• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوپ - 28: موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی اچھی کوشش

کس قدر عجیب بات ہے کہ دنیا کے تمام ممالک ایک مسئلے کے حل پر متفّق تو ہیں، لیکن اُس کے لیے عملی اقدامات پر آمادہ نہیں۔ یہ تکلیف دہ حقیقت دُبئی میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس میں ایک مرتبہ پھر سامنے آئی۔یکم سے12دسمبر تک ہونے والی کوپ۔28 (Climate Change Conference of Parties)میں دو سو ممالک کے رہنماؤں، ماہرینِ موسمیات اور مختلف اداروں نے شرکت کی۔اِس سال موسمیاتی تبدیلیوں نے بہت ستم ڈھایا اور سب سے تشویش ناک بات یہ رہی کہ دنیا کے اکثر ممالک کا درجۂ حرارت تاریخ کی بلند ترین سطح پر ریکارڈ کیا گیا۔

وہ ممالک، جو اپنے یخ بستہ طویل موسمِ سرما کے لیے صدیوں سے مشہور ہیں، اُن کے باسی شدید گرمی میں جھلستے رہے۔پیڑ، پودے اور سبزہ، گویا گھاس پھوس میں تبدیل ہوگیا۔جانوروں کے لیے چارے کا بحران پیدا ہوگیا۔نیز، گرم موسم کی طوالت بھی زیادہ رہی، جو عوام کی برداشت سے باہر تھی۔گرم ممالک کا حال تو ناقابلِ بیان ہے،جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔یہاں اپریل سے اکتوبر تک ہِیٹ ویوز آتی رہیں۔ اب اکثر ممالک میں موسمِ سرما کا آغاز ہو چُکا ہے، لیکن یہ سردیاں کیا رنگ دِکھائیں گی، لوگ یہ سوچ کر ہی پریشان ہیں۔ دوسال پہلے مَری کے برفانی طوفان سے ہونے والی ہلاکتیں ابھی تک ذہنوں سے محو نہیں ہوئیں۔

پھر یہ خوف ناک خبریں بھی عالمی میڈیا سے آرہی ہیں کہ منجمد علاقوں میں بڑے بڑے گلیشئرز پگھل رہے ہیں۔(کئی گلیشئرز تو وسعت میں بہت سے ممالک کے رقبے کے برابر ہیں)،تو اُن کا پانی جب سمندروں کو بَھرے گا اور طوفان کی شکل اختیار کرے گا، تو وہ کیسی تباہی مچائے گا، دنیا اس تصوّر ہی سے لرزاں ہے۔ گزشتہ برسوں میں سمندری طوفانوں کی صُورت ایسے ہی مناظر دیکھے گئے، جن میں شہر کے شہر اجڑ گئے۔ یوں لگتا ہے، اب سونامیوں کا بھی ایک الگ موسم ہے۔ ایک طرف یہ تباہیاں ہیں، تو دوسری طرف جب عالمی رہنما اس موسمیاتی مصیبت سے نبرد آزما ہونے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں، تو تشویش بَھری تقاریر تو بہت سُننے کو ملتی ہیں، لیکن کوئی بھی ٹھوس حل کی طرف اُس رفتار سے بڑھنے کو تیار نہیں ہوتا، جس کا ہدف خود اُن ممالک نے دس سال قبل مقرّر کیا تھا۔

زیادہ مسائل سے تو وہ ممالک دوچار ہیں، جن کا زمین کے موسم کو اِس حال تک پہنچانے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ وہ اس ترقّی کے حصّے دار تو نہ بن سکے، جو اس انرجی سے آئی، لیکن اس کی تباہی سے سب سے زیادہ متاثر یہی ممالک ہو رہے ہیں اور ہمارا مُلک ان میں سرِ فہرست ہے، کیوں کہ اس کی آبادی بہت زیادہ ہے اور اس نسبت سے تباہی کے اثرات بھی کئی گُنا زاید ہوتے ہیں۔کہیں اسموگ ہے، تو کہیں بارشوں کے طوفان اور کہیں گرمی کی آگ۔پورا سال انہی مسائل کو بھگتتے گزر گیا، جب کہ ان سے نبرد آزما ہونے کے وسائل بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔

کوپ کا مطلب ہے، کانفرنس آف پارٹیز اور اس پارٹی کے ارکان جس طرح کچھوے کی مانند موسمیاتی تبدیلیوں کے حل کی طرف بڑھ رہے ہیں، خوف آتا ہے کہ کہیں یہ واقعی صرف پارٹی ہی بن کر نہ رہ جائے۔ سوال یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے تباہی تو شروع ہوچُکی ہے، آخر اب انتظار کس چیز کا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی جنگ اِتنی تباہی پھیلانے کی صلاحیت نہیں رکھتی، جتنی موسم کی تبدیلی سے ہوسکتی ہے۔جنگوں میں تو مذاکرات کے ذریعے سیز فائر ہوسکتا ہے، دوستیاں کروائی جاسکتی ہیں، امن قائم ہوسکتا ہے، خون ریزی اور تباہی رُوکی جا سکتی ہے، لیکن موسمیاتی تبدیلی کی جنگ میں ان میں سے کسی ایک بھی حل کا موقع نہیں ملتا۔

شہر کے شہر اور مُلک کے مُلک اُجڑ جاتے ہیں۔ فوری بحالی بھی ممکن نہیں ہوتی کہ اس کے لیے کثیر سرمایہ اور وقت درکار ہوتا ہے۔پاکستان میں دوسال پہلے آنے والا سیلاب اس کی ایک بڑی مثال ہے۔20 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا، پھر لاکھوں انسانوں کی بے گھری اور سیکڑوں اموات کی الم ناک داستانیں الگ ہیں۔میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے لیے جنگ کی خبریں بہت کشش رکھتی ہے، لیکن طوفانوں پر صرف چند دن فوکس رہتا ہے اور پھر سب بھول بھال کر زندگی آگے بڑھ جاتی ہے۔اس تباہی سے مُلکی معیشت کا کیا حال ہوتا ہے، اس کا بھی عام آدمی کو اندازہ نہیں ہوتا۔ 

دنیا ان طوفانوں اور سیلابوں کو عوام کی جنگوں اور دیگر تنازعات سے توجّہ ہٹانے کا ایک بہترین موقع سمجھتی ہے۔دُکھ یہ ہے کہ آج بھی دنیا بَھر میں عوامی شعور کا یہ حال ہے کہ عوام کو اپنے اصلی دشمن، یعنی موسمیاتی تبدیلی کی تباہی کا احساس تک نہیں، جب کہ وہ معمولی تنازعات میں اپنی توانائیاں ضائع کرنے کو بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں۔ بہت کم لوگوں کو اِس امر کا احساس ہے کہ اگر دنیا پیرس کانفرنس میں مقرّر کردہ ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی، تو اس کے نتیجے میں جو تباہی آئے گی، اس سے اُنہیں کوئی نہیں بچا پائے گا۔ 

سوشل میڈیا پر ہر روز قیامت کی پیش گوئیاں ہوتی رہتی ہیں، تو کیا لوگ موسمیاتی تبدیلی میں اس کے آثار نہیں دیکھ سکتے۔ دبئی کوپ-28 بھی پیرس کانفرنس کے اُنہی اہداف سے متعلق تھی، جو2015ء میں طے کیے گئے تھے۔یاد رہے، پیرس کانفرنس، موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق حل کی تلاش میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے، جس میں دنیا کے تقریباً تمام سربراہانِ مملکت، عالمی ماہرین اور متعلقہ اداروں نے شرکت کی تھی۔اُس کانفرنس سے لگا کہ جیسے دنیا پر کسی خلائی مخلوق نے حملہ کر دیا ہے، جس سے انسانیت کو سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں اور زمین پر بسنے والے تمام افراد باہمی اختلافات بُھلا کر اس کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔ 

دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ قیامت برپا کرنے میں خود انسان ہی کا ہاتھ ہے۔اُسی نے اپنی ترقّی کے لیے انرجی کے وہ ذرائع استعمال کیے، جس نے زمین کے اوپری غلاف میں چھید کردیا۔یہ چھید اُن کاربن گیسز کے اخراج سے ہوا، جو کارخانوں اور ٹرانسپورٹ میں استعمال ہوتی ہیں۔ لیکن لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے اختلافات ہی میں الجھے رہے، جب ہوش آیا، تو نقصانات قابو سے باہر ہو چُکے تھے، موسمیاتی تباہی انسانوں اور ان کے بنائے خُوب صورت شاہ کاروں کو زمین بوس کر رہی تھی۔

جب سائنس دانوں نے تحقیق کی، تو پتا چلا کہ ان فوسل فیولز سے جنم لینے والی گرمی نے پوری زمین کا درجۂ حرارت اِس حد تک بڑھا دیا ہے کہ ہر چیز پگھلنے کو ہے۔وہ اِس نتیجے پر پہنچے کہ زمین کا درجۂ حرارت ہر صُورت1.5 ڈگری سینٹی گریڈ پر رکھنا ہوگا اور اس سے بڑھنے کا مطلب ناقابلِ تصوّر تباہی ہے، جس کی جھلکیاں ہر سال دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ جب انسانی ترقّی کے یہ طریقے نہیں تھے، اُس وقت قدرتی نظام کے تحت زمینی درجۂ حرارت خود بہ خود اِس خطرے کے نشان سے دُور رہتا تھا۔ 

یہ وہ زمانہ تھا، جب صنعتی ترقّی کی وہ شکل نہیں تھی، جو آج ہے۔تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ وعدوں اور کانفرنسز کے باوجود زمین کا درجۂ حرات بڑھنے کی رفتار اب تک2 ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے نہیں لائی جاسکی۔طے یہ ہوا تھا کہ2029 ء تک ہدف حاصل کر لیا جائے گا، لیکن اقوامِ متحدہ کا، جس کے تحت موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کی یہ تمام کوششیں کی جارہی ہیں، کہنا ہے کہ بڑے ممالک کی سرد مہری کی وجہ سے یہ ہدف پورا ہوتا نظر نہیں آرہا۔

کوپ-28 میں چار معاملات پر خاص طور پر فوکس کیا گیا۔صاف انرجی کی طرف( جسے گرین انرجی بھی کہا جاتا ہے) بڑھنے میں مزید تیز رفتاری، تاکہ کاربن کا اخراج کم سے کم کیا جاسکے۔اِس کے لیے اب 2030ء کا ہدف رکھا گیا ہے۔گرین انرجی پر سب سے سنجیدہ کام یورپ میں ہو رہا ہے۔وہاں نہ صرف متبادل ذرائع پر کام ہو رہا ہے، بلکہ عوام میں شعور اجاگر کرنے کے ضمن میں بھی کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔

یہاں تک کہ اب گرین انرجی سیاسی جماعتوں کے منشور کا بھی حصّہ بن گئی ہے۔ جرمنی کے حالیہ انتخابات میں گرین انرجی کا منشور رکھنے والی گرین پارٹی نے پہلی مرتبہ بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کیے اور اتحادی حکومت میں حصّے دار بنی۔عالمی ادارے اور ماہرین اِس امر پر متفّق ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی سے نبرد آزما ہونے کے لیے ترقّی پذیر اور غریب ممالک کے پاس سرمایہ ہے اور نہ ہی وہ وسائل اور ٹیکنالوجی، جن کی اس میدان میں ضرورت ہے، اِسی لیے پیرس کانفرنس میں طے ہوگیا تھا کہ امیر ممالک، ایسے ممالک کے لیے باقاعدہ فنڈز مقرّر کریں گے۔شروع میں تو اس پر خاصی سنجیدگی سے کام ہوا، لیکن بعد میں رفتار سُست ہوگئی۔

اس کی ایک وجہ تو کووِڈ۔19 کا اچانک حملہ تھا، جس سے عالمی معیشت ٹھپ ہوگئی تھی اور دو سال بعد کچھ بحالی ممکن ہوسکی۔ایسے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے فنڈز دینے کا خیال کسے آتا۔پھر یوکرین جنگ نے منہگائی کے جس طوفان کو جنم دیا، اُس سے بھی غریب ممالک کی مدد کی کوششوں کو نقصان پہنچا۔کوپ-28 کا ایک ہدف یہ بھی ہے کہ انسان کو فطرت کے قریب لایا جائے۔

اِس ضمن میں جنگلات اور درختوں کی افزائش کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔صنعتی ترقّی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ ہر طرف سیمینٹ اور سریے کی صُورت کنکریٹ کے جنگل کے جنگل وجود میں آنے لگے ہیں۔ چوں کہ آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، اِس لیے تمام ممالک کی یہی کوشش ہے کہ لوگوں کو سَرچُھپانے کی جگہ دی جائے۔ ظاہر ہے کہ مکانات اور بڑی بڑی ہاؤسنگ کالونیز کے لیے درختوں اور سبزے کو صاف کروانا پڑ رہا ہے، جنگلی حیات ختم ہو رہی ہے، چشمے اور چھوٹے چھوٹے دریا غائب ہو رہے ہیں۔

گندگی کے پہاڑ ہر چیز کو آلودہ کر رہے ہیں، روز خبریں آتی ہیں کہ فلاں شہر میں تین دن سے کچرا نہیں اُٹھایا گیا۔ اپنے مُلک پر نظر ڈالی جائے، تو یہ صُورتِ حال کچھ زیادہ ہی تشویش ناک ہے۔ بڑے بڑے شہر وجود میں آرہے ہیں، جن کی آبادی کروڑوں میں ہے۔ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ اُن کے لیے مکانات، سڑکیں اور ٹرانسپورٹ ہو، جس کے لیے جنگلات، زرعی زمینیں مٹائی جا رہی ہیں۔روزگار کے لیے کارخانے لگانے پڑتے ہیں، جن سے کاربن کا اخراج ناقابلِ برداشت ہوگیا ہے، اِسی لیے لاہور اور کراچی جیسے خُوب صُورت شہر اسموگ اور آلودگی میں سرفہرست جا رہے ہیں۔

ہم سیاسی، معاشی اور دیگر معاملات کے دباؤ میں اِس بُری طرح اُلجھ چُکے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کُن اثرات کی طرف سوچ بھی نہیں جاتی، اس کا صرف اُسی وقت خیال آتا ہے، جب طوفانی بارشوں، منہ زور سیلابوں، شدید گرمی اور اسموگ کی لپیٹ میں آتے ہیں۔ کسی محفل میں اِس ایشو پر بات نہیں ہوتی، یہ کام چند این جی اوز اور حکومتی اداروں پر چھوڑ دیا گیا ہے، حالاں کہ یہ مضمون تو اسکولز میں پرائمری کلاسز سے شروع ہوجانا چاہیے۔انگلش میڈیم اسکولز اور نجی منہگی یونی ورسٹیز کی بہتات ہے، لیکن ان کے طلبہ اپنے گھروں تک کی صفائی پر توجّہ نہیں دیتے۔

کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ جس مُلک کی آبادی کا62 فی صد نوجوانوں پر مشتمل ہو ، وہاں کے محلّے غلاظت کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ہمارے ہاں ایسی باتیں کرنے والوں کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔حقیقت یہی ہے کہ اگر فطرت اور ترقّی میں توازن قائم نہیں رہا، تو دنیا کو جس تباہ کاری کا سامنا کرنا پڑے گا، اس کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا۔کوپ-28میں کوشش کی گئی کہ عوامی شعور اجاگر کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں۔ اگر موٹیویشنل اسپیکرز اِس سلسلے میں بھی کچھ کام کرلیں، تو سب کا بھلا ہوگا اور قوم، خاص طور پر نوجوان بھی مثبت کام پر لگ جائیں گے۔کوئی ایک مُلک یا خطّہ یہ کام نہیں کرسکتا، ساری انسانیت کو مل کر ہی اِس تباہی سے نبرد آزما ہونا پڑے گا اور یہ کاوشیں انسانی یک جہتی کا بہترین ذریعہ بھی بن سکتی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی جڑ فوسل فیولز کا بے قابو استعمال ہے، جو ظاہر ہے کہ ترقّی یافتہ ممالک میں بہت زیادہ ہے۔ چین، امریکا، یورپ، روس، بھارت، جاپان اور دیگر ترقّی یافتہ ممالک اس میں بہت آگے ہیں۔گرین ہائوس گیسز، جو کاربن کے اخراج کی بنیاد ہیں، اِنہی فوسل فیولز سے پیدا ہوتی ہیں، جن میں تیل، گیس اور کوئلہ شامل ہیں۔ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ تیل، گیس کا استعمال ذرا سا کم کرنے کی کوشش کی جائے، تو ایک ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے کہ لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔

حال ہی میں لاہور میں اسموگ پر قابو پانے کے لیے حکومت نے ایک یا دو روز کی چھٹّی کی بات کی، تو اسے کوئی قبول کرنے کو تیار نہ ہوا۔ بازاروں کو چھے بجے بند کرنا گویا کسی گناہ کے مترادف ہے۔ہمیں اِس طرح کی باتیں پسند ہوں، نہ ہوں، مگر متبادل ذرائع تو اختیار کرنے ہی پڑیں گے۔ترقّی یافتہ ممالک میں گھر سے کام کا رواج ہوگیا ہے، لوگ دو، تین دن دفتر جاتے ہیں، اِسی طرح ٹرانسپورٹ کم کر کے آلودگی پر قابو پانے کی کوششیں جاری ہیں۔

سولر اور ونڈ انرجی کی جنریشن کے باقاعدہ فارمز لگائے گئے ہیں، جو تیل، گیس اور کوئلے سے چلنے والے بڑے بڑے بجلی گھروں کی جگہ لے رہے ہیں۔ یہ پلانٹ سرمایہ مانگتے ہیں اور اس کے لیے امیر ممالک کو حوصلے اور بڑے دل سے ترقّی پذیر ممالک کی مدد کرنی ہوگی، کیوں کہ کاربن کے اخراج کے ذمّے دار یہی ممالک ہیں۔ ان کی ترقّی اور دولت اسی کی مرہونِ منّت ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ یہ اپنی دولت میں سے تھوڑا سا حصّہ نکال کر اپنی زمین کا نقصان پورا کریں۔