• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’تاریخ پر تاریخ کلچر‘‘ نظامِ عدل کے لیے ناسور ہے

بلوچستان کی نوجوان، باصلاحیت قانون دان، طیبہ کاکٹر سے بات چیت
بلوچستان کی نوجوان، باصلاحیت قانون دان، طیبہ کاکٹر سے بات چیت 

بات چیت: فرّخ شہزاد ملک، کوئٹہ

بلوچ معاشرے سے متعلق عام تاثر یہی ہے کہ یہ ایک روایتی، قدامت پسند معاشرہ ہے، جس میں خواتین گوناگوں مسائل کا شکار ہیں، مگر ان مسائل اور پس ماندگی کے باوجود ایک حوصلہ افزا بات یہ بھی ہے کہ اس صوبے کی خواتین متعدد شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ 

مُلک کا نسبتاً کم تعلیم یافتہ صوبہ ہونے کے باوجود یہاں کی خواتین نے عدلیہ، سیاست، تعلیم، سماجی خدمات، طب اور کھیل سمیت مختلف شعبوں میں نام کمایا ہے اور اب بلوچستان کی خواتین بیوروکریسی کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بھی آگے آ رہی ہیں۔ایس پی پری گل ترین کو، جو اِن دنوں اسلام آباد میں تعیّنات ہیں، بلوچستان کی پہلی پی ایس پی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اِسی طرح بلوچستان کے پانچ اضلاع میں خواتین ڈپٹی کمشنرز احسن انداز میں فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ 

عدلیہ کی بات کی جائے، تو بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سابق جسٹس سیّدہ طاہرہ صفدر کو مُلک کے کسی بھی صوبے میں ہائی کورٹ کی پہلی خاتون چیف جسٹس ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور اُنہیں بلوچستان کی خواتین کے لیے شعبۂ وکالت میں’’رجحان ساز‘‘ کہا جاسکتا ہے کہ اُن کے بعد کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف علاقوں سے خواتین اِس شعبے کی طرف آ رہی ہیں۔8 اگست 2016ء کو صوبائی دارالحکومت میں دہشت گردوں نے وکلاء برادری کو نشانہ بنایا، تو 60سے زائد وکلاء نے جامِ شہادت نوش کیا اور اُن میں ایسے وکلاء بھی شامل تھے، جنہیں مُلکی سطح پر جانا مانا جاتا تھا۔

اِس دِل خراش واقعے کے بعد ایک عرصے تک اِس شعبے میں سینئر اور باصلاحیت وکلاء کی کمی محسوس کی جاتی رہی، لیکن صوبے میں کئی ایسے نوجوان بھی تھے، جنہوں نے دہشت گردی کے اِس بڑے سانحے کے ردّ ِ عمل میں نہ صرف شعبۂ قانون اپنایا نلکہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اَن تھک، شبانہ روز محنت سے مختصر عرصے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوایا۔

اور ان ہی میں ایک نوجوان خاتون وکیل، طیّبہ کاکڑ بھی شامل ہیں، جنہوں نے حال ہی میں دبئی میں منعقد ہونے والی’’ وَن ورلڈ نیکس بین الاقوامی کانفرنس‘‘ میں بہترین مندوب کا ایوارڈ حاصل کیا۔واضح رہے، کانفرنس میں پچاس سے زائد ممالک کے100سے زاید مندوبین شریک تھے۔ گزشتہ دنوں طیّبہ کاکڑ کے ساتھ ایک تفصیلی نشست ہوئی، جس کا احوال جنگ،’’سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔

نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکاسی: رابرٹ جیمس)
نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکاسی: رابرٹ جیمس)

س: ابتدائی تعلیم سے متعلق کچھ بتائیں اور یہ بھی کہ وکالت کا پیشہ کیوں اختیار کیا؟

ج: کوئٹہ کے ایک نجی تعلیمی ادارے کانونٹ اسکول سے میٹرک کے بعد گورنمنٹ گرلز کالج، کوئٹہ کینٹ سے ایف ایس سی(پری میڈیکل) کی ڈگری حاصل کی۔ پھر 2016ء میں یونی ورسٹی لا کالج، کوئٹہ میں پہلی مرتبہ پانچ سالہ ایل ایل بی پروگرام کا اجراء ہوا، تو مَیں نے اُس کے پہلے بیج میں داخلہ لیا اور 2021ء میں ایل ایل بی کی ڈگری مکمل کی۔ 2019ء میں پرائیوٹ طور پر ایم اے پولیٹیکل سائنس کا امتحان دیا اور پورے صوبے میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔

مَیں اسکول ہی کے زمانے سے وکیل بننا چاہتی تھی، حالاں کہ گھر والے مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے، لیکن اُنہوں نے میرے شوق اور دل چسپی کے پیشِ نظر قانون کی تعلیم حاصل کرنے پر کوئی قدغن نہیں لگائی۔ زمانۂ طالبِ علمی میں مجھے بلوچستان ہائی کورٹ کی چیف جسٹس طاہرہ صفدر اور معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر بہت پسند تھیں۔ سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جسٹس، عائشہ اے ملک کی صلاحیتوں کی بھی معترف ہوں۔

س: دبئی میں منعقدہ عالمی کانفرنس میں آپ نے بہترین مندوب کا ایوارڈ حاصل کیا، اِس کانفرنس کے اغراض و مقاصد کیا تھے؟

ج: آرٹیفیشل انٹیلی جینس اور ڈیجیٹل ڈپلومیسی کے ایجنڈے پر منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں پاکستان سے 3افراد کا انتخاب کیا گیا تھا، جن میں سے ایک مَیں بھی تھی۔ کانفرنس میں لیڈر شپ کوالٹی سے متعلق مقالے کا کام یابی سے دفاع کیا، جس پر مجھے بہترین مندوب کا ایوارڈ دیا گیا۔ 

اس کانفرنس میں دنیا بَھر سے سفراء، اقوامِ متحدہ کے عُہدے داروں اور سفارتی کمیونٹی کے ارکان نے بھی شرکت کی۔ بہترین مندوب کے باعث مجھے تیونس میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

س: بلوچستان سے تعلق رکھنے والی خواتین مختلف شعبوں میں شمولیت اختیار کر رہی ہیں، شعبۂ قانون میں خواتین کی دل چسپی سے متعلق کیا کہیں گی؟

ج: چند برس قبل تک تو بلوچستان کے تمام اضلاع کی بارز میں دس خواتین وکلا بھی نہیں تھیں، لیکن آج وکلا کا کوئی ایسا چیمبر نہیں، جہاں خواتین وکلا نہ ہوں۔ میری کئی کلاس فیلوز قانون کی نجی پریکٹس کے علاوہ مختلف سرکاری و نجی محکموں میں بطور لیگل ایڈوائزر، سرکاری وکیل اور دیگر عُہدوں پر کام کر رہی ہیں۔ بلاشبہ، نظامِ عدل میں خواتین وکلاء کا اہم کردار ہے اور مرد وکلاء کی طرح وہ بھی اپنے کلائنٹس کے لیے بھرپور جدوجہد کرتی ہیں۔

پیشہ ورانہ زندگی میں خواتین وکلاء اپنے آپ کو مکمل طور پر محفوظ سمجھتی ہیں۔ ماتحت اور اعلیٰ عدالتوں میں خواتین وکلاء کا احترام کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کچہریوں میں خواتین وکلاء کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ درحقیقت ،کچہری ہمارا دوسرا گھر ہے اور یہاں خواتین وکلاء کو کسی تفریق کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ 

تاہم، گھریلو مسائل اور دیگر ذمّے داریوں کے باعث خواتین، مَردوں سے پیچھے رہ جاتی ہیں کہ امورِ خانہ داری اور بچّوں کی پرورش کے ساتھ، وکالت کے لیے وقت نکالنا بہت بڑا چیلنج ہے۔ اِس کام کے لیے گھر سے مکمل سکون، حوصلہ افزائی اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔

س: خواتین وکلاء مختلف کیسز میں کلائنٹس کی توقّعات پر کس حد تک پوری اُترتی ہیں اور اُنہیں کسی نوعیت کی ہراسانی کا سامنا تو نہیں کرنا پڑتا؟

ج: عدالتی نظام میں خواتین وکلاء بھی وہی کردار ادا کر رہی ہیں، جو مرد وکلاء ادا کررہے ہیں، بلکہ خاتون وکیل کو خاتون سائلین آسانی سے اپروچ کرتی ہیں اور اپنی بات بتاتے ہوئے گھبراتی بھی نہیں۔

پھر یہ کہ مَردوں کے معاشرے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لیے خواتین وکلاء زیادہ محنت کررہی ہیں۔ بلوچستان جیسے قبائلی اور اسلامی روایات کے حامل صوبے میں خواتین وکلاء خود کو زیادہ محفوظ اور مضبوط سمجھتی ہیں اور انہیں عدالتوں میں کسی قسم کی ہراسانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور نہ ہی آج تک صوبے میں ایسا کوئی واقعہ سامنے آیا ہے۔

س: صوبے میں شعبۂ قانون سے متعلق تعلیمی اداروں کی کارکردگی سے کس حد تک مطمئن ہیں؟

ج: پہلے کوئٹہ کے ایک سرکاری کالج اور سبّی میں ایک نجی کالج ہی میں قانون کی تعلیم دی جاتی تھی، لیکن چند برسوں کے دَوران طلبہ کی دل چسپی اور بڑھتی تعداد کے پیشِ نظر کوئٹہ میں کئی نجی تعلیمی ادارے قائم ہوئے ہیں۔ یونی ورسٹی لاء کالج کا تعلیمی معیار مُلک کے کسی بھی اعلیٰ ادارے سے کم نہیں، جہاں تین سالہ پروگرام ختم کر کے پانچ سالہ پروگرام نافذ کرنے کے بھی دُور رَس اثرات نظر آ رہے ہیں۔ پانچ سالہ پروگرام میں سیمیسٹر سسٹم نافذ ہے اور ایک سال میں چار امتحانات ہوتے ہیں۔

علاوہ ازیں، ریسرچ بھی نصاب کا حصّہ ہے، جب کہ طلباء و طالبات کو فیلڈ ورک بھی باقاعدگی سے کروایا جاتا ہے۔ نیز، ریگولر فیکلٹی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ قانون دان شامل ہیں، جب کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے سینئر وکلا کے بھی لیکچرز ہوتے ہیں۔ یونی ورسٹی لاء کالج میں حاضریوں کے تناسب کا بہت خیال رکھا جاتا ہے اور نظم و ضبط بھی مثالی ہے۔

مجھے بھی ان سینئیر اور قابل اساتذہ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا، یہی وجہ تھی کہ سپریم کورٹ کے ریسرچ پروگرام میں مُلک گیر سطح پر تین ہزار کے قریب وکلاء نے اپلائی کیا، جن میں سے 27وکیل شارٹ لسٹ کیے گئے اور پھر اُن میں سے 6وکلاء کا انتخاب ہوا، جن میں، مَیں بھی شامل تھی۔ہمیں سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدّین خان کی رہنمائی میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

س: اکثر طلبہ قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پریکٹس نہیں کرتے، اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟

ج: وکالت ایک مشکل اور محنت طلب پیشہ ہے۔ نئے وکیل کے لیے پریکٹس میں قدم جمانا ذرا مشکل ہوتا ہے، اِس لیے کئی نوجوان وکیل مشکلات دیکھ کر میدان چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف پیسوں کا زیاں ہے، بلکہ طالبِ علم اپنا قیمتی وقت بھی ضائع کرتا ہے اور پھر یہ بھی کہ جس نشست پر اُس نے تعلیم حاصل کی، فیلڈ میں نہ آنے کے سبب وہ نشست بھی ضائع ہو جاتی ہے۔

میرا نوجوانوں کو یہی مشورہ ہے کہ اگر اُنہوں نے پریکٹس نہیں کرنی، تو پھر وہ یہ تعلیم حاصل نہ کریں تاکہ نشست کسی ضرورت مند طالبِ علم کو مل سکے۔اب ایل ایل بی کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ محکمۂ پولیس میں انسپکٹر لیگل، محکمۂ قانون میں گریڈ 18سے 19تک کی سیکڑوں اسامیاں آتی ہیں۔ بلوچستان میں گزشتہ دو دہائی کے دَوران انسپکٹر لیگل بننے والے کئی افسران اب ایس پی کے عُہدوں پر فائز ہیں اور وکلاء کی ایک بڑی تعداد مقابلے کے امتحان کے ذریعے پبلک پراسیکیوٹرز سمیت دیگر اہم عُہدوں پر بھی تعیّنات ہو رہی ہے۔

س: وکلاء کے احتجاج اور عدالتی بائیکاٹ کی وجہ سے سائلین کو مشکلات در پیش رہتی ہیں، آپ اِس طرزِ عمل کو کس نگاہ سے دیکھتی ہیں؟

ج: قانون کے دائرے میں احتجاج کرنا تو سب کا حق ہے اور اس پر کوئی قدغن عائد نہیں کی جا سکتی، لیکن مَیں ذاتی طور پر وکلاء کی ہڑتال کو درست نہیں سمجھتی، کیوں کہ اُنہوں نے سائلین سے کیس لڑنے کی فیس لی ہوتی ہے اور وہ مقرّرہ تاریخ پر عدالت میں پیش ہونے کے پابند ہیں۔

یہ وکیل اور سائل کے درمیان معاہدہ ہے، جس کی رُو سے وکیل، عدالت میں سائل کی جگہ پیش ہونے کی فیس لیتے ہیں۔ جب وہ عدالت میں پیش نہیں ہوتے، تو گویا معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ 

اُن کا اپنا ذاتی کیس تو نہیں ہوتا، وہ فیسز کے عوض ہی عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔ اِس لیے اُن کی جانب سے عدالتوں کا بائیکاٹ کرنا قانونی اور اخلاقی، دونوں اعتبار سے درست نہیں۔ اِسی طرح جب اُن کے پیش نہ ہونے کے سبب عدالت سے کوئی کیس خارج ہو تا ہے، تب بھی وکیل کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔

یاد رہے، ایک وکیل کے کندھوں پر بہت بھاری ذمّے داری ہوتی ہے۔اُس کا کالا کوٹ ہی اُس میں اور ایک عام آدمی میں فرق پیدا کرتا ہے، لہٰذا احتجاج کا ایسا راستہ اختیار کیا جائے، جس سے سائل کا بنیادی حق متاثر نہ ہو۔

س: پیچیدہ نظام اور’’ تاریخ پر تاریخ کلچر‘‘کے باعث عوام عدالتوں سے نالاں ہے، بہتری کیسے ممکن ہے؟

ج: یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اِس’’تاریخ پر تاریخ‘‘ کے کلچر ہی نے ہمارا عدالتی نظام مفلوج کر دیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ’’ دادا کیس کرتا ہے اور پوتے کو بھی انصاف مل جائے، تو بڑے نصیب کی بات ہے۔‘‘ سال ہا سال مقدمات زیرِ التو رہتے ہیں اور سائلین عدالتوں میں خوار ہوتے رہتے ہیں۔ یوں عام آدمی کا نظامِ انصاف پر اعتماد تقریباً ختم ہو چُکا ہے۔

یہ درست ہے کہ نظامِ انصاف اچھا ہو یا بُرا اس کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب عدالتوں سے انصاف نہ ملے، تو لوگ متبادل بھی ڈھونڈتے ہیں اور بسا اوقات وہ خود ہی’’انصاف‘‘ کرنے لگتے ہیں۔ لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ عدالت کے باہر ہی کسی نہ کسی طرح معاملہ طے کر لیں۔ہمارے عدالتی نظام کا بڑا مسئلہ ماتحت عدالتیں ہیں۔ 

اگر عام آدمی سے پوچھا جائے کہ اُسے سب سے زیادہ مشکل کا کہاں سامنا ہے، تو وہ یہی کہیں گے کہ ماتحت عدالتوں کا بہت بُرا حال ہے۔لوگ ان عدالتوں کے چکر لگا لگا کر اِتنا تھک جاتے ہیں کہ اُن میں اعلیٰ عدالتوں تک جانے کی سکت ہی باقی نہیں رہتی۔زیرِ التوا مقدمات کی تعداد بہت زیادہ ہے، لیکن اُنھیں خانہ پُری کے لیے سماعت کے لیے مقرّر کرنا بھی درست حکمتِ عملی نہیں۔ جو بھی تاریخ مقرّر کی جائے، اُس دن کیس میں پیش رفت ہونی چاہیے۔ 

عدلیہ کے ذمّے داران کو سمجھنا ہوگا کہ جب وہ کسی کیس کی تاریخ مقرّر کرتے ہیں، تو سائل کو کس قدر خواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اِس لیے کہیں نہ کہیں، التوا اور مقدمات میں تاخیر پر سسٹم کو بھی ذمّے دار ٹھہرانا ہوگا۔ وکیل کو تاریخ تب ہی ملتی ہے، جب جج تاریخ دیتا ہے، جب تک جج تاریخ نہ دے، تاریخ مل ہی نہیں سکتی۔ سائل کو بھی اجازت ہونی چاہیے کہ اگر اُس کے کیس میں بار بار تاریخ پر تاریخ دی جا رہی ہے، تو وہ جج کی شکایت کر سکے۔

ججز کو بھی جواب دہ بنانا چاہیے۔’’ تاریخ پر تاریخ کلچر‘‘نظامِ انصاف کے لیے ایک ناسور(کینسر) بن چُکا ہے، جس نے پورے عدالتی نظام کو مفلوج کردیا ہے۔ اس کے لیے فوری طور پر ایک بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ یہ سرجری تکلیف دہ تو ہوگی، لیکن اس کے بغیر کوئی راہ بھی نہیں بچی۔

میری تجویز ہے کہ تاریخ پر تاریخ کی بجائے کیسز آئی ٹی ایڈ منسٹریشن برانچ میں لگانے چاہئیں، جہاں میرٹ پر اسکروٹنی کر کے کیسز فکس کیے جائیں۔انسٹی ٹیوشن برانچز اِسی لیے قائم کی جاتی ہیں۔ اِس سے ایک طرف غیر ضروری کیسز کا خاتمہ ہوگا، تو دوسری جانب، عوام کی برق رفتاری سے داد رسی بھی ہو سکے گی۔

س: نوجوانوں، خاص طور پر جونیئر وکلاء کو کیا پیغام دینا چاہیں گی ؟

ج: 30 سال سے کم عُمر کی60فی صد آبادی کے ساتھ پاکستان ایک بڑی نوجوان آبادی کا حامل مُلک ہے، جو تیزی سے عالمی ڈیجیٹل منظر نامے سے جُڑ رہا ہے۔ تعلیم، کاروبار اور سماجی سرگرمیوں کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے نوجوان مثبت تبدیلی کے محرّک بن سکتے ہیں۔

نوجوان وکلاء محنت جاری رکھیں، سائلین کی بروقت داد رسی سمیت عدالتی نظام کی بہتری میں اپنا مثبت کردار ادا کریں اور خواتین بھی زیادہ سے زیادہ اس شعبے کی طرف آئیں کہ قانون کی تعلیم سے نہ صرف وہ اپنے حقوق سے باخبر رہیں گی، بلکہ مُلک و قوم کے لیے بھی بہت مفید ثابت ہوں گی۔