوں کرلیا کرتی تھیں۔ لڑکیوں کی خوشی بھی پوری ہوجاتی تھی اور والدین پر اضافی بوجھ بھی نہیں پڑتا تھا۔
ہمیں اُمید ہےکہ اگر لڑکیوں کے والدین مندرجہ بالا گزارشات پرعمل کریں، تو اِن شاءاللہ شادیوں میں تاخیر کے مسئلے پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ بہرحال، اس حوالے سے حکومت اور علماء کرام کو بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ (مضمون نگار، سابق ڈائریکٹر، کے ڈی اے ہیں)