امریکی عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اِس مرتبہ مکمل بااختیار بنا کر وائٹ ہاؤس بھیجا ہے۔اُنہیں الیکٹورل کالج کے326 ووٹ ملے، جو ایک غیر معمولی بات ہے۔نیز، انھیں عوامی ووٹس اور بیش تر ریاستوں میں بھی واضح برتری حاصل رہی۔سینیٹ اور کانگریس بھی اب ری پبلکن پارٹی کے کنٹرول میں آگئی ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹرمپ کو مالیاتی، انتظامی یا خارجہ پالیسی سے متعلق بلز پاس کروانے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔
علاوہ ازیں، امریکا میں کئی اہم پوسٹس جیسے سیکریٹری آف اسٹیٹ، نیشنل سیکیوریٹی کے مشیر اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر کی تعیّناتی کے لیے سینیٹ کی منظوری ضروری ہے، تو وہاں ری پبلکن پارٹی کی اکثریت کے سبب ٹرمپ مرضی کے افراد کو اہم اسامیوں پر بآسانی لا سکیں گے۔ چیک اینڈ بیلنس کم ہوگا، جو جمہوریت کے لیے تو اچھا نہیں، لیکن امریکی عوام کی یہی مرضی ہے۔امریکا میں دہائیوں بعد ایسا ہوا ہے کہ عوام نے کسی صدر کو اِس قدر پاور دی ہو۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا محور ہمیشہ اندورنِ مُلک تبدیلیوں اور اصلاحات پر رہا۔
وہ گزشتہ دس برسوں سے’’امریکا فرسٹ‘‘ اور اسے عظیم تر بنانے کا وعدہ کر رہے ہیں اور اِس مرتبہ امریکی عوام نے اُنہیں یہ کام کر گزرنے کا کُلی اختیار دے دیا ہے۔ عوامی تقسیم کی جو باتیں میڈیا میں بہت زورشور سے پھیلائی گئی تھیں، اس ضمن میں اب سناٹا ہے اور امریکی عوام ہی کی نہیں، بلکہ دنیا بَھر کی نگاہیں اس وقت ٹرمپ پر ہیں کہ وہ کس طرح آگے بڑھتے ہیں۔
اِس حوالے سے اُن کا سب سے اہم فیصلہ اہم عُہدوں پر تعینات افراد سے متعلق ہے، کیوں کہ اِسی سے وعدوں یا منشور پر عمل کے لیے اُن کی سنجیدگی کا اندازہ لگانا ممکن ہے۔ یہ ٹرمپ کے آخری چار سال ہیں کہ امریکی آئین کے تحت وہ اِس کے بعد صدر کا انتخاب نہیں لڑ سکیں گے۔ اپنے اِس آخری دورِ حکومت میں وہ کتنی تبدیلیاں لاتے ہیں، یہ دیکھنے کی بات ہوگی۔
تاہم، اِس معاملے پر دو پہلوؤں سے غور کی ضرورت ہے۔ وہ اندرونِ مُلک جو اقدامات اُٹھائیں گے، اُن سے براہِ راست امریکی عوام پر اثرات مرتّب ہوں گے، جب کہ خارجہ امور میں پیش رفت عالمی معاملات پر اثر انداز ہوگی۔
یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ ٹرمپ کو اپنے کون کون سے ہم عصر رہنماؤں سے سابقہ پڑے گا اور وہ اُن سے کس حد تک اپنی بات منوا سکیں گے۔ گزشتہ ٹرم میں ٹرمپ پر تنقید ہوتی تھی کہ وہ ایک غیر سیاسی اور غیر روایتی صدر ہیں، اِس لیے اُنھیں اپنی کابینہ اور اہم عُہدوں میں تقرّریوں میں مشکلات کا سامنا رہا اور پورے دورِ اقتدار میں بار بار عُہدے داروں کو بدلتے رہے، جس سے محکموں میں ہل چل ہی رہی، لیکن اِس مرتبہ یہ کام بڑی منصوبہ بندی اور اعتماد سے ہو رہا ہے۔
واضح رہے، امریکی صدر مختلف عُہدوں پر 4000 تعیّناتیاں کرسکتا ہے۔ ٹرمپ کا منشور تین نکات پر مشتمل ہے۔ امیگریشن، معیشت اور خارجہ پالیسی۔اور یہ کہ وہ دو جنگیں بھی، یعنی یوکرین اور فلسطین جنگ، ختم کروانا چاہتے ہیں۔
نومنتخب امریکی صدر نے جس پہلی پوسٹ پر تعیّناتی کی ہے، وہ وائٹ ہاؤس کی چیف آف اسٹاف ہیں۔ سوزی وائلز وائٹ ہاؤس کے تمام معاملات دیکھیں گی، خواہ وہ انتظامی ہوں یا سیاسی۔ سوزی، ٹرمپ کی انتخابی مہم کی بھی انچارج تھیں اور اُن سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اپنا کام نہ صرف انتہائی سنجیدگی سے کرتی ہیں، بلکہ اس میں مکمل مہارت بھی رکھتی ہیں۔ وہ ٹرمپ کے ساتھیوں، ری پبلکن پارٹی کے ارکانِ پارلیمان، ریاستی گورنرز اور دیگر اہم حکومتی و ریاستی عُہدے داروں سے بھی بخوبی واقف ہیں۔
واضح رہے، وہ اِس سے قبل بھی وائٹ ہاؤس میں ایک اہم عُہدے پر فائز رہ چُکی ہیں اور اس کے چپّے چپّے اور یہاں سرانجام دئیے جانے والے کاموں کے طریقۂ کار سے پوری طرح واقف ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے اہم امور میں، جہاں صدر کے پروگرام اور بیرونی حُکم رانوں کی مہمان نوازی شامل ہے، وہیں یہاں سے دنیا بَھر میں امریکی پالیسی یا کسی اقدام سے متعلق فیصلہ کُن وضاحت بھی میڈیا کے سامنے رکھی جاتی ہے۔اِس طرح صدر اور حکومت کے امیج میں اِس ہاؤس کا کردار کلیدی نوعیت کا ہے۔
ٹرمپ کا سب سے بڑا اور بنیادی وعدہ امیگریشن سے متعلق ہے۔گویا، اُن کی قوم پرستی کی بنیاد غیر قانونی تارکینِ وطن کی مخالفت ہے۔ اِس معاملے پر ٹرمپ کے جارحانہ انداز نے یورپی اور مغربی ممالک میں قوم پرستی کو تقویت دی، اِسی لیے وہاں رواں برس ہونے والے انتخابات میں تارکینِ وطن کی مخالف جماعتیں برسرِ اقتدار آئیں یا اُن کا اثر ورسوخ اِس حد تک بڑھا کہ بائیں بازو کی جماعتوں کو بھی اِس معاملے پر سخت موقف اپنانا پڑا۔فرانس، جرمنی اور پولینڈ، جو یورپ کے اہم ترین اور بڑے ممالک ہیں، اِس لہر کی واضح مثال ہیں۔
ٹرمپ نے اپنی کابینہ کے لیے جو پہلا وزیر چُنا، وہ امیگریشن ہی سے متعلق ہے۔ یہ ٹرمپ انتظامیہ کی اہم ترین وزارت ہوگی، کیوں کہ لاکھوں غیر قانونی تارکینِ وطن کی مُلک سے بے دخلی اِسی کی ذمّے داری ہوگی۔اِس وزارت کے لیے منتخب کردہ ٹام ہومین ایک سخت گیر شخص کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔
وہ سابق پولیس افسر ہیں اور ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں بارڈر کنٹرول کے ڈائریکٹر تھے۔اُنہوں نے اُس وقت بھی ایسے سخت ترین اقدامات کیے، جن پر خاصی تنقید ہوئی۔ان کے ساتھ ہوم لینڈ سیکیوریٹی کی انچارج کرسٹی نوم ہوں گی، جو ساؤتھ ڈیکوٹا کی گورنر ہیں۔
یہ سائبر وار، دہشت گردی اور دیگر فوری نوعیت کے معاملات دیکھیں گی۔یہ امریکا کی ایک بہت بڑی ایجینسی ہے، جس کا بجٹ62 ارب ڈالرز ہے اور اس میں ہزاروں اہل کار کام کرتے ہیں۔اقوامِ متحدہ کے لیے امریکی سفیر کے طور پر الیس اسٹیفانک کا انتخاب کیا گیا۔
یہ خارجہ امور سے متعلق ایک اہم عُہدہ ہے، کیوں کہ یوکرین جنگ ہو یا غزہ اور ایران کے معاملات، سب اقوامِ متحدہ ہی میں آتے ہیں اور اسی کی چھتری تلے معاہدے ہوتے ہیں۔اندرونِ مُلک بیوروکریسی میں اصلاحات اور اُسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ایک نئی وزارت تخلیق کی گئی ہے، جس کے وزیر ٹرمپ کے قریبی ساتھی، ایلون مسک ہیں۔
اگر ٹرمپ کے نئے دَور کی دنیا پر نظر ڈالی جائے، تو چین میں صدر شی جن پنگ سے اُن کا سابقہ پڑے گا۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں اقتصادی معاملات میں سب سے زیادہ چین ہی پر تنقید کی۔اُن کا کہنا تھا کہ چین، امریکا ٹریڈ میں امریکا کو تقریباً تین سو بلین ڈالرز کا خسارہ اُٹھانا پڑتا ہے، جس سے اس کی معیشت مسلسل نقصان میں جا رہی ہے۔
اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا میں مینو فیکچرنگ میں کمی کی بنیادی وجہ چین کی برآمدات ہیں اور اِس کے لیے وہ سابقہ امریکی صدور کو بھی موردِ الزام ٹھہراتے رہے کہ اُنھوں ہی نے چین سے خسارے کے معاہدے کیے۔ ٹرمپ دورِ حکومت کے آخری دنوں میں جب کورونا نے دنیا کو لپیٹ میں لیا، تو امریکا، چین کو اِس وبا کے پھیلاؤ کا الزام دیتا رہا۔ٹرمپ اور شی جن پنگ کی پہلے دَور میں کئی ملاقاتیں ہوئیں۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ ملاقاتیں اچھی انڈر اسٹینڈنگ بلکہ دوستی میں ڈھلیں، لیکن ٹرمپ نے چینی اشیاء پر ٹیکس لگائے، جسے’’چین، امریکا ٹریڈ وار‘‘ کا نام دیا گیا۔اِن دو بڑی معاشی طاقتوں کی جنگ، دنیا کے لیے اقتصادی خطرے کی علامت بتائی گئی، لیکن شی جن پنگ اور ٹرمپ کی ملاقاتوں سے تناؤ میں کمی آئی۔چین اب بہت آگے بڑھ چُکا ہے اور وہ دنیا کے سیاسی معاملات میں بھی اہم ہوگیا ہے۔
یوکرین جنگ میں ویسے تو وہ روس کی حمایت کرتا ہے، اُس سے سَستا تیل بھی سب سے زیادہ وہی خریدتا ہے، لیکن اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنگ مذاکرات سے بند ہونی چاہیے۔چین نے مشرقِ وسطیٰ میں بھی سعودی عرب اور ایران کے مابین معاہدہ کروایا۔پھر فلسطینیوں کے مختلف دھڑوں کو بھی متحد کیا، لیکن اس کی اسرائیل سے بھی بہت اچھی دوستی ہے۔بیانات کی حد تک اس نے غزہ پر اصولی موقف اختیار کیا، لیکن کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا۔
بہرکیف، ٹرمپ کو شی جن پنگ سے پھر سے معاملات طے کرنے ہوں گے اور یہ شاید زیادہ مشکل بھی نہ ہو۔روس میں صدر پیوٹن رواں برس2028ء تک صدر منتخب ہوئے ہیں اور وہی یوکرین جنگ کے ذمّے دار ہیں۔ یوکرین جنگ کی طوالت کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پیوٹن غزہ یا مشرقِ وسطیٰ کے معاملات میں فعال نہیں۔ٹرمپ، پیوٹن کو اچھی طرح جانتے ہیں اور اُن کی دو، تین ملاقاتیں بھی ہوچکی ہیں۔
شمالی کوریا سے مذاکرات میں چین اور روس سے ٹرمپ کے تعلقات کا بڑا دخل تھا۔ گو، خارجہ معاملات ٹرمپ کی دوسری ترجیح ہیں، لیکن یوکرین جنگ بند کروانے کا وعدہ براہِ راست پیوٹن سے تعلق رکھتا ہے، جو اپنے ایک پیغام میں جنگ بندی کے لیے بات چیت پر آمادگی ظاہر کرچُکے ہیں، لیکن اِس معاملے میں یورپی ممالک اور نیٹو بھی بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ برطانیہ میں کنزرویٹو پارٹی کی جگہ لیبر پارٹی آچُکی ہے، جس کی قیادت کیئر اسٹارمر کر رہے ہیں اور وہی برطانیہ کے وزیرِ اعظم ہیں۔
لیبر پارٹی کا جھکائو لیفٹ کی طرف ہوتا ہے، تاہم برطانیہ اور امریکا کے تعلقات اِتنے قریبی ہیں کہ اِس معاملے کی کوئی اہمیت نہیں۔ اسٹارمر اپنے پہلے دورۂ امریکا میں ٹرمپ سے ملاقات بھی کرچُکے ہیں اور وہ اُن پہلے عالمی رہنماؤں میں شامل ہیں، جنہوں نے ٹرمپ کو شان دار جیت پر مبارک باد دی۔فرانس میں صدر میکرون موجود ہیں، جنہیں ٹرمپ اچھی طرح جانتے ہیں۔واضح رہے کہ یورپ کی قوم پرست جماعتیں جس طرح اقتدار میں آ رہی ہیں، وہ ٹرمپ کے لیے بہت سے معاملات، خاص طور پر یوکرین جنگ کی بندش میں آسانیاں پیدا کرسکتی ہیں۔
شہزادہ، محمّد بن سلمان نہ صرف سعودی عرب، بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے بھی اہم ترین رہنما ہیں۔اسرائیل اور ایران کی لیڈر شپ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ٹرمپ نے غزہ اور مشرقِ وسطیٰ میں خون ریزی رکوانے کا وعدہ کیا ہے اور اِس ضمن میں یہی ممالک اہم کھلاڑی ہوں گے۔ ٹرمپ، ایران اور اس کی پراکسیز یعنی ملیشیاز کے سخت مخالف ہیں۔
سال بَھر کی جنگ کے بعد نہ صرف ان جنگ جُو تنظیموں کی طاقت میں کمی آئی ہے، بلکہ ان کے تمام نام وَر رہنما جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یاد رہے کہ سابقہ ٹرمپ دَور میں ایران کی دوسری سب سے طاقت ور شخصیت، جنرل سلیمانی کو،جو ایران کی مشرقِ وسطیٰ میں جارحانہ خارجہ پالیسی کنٹرول کرتے تھے، امریکا نے عراق میں ایک ڈورن حملے میں ہلاک کیا تھا۔
ٹرمپ کی سوچ یہ بھی ہے کہ عرب ممالک اور اسرائیل میں تعلقات قائم ہونے کے بعد فلسطین کا دو ریاستی حل ممکن ہوسکے گا اور اُنھوں نے اپنے پہلے دَور میں اِس سمت خاصی پیش رفت بھی کی تھی۔ ان کے عرب ممالک سے بہت اچھے تعلقات ہیں، جب کہ آج مسلم دنیا بھی ٹرمپ کی طرف دیکھ رہی ہے کہ وہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت رکوائیں۔
اُن کے ناقدین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ٹرمپ کی جنگ بندی کے ضمن میں کسی بھی مثبت پیش رفت کو سب کی سپورٹ حاصل ہوگی۔ البتہ، یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ ٹرمپ، اسرائیل کے زبردست حامی ہیں اور وہ کوئی ایسا اقدام نہیں کریں گے، جس سے اسرائیل کم زور ہو۔ ویسے بھی اسرائیل، مشرقِ وسطیٰ میں امریکی پالیسیز کے نفاذ اور مفادات کی حفاظت کا محور ہے۔
دنیا کی دوسری بڑی آبادی والے مُلک، بھارت میں نریندر مودی اقتدار میں ہیں، جن کے ڈونلڈ ٹرمپ سے پرانے تعلقات ہیں۔ ٹرمپ اور مودی نہ صرف یہ کہ ذاتی دوست ہیں، بلکہ امریکا اور بھارت میں قربت بھی کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں۔ بھارت کواڈ فورم کے اُن پانچ ارکان میں سے ایک ہے، جو انڈو پیسیفک میں چین کی پیش رفت روکنے کے لیے کوشاں ہیں۔
بھارت، امریکا اور عرب ممالک کے ساتھ’’ ممبئی، دبئی، یورپ کوریڈور‘‘ کا حصّہ ہے، جو امریکا نے سی پیک کے مقابلے میں بنایا ہے اور جس کا اعلان نئی دہلی میں جی۔20 ممالک کی کانفرنس کے موقعے پر کیا گیا تھا۔ امریکا کی بیش تر بڑی ٹیک کمپنیز کے سربراہ بھارتی شہری ہیں۔ پھر یہ کہ بھارت کے پاس 650ارب ڈالرز کے محفوظ ذخائر اور ایک وسیع مارکیٹ ہے، جو ٹرمپ جیسے تاجر صدر کے لیے کشش کی حامل ہے۔
نریندر مودی کا اقتدار میں ہونا، ٹرمپ کے لیے بہت سی آسانیاں فراہم کرے گا۔جنوب مشرقی ایشیا یا انڈو پیسیفک میں، جو اب امریکی قوّت کا مرکز ہے، تمام رہنما ٹرمپ سے اچھی خاصی شناسائی رکھتے ہیں۔ جاپان خطّے میں امریکا کا سب سے بڑا اتحادی ہے اور وہاں کوئی بھی وزیرِ اعظم آئے، امریکی پالیسیز کا ہم نوا ہی ہوتا ہے کہ یہاں چین کی پیش رفت خطّے کے لیے خطرہ سمجھی جاتی ہے۔
امریکا، افغانستان کا باب بند کرچُکا، اِس لیے اب پاکستان سے تعلقات صرف دو طرفہ سطح ہی پر دیکھے جائیں گے۔امریکا، پاکستان کا سب سے بڑا اقتصادی شراکت دار ہے۔ گزشتہ دَور میں ٹرمپ کی تمام تر توجّہ افغانستان سے واپسی پر تھی اور اِس سلسلے میں اُنہیں پاکستان کی معاونت چاہیے تھی، جو پی ٹی آئی حکومت نے اُنھیں فراہم کی۔ یہ پارٹی جس انداز میں ٹرمپ کے جیتنے پر خوشیاں منا رہی ہے، ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
ٹرمپ ہی سے ہر مسئلے کے حل کی توقّع کی جارہی ہے، حالاں کہ ایسا ممکن نہیں۔ ویسے بھی امریکا میں ایسی کوئی روایت نہیں کہ کوئی شخص وہاں پناہ لے کر اپنے مُلک میں تحریک چلائے، جیسے آیت اللہ خمینی نے فرانس سے تحریک چلا کر شاہ کا تختہ اُلٹ دیا تھا۔ اگر پاکستان کی کوئی بھی جماعت یا حُکم ران ٹرمپ کو باہمی تعاون کی پیش کش کرے، تو وہ اُس میں دل چسپی لے سکتے ہیں۔ انسانی حقوق، انقلاب، کرپشن جیسے معاملات سے ٹرمپ کو کوئی سروکار نہیں، وہ ایک تاجر ہیں اور دنیا کو گھاٹے یا منافعے ہی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔