• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تباہ حال فلسطینی، لفظی نہیں، عملی اظہارِ یک جہتی کے منتظر

فلسطین وہ ارضِ مقدّس ہے، جسے انبیائے کرامؑ کا مدفن ہونے کا شرف حاصل ہے، جہاں سے پیغمبرِ آخرالزماں، حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلّم، روح القدس کے ہم راہ سفرِ معراج کے لیے تشریف لے گئے، جس دھرتی پر رسول اللّٰہ ﷺ نے تمام نبیوںؑ کی امامت فرما کے’’ امام الانبیاءؑ‘‘ کا لقب پایا۔ 

وہ ارضِ مقدّس، جہاں اسلام کی عظمتِ رفتہ اور جنّت گم گشتہ کا نشان، قبلۂ اوّل کی صُورت موجود ہے، جس کے فاتحِ اوّل، حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ علاقہ پہلی جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ کے زیر نگیں آیا، تو اُس نے فرانس کی مدد سے یہودیوں کی فلسطین میں آباد کاری کی راہیں آسان کرنا شروع کیں، جسے پہلے پہل رواداری اور بعد ازاں قومی حق کا بھونڈا لبادہ اوڑھایا گیا۔ 

جنگِ عظیم دوم کے بعد باقاعدہ طور پر فلسطین کے دو ٹکڑے کیے گئے، ایک کو صہیونیوں اور دوسرے ٹکڑے کو فلسطینیوں کی ملکیت قرار دیا گیا۔اہلِ فلسطین کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف آواز اُٹھانے پر صہیونی عسکری گروہ قائم کیے گئے تاکہ وہ باقاعدہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کر سکیں۔

14 مئی1948 ء کو اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا، تو اگلے روز مصر، عراق، اردن اور شام بھی فلسطین پر چڑھ دوڑے اور بجائے اسرائیلی قوّت کے خاتمے کے، فلسطین ہی کے مختلف علاقوں پر قابض ہو گئے، یوں چند ہی دنوں میں لاکھوں فلسطینیوں کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا۔

یہود نے اپنی قبیح فطرت کے تحت آہستہ آہستہ قبضہ مزید مستحکم کرتے ہوئے فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کا باقاعدہ آغاز کر دیا، جس کے نتیجے میں پُرامن فلسطینی انتہائی بے دردی سے شہید کیے جاتے رہے، ہر اُٹھنے والی آواز دبا دی گئی اور آزادی، غلامی میں بدل دی گئی۔

نوجوانوں، بزرگوں، خواتین اور بچّوں، سب کو یک ساں طور پر اس سفّاکیت کا نشانہ بنایا گیا۔ اس امر کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حالیہ ایک سال میں غزہ کی 41کلومیٹر لمبی اور 11کلومیٹر چوڑی پٹّی پر فضا سے29450 بم برسائے جا چُکے ہیں، جب کہ زمینی فوج کی طرف سے گولیوں اور ٹینکس سے برسائے بارود کا تو تخمینہ ہی نہیں لگایا جا سکتا، لیکن فلسطینی عوام کو’’ دلاسا‘‘ دینے کے لیے عالمی دن بھی تو ہے ناں!!

جی ہاں! 29 نومبر کو’’ فلسطینی عوام سے اظہارِ یک جہتی کا عالمی دن‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ عالمی دن، اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی2 دسمبر 1977ء کی ایک قرارداد کے تحت شروع کیا گیا تھا اور اِس کا مقصد فلسطینی عوام کے حقوق، خاص طور پر حقِ خود ارادیت اور آزاد ریاست کے قیام کے لیے اُن کی جدوجہد کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا ہے۔ 

اقوامِ متحدہ اور اُس کے رُکن ممالک اس دن کو مختلف تقریبات، سیمینارز اور مباحثوں کے ذریعے مناتے ہیں تاکہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کیا جا سکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کیسی یک جہتی ہے، جس میں امریکی اور جرمن حکومتیں کئی ٹن بارود، آئرن ڈوم جیسے میزائل اور دوسرے جنگی آلات، فلسطینیوں پہ برسانے کے لیے اسرائیل کے حوالے کر چُکی ہیں۔ 

یہ کیسی یک جہتی ہے کہ ایک طرف برطانیہ اور فرانس، اسرائیل کی بھرپور سفارتی مدد کر رہے ہیں اور دوسری طرف،29 نومبر کو فلسطینیوں سے یک جہتی کا ڈھونگ بھی رچا رہے ہیں۔ عرب ممالک اسرائیل سے تعلقات کے لیے مَرے جا رہے ہیں، مصر کے بارڈر پر ایک طرف کھڑے سپاہی پیٹ بَھر کر کھانا کھا رہے ہیں، جب کہ خاردار تاروں کی دوسری طرف معصوم بچّے بِلک بِلک کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ 

ایک طرف جارحیت و بربریت ہے، تو دوسری طرف صبر و استقامت کی داستان۔ اہلِ غزہ پر بیتے احوال کا دیگر خطّوں کے باسی تصوّر تک نہیں کر سکتے۔ یہ ہمّت و استقامت کے پہاڑ ہیں، یہ ایمانی قوّت، صبر و تحمّل، ثابت قدمی اور اولوالعزمی سے مالا مال ہیں۔ زخم کھا کر بھی مسکرانا، پیاروں کو کھو کر بھی حسبنا اللہ کہنا، فولاد جیسے اعصاب اور ہمالیہ سے بلند عزائم ہی کی بدولت ممکن ہے۔ ان کا جذبۂ ایمانی دیکھ کر بے شمار لوگ مسلمان ہو چُکے ہیں۔ 

اس ضمن میں ایک بڑی مثال حال ہی میں اسلام قبول کرنے والی عالمی شہرت یافتہ شخصیت، Hanna Hansen ہیں۔ یہ جرمنی کی 5 بار قومی چیمپئن ہونے کے ساتھ، ایک بار عالمی چیمپئن بننے والی کک باکسر ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ان کے قبولِ اسلام کی خبر وائرل ہوئی تھی، اُنہوں نے ایک مقابلے میں ٹائٹل جیتنے کے بعد ہزاروں افراد کے سامنے قبولِ اسلام کا اعلان کیا تھا، مگر اس کے باوجود حجاب شروع نہیں کیا تھا اور کہا تھا کہ’’ فی الوقت مَیں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی‘‘، تاہم غزہ کی تڑپتی ماؤں، بہنوں کو دیکھ کر حجاب لینے اور دین پر کاربند ہونے کا بھی فیصلہ کرلیا۔

فلسطینی رومال اوڑھے، اہلِ غزہ کی حمایت میں آواز اُٹھاتے اُن کی کئی ویڈیوز وائرل ہوچُکی ہیں، بلکہ اُنہوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس فلسطینی کاز کے لیے وقف کر دیئے ہیں۔ لیکن اُمّتِ مسلمہ کی اجتماعی ذمّے داری نبھانے کے لیے کوئی میدانِ عمل میں نہیں آیا، ہر ایک صرف مذمّتی قراردادیں منظور کر کے ہی اپنے فرض سے سبک دوش ہو رہا ہے۔ اسرائیل کے ایک سال سے جاری حملوں کے نتیجے میں70,000سے زاید فلسطینی جاں بحق ہو چُکے، جن میں نصف خواتین اور بچّے شامل ہیں۔ بیش تر انفرا اسٹرکچر تباہ اور90 فی صد آبادی بے گھر ہو چُکی ہے۔ 

یہ کیسی درندگی اور دہشت ہے کہ مکینوں کے لیے اُنہی کے مکان تنگ کر دیئے گئے؟ کیسی سفّاکیت ہے کہ نومولود بچّوں تک کو درندگی کا نشانہ بنایاجا رہا ہے؟ اب صہیونی ریاست کی توجّہ رُوئے زمین کے تیسرے مقدّس ترین مقام، مسجدِ اقصیٰ پر ہے، جہاں وہ مسلمانوں کے اس معظم مقام کو منہدم کر کے اس کی جگہ ہیکلِ سلیمانی تعمیر کرنا چاہتی ہے، لیکن اس کا یہ منصوبہ صرف ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر تک محدود نہیں، بلکہ وہ غزہ پٹی کو منہدم کر کے یہاں پورٹ بنانے کے علاوہ دیگر کئی بدترین منصوبوں پر بھی عمل پیرا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اسرائیل جیسے عفریت اور بدمست ہاتھی کو نکیل بھی ڈالی جائے گی یا غزہ کی پٹی کے مکمل انہدام کا انتظار ہے۔ فلسطینی عوام پکار رہے ہیں کہ اے مسلمانو! ہم اُسی نگری کے باسی ہیں، جہاں سے دینِ اسلام کے زمزمے بلند ہوئے، جس کی آغوش میں انبیائے کرامؑ اپنے دن رات بسر کیا کرتے تھے۔ 

اے مسلمانو! ہماری ماؤں، بہنوں میں اِتنا حوصلہ ہے کہ ہمارے لاشے اُٹھا کر بھی کلمۂ حق کہنے سے پیچھے نہیں ہٹتیں، اپنے جگر گوشوں کے کٹے پَھٹے جسم دیکھ کر بھی’’ حسبنا اللہ و نعم الوکیل‘‘ کی صدا بلند کرتی ہیں۔اُمّتِ مسلمہ کا اجتماعی فریضہ ہے کہ نام نہاد یک جہتی کے اظہار کی بجائے عملی طور پر اسرائیل اور اس کے حواریوں کی اس بدترین نسل کُشی کے خلاف اُٹھ کھڑی ہو۔ اقوامِ متحدہ کی نام نہاد سلامتی کاؤنسل اپنے ہی بنائے گئے بین الاقوامی قوانینِ جنگ کے بخیے اُدھڑتے دیکھ رہی ہے۔

یہ مسئلہ صرف اہلِ فلسطین کا نہیں، بلکہ اسلام کی مجموعی طاقت کو للکارے جانے کا ہے۔ بلاشبہ عالمِ اسلام اور عالمِ مغرب، دونوں سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں، لیکن یہ ناکافی ہیں کہ ان کے ساتھ عملی اقدامات کی بھی اشد ضرورت ہے۔اے کاش! اس سربریت کو سامنے رکھتے ہوئے پوری اُمّتِ مسلمہ 29 نومبر کو صرف لفظی یک جہتی نہ کرے بلکہ متحد ہو کر صہیونی ریاست کے آگے کھڑی ہو جائے اور دو ٹوک الفاظ میں اعلان کر دے کہ’’ بس، بہت ہو گیا، اب ایک قدم بھی آگے بڑھایا گیا یا ایک بھی گولی چلی، تو یہ تمام اسلامی ممالک پہ حملہ تصوّر کیا جائے گا۔‘‘ 

اگر ہم ایسے جذبات سے عاری ہیں، تو ہمارا فلسطینیوں سے اظہارِ یک جہتی سوائے جھوٹی تسلّی کے کوئی معنی نہیں رکھتا کہ مظلوم فلسطینی آج کے دن بھی نوحہ گر ہیں۔؎آج کے دن نہ پوچھو، مِرے دوستو…زخم کتنے ابھی بختِ بسمل میں ہیں…دشت کتنے ابھی راہِ منزل میں ہیں…تیر کتنے ابھی دستِ قاتل میں ہیں۔