آج کل کی سیاست جس قدر گرد آلود اور کثافت زدہ ہوچکی یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی مہذب ممالک میں بھی اس کی جھلکیاں دیکھنے اور سننے کو ملتی رہی ہیں، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اکثر ممالک میں عورت کو بطور ہتھیار سیاست میں استعمال کیا جاتا ہے۔ خواتین کے غیر اخلاقی اسکینڈل کو بنیاد بنا کر مخالفین کے سیاسی جنازے نکالے جاتے ہیں، مطلوبہ اہداف حاصل ہونے کے بعد انکشافات ہوتے ہیں کہ بات اس قدر بڑی بھی نہیں تھی جس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی۔
بدقسمتی سے پاکستان میں اس کے قیام کے پہلے عشرے میں ہی سیاست میں آلودگی پھیل چکی تھی۔ ایوبی آمریت میں ہمارے پیارے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے صدارتی الیکشن لڑنے کی ٹھانی تو ان کی پیرانہ سالی اور صاف شفاف کردار کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے اتنی شرمناک، گھنائونی، مکروہ، شر انگیز اور انسانیت و دینی اقدار کو شرماتی معاندانہ مہم چلائی گئی کہ پاکستان بنانے کے لیے اپنے عزیز و اقارب اور جان و مال کی قربانیاں دینے والی اس نسل نے کانوں کو ہاتھ لگائے اور استغفار پڑھی کہ صرف اقتدار کے لیے بانی پاکستان کی ہمشیرہ کے ساتھ ایسا سلوک بھی اس ملک میں ہوسکتا ہے۔ کوئی شرم تھی نہ ہی کوئی حیا اور تو اور مٹھی بھر علماء و مشائخ کرام کو چھوڑ کر اس دور کے ممتاز اور انتہائی قابل احترام مشائخ، گدی نشینوں نے بھی محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف فتوے جاری کرکے صدارتی الیکشن کو گویا کفر واسلام کی جنگ بنا دیا تھا۔ نتیجہ جو نکلنا تھا سو نکلا۔
اس کے بعد ملک کی سیاست میں اہم عنصر بن کر یہ سلسلہ شروع ہوا۔ پھر بھٹو کی بیٹی کے خلاف گھٹیا اور غلیظ مہم چلائی گئی، آسمان سے بے ہودہ اور نازیبا تصاویر گرا کر کردار کشی کی گئی۔پھر وقت تبدیل ہوا، ساتھ چلنے کے وعدے ہوئے، معاہدے کئے گئے،سیاسی طور پر قدم سے قدم ملا کر چلنے کی باتیں ہوئیں پھر معاہدے سیاسی مصلحتوں کی خاطر توڑ بھی دیے گئے، کہا گیا کہ معاہدے قرآن و حدیث جیسے تو نہیں ہوتے !پھر وقت بدلا اب پھر عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں، زمانہ بدل گیا ہے، 2023ء آخری سانسیں لے رہا ہے، 2024ء فروری کی آٹھ تاریخ کو انتخابات ہونا قرار پائے ہیں۔ عورتوں کی کہانیاں پھر کردار کشی کے لیے سامنے لائی جا رہی ہیں، کتابیں عجلت میں لکھوائی اور چھپوائی جارہی ہیں، آڈیوز اور ویڈیوز سیاسی میدان میں لائی جارہی ہیں، بڑے گھناؤنے الزامات سے مخالفین کو ’’نکرے‘‘ لگایا جارہا ہے لیکن بات نہیں بن رہی، مشکیں کسی جا رہی ہیں۔ پس دیوار زندان کرکے جینا حرام کیا جا رہا ہےلیکن پھر بھی بات نہیں بن رہی، کچھ کی تو گلی کوچوں میں عزت افزائی شروع بھی ہوچکی ہے، کچھ کو اسٹیج پر لتاڑا جارہا ہے۔ کیا یہ درست طرز سیاست ہے، ایسی ہوتی ہے سیاست؟
پاکستان مسلم لیگ نواز نے ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ شروع کرنے کے لیے انٹرویوز شروع کر دیے ہیں۔ پیپلز پارٹی ابھی بہت پیچھے ہے، جے یو آئی بھی ابھی سوچ و بچار میں ہے۔ انتخابات لڑنے کے خواہش مندافراد کو کروڑوں روپے کا یہ سیاسی جوا ہارنے کا خوف ہے کیونکہ الیکشن کا ماحول نہیں بن رہا۔ جس پارٹی کی قیادت پر سارے الزامات۔ کروڑوں اربوں سرکاری خزانے سے خرچ کرکے۔ واپس لے لیے گئے ہیں اور ساری رکاوٹیں ہٹا کر اس کا راستہ صاف کر دیا گیا ہے وہ بھی سوچ رہی ہے کہ عوام کا سامنا کس منہ کے ساتھ کرے۔ ’’شر پسند عناصر‘‘ پہلے کبھی کبھار سامنے آتے تھے اب پورے ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں اور تو اور پہاڑوں پر بھی یہ لوگ اپنے جھنڈے لہرا کر سب مخالفین کا منہ چڑارہے ہیں۔ جس کو جزا ملنی تھی وہ مل چکی ہے، جس کو سزا ملنی تھی اس کا انتظار ہے لیکن یہ انتخابات پہلی بار سیاسی اشرافیہ کے لیے پل صراط بنا ہوا ہے۔
عام انتخابات بروقت ہوں گے، ایک دن آگے پیچھے نہیں ہوگا، الیکشن کمیشن کی تمام تیاریاں تیزی سے مکمل کی جا رہی ہیں، ماسوائے بیلٹ پیپر کے جو وقت آنے پر چھاپے جائیں گے۔ مسئلہ صرف ایک انتخابی نشان کا ہے، وہ معاملہ بھی ان شاء اللہ جلد ہی نمٹ جائے گا۔ چیف جسٹس آف پاکستان انتخابات کی تاریخ کے بارے میں اگر مگر.... اِدھر اُدھر....ہاں ،ناں اور دوسرے ہر خدشے کے بارے میں صاف لفظوں میں ریمارکس دے چکے ہیں کہ تاریخ حتمی ہےلیکن پھر بھی غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں۔ اس کے باوجود قومی حکومت کے شوشے بھی چھوڑے جا رہے ہیں، ڈالر تھا بے قابو جو اب بھی ہے، اس کا قابو میں آنا ابھی باقی ہے، کوئی ملک کا پرسان حال نہیں ہے، مہنگائی کی کمی ایک خواب بن چکا ہے، چالیس فیصد مہنگائی سے لوگ غربت کی چکی میں پس رہے ہیں، سولہ ماہ تک پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے پھیلائی گئی مہنگائی کا عذاب سہنے والے نگرانوں کی اڑانیں بھی دیکھ رہے ہیں، سب اچھا کہا جا رہا ہے، اہلِ کراچی بھی مطمئن ہیں۔ سب کی نظریں آٹھ فروری پر ہیں، سب تیاریاں کر رہے ہیں، نئے اور پرانے شکاری انتظار میں بیٹھے ہیں، کچھ نوزائیدہ سیاست دان بھی مفت بجلی کے راگ الاپ رہے ہیں جبکہ اپنی ملوں کی چینی مفت نہ سہی، سستی کرنے پر بھی تیار نہیں ہیں۔ سوائے عوام کے سب کو ہی اچھے اچھے خواب نظر آرہے ہیں، البتہ سب کو شاید آٹھ فروری کےٹرن آؤٹ کا مسئلہ سامنے آرہا ہے۔پلینگ فیلڈ پر تیزی سے رولر پھیرا جا رہا ہے تاکہ میچ شروع ہونے کا شیڈول فائنل ہونے سے پہلے لیول پلینگ فیلڈ مکمل طور پر تیار ہوسکے، اب دیکھتے ہیں اس گنبد نیلو فری کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)