کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ جن کے نام محض سیاسی بیانیے تک محدود نہیں رہتے بلکہ پوری قوم کی شناخت بن جاتے ہیں۔ شہید محترمہ بےنظیر بُھٹّو بھی اُن معدودے چند شخصیات میں شامل تھیں کہ جن کا وجود نظریے، عزم و ہمّت، جدوجہد اور ایک ایسی روشنی کی علامت تھا، جو تاریکیوں میں گِھری اقوام کو راستہ دکھاتی ہے۔ شہیدِ جمہوریت کی ہر سانس جدوجہد سے عبارت تھی۔ اُن کے ہر قدم میں عزم جھلکتا تھا اور اُن کے ہر لفظ میں یقینِ محکم پنہاں ہوتا تھا۔
شہید بے نظیر بُھٹّو کا سفرِ زیست کسی عام سیاسی رہنما کی زندگی کی مانند نہ تھا۔ وہ ایک ایسی بیٹی تھیں ،جو اپنے والد کی پھانسی کے بعد بھی نہ ٹوٹیں۔ ایک ایسی بہن تھیں، جن کے پایۂ استقامت میں بھائی کی موت کے بعد بھی لغزش نہ آئی۔ ایک ایسی ماں تھیں،جو اپنی اولاد سے زیادہ قوم کے بچّوں کو عزیز رکھتی تھیں اور ایک ایسی سیاسی رہنما، جنہوں نے عوامی اعتماد کے تحفّظ کی خاطر اپنی زندگی تک داؤ پر لگا دی۔
بےنظیر بُھٹّو کا جنم پاکستان کے ایک ایسے گھرانے میں ہوا، جس کے مکینوں کی ہر سانس میں سیاست، جمہوریت، تاریخ، مطالعے اور گفتگو کا فن رچا بسا تھا۔ اُن کے والد، ذوالفقار علی بُھٹّو، جنہیں عوام پیار سے’’قائدِ عوام‘‘ کہتے ہیں، نہ صرف ایک سیاست دان تھے بلکہ فلسفی، مفکّر، اصول پسند شخصیت اور مدبّر بھی تھے۔
شہید بی بی نے آنکھ کھولتے ہی اپنے اردگرد کُتب، بڑے بڑے سیاسی رہنماؤں، عالمی سفارت کاروں اور ماہرینِ سیاست کو دیکھا اور اس ماحول نے انہیں غیر معمولی فہمِ سیاست اور سیاسی شعور عطا کیا۔ ذُوالفقار علی بُھٹّو اپنی بیٹی سے بےپناہ محبّت کرتے تھے اور اس کی ذہانت اور احساسِ ذمّے داری کو دیکھتے ہوئے کہتے تھے۔ ’’یہ لڑکی ایک دن پاکستان کی سیاست بدل دے گی۔‘‘
یہ جملہ محض ایک باپ کی محبّت و شفقت کا عکّاس نہ تھا، بلکہ مستقبل کے حوالے سے تاریخ کی ایک بڑی پیش گوئی بھی تھا۔ دوسری جانب ان کی والدہ، نصرت بُھٹّو نے، جو ایک باوقار، جری، مضبوط اور باعزم خاتون تھیں، اپنے گھر کے اندر ایک ایسا ماحول قائم کیا، جو علم و اخلاق کے ساتھ خُود مختاری اور ذمّے داری کا آئینہ دار تھا۔ چُوں کہ اس گھرانے میں بیٹی کو کم زور وجود نہیں سمجھا جاتا تھا، لہٰذا بےنظیر بُھٹّو کا اعتماد کبھی متزلزل نہ ہوا۔
اُنہوں نے پاکستان ہی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر 15برس کی عُمرمیں ہارورڈ یونی ورسٹی چلی گئیں۔ وہاں اُن کی نظریاتی تربیت نے ایک نیا موڑ لیا اور وہ بین الاقوامی سیاست، معاشیات، انسانی حقوق، عالمی طاقتوں کے تضادات اور جدوجہد کے فلسفے سے رُوشناس ہوئیں۔
اس کے بعد وہ اوکسفرڈ یونی ورسٹی گئیں اوراوکسفرڈ یونین کی پہلی ایشیائی خاتون، صدر منتخب ہوئیں۔ اوکسفرڈ یونی ورسٹی میں حصولِ تعلیم کے دوران اُنہیں اس بات کا ادراک ہوا کہ مغرب اور مشرق کے مسائل ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ نیز، انہوں نے یہ بھی سیکھا کہ جمہوریت صرف کُتب کا موضوع نہیں، بلکہ معاشرے کے ہر فرد سے جُڑا ہوا عمل ہے۔
برطانیہ سے وطن واپسی پر اُن کا استقبال ایک ایسی بیٹی کی مانند ہوا،جسے پاکستان کے عوام اپنے مستقبل کی اُمنگ سمجھ رہے تھے، مگر اُن کی خوشیاں زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکیں۔ ذوالفقار علی بُھٹّو کے خلاف مقدّمات، مارشل لا کے جبر اور سیاسی انتقام کے طویل سلسلے نے اُن کے پورے گھرانے کو ہِلا کر رکھ دیا۔ اس موقعے پر بی بی نے پہلی بار ظلم و جبر اور آمریت کی مکاریوں کو قریب سے دیکھا۔ ذوالفقار بُھٹّو کو گرفتار کیا گیا، تو وہ اپنی ماں اور بہنوں کےساتھ عدالتوں اور جیلوں کے چکر لگاتے ہوئے پولیس کی بدسلوکی کا سامنا کرتی رہیں۔
جب ذوالفقار علی بُھٹّو کی سزائے موت کا اعلان ہوا، تو وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی قوم کا مستقبل اندھیرے میں جاتے دیکھ رہی تھیں اور پھر1979ء میں جب اُن کے والد کو پھانسی دی گئی، تو یہ لمحہ بی بی کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھا۔ یہی وہ گھڑی تھی، جس نے اُنہیں لیڈر بنادیا۔ اُن کا دل عزم، اصول اور جمہوریت کی آماج گاہ بن گیا۔
پھر وہ اپنے والد ہی کے نقشِ قدم پر چلنے لگیں۔ ان کے خوابوں کی تکمیل کا عزمِ مصمّم کر لیا۔ عزیمت کے اس سفر میں اُنہوں نے قید و بند اور جِلا وطنی کا سامنا کیا، لیکن کبھی ہمّت نہ ہاری۔ ہمیشہ یہی کہتی رہیں کہ جمہوریت کسی کا احسان نہیں، عوام کا حق ہے۔ گرچہ وہ جانتی تھیں کہ آمریت طاقت وَر ہے، مگر وہ اس بات سے بھی بخوبی آگاہ تھیں کہ عوام کا درد آمریت سے زیادہ طاقت وَر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے دُکھوں کو اپنی قومی جدوجہد کا حصّہ بنا دیا۔
1984ء میں جب وہ جِلاوطن ہو کر لندن پہنچیں، تو پوری دُنیا کے میڈیا کی نظریں اُن پر مرکوز تھیں۔ اس موقعے پر اُنہوں نے دُنیا کو پاکستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دیگر مظالم سے آگاہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔
اِس ضمن میں انہوں نے مختلف بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر تقاریر کےذریعے اپنے مُلک کے عوام کی نمائندگی کی۔ 1986ء میں جب وہ پاکستان واپس لوٹیں، تو لاہور کے ایئرپورٹ پر عوام کا سمندر اُن کے استقبال کے لیے امڈ آیا۔ اِس تاریخی استقبال نے اسٹیبلشمینٹ کو بوکھلا دیا، تو سیاست دانوں کو حیران و پریشان اور آمروں کو ہلا کررکھ دیا۔
عوام نے نہ صرف دل وجان سے جمہوریت کی علامت، اُمید کی ایک کرن ’’دُخترِ مشرق‘‘ کا بھرپور استقبال کیا، بلکہ 1988ء میں جب مارشل لا ختم ہوا اور عام انتخابات ہوئے، تو بی بی کو اپنا قائد بھی چُن لیا۔ نتیجتاً، وہ دُنیا کی پہلی مسلمان خاتون وزیرِ اعظم بن گئیں۔ یہ وہ لمحہ تھا کہ جب تاریخ نے خود اعتراف کیا کہ عورت کم زور نہیں ہوتی، اگر اُس کے پاس علم، کردار اور عزم ہو، تو وہ پوری قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ لیکن بے نظیر کے لیے اقتدار، پُھولوں کی سیج ثابت نہ ہوا، بلکہ انہیں ہر طرف سے مشکلات، سازشوں، رکاوٹوں، پراپیگنڈے اور ریاستی اداروں کی مزاحمت ہی کا سامنا کرنا پڑا۔
اس سب کے باوجود اُنہوں نے خواتین، نوجوانوں، مزدوروں، کسانوں، اقلیتوں اور پسے ہوئے طبقات کے لیے وہ کام کیے، جو پاکستان میں پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔وہ ہمیشہ کہتی تھیں۔ ’’میری طاقت، میری دولت عوام اور میری منزل عوام کی خوش حالی ہے۔‘‘ اُنہوں نے کبھی انتقام کی سیاست کی اور نہ کبھی اپنے مخالفین پر ذاتی حملے کیے۔
ہمیشہ یہی کہا کہ پاکستان کو اتحاد، محبّت، برداشت اور آئین کی حُکم رانی کی ضرورت ہے۔ اُن کے ہاتھ میں کتاب، زبان پر دلیل اور دل میں ملک و قوم کا درد تھا۔ بد قسمتی سے کچھ لوگ آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ بےنظیر کی جدوجہد محض ایک عورت کی جدوجہد تھی، حالاں کہ سچ یہ ہے کہ اُن کی جدوجہد انسانیت کی جدوجہد تھی۔ انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ عورت اپنی گھریلو ذمّے داریاں نبھاتے ہوئے بھی پوری قوم کی رہنما بن سکتی ہے۔
بے نظیر بُھٹّو محض 35برس کی عُمر میں مُلک کی وزیرِاعظم بنیں۔ تب پاکستان سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی طور پر شدید بُحران کا شکار تھا۔ مارشل لا کے اثرات برقرار تھے، فوج کی بالادستی تھی اور معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار تھا۔ تاہم، بی بی نے عوامی توقّعات پر پورا اُترنے کے لیے فوری طور پر بنیادی مسائل کی طرف توجّہ دی اور تعلیم، صحت، خواتین کے حقوق، غُربت کے خاتمے اورمزدور طبقے کے لیے متعدد پالیسیز تشکیل دیں۔
اُن کا نصب العین تھا کہ جمہوریت صرف کاغذوں پر نہ ہو، ہر پاکستانی اُس کے ثمرات سے فیض یاب ہو۔ اسی سبب مختلف معاشی اصلاحات متعارف کروائیں۔ چھوٹے کسانوں کے لیے سبسڈی، چھوٹے کاروباری اداروں کے لیے قرضے اور خواتین کی خُود انحصاری کے لیے پروگرامز شروع کیے۔ تعلیم کے شُعبے پر خصوصی توجّہ دی گئی، خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے ضروری اقدامات کیے گئے۔
علاوہ ازیں، عوام کو صحت جیسی بنیادی سہولت کی فراہمی کے لیے دُور دراز علاقوں میں کلینکس اور اسپتال قائم کیے گئے۔ بی بی نے اپنے دَورِ وزارتِ عظمیٰ میں بین الاقوامی تعلقات کے میدان میں بھی فعال کردار ادا کیا اور عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بہتر بنانے کے لیے سفارت کاری میں بہت تیزی لائیں۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب پاکستان کو دہشت گردی، انتہا پسندی اور غُربت جیسے مسائل کا سامنا تھا، لیکن بے نظیر نے دُنیا کو یہ باور کروایا کہ پاکستان ایک مہذّب، جمہوری اور ترقّی پسند مُلک ہے۔
شہید بے نظیر بُھٹّو کی پہلی حکومت نہ صرف داخلی مشکلات بلکہ بیرونی دباؤ کا بھی شکار تھی۔ اس موقعے پراُن کے سیاسی مخالفین، طاقت وَر گروپس اور بعض اوقات اسٹیبلشمینٹ نے اُن کی قیادت کو چیلنج کیا۔ تاہم، انہوں نے نہ صرف سیاسی مخالفین کا مقابلہ کیا، بلکہ سازشوں اور الزامات کا بھی بھرپور جواب دیا اور تمام تر صُورتِ حال میں عوامی خدمت کا سلسلہ جاری رکھا۔
اُن کے اقدامات نے ثابت کیا کہ سیاست صرف اقتدار کے لیے نہیں، عوام کی بھلائی کے لیے بھی کی جا سکتی ہے۔1993ء میں بےنظیربُھٹّو نے دوسری بار پاکستان کی وزیرِ اعظم کے طور پر حلف لیا۔ گرچہ اس بار تجربہ زیادہ تھا، لیکن مشکلات اور ذمّے داریاں بھی زیادہ تھیں۔ اپنے دوسرے دَورِ وزارتِ عُظمیٰ میں بھی بی بی نے معاشرتی اور اقتصادی اصلاحات پر توجّہ دی۔
تعلیم و صحت اور خواتین کی خُود انحصاری کے اقدامات کے ساتھ انہوں نے بدعنوانی کے خلاف بھی کوششیں کیں، جو اُن کے سیاسی مخالفین کے لیے ناقابلِ قبول تھیں۔ یہ دَور بھی سیاسی سازشوں، بد امنی اور اندرونی اختلافات سے پُر تھا اور مخالفین کی کوشش تھی کہ بےنظیر بُھٹّو کی حکومت کو غیرمستحکم کیا جائے، لیکن اُنہوں نے کبھی ہمت نہ ہاری۔
بے نظیر بُھٹّو نے اپنی سیاسی زندگی میں نہ صرف عوام کے لیے قُربانیاں دیں بلکہ اپنی ذاتی زندگی میں بھی بےپناہ صبر و تحمّل کا مظاہرہ کیا۔ وہ اکثر اپنے بچّوں سے دُور رہیں، مگر ہمیشہ اپنے اور قوم کے بچّوں کے لیے ہی سوچتی رہیں۔ ان کی شادی آصف علی زرداری سے ہوئی اور اس بندھن سے اُن کے عزائم کو مزید جِلا ملی۔ بی بی نے متعدد مرتبہ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر عوامی اجتماعات میں شرکت کی، جلسے جلوس کیے اور عوام کو حوصلہ بخشا۔
بے نظیر بُھٹّو نے عالمی سطح پر بھی پاکستان کی نمائندگی بہت باوقاراندازمیں کی۔ انہوں نے مختلف بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کے حق میں بات کی، عالمی طاقتوں کے سامنے عوامی مسائل پیش کیے اور پاکستان کی مثبت تصویر پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ علاوہ ازیں، عالمی اداروں میں بھی حقوقِ انسانی، بالخصوص خواتین کے حقوق اور جمہوریت کے فروغ کے لیے آواز بلند کی اور ان کی یہ کوششیں پاکستان کے لیے اعزاز اور عالمی سطح پر پہچان کا سبب بنیں۔
1996ء میں اپنی دوسری حکومت کے خاتمے کے بعد بے نظیر بُھٹّو نے دوبارہ جِلاوطنی اختیارکی۔ یہ دَوربھی اُن کے لیے ذاتی اور سیاسی مشکلات سے لب ریز تھا۔ اُنہوں نے لندن اور دُبئی میں رہ کر اپنی پارٹی کی قیادت جاری رکھی، سیاسی مخالفین کے پراپیگنڈے کا مقابلہ کیا اور عوام کو یقین دلایا کہ وہ دوبارہ پاکستان واپس آکر جمہوریت کی جڑیں مضبوط کریں گی۔ 2007ء میں بی بی نے پاکستان واپسی کا فیصلہ کیا اور اُن کی واپسی نے عوام میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا کر دیا۔ اُن کے استقبال کے لیے ہرعُمر کے افراد موجود تھے۔
بی بی کے جلسے اور عوامی رابطے امن، جمہوریت اور ترقّی کی فکرنمایاں کرتے تھے۔ بے نظیر بُھٹّو نے عوام کو یقین دلایا کہ وہ ہمیشہ اُن کے ساتھ ہیں اور ہر مشکل وقت میں عوام کے ساتھ ہی رہیں گی۔ مگر 2007ء میں شدّت پسندی، دہشت گردی اور سیاسی مخالفین کی سازشیں مزید بڑھ چکی تھیں،جن میں دھمکیاں اور جان لیوا حملے بھی شامل ہوگئےتھے۔
تاہم، ان تمام خطرات کے باوجود بی بی نے ہمت نہیں ہاری۔ اُنہوں نے جلسے بھی کیے، عوامی رابطے بھی جاری رکھے۔ مطلب، ہمیشہ اصولوں اورعوام کی خدمت کو مقدّم جانااور اُن کا یہ عمل ثابت کرتا ہے کہ بے نظیر بُھٹّو کی سیاست اصول، عوام کی خدمت اور جمہوریت کی حفاظت ہی کے لیے تھی۔
27دسمبر 2007ء پاکستان کی تاریخ کا ایک الم ناک دن ہے۔ سابق وزیرِاعظم، محترمہ بے نظیر بُھٹّو راول پنڈی کے لیاقت باغ میں ایک تاریخی جلسے سے خطاب کے بعد اپنی گاڑی میں سوار ہو کر واپس روانہ ہو رہی تھیں۔ عوام کا جوش و خروش عروج پر تھا اور وہ حسبِ روایت گاڑی کی چھت کی کھڑکی سے باہر نکل کر، ہاتھ ہلا ہلا کے، اپنے چاہنے والوں کو اُن کی محبّت کا جواب دے رہی تھیں کہ اس دوران ہجوم میں موجود ایک مسلّح شخص نے انتہائی قریب سے اُن پر گولی چلائی۔
یہ قاتلانہ حملہ ایک سوچی سمجھی ٹارگٹ کلنگ تھی، جس کا واحد مقصد پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِاعظم اور جمہوری جدوجہد کی علامت، بےنظیر بُھٹّو کو شہید کرنا تھا۔ گولی لگنے کے فوراً بعد اُن کی سیکیوریٹی ٹیم نےاُنہیں اسپتال پہنچایا، مگرحملہ اتنا شدید، زخم اتنے گہرے تھے کہ وہ جاں بر نہ ہو سکیں۔
بی بی کی اِس الم ناک موت نے پورے پاکستان کو غم وغُصّے اور سراسیمگی میں مبتلا کردیا۔ اِس اندوہ ناک سانحے نے مُلک کی سیاست اور جمہوری مستقبل پر اَن مٹ نقوش چھوڑے۔ گرچہ 27 دسمبر2007ء کو ایک بہادر، جرأت مند، انتہائی پُرعزم اور عوام کی محبوب لیڈر کو صرف ایک گولی کا نشانہ بنا کر، مُلک و قوم کو ایک مدبر لیڈر سے محروم کر دیا گیا، مگر اُن کی داستانِ جرات و ہمّت، طویل جدوجہد اور لازوال قربانیاں تاریخ میں تا ابد زندہ رہیں گی۔ (مضمون نگار، حکومتِ سندھ کی ترجمان ہیں)