نوبیل انعام یافتہ برطانوی ڈاکٹر،Sir Ronald Ross نے 1897-98ء میں ثابت کیا کہ ملیریا کا مرض، مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔ مچھر کو ویکٹر (Vector) کا نام دیا گیا، جس کے ذریعے ملیریا پھیلتا ہے، جب کہ ویکٹر کے ذریعے بیماری کے پھیلاؤ کو’’ Vector Borne Disease‘‘ کہا گیا۔ دنیا کی نصف آبادی ملیریا کے خطرات سے دوچار ہے اور پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے، جہاں یہ بخار بے حد عام ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، عالمی سطح پر سالانہ 350سے500ملین افراد ملیریا سے متاثر ہوتے ہیں، جب کہ10لاکھ سے زاید اس کے سبب انتقال بھی کرجاتے ہیں۔ رواں سال ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبۂ سندھ میں ملیریا سے4لاکھ، 42 ہزار 776 افراد متاثر ہوئے۔
واضح رہے کہ ملیریا ہر مچھر کے کاٹنے سے نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک خاص قسم کے مادّہ مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔مچھر جس جگہ کاٹتا ہے، وقتی طور پر جِلد کا وہ حصّہ سُن ہوجاتا ہے اور ہمیں اُس کے کاٹنے کا احساس نہیں ہوتا، لیکن جیسے ہی یہ ڈنک مار کر اُڑتا ہے، جِلد پر خارش محسوس ہونے لگتی ہے اور وہاں ایک گول دائرہ نمودار ہوجاتا ہے۔
دراصل مادّہ مچھر جب کسی ملیریا زدہ مریض کا خون چُوستی ہے، تو مریض کے خون میں پہلے سے موجود پیراسائٹ جراثیم اُس مچھر میں منتقل ہوجاتے ہیں، اِیسے مچھروں کو متاثرہ یا Infected مچھر کہتے ہیں، جو پھر صحت مند افراد میں ملیریا کے پھیلائو کا سبب بنتے ہیں۔ جب یہ متاثرہ مچھر کسی صحت مند انسان کو کاٹتا ہے، تو اس میں موجود پیراسائٹ( Plasmodium Sporozoites )انسانی خون میں شامل ہوکر جگر میں داخل ہوجاتے ہیں، جہاں یہ بالیدگی کے عمل سے گزرتے ہیں اور Schizonts میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
ان Schizonts میں تقریباً30ہزار Merozoites ہوتے ہیں،جو جگر میں غیر فعال حالت میں رہتے ہیں۔ یاد رہے، ان غیر فعال میروزوائٹس کو Hypnozoitesکا نام دیا گیا ہے اور اگر مریض، ملیریا کا علاج ادھورا چھوڑ دے، تو یہ دوبارہ فعال ہوسکتے ہیں اور ہفتوں، مہینوں بعد دوبارہ ملیریا کا سبب بن جاتے ہیں۔جب یہ Schizonts جگر میں پَھٹتے ہیں، تو میروزوائٹس نکلنا شروع ہوجاتے ہیں اور خون میں وقفے وقفے سے شامل ہوتے رہتے ہیں۔ اِس دوران مریض کو بھی وقفے وقفے سے بخار چڑھتا، اترتا رہتا ہے۔ بخار کے وقفے وقفے سے چڑھنے، اُترنے کی وجہ سے اسے ’’باری کا بخار‘‘ بھی کہتے ہیں۔
جب میروزوائٹس خون کے سرخ ذرّات پر حملہ آور ہوتے ہیں، تو خون میں ٹوٹ پُھوٹ کا عمل شروع ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں مریض میں خون کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ چوں کہ خون کے سُرخ ذرّات میں ہیمو گلوبن پایا جاتا ہے اور گلوبن ایک پروٹین ہے، تو جب مچھر انسانی خون چوستا ہے، تو گلوبن کو اپنی خوراک اور انڈوں کی نشوونما کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ہیموگلوبن کا فولادی حصّہ Haem پیرا سائٹ کے لیے زہرِ قاتل ہے، تو پیرا سائٹ اسے Haemozoin میں تبدیل کردیتا ہے، یوں ہیم کو بے اثر کر کے خُود کو اس کے خطرناک اثرات سے محفوظ رکھتا ہے۔
مچھروں میں پانچ اقسام کے پیراسائٹ جراثیم ہوتے ہیں، جو اپنی خوراک، انسانی خون سے حاصل کرتے ہیں۔ ان اقسام میں پلاز موڈیم وی ویکس( Vivax)، پلازموڈیم اوول( Ovale )، پلازموڈیم ملیریائی( Malariae)، پلازموڈیم فیلسیپیرم ( Falciparum ) اور پلازموڈیم نوولیسائی (Knowlesi) شامل ہیں۔ آخر الذّکر پاکستان میں نہیں پایا جاتا، جب کہ پلازموڈیم وی ویکس سندھ اور پلازموڈیم فیلسیپیرم بلوچستان میں عام ہے۔ پلازموڈیم وی ویکس اور پلازموڈیم اوول عموماً خطرناک نہیں ہوتے، جب کہ پلازموڈیم فیلسیپیرم ملیریا انسانی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، اسے Mali Gnantملیریا بھی کہتے ہیں۔
ملیریا تمام افراد کو یک ساں طور پر متاثر کرسکتا ہے۔ تاہم، ملیریا فیلسیپیرم بچّوں اور حاملہ خواتین کی دماغی اور جسمانی صحت پر خطرناک اثرات مرتّب کر سکتا ہے۔ مچھر کے بغیر بھی ملیریا ہوسکتا ہے، لیکن اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔جیسے ماں سے نوزائیدہ بچّوں میں ملیریا منتقل ہوسکتا ہے، جسے Congenital ملیریا کہتے ہیں۔نیز، انتقالِ خون کے دوران آلودہ سرنج کے ذریعے اور اعضاء کی پیوند کاری کے دَوران بھی ملیریا منتقل ہوسکتا ہے۔
ملیریا کی علامات: کپکپی اور تیز بخار ملیریا کی پہلی نشانی ہے۔اس میں مچھر کے کاٹنے کے تقریباً دو ہفتوں بعد اچانک سردی، ٹھنڈ کے ساتھ تیز بخار ہوجاتا ہے۔ یہ بخار104ڈگری سے بھی اوپر تک جاسکتا ہے۔ گھنٹوں بخار رہنے کے بعد پسینہ آنا شروع ہوجاتا ہے اور رفتہ رفتہ بخار کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔بعدازاں، مریض خود کو بہتر محسوس کرتا ہے۔ اگر مریض ملیریا کا علاج نامکمل چھوڑ دے، تو یہ بخار48 یا 72گھنٹے بعد دوبارہ ہو سکتا ہے۔ یہ ایک خاص پیٹرن ہے، جو ہمیں ملیریا بخار میں نظر آتا ہے۔
بخار کے ساتھ سر درد، نقاہت و کم زوری، بدن کا ٹوٹنا، سینے میں درد، پیٹ میں درد، بھوک میں کمی، متلی، اُلٹیاں اور ڈائریا بھی اس کی اہم علامات ہیں۔ تلّی اور جگر میں سوزش، خون کی کمی اور پیلیا بھی ظاہر ہوسکتا ہے۔ اکثر مریضوں میں بخار کا کوئی خاص پیٹرن نظر نہیں آتا۔ مریض کے چیک اَپ میں صرف بخار کی علامت ملتی ہے۔ لہٰذا، بخار سے متعلق ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ملیریا کوئی لاعلاج مرض نہیں ہے، جلد تشخیص اور فوری علاج سے ملیریا اور اس کی سنگین طبّی پیچیدگیوں سے بچا جا سکتا ہے۔
اس کی سب سے شدید قسم فیلسیپیرم ملیریا ہے، جس میں پیرا سائٹ جراثیم کا خون میں لوڈ 200,000-500,000 سے تجاوز کرجاتا ہے اور یہ جو شدید نوعیت کی طبّی پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ خاص طور پر چھوٹے بچّوں میں قوّتِ مدافعت بہت کم ہوجاتی ہے اور ان پیچیدگیوں کے باعث اُن کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ حاملہ خواتین میں بھی قوّتِ مدافعت کم ہوجاتی ہے، جس کے باعث بچّوں کی قبل از پیدائش، حمل کا ضائع ہوجانا اور نومولود میں وزن کی کمی جیسے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
فیلسیپیرم ملیریا کی جلد تشخیص اور فوری علاج شروع نہ کیا جائے، تو دماغی ملیریا، خون کی شدید کمی، بلڈ پریشر، شوگر کی سطح میں کمی، پھیپھڑوں میں پانی کے بَھر جانے، سانس میں تنگی اور حالتِ نزع جیسی صُورتِ حال پیدا ہوسکتی ہے۔ ان خطرات سے بچاؤ کے لیے بہتر ہے کہ مریض کو اسپتال میں داخل کرکے علاج شروع کیا جائے اور اگر صحت کی سہولتیں گھر کے نزدیک موجود ہوں، تو پھر گھر پر بھی علاج کیا جاسکتا ہے۔
جو مریض فیلسیپیرم ملیریا کا علاج ادھورا چھوڑ دیتے ہیں، وہ اس کے دائمی مریض بن سکتے ہیں۔ اِس ملیریا میں خون کی شدید کمی ہوجاتی ہے اور پیشاب کا رنگ بھی کالا پڑ جاتا ہے، جو ایک خطرناک علامت ہے، اسے Black Water بخار کہتے ہیں، اس میں مریض کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ فیلسیپیرم ملیریا کی سب سے سنگین طبّی پیچیدگی، دماغی ملیریا( Cerebral Malaria )ہے۔ اس میں مریض کو دورے پڑتے ہیں اور وہ کومے میں بھی جاسکتا ہے،جب کہ علاج میں غیر ضروری تاخیر سے مریض کا انتقال بھی ہوسکتا ہے۔
تشخیص: کسی بھی مرض کی جَلد تشخیص بہتر علاج میں مددگار ثابت ہوتی ہے، لہٰذا بخار کی صُورت میں خون کا ٹیسٹ لازمی کروائیں۔ اگر شک ہے کہ مریض کو ملیریا کا بخار ہے، لیکن بلڈ ٹیسٹ نیگیٹیو ہے، تو اس صورت میں 12سے 24گھنٹوں بعد دوبارہ خون کا ٹیسٹ ہونا چاہیے۔ خاص طور پر حاملہ خواتین میں ملیریا ٹیسٹ منفی آسکتا ہے۔ اِس صُورت میں ماہر فزیشن سے رائے لینی چاہیے۔ ہم سے ملیریا کے ٹیسٹ اور علاج کے دوران عموماً جو غلطیاں سرزد ہوسکتی ہیں، اُن سے بچنا چاہیے۔
ان غلطیوں میں ملیریا کی درست تشخیص میں ناکامی، بیرونِ مُلک سے آنے والے مسافروں کی نامکمل میڈیکل ہسٹری، ملیریا سے بچائو کی ادویہ کو حفظِ ماتقدّم کے طور پر استعمال کرنا اور خیال کرنا کہ ملیریا سے نجات مل گئی، یہ ایک غلط تصوّر ہے، محض بخار کے پیٹرن پر تشخیص کرنا، ایسی علامات جو ملیریا مرض میں نہیں ہوتیں، اُنھیں ملیریا کی علامات سمجھنا، خون کے ٹیسٹ کے دوران بلڈ فلم کی تیاری میں تاخیر، ایک مرتبہ بلڈ ٹیسٹ نیگیٹیو آنے کی صُورت میں دوبارہ ٹیسٹ نہ کروانا، غیر معیاری اور نامناسب ادویہ سے ملیریا کا علاج اور علاج میں تاخیر وغیرہ شامل ہیں۔
علاج: عالمی ادارۂ صحت ملیریا کی تشخیص، علاج اور اس کے خاتمے کے لیے بہترین گائیڈ لائن فراہم کرتا ہے۔ ملیریا کے سلسلے میں تھری ٹی کے اصول مدّ ِنظر رکھے جاتے ہیں۔
1۔ Test (تشخیص): بخار کی صُورت میں سب سے پہلے خون کا ٹیسٹ کروائیں۔
2۔ Treatment (علاج) : ڈائیگنوسز کی بنیاد پر ملیریا کا علاج شروع کیا جائے۔
3۔ Track (سراغ): ویکٹر یعنی مچھر کی محفوظ قیام گاہوں کا سراغ لگا کر اُن کا خاتمہ کرنا کہ جب تک محفوظ قیام گاہیں موجود ہیں، ملیریا کا خاتمہ ممکن نہیں۔
ایک ماہر ڈاکٹر آپ کی صحت کا ضامن ہے، وہ بہتر سمجھتا ہے کہ ملیریا کے علاج کے لیے کون سی دوا آپ کے لیے مفید ہوگی۔ دوا عُمر اور جسم کے وزن کے حساب سے دی جاتی ہے۔یاد رکھیں، ملیریا ایک قابلِ علاج مرض ہے۔ دنیا میں کلورو کوئین( (Chloroquine کی گولیاں ملیریا میں استعمال کی جاتی ہیں،تاہم وقت گزرنے کے ساتھ، اس گولی کے خلاف قوّتِ مزاحمت پیدا ہوچُکی ہے،جس کے سبب اس کی افادیت کم ہوتی جارہی ہے۔ کلورو کوئین کی جگہ اب Artemisinin Combination Therapies یعنی ACTsکو ملیریا میں استعمال کیا جارہا ہے، جس کے نتائج شان دار ہیں۔
مکمل علاج سے بخار ایک سے دو دن میں رفع ہوجاتا ہے اور مریض بھی صحت یاب ہوجاتا ہے۔ البتہ ملیریا واویکس اور اوول میں Primaquine گولیوں پر مشتمل14 دنوں کا اضافی کورس کروایا جاتا ہے تاکہ جگر میں موجود پیرا سائٹ کا خاتمہ ہوجائے اور ملیریا دوبارہ نہ ہونے پائے۔لیکن ان گولیوں کا کورس شروع کرنے سے پہلے خون کا G6PD ٹیسٹ کروانا چاہیے اور اس کے نارمل آنے ہی پر یہ گولیاں دی جانی چاہئیں، ورنہ ان کے استعمال سے خون کی شدید کمی ہوسکتی ہے۔ مرض کی نوعیت شدید ہونے پر مریض کو آئی سی یو میں داخل کرکے ملیریا کا انجیکشن بھی دیا جاتا ہے، جس سے حالت میں بہتری کے امکانات پیدا ہوتے ہیں اور مریضوں کو صحت یاب ہوتے بھی دیکھا گیا ہے۔
احتیاطی تدابیر: یہ امر ذہن نشین رہے کہ ملیریا پیرا سائٹ کے خلاف اینٹی ملیریل ادویہ کی افادیت کم ہوتی جارہی ہے، کیوں کہ ان ادویہ کے خلاف قوّتِ مزاحمت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ لہٰذا، ’’احتیاط علاج سے بہتر ہے‘‘ کی پالیسی پر عمل کرکے ہر صُورت ملیریا سے بچائو ممکن بنائیں۔ یاد رکھیں، مادّہ مچھر کھڑے پانی میں انڈے دیتی ہے، جو آگے چل کر مچھروں کی بہتات کا سبب بنتے ہیں۔ اس سلسلے میں بلدیاتی اداروں اور حکومتی مشینری کی اوّلین ذمّے داری ہے کہ وہ گلیوں، محلوں میں گندا پانی جمع نہ ہونے دیں۔
صفائی ستھرائی اور نکاسیٔ آب کو یقینی بنائیں۔ اگر پانی کے گڑھے، جوہڑ موجود ہوں، تو اُن میں ہر ہفتے مٹّی، مٹّی کا تیل، سفید چونا یا گاڑیوں کا جلا ہوا تیل ڈالیں۔ بلدیاتی نمائندے شہر بَھر میں اپنی نگرانی میں جراثیم کُش اسپرے کروائیں۔ شہری گھروں کی کھڑکیوں، دروازوں اور روشن دانوں پر جالیاں لگوائیں۔ سوتے وقت دوا لگی مچھر دانی استعمال کریں، جسم کے کُھلے حصّوں پر مچھر بھگائو لوشن لگائیں، پوری آستین کے ملبوسات زیبِ تن کریں، گھروں اور کمروں میں بھی جراثیم کُش اسپرے کرنا چاہیے۔
ایسے مسافر، جو ملیریا زدہ علاقوں کا سفر کرتے ہیں، اُنہیں ڈاکٹر کی ہدایت پر حفظِ ماتقدّم کے طور پر ملیریا کی گولی کھانی چاہیے تاکہ خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ ہمارے مُلک میں ملیریا عام ہے اور اس کے خلاف قوّتِ مدافعت بھی پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے عموماً یہ سنگین صُورتِ حال اختیار نہیں کرتا، ماسوائے چھوٹے بچّوں اور حاملہ خواتین کے،جن میں قوّتِ مدافعت کم ہوتی ہے۔ملیریا کی روک تھام کے ضمن میں ضروری ہے مُلک میں ویکٹر کنٹرول پروگرام مزید بہتر کیا جائے، اسے سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے،کیوں کہ دنیا میں ایسے سائنسی طریقے موجود ہیں، جن پر عمل کرکے مچھروں کی افزائش میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
مچھروں کی افزائشِ نسل کی روک تھام کے لیے ان کی محفوظ قیام گاہوں کا خاتمہ بے حد ضروری کہ جب تک یہ موجود ہیں، ملیریا کا خاتمہ ناممکن ہے۔ پاکستان میں موسمیاتی تغیّرات کے باعث آئے دن بارشیں اور سیلاب آتے رہتے ہیں، جب کہ متاثرہ علاقوں میں برسوں سیلابی پانی کھڑا رہتا ہے، تو ان علاقوں میں مچھر مار اسپرے ضرور کروائے جائیں۔
ملیریا کی جَلد تشخیص کے لیے اسپتالوں میں آر ڈی ٹی کٹ کا طریقہ شروع کیا جائے کہ اِس کی بدولت ملیریا کی جَلد تشخیص ہوجاتی ہے۔نیز، ملیریا پر ریسرچ کے لیے جدید لیبارٹریز قائم کی جائیں۔ تشخیصی مراکز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ عام افراد کو ملیریا کی تشخیص اور علاج کی تمام سہولتیں کو مفت فراہم کی جائیں۔ علاوہ ازیں، پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے ملیریا سے متعلق آگاہی مہم چلائی جائے۔بہرحال، ملیریا کے جڑ سے خاتمے کے لیے ہم سب کو مشترکہ طور پر کوششیں کرنی ہوں گی۔ (مضمون نگار، سِول اسپتال، حیدرآباد کے شعبہ گیسٹرو انٹرولوجی سے بطور سینئر میڈیکل آفیسر وابستہ ہیں)