السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
کبھی سستی نہیں ہوگی
تازہ سنڈے میگزین کے’’سنڈے اسپیشل‘‘میں رائو محمّد شاہد اقبال کا سوال تھا کہ ’’کیا بجلی کبھی سستی بھی ہوگی؟؟‘‘ تو بھائی! یہ بجلی اب کبھی سستی نہیں ہوگی، کیوں کہ جس مُلک کے حُکم ران ہی بےایمان ہوں، وہاں کسی اچھائی کی اُمید بھی پاگل پَن ہی ہے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر عبدالستارعباسی نےاپنےسفرنامے میں کئی ایسی معلومات بھی فراہم کیں، جو ہمارے لیے بالکل ہی نئی تھیں۔ آپ کانیا سلسلہ ’’فن و فنکار‘‘ پسند آیا۔ اور’’ڈائجسٹ‘‘ میں ڈاکٹر قمرعباس کی ’’کرن‘‘ کا جواب نہ تھا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
پرانی باتیں، گلے شکوے
آج لکھنے بیٹھی تو احساس ہوا کہ نفسانفسی، خُودغرضی کے اس دَور میں آپ کا ہمارے خط کے جواب میں اِس قدر پیارسےہاتھ تھام کر کہنا کہ ’’آپ کے لیے اِس جریدے کے دَر ہمہ وقت کُھلے ہیں‘‘، کسی نعمتِ غیرمترقبہ سے کم نہیں۔ واقعی ؎ وہ بظاہر جو کچھ نہیں لگتے… اُن سے رشتے بلا کے ہوتے ہیں۔ تب ہی تو آپ نے اتنی دُور بیٹھے ہماری حسّاس طبع کا اندازہ لگا لیا،آنکھ کےآنسو دیکھ لیےاور الفاظ کی مسیحائی سے پونچھ بھی دیئے۔ آپ کاکہنا کہ ’’ہم نئےآنے والوں کوخوش آمدید کہتےہیں، مگر جانے والوں کوروکتے نہیں۔‘‘ تو بھئی، ہم کیسے مان لیں کہ روکتےنہیں کہ ’’جَم جم آیئے‘‘ کہہ کرجانے بھی تو نہیں دیتے۔
آپ کا یہی حُسنِ تکلم تو’’سنڈے میگزین‘‘ کو دن بہ دن شگفتہ و تروتازہ کیے جاتا ہے۔ پھر اِس کا پتّا پتّا، بُوٹا بُوٹا ہلائو، جھٹکو، علم و ادب کےموتی ہی جَھڑتے دکھائے دیتے ہیں۔ کہیں دین عَلم دارہے، کہیں رشتوں کا وقار ہے، کہیں ناقابلِ فراموش کی تکرار ہے، کہیں سیاست کا کارزار ہے۔ گویا ہر قطرہ آبِ گوہر،معلومات کا خزانہ، حالاتِ حاضرہ کا ترانہ ہے۔ ارے ہاں، یہ اپنی سلمیٰ آپا کہاں غائب ہیں، جو ہمارا ہاتھ پکڑ کر کبھی چِین، تو کبھی مصر گُھمانےلےجاتی تھیں۔ عرفان جاوید بھی بانسری بابا کی بانسری کی آخری دُھنیں سُنا کر ایسے غائب ہوئے کہ پلٹ کر خبرہی نہ لی۔ ہاشم ندیم بھی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ کر اپنی پہلی سیڑھی ’’سنڈے میگزین‘‘کو بھول گئے، حالاں کہ اُن کا کام یاب ترین ڈراما ’’پَری زاد‘‘ پہلے سنڈے میگزین ہی میں شائع ہوا تھا۔
خیر، یہ تو تھیں کچھ پرانی باتیں، کچھ شکوے گلے، اب آتے ہیں، حالاتِ حاضرہ کی طرف، آج کے تازہ ہوا کے جھونکوں میں آپ کا رائٹ اَپ ’’حُسن اس کا گلاب ہو جیسے…‘‘ سرِفہرست ہے۔ بقیہ گلستان میں جوبہارآئی ہے، اُس میں تابش دہلوی کی یادداشتوں کا دَرکُھلا ہے،تو’’ناقابلِ فراموش‘‘ فن و فنکار جیسے خُوب صُورت سلسلے بھی ہیں۔ دین کی عظیم درس گاہ، ’’قصص القرآن‘‘ اللہ کی نافرمانی کی سزا کی جھلک دکھاتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ ’’دیکھو مجھے، جودیدہ عبرت نگاہ ہو۔‘‘اور ہاں، آپ نے قلمی چھکّے کا پوچھا، تووہ امِ حبیبہ نے ہمارے خط کو قلمی چھکّے سے تشبیہ دی تھی اور رہی بات سیمی فائنل کی تو سلیم راجا نےچٹھیوں کے اعدادوشمار یعنی22 خطوط کے ساتھ ہمیں سیمی فائنل اور30 خطوط کے ساتھ رونق افروزکو فائنل میں کھڑے دکھایا تھا۔ جس کےبعد خُود ہم نے بھی اپنے خط گنے اوراُن کی باریک بینی کے قائل ہوگئے۔ اخر میں بات اپنے صفحے کی۔ وہ کیا ہے کہ ؎ یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے، تو ہر کوئی اس آسمان پر لفظوں کے چاند، ستارے ٹانکنے کو بےقرار ہی نظر آتا ہے۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)
ج: سلمیٰ اعوان صاحبہ سفر ناموں کے ساتھ نہ سہی، کبھی کبھار افسانوں کے ساتھ ضرور قدم رنجہ فرما رہی ہیں۔ عرفان جاوید بھی اپنی سرکاری مصروفیات کے باوجود کچھ نہ کچھ لکھتے ہی رہتے ہیں۔ ویسے ہم صرف خطوط نگاروں کے ضمن میں نہیں، تمام تر لکھاریوں کے حوالے سے ایک بار پھر وہی بات کہیں گے کہ آنے والوں کا ہم بہت خوش دلی سے خیرمقدم کرتےہیں لیکن جانے والوں کو روکتے نہیں۔ کیوں کہ جسے جانا ہوتا ہے، وہ بہرطور چلا ہی جاتا ہے۔ یہ ایک طے شدہ بات ہے۔ وہ ایک مشہور مقولہ ہے ناں کہ ’’جو تمہارا ہے، وہ ہمیشہ تمہارا ہی رہے گا اور جو تمہیں چھوڑ گیا، سمجھ لو کہ وہ کبھی تمہارا تھا ہی نہیں۔‘‘
بے حد اچھوتے انداز میں…
صحرامیں بھی کبھی شاید پھول کِھلتے ہی ہوں، ویسےبارش کےقطرے تو جہاں بھی گریں، ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہی زمین اُن کا مسکن ہے۔ مضمون ’’چڑھتے سورج کی سر زمین، جاپان‘‘ شاہان القریش نے بے حد اچھوتے اندازمیں بہت صحیح اور مکمل طور پر معاشرتی سچائیوں، اچھائیوں کو مدِنظر رکھ کے لکھا، مجھے بہت ہی پسند آیا۔ (مریم طلعت محمود بیگ، لاہور)
ج: تو کیا باقی جریدے پر تم نے اِک نگاہ بھی نہ ڈالی۔ اگر ڈال لیتی اوراِس صحرا، بارش والے فلسفے کے بجائے، اُس سے متعلق ایک آدھ جملہ عنایت کردیتی، تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
لائقِ صد ستائش ہے
کیسی ہو نرجس جی! اُمید ہے، خیریت سے ہوگی۔ اللہ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ (آمین) خط کی ابتدا، خُوب صُورت اشعار سے مزین تمہاری منفرد تحریر پر تبصرے سے۔ تم نے بالکل صحیح کہا کہ کبھی کبھی اپنے پیاروں کے چہروں کو پڑھنے اور اُن کا اندر کریدنے کی کوشش بھی ضرور کرنی چاہیے۔ حماس کے ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ پر منور مرزا نے بہت مناسب جائزہ پیش کیا۔ بلاشبہ، حماس نے آزادیٔ فلسطین کی دَم توڑتی تحریک میں ایک نئی رُوح پھونک دی ہے۔
فلسطینیوں کا یہ خون اِن شاء اللہ ضرور رنگ لائے گا۔ ’’قصص القرآن‘‘ میں مستند حوالہ جات کے ساتھ قصّہ برادرانِ یوسفؑ نے بہت سی غلط فہمیوں کو دُور کیا۔ بلاشبہ، اِس بےمثال، منفرد قرآنی سلسلے کی اشاعت پر جنگ، ’’سنڈے میگزین‘‘ لائقِ صد ستائش ہے۔ منور راجپوت کا مضمون بھی پڑھا، نہایت عُمدگی سے قلم بند کیا گیا تھا۔ بریسٹ کینسر کے حوالے سے فراہم کردہ معلومات بھی تمام خواتین کے لیے بہت بیش قیمت ہیں۔ ڈاکٹر عبدالستارعباسی کا سفرنامہ اختتام پذیر ہوا۔ یاد داشتیں اور ناقابلِ فراموش کی تحریریں متاثرکُن تھیں۔ (ریحانہ ممتاز)
ج : آپ لوگوں سے درخواست ہے کہ نام کے ساتھ مقام لکنھے کی بھی عادت اپنائیے تاکہ پتا رہےکہ اس بزم میں لوگ کہاں کہاں سے شریک ہوتے ہیں۔
محبّتوں کو فروغ
براہِ مہربانی سیاست دانوں کو ’’بھان متی کے کنبہ‘‘ جیسے القابات سے نہ نوازا کریں، زبان میں شائستگی لائیں، پہلے ہی مُلک میں عدم برداشت کا کلچرل فروغ پا رہا ہے۔ ہرجگہ مارا، ماری عروج پرہے، لوگ ایک دوسرے کی رائے کا احترام ہی نہیں کرتے، آپ تو کم ازکم محبّتوں کو فروغ دیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ سنڈے میگزین سے ماڈلنگ کا صفحہ بند کر دیں، یہ بالکل ہی فضول صفحہ ہے اورحکومتِ وقت سے ہماری اپیل ہے کہ ہم چوں کہ طویل عرصے سے بے روزگار ہیں، تو ہمیں فوراً سرکاری نوکری فراہم کی جائے۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد)
ج: جی، جی بالکل، ہماری بھی حکومتِ وقت (نگراں حکومت) سے اپیل ہے کہ آپ کو جلد از جلد کوئی ملازمت فراہم کردی جائے، اِس سے پہلے کہ آپ کی یہ بےروزگاری ہم سمیت کئی ایک کو پاگل کرنے کا سبب بن جائے۔
انتہائی مدلّل تجزیہ
سنڈے میگزین پڑھنے اور اس پرتبصرہ کرنے میں بہت ہی مزہ آتا ہے۔ ’’قصّہ حضرت سلیمانؑ اور ملکۂ سبا‘‘ پڑھا۔ بہترین تھا۔ ’’مقصودِ کونین‘‘ کےعنوان سےاقصیٰ منور ملک نے آنحضرت ﷺ کی سیرتِ طیبہ شان دار انداز سے بیان کی۔ پاک فوج کی مُلک و قوم کے لیے قربانیوں، کڑی محنت، ہمّت و لگن سے متعلق ایک عمدہ ’’ رپورٹ‘‘ رائو محمّد شاہد اقبال نے پیش کی۔
اپنے دل کی حفاظت کریں۔ ’’لائف سیورز ڈے‘‘ پر ڈاکٹراحمد سلمان غوری نے انسانیت سے محبّت کا بہترین درس دیا۔ ’’بھارت، امریکا، مشرق وسطیٰ کے ممالک، چائنا کے مقابل‘‘ منور مرزا کا تجزیہ انتہائی مدلّل تھا۔ سفرِوسط ایشیا میں الماتا سے متعلق جاننا بہت اچھا لگا۔ ’’ریل کیسےہوئی ڈی ریل؟؟‘‘رئوف ظفر پاکستان کےکاروباری شعبےکی شاہ رگ کی زبوں حالی پر افسردہ نظر آئے، اللہ پاک حُکم رانوں کوبھی یہ بات سمجھنے کی توفیق دے۔ (آمین) (مائرہ شاہین، گُل زیب کالونی، ملتان شریف)
مکروہ چہرہ بے نقاب
حکومت نے پیٹرول کے ایک لیٹر پر ایک دَم چالیس روپے کم کیے، لیکن آج کئی دن گزر جانے کے باوجود اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ بازار اسمگل شدہ سامان سےبَھرے پڑے ہیں، وزیرِاعظم صاحب فرماتے ہیں کہ مُلک میں اسلحے سےمنشیات تک ہر شے اسمگل ہو کر آرہی ہے۔ منہگائی اپنے عروج پر ہے، لیکن بازاروں، ریسٹورنٹس میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں۔ نہ کوئی چیک اینڈ بیلنس ہے اور نہ ہی خوفِ خدا۔
فلسطین، خون میں ڈوبا ہوا ہے، لیکن ہمارا میڈیا، حکومت اور عوام شُترمرغ کی طرح ریت میں منہ چُھپائے بیٹھے ہیں۔ ہاں، ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ میں ’’قصص القرآن‘‘ کے مضامین نے کم ازکم یہود و اسرائیل کے مکروہ چہروں کو عوام کے سامنے ضرور بےنقاب کیا۔ پچھلے شمارے میں ’’تعمیرِبیت المقدس‘‘ کے مضمون میں اسرائیل کے وجود میں آنے کی جو تاریخ بیان کی گئی، اُس نے یقیناً یہود سے ہم دردی رکھنے والوں کی آنکھیں کھول دی ہوں گی۔ یہ پچھلی قسط بہت ہی بروقت تھی۔
بہرحال، یہ بات مسلمہ ہے کہ بزرگواراِن دینی مضامین کے ذریعےجنگ کے قارئین کو بیش بہا معلومات فراہم کر رہےہیں۔ منور مرزا نے پاکستان کی اقتصادی ترجیحات کی بات کی، بہت اچھی بات ہے۔ اے کاش! اقتدار کے ایوانوں تک بھی یہ بازگشت پہنچ جائے۔ عالمی یوم خوارک پر شاہد اقبال کا مضمون بہت مناسب تھا، بریسٹ کینسر، نوجوان بچیوں میں بھی جڑیں پکڑ رہا ہے، اس خوالے سے لکھا گیامضمون بہت ہی معلوماتی تھا۔ ’’اُجلی رنگت، گورا مُکھڑا، اُس پہ رُوپہلی ہے پوشاک…‘‘اب تمہاری تحریر کی کیا بات کروں، اس کا تو کوئی مول ہی نہیں۔
تمھاری صلاحیتیں تو خداداد ہیں۔ رئوف ظفرنےبرین ڈرین پر ایک فکرانگیز رپورٹ پیش کی۔ ہمارے خیال میں تو حُکم ران چاہتے ہیں، جوجارہا ہے جائے، کم از کم ڈالرز اور زرِمبادلہ تو آئے گا، تھرپارکر کے سکھ رام داس کی داستان سب کے لیے سبق آموز تھی۔ ڈاکٹر عبدالستار عباسی کا سفرنامہ بھی خاصا دل چسپ ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے سب نامہ نگاروں کی خدمت میں میرا سلام، اللہ نگہبان۔ (شاہدہ تبسم، ڈی ایچ اے، کراچی)
ج: اللہ رب العزت کا کرمِ خاص اورآپ لوگوں کی ذرّہ نوازی ہے، جو ہماری معمولی صلاحیتوں کوکچھ خاص جانتے، سمجھتے ہیں۔ وگرنہ تو ہم نے خُود کیسے کیسے گواہرِ نایاب مٹّی میں رُلتے پِھرتے نہیں دیکھے۔
فی امان اللہ
10ستمبر 2023ء کا ’’سنڈے میگزین‘‘ پڑھا۔ سب سے پہلے بات ہو جائے، ’’آپ کا صفحہ‘‘کی، جس میں میرا نام مع آپ کے توصیفی ریمارکس ’’سونے پہ سہاگا‘‘، ایسے ہی لگا، جیسے میرا نام ’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ قرار پایا ہو۔ بےحد شکریہ۔ اب آتے ہیں شمارے کے مندرجات کی طرف۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں قصّہ سامری جادوگر انتہائی معلوماتی اور عبرت انگیز تھا۔ پڑھ کے یہی خیال آیا کہ ’’دیکھو مجھے، جودیدۂ عبرت نگاہ ہو۔‘‘ ’’حالات وواقعات‘‘ میں ’’پاکستان اور برکس‘‘ کا ذکر تھا۔ جب تک ہماری معیشت درست نہیں ہوتی، اللّے تللّے، مُفتے، حکومتی پیٹرول، بجلی، گیس اور دوسری بے جا مراعات، بیورو کریسی و افسرشاہی کا تصوّرِ حُکم رانی ختم نہیں ہوتا، ترقی و خُوش حالی مکن نہیں۔
وہ کیا ہے کہ ؎ نہ سمجھوگے، تو مٹ جائو گے… ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر نورین نے ہوش رُبا معلومات فراہم کیں۔ ’’گفتگو‘‘ میں عوام کے لیے گورنر ہائوس کے دروازے اُکھاڑنے، دیواریں گرانے کی بجائےعوام کے مسائل حل کرنے کی سنجیدہ تدابیرجیسی باتیں ہونی چاہیے تھیں اوراِس کے لیے گورنر ہائوسز کے بےجا اخراجات اور ملازمین کی فوج ظفر موج کم کی جائے۔ دوسری بات، انتخابات، مسائل کیسے حل کریں گے، جب کہ امیدوار کروڑوں روپے اپنی انتخابی مہم پرلگادیتے ہیں، اس کے لیے انتخابی مہم کو ترقی یافتہ ممالک کے لیول پر لانا ہوگا۔
ورنہ جتنے مرضی الیکشن کروالیں، بے سُود ہی رہیں گے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر عبدالستار عباسی کا ’’سفرِ وسط ایشیا‘‘ بہت ہی معلوماتی اور خوش کُن رہا۔ بےشک ؎ سفر ہے شرط، مسافرنواز بہتیرے۔ اورسفروسیلۂ ظفر ہے، لیکن اسفارتب ہی سودمند ٹھہریں گے،جب ہم مشاہدات و تجربات کی روشنی میں اپنے مُلک میں بھی کچھ اصلاحات لائیں گے، وگرنہ تو یہ سوائے انٹرٹینمنٹ کے کچھ نہیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کی مسز پاکستان ورلڈ، فاطمہ فخر واقعی قابلِ فخر ٹھہریں کہ اپنے اندر ایک رول ماڈل کی تمام خوبیاں سموئے ہوئے تھیں۔
ہمیں ایسی سلیقہ شعار، جفاکش، محنتی اور منظّم خواتین پر فخر ہوناچاہیے۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں انقلابی شاعر، حفیظ میرٹھی سےملاقات اچھی رہی اور بنتِ عطا کی آن لائن مہارتیں بھی معلومات میں اضافہ کر گئیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ’’امریکا جانے کا بھوت سرسے اُترگیا۔‘‘ بہت سبق آموز واقعہ تھا۔ اپنا وطن، اپنی دھرتی سب سے پیاری ہے۔ وہ ہےناں کہ ؎ ’’خشتِ وطن از ملک سلیمان خوشتر… خارِ وطن از سنبل وریحان خوشتر… یوسفؑ کہ ملک مصر شاہی می کرد… می گفت گدا بودن کنعان خوشتر۔‘‘(وطن کی ایک اینٹ بھی بادشاہت سلیمانیؑ سے بہتر ہے۔
ارضِ وطن کے کانٹے بھی سنبل وریحان سے بہتر ہیں۔ تب ہی اپنے وقت کےبادشاہ ہوتےہوئےبھی حضرت یوسفؑ، کنعان کے فقیر کو خُود پہ ترجیح دیتے ہوئے رو پڑے تھے) پھر دوسرے واقعے ’’اللہ شفا دینے پر آئے‘‘ نے بھی ایمان تازہ کردیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ترقی کے رہنما اصول اور علیشباہ کی زبان کےچسکے میں چُھپی نصیحت موثر انداز میں پیش کی گئی، لیکن ہم کہاں سمجھنے والے ہیں۔ بقول اقبال ؎ مرد ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر۔ (جاوید اقبال، بلدیہ کالونی، چشتیاں، ضلع بھاول نگر)
ج: چلیں بھئی، توصیفی کلمات پر’’اس ہفتے کی چٹھی‘‘ جیسی خُوشی پانے کی بجائے آج سچ مچ کی ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ کی خوشی آپ کے نام ہوئی۔
* آج ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ای میل کرنے کی وجہ ناہید خان کی تحریر ’’شکستِ آرزو‘‘ بنی۔ افسانے میں لوڈشیڈنگ اور آج کل کےجو حالات ہیں، اُن کو موضوع بنایا گیا۔ تحریر کا یہ جملہ کہ ’’اِس سرد خانے میں تمہیں گرمی نہیں لگے گی بیٹا! یہاں ٹھنڈ ہی ٹھنڈ ہے اور بجلی بھی نہیں جاتی۔‘‘ پڑھ کے آنکھوں میں آنسو آگئے۔ شاید ہمارے حُکم ران بھی اسے پڑھ کے کچھ سوچنے پر مجبور ہوجائیں۔ اور پلیز، اگر میری تحریر آپ کو موصول ہوجائے، تو اطلاع ضرور دیں۔ (سمانہ نقوی، کراچی)
ج : افسانے کی پسندیدگی کا شکریہ۔ تحریر کی وصول یابی کی اطلاع کی دو ہی صُورتیں ہیں۔ یا تو شایع کردی جاتی ہے یا ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں نام شامل ہوجاتا ہے۔
* آپ لوگوں کی حوصلہ افزائی کے سبب میری تحاریر تواتر سے صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘ پر شائع ہو رہی ہیں۔ بہت خُوشی ہوتی ہے کہ آپ اُن کی نوک پلک درست کر کے قارئین کے حوالے کرتی ہیں، وگرنہ عموماً تحریر میں کوئی کمی یا کجی رہ جائے، تو اُس کا نقصان براہِ راست پہلے مصنّف کو اور بعد میں ادارے کو ہوتا ہے۔
میری یہی کوشش ہوتی ہے کہ مَیں اُس وقت تک کوئی نئی تحریر ارسال نہ کروں، جب تک کہ پہلی تحریرسے متعلق کوئی فیصلہ نہ ہوجائے۔ میرا ’’جنگ ڈائجسٹ‘‘ سے تعلق بہت پرانا ہے۔ اُس میں میرے افسانے1980-81 ء میں بھی، جب مَیں فرسٹ ائیر میں تھا، شائع ہوتے رہے ہیں۔ جب کہ روزنامہ جنگ ہی کے تحت قومی نغموں کے مقابلے میں بھی مَیں نے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ (خالد نذیر خالد، سیٹلائیٹ ٹاون، راول پنڈی)
ج: یہ تو ہمارے لیے بھی حیران کُن بات ہے کہ کبھی روزنامہ جنگ کے تحت ملّی نغموں کے مقابلے بھی منعقد ہوا کرتے تھے۔
* ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے صفحے پر ایک واقعہ ’’وہ بزرگ خاتون کون تھیں؟‘‘ شایع ہوا تھا، اُس میں جس وظیفے کا ذکر کیا گیا، کیا آپ وہ شایع کرسکتی ہیں، یقیناً تمام بچیوں کے لیے صدقۂ جاریہ ثابت ہوگا۔ (ٹیولپ پیٹل)
ج: وظیفہ ہماری 23 جولائی کی اشاعت میں شایع کیا جاچُکا ہے۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk