کسے خبر تھی کہ 1962ء کو غزہ کی پٹّی کے ال شاطی مُہاجر کیمپ میں پیدا ہونے والا بچّہ ایک دن ساری دُنیا میں اپنا اور اسلام کا نام روشن کرے گا۔ اُس بچّے نے، اسماعیل ہانیہ کے نام سے شہرت و نیک نامی پائی اور اپنی شہادت کے بعد بھی لاکھوں، کروڑوں افراد کے دِلوں میں بستا ہے۔
اسماعیل ہانیہ نے ابتدائی تعلیم غزہ ہی میں حاصل کی۔16 سال کی عُمر میں اپنی کزن امل ہانیہ سے شادی کی، جن سے اُن کے13 بچّے ہوئے، ان میں8 بیٹے اور5 بیٹیاں شامل ہیں۔
1987ء میں غزہ کی اسلامیہ یونی ورسٹی سے عربی ادب میں گریجویشن کی اور اُسی دَور میں فلسطینی مزاحمتی تحریک، حمّاس سے وابستہ ہوگئے۔یہیں سے اُنہوں نے’’ انتفاضتہ الاولیٰ‘‘ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ دراصل، یہ فلسطینیوں کی اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کے خلاف پہلی مسلّح بغاوت تھی۔ اس’’ جرم‘‘ کی پاداش میں اُنہیں مُختلف ادوار میں تین مرتبہ پسِ زنداں بھی رہنا پڑا۔
جیل سے آزادی کے بعد اُنہیں جبراً لبنان بھیج دیا گیا۔تاہم، ایک سال بعد وہاں سے واپس آگئے اور غزہ یونی ورسٹی سے بطور ڈین منسلک ہوگئے۔ 1997ء میں اُنہیں حمّاس آفس کا سربراہ بنایا گیا اور پھر یہیں سے اُن کی سیاسی زندگی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اپنے اعلیٰ کردار و اوصاف، نظم و ضبط اور بھرپور ہمّت و حوصلے کی بدولت ترقّی کی منازل طے کرتے رہے، یہاں تک کہ 2006ء میں فلسطین اتھارٹی کے انتخابات میں نُمایاں کام یابی حاصل کی اور فلسطین کے وزیرِ اعظم بن گئے، جب کہ اُس وقت صدر محمود عبّاس تھے، جن کا تعلق فتح پارٹی سے تھا۔
حمّاس اور فتح کے درمیان اوّل دن سے اختلاف رہا ہے۔چُناں چہ، محمود عبّاس نے 2007ء کو اِنہی اختلافات کی بنیاد پر اسماعیل ہانیہ کو وزیرِ اعظم سے برطرف کردیا۔تاہم، اُنھوں نے فیصلہ ماننے سے انکار کیا اور بدستور اپنے عُہدے پر کام کرتے رہے۔یاد رہے، 2017ء میں اسماعیل ہانیہ کو حمّاس پولیٹیکل بیورو کا چیئرمین بنادیا گیا تھا۔
7 اکتوبر 2023ء کو حمّاس نے’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کے نام سے کارروائی کرتے ہوئے اسرائیل کو اچانک دبوچ لیا، جس کے بعد بدمست، جنونی اسرائیل نے غزہ کی پٹّی کو معصوم بچّوں سمیت نہتے فلسطینیوں کا قبرستان بنا ڈالا۔ ہٹلر کے مظالم کو آج تک رونے والے یہودیوں نے خود کوہٹلر سے کئی گُنا زیادہ ظالم و جابر ثابت کیا ہے۔
اسرائیل نے اِن حملوں میں اسماعیل ہانیہ کے بیٹوں اور خاندان کے دیگر افراد کو بھی نشانہ بنایا۔ دو جوان بیٹوں اور قریبی رشتے داروں کے جنازے دیکھ کر بھی اِس مردِ حُر کے پایۂ استقلال میں جنبش تک نہ آئی، وہ ظلم کے خلاف لڑتا رہا، یہاں تک کہ اسرائیل نے31جولائی 2024ء کو ایران کے دارالحکومت، تہران میں ایک پُراسرار حملے میں اُنھیں شہید کردیا۔
اُنھیں اُس وقت نشانہ گیا، جب وہ نو منتخب ایرانی صدر کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے اور حملے کے وقت شمالی تہران میں سابق فوجیوں کی ایک رہائش گاہ میں قیام پذیر تھے۔یکم اگست تہران میں اُن کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی، جس کی امامت،ایران کے سپریم لیڈر، آیت اللہ علی خامنہ ای نے کروائی۔ 2 اگست کو اُن کے جسدِ خاکی کو قطر لے جایا گیا، جہاں اُن کی دوسری نمازِ جنازہ دارالحکومت، دوحا کی جامع مسجد میں ہوئی، جس کے بعد قطر ہی میں اُنھیں سپردِ خاک کیا گیا۔ایران کے صدر، مسعود پیزشکیان نے اسماعیل ہانیہ کو’’شہید القدس‘‘ کا خطاب دیا۔
اِس موقعے پر حمّاس کے ترجمان، خالد قدومی نے میڈیا کو بتایا کہ اسماعیل ہانیہ کے خاندان کے79 لوگ شہید ہوچُکے ہیں، جن میں اُن کے 2بیٹے بھی شامل ہیں۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ’’ اسرائیل کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آچکا ہے، مسلم اُمّہ کو حملے کا منہ توڑ جواب دینا چاہیے، ہم اِس وقت حالتِ جنگ میں ہیں اور اپنا دفاع کر رہے ہیں، جب کہ اسرائیل تمام سُرخ لکیریں عبور کرچکا ہے۔ اسرائیل نے ایک عالمی رہنما کا قتل کیا ہے،جس پر اقوامِ متحدہ کو ایکشن لینا چاہیے۔‘‘
افسوس اِس بات کا ہے کہ 57 اسلامی ممالک، اسماعیل ہانیہ کے اِس بہیمانہ قتل پر کچھ نہ کرسکے۔ یہ امتحان فلسطینیوں کا نہیں، بلکہ پوری اُمّتِ مسلمہ کا ہے۔ یہ آزمائش اہلِ اقصیٰ ہی کے لیے نہیں، بلکہ ہم سب کے لیے ہے۔ دوسری طرف اقوامِ متحدہ بھی اِس ظلم و سفّاکی اور عالمی قوانین کی پامالی پر محض ایک تماشائی کے کردار ہی تک محدود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ یٰسین میں ایک مردِ مومن کا تذکرہ کیا ہے، جو انبیائے کرامؑ کی دعوت پر لبیّک کہتا ہوا شہید ہوگیا اور بعد ازشہادت اُس کی تمنّا تھی کہ اے کاش! وہ لوگوں کو بتاسکے کہ وہ کام یاب ہوگیا ہے۔
یقین جانیے! اسماعیل ہانیہ کام یاب ہوگیا۔بظاہر وہ اب اِس دُنیا میں نہیں، لیکن ہمیشہ ہمارے دِلوں میں زندہ رہیں گے، ویسے بھی شہید کبھی مرتا نہیں۔سورۂ آلِ عمران،آیت نمبر 169میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔’’اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے، ہر گز اُنہیں مُردہ نہ خیال کرنا، بلکہ وہ زندہ ہیں، جو اپنے پروردگار کے ہاں سے رزق پارہے ہیں۔‘‘