الجزائر، شمالی افریقا میں رقبے کے لحاظ سے مِصر سے تقریباً دُگنا ہے، مگر اس کی آبادی بہت کم ہے۔ فی کس آمدنی اور معاشی ترقّی میں بھی یہ مِصر سے بہت پیچھے ہے۔ اس کی سرکاری زبان عربی اور ریاست کا مذہب اسلام ہے، لیکن ہمارے مُلک میں جس طرح قومی زبان اُردو اور دفتری زبان انگریزی ہے، اِسی طرح الجزائر کے اکثر دفاتر میں بھی فرانسیسی زبان کا راج ہے۔ اس کے شمال میں بحرِ متوسّط، شمال مشرقی کونے میں تیونس، مغرب میں مراکش اور جنوب میں صحرائے صہارا اس کے بہت بڑے رقبے پر محیط ہے۔
تقریباً گیارہ ممالک کی سرحدیں دنیا کے اِس سب سے بڑے صحرا سے ملتی ہیں۔ تاریخ اور جغرافیے کی کتابوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ صحرا کبھی ایک آباد، خوش حال اور سرسبز خطّہ ہوا کرتا تھا، لیکن قدرتی عوامل کے تغیّر و تبدّل نے اِسے خشک اور انتہائی گرم علاقہ بنا دیا۔
انسان اِس صحرا سے کٹے ہوئے کبھی نہیں رہے۔ یہ تہذیبی گروہوں، تجارتی قافلوں اور مذہبی تحریکات کی گزرگاہ رہا ہے۔ اس کے مختلف حصّوں میں کچھ قبائل آباد ہیں، جن کی اپنی زبان، تہذیب اور طرزِ بود و باش ہے۔ اِس صحرا کے مغربی حصّے کی ملکیت پر الجزائر اور مراکش کے درمیان طویل عرصے سے تنازع جاری ہے، جس کی وجہ سے دونوں میں مسلّح تصادم بھی ہو چُکے ہیں۔
الجزائر، عثمانی سلطنت کا حصّہ تھا، مگر پھر شمالی افریقا کے کچھ دوسرے ممالک کی طرح اس پر بھی فرانس نے قبضہ کر لیا۔ برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے برّعظیم پاک و ہند کی مغل بادشاہت کو 1803ء میں اپنے زیرِ نگیں کیا اور1857ء میں پورا ہندوستان تاجِ برطانیہ کے تابع ہو گیا۔ الجزائر پر فرانس نے 1830ء میں قبضہ کیا۔مغربی سام راج کی غلامی الجزائر کے عوام نے قبول نہیں کی، لیکن فرانسیسی تسلّط کی گرفت اِتنی سخت تھی کہ آزادی کی کوئی تحریک منظّم انداز میں کھڑی نہ ہو سکی۔
فرانس تقریباً پورے شمالی افریقا پر قابض تھا۔ الجزائر میں تحریکِ آزادی کا سہرا اسکولوں کے اساتذہ کے سر ہے، جنہوں نے ایک طرف اپنے ہم پیشہ افراد میں آزادی کی رُوح پھونکی اور دوسری طرف، اپنے شاگردوں کے دِلوں میں بھی سام راجی غلامی سے نفرت کے جذبات پیدا کیے۔ فرانسیسی سام راج کے خلاف مغربی الجزائر میں پہلی منظّم جہادی تحریک قادریہ سلسلے کے ایک صوفی بزرگ، شیخ محی الدّین الجزائری نے شروع کی تھی۔
اُنہوں نے اپنے بیٹے، امیر عبدالقادر الحسنی الجزائری کو کئی مہمّات کا سالار بنا کر بھیجا۔ ایک عالِمِ دین، روحانی پیشوا اور قادریہ سلسلے کے صوفی بزرگ ہونے کے ساتھ شیخ محی الدّین الجزائری میں جذبۂ جہاد بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ وہ اپنے مُلک کی غلامی پر مضطرب تھے۔
فرانسیسی غلبے کے خلاف جدوجہد میں صاحب زادے، عبدالقادر اُن کے دست و بازو کے طور پر شامل تھے۔ اُنہوں نے اپنے بیٹے کو روحانی، اخلاقی اور مذہبی تعلیم کے ساتھ عسکری تربیت بھی دی تھی۔ امیر عبدالقادرمَردانہ حُسن کا پیکر اور ایمان و اخلاق کا قابلِ تقلید نمونہ تھے۔ وہ1825ء میں اپنے والد کے ساتھ حج کے لیے گئے۔
حج کے بعد عرب دنیا کا مشاہدہ کرنے کے لیے پورے حجاز میں گھومے۔ اُس کے بعد مغربی استعمار کی غلامی میں جکڑے دیگر ممالک کی حالت دیکھنے کے لیے مصر، شام اور بغداد گئے۔ اِس سفر سے واپسی کے بعد کچھ عرصے تک تعلیم کی تکمیل میں مصروف رہے۔1830 ء میں اُنہوں نے باقاعدہ عَلمِ جہاد بلند کیا اور فرانسیسی قبضے کے خلاف مزاحمتی تحریک شروع کی۔
الجزائر میں اسکولز کے اساتذہ نے بھی اپنے شاگردوں میں آزادی کی رُوح پھونکی تھی۔ اِن اساتذہ کے نوجوان شاگردوں میں سے بہت سے امیر عبدالقادر الحسنی کی قیادت میں جہادی لشکر میں شامل ہوئے۔ غلامی نے سیاست دانوں کے جذبے سرد کر دیئے تھے، اِسی لیے فرانس سے آزادی کی اِس تحریک میں کوئی سیاست دان شریک نہیں تھا۔
امیر عبدالقادر الجزائری نے تقریباً پندرہ سال تک عَلمِ جہاد بلند رکھا، لیکن اس کے بعد اُن کے لیے حالات سازگار نہ رہے۔ مراکش کا سلطان اِس جہاد میں اُن کی مدد کرتا تھا، لیکن فرانسیسیوں کے دباؤ پر اُس نے سرپرستی بند کر دی کچھ اور بھی نامساعد حالات پیدا ہوئے۔ امیر عبدالقادر گرفتار کر لیے گئے۔
چار سال تک جیل میں رکھنے کے بعد اُنہیں جلاوطن کر کے بصرہ اور پھر دمشق بھیج دیا گیا۔ وہاں اُنہوں نے انسانی خدمت کو اپنا مشن بنا لیا۔ جلاوطنی ہی کی حالت میں اُن کا آخری وقت آ گیا اور 26مئی 1883ء میں دمشق میں فوت ہوئے اور وہیں ابنِ عربیؒ کے مزار کے ساتھ دفن ہوئے۔ کئی سال بعد5 جولائی 1966ء کواُن کا جسدِ خاکی وہاں سے نکال کر الجزائر میں سپردِ خاک کیا گیا۔
امیر عبدالقادر الجزائری کے انتقال کے بعد بظاہر فرانسیسیوں نے سُکھ کا سانس لیا کہ کئی عشرے الجزائر میں مجموعی طور پر گویا سکوتِ مرگ چھایا رہا، لیکن اِس عرصے میں بھی حریّت کی چنگاریاں پُھوٹتی اور آزادی کی تڑپ پیدا کرتی رہیں۔ فرانسیسیوں نے اپنا تسلّط برقرار رکھنے کے لیے جبر و ستم کو دستور بنائے رکھا۔ آخر بیسویں صدی کے نصف میں، یعنی 1954ء میں جدوجہدِ آزادی کی ایک نئی لہر اُٹھی۔
یہ محسوس کر لیا گیا تھا کہ میدانِ جنگ میں فرانس کی طاقت وَر فوج کا مقابلہ کرنا اور اُسے مُلک سے نکالنا محال ہے، تو بیسویں صدی کے پانچویں عشرے کے اوائل میں گوریلا جنگ شروع کی گئی، جو1962ء تک جاری رہی۔ الجزائر نیشنل لبریشن فرنٹ کی چھتری کے نیچے اِس جنگ کا آغاز ہوا۔ لربی (العربی) بن مہیدی اور احمد بن بیلا جیسے رہنما اس کی قیادت کر رہے تھے۔
العربی بن مہیدی تو فرانسیسیوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے تھے، لیکن احمد بن بیلا نے کچھ دیگر ساتھیوں کے ہم راہ جنگ جاری رکھی۔ ابنِ مہیدی’’حِزب الشّعب‘‘کے عسکری شعبے کے سب سے معروف گوریلا لیڈر تھے۔ وہ الجزائر کی جنگِ آزادی کی نمایاں ترین شخصیت تھے۔اُنہوں نے گوریلوں کو عسکری تربیت دینے کے لیے ایک اسکاؤٹ کا رُوپ دھارا اور اسکاؤٹنگ کیمپ لگا کر نوجوانوں کو عسکری تربیت دیتے تھے۔ 1942ء کے مظاہروں میں گرفتار کیے گئے اور فرانسیسیوں نے اُنہیں بڑی تعذیب اور تشدّد کے بعد سزائے موت دے کر شہید کیا۔
الجزائر کو1962ء میں فرانسیسی جبر سے جو آزادی حاصل ہوئی، وہ تقریباً دس سال کی جنگِ آزادی کا نتیجہ تھی۔ الجیرین لبریشن فرنٹ کے تحت استعماری قوّت سے لڑائی میں ڈیڑھ لاکھ الجزائری شہید ہوئے، جب کہ بیس سے پچیس ہزار فرانسیسی فوجی اور کافی تعداد میں فرانسیسی سویلین بھی مارے گئے۔دونوں طرف سے ڈھائی لاکھ جانی نقصان کا اندازہ ہے۔
حرکی (Harka or Harkis) کی اصطلاح اُن الجزائری باشندوں کے لیے استعمال ہوتی ہے، جنہوں نے قابض فرانسیسیوں کا ساتھ دیا تھا اور اُن کے تحت ملازمتیں یا کاروبار کرتے رہے۔ جنگِ آزادی کے دَوران یا اس کے بعد ایسے لوگوں سے انتقام لیا گیا اور کم و بیش ایک لاکھ’’ہارکس‘‘ مارے گئے۔ جنگِ آزادی میں احمد بن بیلا کے ساتھ ایسے ہیرو بھی شامل تھے، جنہوں نے اس نیشنل لبریشن آرمی میں شامل ہو کر مختلف محاذوں پر اپنا کردار ادا کیا۔ ان میں نمایاں ترین نام مصطفیٰ بن بوالعید، دیدوش مراد، کریم بلقاسم، رابح بیطاط، محمّد بوضیاف اور خواتین میں حسیبہ بنتِ علی اور جمیلہ بوحیرہ وغیرہ نمایاں نام تھے۔
فرانس سے آزادی کے بعد الجزائر کی جو حکومت قائم ہوئی، اُس میں احمد بن بیلا مُلک کے صدر بنے۔ مسلم ممالک کا یہ المیہ ہے کہ اُن میں کہیں بھی مستحکم آئینی حکومتیں قائم نہیں رہ سکیں کہ ہوسِ اقتدار غالب آ جاتی ہے۔ فوجی جرنیل، سِول حکومتوں کا تختہ اُلٹ کر حکومت پر قابض ہو جاتے ہیں یا پھر سیاسی کشمکش میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی حکومت گرا دیتی ہیں۔ احمد بن بیلا الجزائری تحریکِ آزادی کے اہم ترین رہنما تھے۔
اُنہیں حکومت میں ابھی تین ہی سال ہوئے تھے کہ حواری بومدین نے تختہ اُلٹ کر اُنہیں جیل میں ڈال دیا۔ حواری بومدین، نیشنل لبریشن فرنٹ میں عسکری ونگ کے سربراہ تھے۔ آزادی کے بعد وہ کرنل کے عُہدے پر متعیّن ہوئے۔ یہ الجزائری فوج میں سب سے بلند عُہدہ تھا۔ فوج پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد اُن میں طاقت و اقتدار کی حرص اُبھری اور احمد بن بیلا کو جیل میں ڈال کر خُود صدر کا منصب سنبھال لیا۔
حواری بومدین دسمبر 1978تک تقریباً تیرہ سال اقتدار پر قابض رہا اور اُس کا اقتدار ہی میں انتقال ہوا، جس کے بعد راشد کریمی نے صدر کا عُہدہ سنبھالا، جو تقریباً اکیس سال تک منصبِ صدارت پر فائز رہے۔1999 ء میں عبدالعزیز بوتفلیقہ برسرِ اقتدار آئے اور2010ء تک مسلسل چار بار صدر رہے۔عرب ممالک میں الیکشن ایک عجوبہ ہی ہوتے ہیں۔ اکثر انتخابات میں برسرِ اقتدار شخصیت یا پارٹی کو نناوے فی صد ووٹ پڑتے ہیں۔
بو تفلیقہ اپنے طویل اقتدار میں مُلکی ترقّی اور عوامی فلاح و بہبود کے ضمن میں عوامی توقّعات پر پورے نہیں اُترے، لوگ اُن سے بے زار تھے، اِس لیے فوج نے اُنہیں اگلا الیکشن لڑنے سے روک دیا۔ دسمبر2019 کے بعد بوتفلیقہ کو فوج نے صدارتی انتخاب لڑنے سے روک دیا تھا، تو اُن کی جگہ عبدالمجید تبون منتخب ہوئے، جو اب تیسری دفعہ صدارتی انتخاب لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ جب تک اسٹیبلشمینٹ انہیں گوارا کرے گی،’’بھاری تعداد میں ووٹس‘‘سے صدر منتخب ہوتے رہیں گے، لیکن ان کے دَور میں بھی معاشی ترقّی کی کوئی قابلِ رشک صُورت نظر نہیں آئی۔
الجزائر کی جنگِ آزادی میں امریکا اور مغربی بلاک کی ہم دردیاں فرانس کے ساتھ تھیں، جب کہ روس، نیشنل لبریشن فرنٹ کی مدد کرتا رہا، اِس لیے الجزائر کا جھکاؤ سوویت یونین کی طرف تھا۔ جب روس نے افغانستان پر قبضہ کیا، تو ساری مسلم اور مغربی دنیا روس کے خلاف تھی، لیکن عرب ممالک میں الجزائر، عراق، شام، جنوبی یمن اور پی ایل او کی ہم دردیاں روس کے ساتھ تھیں۔
الجزائر، یوکرین پر روسی حملے کے بعد چِھڑنے والی جنگ میں بھی روس کا حامی ہے۔ امریکا سے الجزائر نے کوئی بگاڑ پیدا نہیں کیا، لیکن اس کا گہرا تعلق روس ہی سے ہے۔ جب دنیا سرمایہ داری اور اشتراکیت کے دو متحارب بلاکس میں تقسیم تھی، تو الجزائر کا جھکاؤ واضح طور پر روسی اشتراکیت کی طرف تھا۔ الجزائر کا دستور ایک آمیزہ(mixture) ہے۔
دستور کی رُو سے مُلک کے صدر کا مسلمان ہونا ضروری ہے، لیکن اسلام پر عمل پیرا ہونا ضروری نہیں۔ صدارت کے منصب پر فائز ہونے والے زیادہ تر افراد اشتراکی فکر سے وابستہ رہے ہیں۔ یہی حال فوج کی اعلیٰ قیادت کا ہے۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا، الجزائر کی آزادی کا سب سے پہلے پرچم اُٹھانے والے امیر عبدالقادر الحسنی الجزائری اور اُن کے والد باعمل، دین دار صوفی شخصیات تھیں۔
دستور کی رُو سے ریاست کا سرکاری مذہب اسلام ہے، لیکن اسلام کا ایک نظام کی صُورت میں نافذ ہونا نہ صدر کو گوارا ہے، نہ فوج کے جرنیلوں کو اور نہ ہی مغرب کی سیکولر قوّتیں اسے برداشت کرتی ہیں۔ آزادی کے بعد نیشنل لبریشن فرنٹ برسرِ اقتدار آیا کہ آزادی کی جنگ اِسی کے عسکری ونگ نے لڑی تھی، مگر جب اس کی مخالفت میں شدّت آئی، تو 1989ء میں نئے دستور کے تحت سیاسی جماعتوں کی تشکیل کی اجازت ملی اور ایک پارٹی کی حکومت کا قاعدہ ختم ہوا۔
اٹھارہ فروری 1989ء میں کچھ مذہبی عناصر نے اسلامک سالویشن فرنٹ کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی۔ الجزائری حکومت نے سرکاری طور پر فرنٹ کو ایک قانونی جماعت تسلیم کیا اور آنے والے انتخابات میں حصّہ لینے کی اجازت دی۔ اواخر1991ء میں انتخابات ہوئے، تو’’اسلامک سالویشن فرنٹ‘ کو پارلیمنٹ کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں شان دار کام یابی حاصل ہوئی۔
فرنٹ بھاری اکثریت سے جیت گیا تھا، جس پر یورپ، امریکا اور اسرائیل وغیرہ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنی شروع ہو گئیں اور جنوری 1992ء کو دوسرے مرحلے کے انتخابات ہونے سے پہلے ہی فوج میدان میں کود پڑی۔ انتخابات ملتوی کر دیئے گئے، جب کہ فرنٹ کے قائدین شیخ عباسی مدنی اور شیخ علی بن حاج اپنے دیگر ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیے گئے اور کچھ جلاوطن ہو گئے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ عوام بپھر گئے اور فوج کے خلاف مظاہرے شروع کر دیئے۔ فرنٹ عوام کی قیادت کر رہا تھا اور معاملہ فوج کے ساتھ تصادم تک پہنچ گیا۔ فوج نے فرنٹ کو کچلنے کے لیے پورے دس سال تک پوری قوّت صَرف کی۔ 1992ء سے 2002ء کے دس سالوں کو’’سیاہ عشرہ‘‘کہا جاتا ہے، کیوں کہ اِس سارے عرصے میں فوج اور فرنٹ کے درمیان خون ریز تصادم جاری رہا۔
انتخابات فراموش ہوگئے، جب کہ ظلم و جبر، تشدّد اور قتل و غارت کا سلسلہ عروج پر پہنچ گیا۔ جمہوری دنیا میں سے کسی نے نہیں کہا کہ ایک سیاسی عنصر آئین کے مطابق انتخابات میں حصّہ لے رہا تھا اور پہلے مرحلے میں اُس نے کام یابی بھی حاصل کی، تو دوسرے مرحلے کے انتخابات ملتوی کر کے فرنٹ پر پابندی لگا کر سیاست سے باہر کیوں کیا گیا۔ اسلامک سالویشن فرنٹ کو کچلنے اور سیاہ عشرے کے بعد انتخابات ہوئے، مگر اُن کے نتائج اُسی طرح کے نکلے، جو عرب ممالک کی روایت ہے۔ (مضمون نگار، لگ بھگ 40 برس تک شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہے۔ معروف مذہبی اسکالر اور کئی کتب کے مصنّف ہیں)