• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کرکٹ میں جب ایک کھلاڑی بیٹنگ کرنے کے لئے گراؤنڈ کے اندر آتا ہے تواس کے آنے اور کھیل کھیلنے کواننگ کانام دیا جاتا ہے۔ گیارہ کھلاڑیوں کی اننگ مل کر ٹیم کی ایک اننگز بن جاتی ہے۔کچھ ملکوںکی کرکٹ ٹیموں کی سازشوں کے باعث پاکستان میں کئی سال سے ٹیسٹ کرکٹ نہیں ہورہی ۔ پاکستان کی ٹیم اگر ٹیسٹ کھیلتی بھی ہے تو باہر جاکر۔ یوں ہمارے ملک کے تماشائی اپنے ٹیسٹ کھلاڑیوں کاکھیل اپنے وطن میں دیکھنے سے محروم ہیں۔ لیکن اب ہمارے ٹیسٹ کھلاڑی نے لاہور میں اپنی اننگ شروع کردی ہے۔ اچھا شگون لیا جائے تواب پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ کا آغاز ہوجائے گا۔پاکستان کے ٹیسٹ کھلاڑی اور مڈل آرڈر بیسٹمین عمر اکمل نے ہفتے کی شام کو دھواں دار انداز دکھاتے ہوئے باؤنڈری لائن کراس کرنے والا شارٹ کھیلا جس پر فیلڈرآگے بڑھے توعمر اکمل نے گاڑی کوگلی میں نکالنے کی کوشش کی لیکن گلی کا فیلڈر بڑا تیز تھا وہ روکنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کے بعد تھوڑی دیر کے لئے کرکٹ جنٹلمین گیم نہ رہا، بلکہ ’’پلس مقابلہ‘‘ بن گیا اور گلبرگ تھانے میں عمر اکمل کی اننگ شروع ہوگئی۔ تھانے والے بڑے خوش ذوق لوگ ہوتے ہیں۔اکثر تھانوں میں سامنے ’’خوش آمدید‘‘ کا طغریٰ لگا ہوتا ہے۔ کئی تھانوں میں یہ مصرع بھی لکھا ہوتا ہے۔ ’’ آنا تیرا مبارک، تشریف لانے والے‘‘ تھانے کے اندر ٹیسٹ کھلاڑی کا آنا ایک ایسی اننگ تھی کہ میڈیا نے کرکٹ کے لئے ترستے عوام کی دلچسپی کے لئے اسے ہر چینل پر دکھانا شروع کردیا۔یہ عجیب وغریب اننگ تھی۔ تھوڑی دیر میں عمر اکمل کے بڑے بھائی کامران اکمل بھی وہاں پہنچ گئے اور عمراکمل کوآؤٹ کرانے کی کوششیں کرنے لگے۔ وہ کہہ رہے تھے میں نامور وکٹ کیپر ہوں۔میں نے دنیا کے بڑے بڑے بیٹسمنوں کو آؤٹ کیا ہے یا کرایا ہے۔ میں عمر اکمل کوبھی آؤٹ کرانا چاہتا ہوں۔کئی لوگ حیرت سے کامران اکمل کودیکھ رہے تھے کہ عجیب بھائی ہے کہ اپنے چھوٹے بھائی کو آؤٹ کرانا چاہ رہا ہے۔ یہی کوشش عمراکمل کے والد بھی کررہے تھے۔سب کی کوشش تھی کہ کسی طرح عمراکمل کی تھانے کی اننگ کا خاتمہ ہوجائے اور وہ آؤٹ ہوجائے۔رات گئے کم روشنی کے باعث اننگ جاری نہ رہ سکی۔ عمر اکمل باہر آگئے۔ دوسرے دن پھر اس کا آغاز ہوا۔ اور وہ ایک لاکھ روپے کی ضمانت پر پویلین لوٹ گئے۔ اب ہر ایک دعا ہے کہ عمراکمل کی اس اننگ کا جلد از جلد اور بخیروخوبی خاتمہ ہوجائے ۔کئی لوگ توکہتے ہیں کہ اللہ کرے تھانے میں کوئی اننگ نہ کھیلے۔ پاکستانی فلم میں احمد رشدی کا ایک گانا بھی تھا ‘‘ ایسی رات اللہ کسی کونہ دکھائے۔ ہم بھی یہ چاہتے ہیں کہ یہ میچ ڈرا ہوجائے۔ ٹیسٹ کھلاڑی ہویا ٹریفک پولیس۔ دونوں پاکستانی ہیں۔دونوں ہمارے ہیرو ہیں۔ ٹیسٹ کھلاڑی بھی سارادن دھوپ میں کھڑا ہوکر کرکٹ کھیلتا اور ملک کے لئے نام کماتا ہے اور ٹریفک پولیس کاسپاہی بھی سارا دن کڑکتی دھوپ میں پاکستان کے عوام کی خدمت کرتا ہے۔عزیزی عبدالماجد بھٹی نے جنگ میں خبر دی ہے کہ ایک عمر اکمل نہیں کئی کھلاڑی حوالات اننگ کھیل چکے ہیں۔انہوں نے ان نامور کھلاڑیوں کے نام بھی دیئے ہیں۔ ایک زمانے میں میں نے پاکستان کے ٹیسٹ کھلاڑیوں کی فہرست میں سے ایک جیسے کھلاڑیوں کی ٹیمیں ترتیب دی تھی۔ مثلاً ایک ٹیم بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے کھلاڑیوں کی تھی۔ ایک ٹیم ہم نام کھلاڑیوں کی تھی۔مثلاً وسیم اکرم، وسیم راجہ، اور وسیم باری،سعید انور اور سعید احمد، مشتاق محمد اور مشتاق احمد۔ وغیرہ وغیرہ۔ ٹیموں کی اس تربیت میں اب ’’ حوالات الیون‘‘ تربیت دینے کا خیال بھی آیا۔ اس میںکئی نامور کھلاڑیوں کوفہمی یا غلط فہمی کے باعث حوالات اننگ کھیلنا پڑی۔ اگر یہ ٹیم تربیت دی جائے تو اس میں بڑے بڑے نام آتے ہیں۔ اور عمر اکمل کوایک مڈل آرڈر بیٹس مین اور وکٹ کیپر کی حیثیت سے شاندار اضافہ کہا جائے گا۔ اونپرز ۔ ناصر جمشید اور سلمان بٹ مڈل آرڈر بیٹسمین سلیم ملک ، عمر اکمل ،اعجاز احمد اور محمد وسیم اسپنر اکرم رضا، فاسٹ بولرز محمد عامر، محمد آصف، وسیم اکرم اور وقار یونس کے ساتھ پوری حوالات الیون بن جاتی ہے۔ہمارے سیاست دانوں میں بھی بڑی تعداد حوالات جانے والوں کی ہے اور ان میں کئی ایسے بھی ہیں جو کرکٹ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور کرکٹ کھیلتے بھی رہے ہے۔ جس کو حوالات الیون( سیاسی) کانام دیا جاسکتا ہے۔ اور حوالات الیون( ٹیسٹ) کے ساتھ اس ٹیم کا میچ رکھا جاسکتا ہے۔ حوالات الیون سیاسی ہیں نواز شریف،آصف زرداری، شیخ رشید، جاوید ہاشمی جیسے بڑے نام اس الیون کو معتبر بناتے ہیں۔ اور اگر ان دونوں ٹیموں کا ٹیسٹ میچ ہوجائے تو قذافی اسٹیڈیم تماشائیوں کے لئے چھوٹا پڑ جائے گا۔
تازہ ترین