• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

زیادہ ہی سچ بول دیا!!

’’سنڈے میگزین چھوٹا سا، لیکن کمال جریدہ ہے۔ تب ہی ہر ہفتے شدت سے انتظار رہتا ہے۔ اِس کا ہر سلسلہ، صفحہ ہی لاجواب ہے۔ سارے جہاں کی خبروں کے ساتھ بہترین ہیلتھ ٹپس بھی مل جاتی ہیں۔‘‘ یہ چند جملے کافی ہیں یا کچھ مزید بھی لکھنےپڑیں گے،’’اس ہفتے کی چِٹھی‘‘ میں نام شامل کروانے کے لیے۔ ویسے بلاشک و شبہ ’’سنڈے میگزین‘‘ ایک معیاری جریدہ ہے، لیکن جہاں تک ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا سوال ہے، تو اس صفحے پر سوائے لوگوں کی آراء کے کچھ نہیں ہوتا، لیکن، ایسی آراء کا کیا فائدہ، جن پر عمل درآمد ہی نہ ہو۔ اب ایک مثال ’’ناقابلِ فراموش‘‘ سلسلے ہی کی لے لیں۔ 

میرے خیال میں یہ 90 فی صد سے زائد لوگوں کا پسندیدہ صفحہ ہے، مگر کیا فائدہ ایسی پسندیدگی کا کہ ہر ہفتے یا بعض اوقات پورا مہینہ ہی یہ غائب رہتا ہے۔ ہر انسان ہی کی زندگی میں بیسیوں واقعات پیش آتے ہیں، پرآپ بھی تو تھوڑا ہولا ہاتھ رکھا کریں، یہ کیا کہ ہردوسرے واقعے ہی کو مسترد کردیاجاتا ہے۔ 

فضول سلسلے، جیسا کہ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کیوں ختم نہیں کیے جاتے۔ اب بھلا قریبی رشتے دار کس کو عزیز نہیں ہوتے، تو براہِ مہربانی، اگر قارئین کوئی مشورہ یا رائے دیں، تواُس پرعمل بھی کیا کریں یہ کیا کہ ہماری مجبوری ہے، ہماری پالیسی نہیں، انتظامیہ فیصلہ کرتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اگر ایسا ہے، تو پھر یہ اپنا صفحہ ختم کردیں۔ مجھے لگتا ہے، مَیں نے کچھ زیادہ ہی سچ بول دیا ہے، اب اللہ کرے، شایع بھی ہو جائے۔ (محمّد جاوید اقبال، وحدت کالونی، لاہور)

ج: آپ اس سے بھی کہیں زیادہ تلخ، کڑوا سچ بول لیں، ہم بہرحال ایک ادارے میں کام کرتے ہیں، جو ایک باضابطہ سسٹم کے تحت چلتا ہے، نہ کہ کوئی ’’بنانا ری پبلک‘‘ ہے کہ کسی نے جوبھی اُلٹی سیدھی مَت دی، بس، اُسی طرف منہ اُٹھا کے چل دیں۔ اگر کبھی ہم نے کہا کہ یہ ادارے کی پالیسی نہیں، تو وہ واقعتاً ادارے کی پالیسی نہیں ہوگی۔ اگرکہا گیا کہ ہماری مجبوری ہے، تومجبوری ہی ہوگی۔ 

یہ طے ہے کہ بڑے اداروں میں کچھ معاملات انتظامیہ ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔ سو، جہاں ہمارا اختیار نہ ہو، ہم معذرت کرلیتے ہیں۔ آپ چوں کہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے لیے واقعات لکھ کے بھیجتے ہیں، تواس صفحے کے ضمن میں تو میرٹ کو گولی سے اڑا دینا چاہیے، جب کہ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کیوں کہ آپ کو پسند نہیں، تو اُسے فوری بند ہو جانا چاہیے۔ حالاں کہ یہ وہ سلسلہ ہے، جس کی مسلسل اور معیاری ڈاک آرہی ہے اورلوگ اِسےبےحد پسند کرتے ہیں، توبھئی، اِک اکیلے آپ کی فرمائش پر تو یہ ہرگز ممکن نہیں ہوگا۔

غلط بات، صحیح نہیں ہوجاتی

’’ سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے سلسلے ’’قصص القرآن‘‘ میں ’’قصّہ قومِ ثمود اور حضرت صالح علیہ اسلام کی اونٹنی کا‘‘ پیش کیا گیا۔ ہمیشہ کی طرح معلومات سے بھرپور تھا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کچھ الجھے سے دکھائی دئیے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر ایم فیضان فیروزنے منہ کی صحت سے متعلق تشویش میں مبتلا کیا، مگر’’عقل داڑھ‘‘ کے حوالے سے کئی غلط فہمیاں ضرور دُور ہوگئیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ڈاکٹر عرفان عزیز نے وفاقی اُردو یونی ورسٹی کی زبوں حالی کا ذکر کیا۔ ’’فن و فنکار‘‘ میں اسد عباس کی دل سوز داستانِ حیات دُکھی کرگئی۔’’جہانِ دیگر‘‘ سلسلے کی آخری قسط میں ڈاکٹر عبدالستار عباسی نے سُود کے خاتمے کی اُمید ظاہر کی، پڑھ کے خُوشی ہوئی۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں سعود تابش نے اپنے والد تابش دہلوی کو 19ویں برسی پر بہترین خراجِ عقیدت پیش کیا۔ 

پروفیسر معین الدین عقیل کا مضمون بھی عُمدہ تھا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کےدونوں واقعات پُراثر لگے اور ہاں، اپنے دو دو خطوط آپ کو ایک ساتھ موصول ہونے کے ضمن میں، ہم نے باقاعدہ پوسٹ آفس جا کر شکایت کی، تو اُن کا کہنا ہے کہ وہ تو خط اُسی روزآگے روانہ کردیتے ہیں، جس روز پوسٹ کیا جاتا ہے۔ لیکن آپ کی ایک ہی رٹ ہے، ’’مَیں نہ مانوں‘‘۔ تو کیا ’’مَیں نہ مانوں‘‘ کی گردان سےغلط بات صحیح ہوجاتی ہے۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج : اچھا، چلیں مان لیا۔ آپ سب کچھ ہی بجا فرماتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ایک بات طے ہے کہ آپ کا ہرخط الگ الگ چھاپاجائےیا 10خطوط ایک ساتھ ملا کر، نتیجہ یہی رہے گا، جواِس وقت قارئین کے سامنے ہے۔

اعلیٰ ادب کے معیار پر پُورا

’’سنڈے میگزین‘‘ بدلتے موسموں کی خُوب رعنائیاں ورنگینیاں لے کر شایع ہوتا ہے، تب ہی رسالہ ملتے ہی طبیعت مچل سی جاتی ہے۔ بہترین، جان دار تحریروں سے مزیّن شمارہ اعلیٰ ادب کے معیار پر بھی پورا اترتا ہے۔ میرے لیے تو یہ ننّھا مُنا سا رسالہ ایک پورے جہان سے بڑھ کر ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ سے لے کر قارئین کے خطوط تک سب سلسلے بہت ہی دل سے پڑھتا ہوں۔ (شری مان مرلی چند/گوپی چند گھوکھلیہ، شکارپور)

چمنستان بنانے کا عزم

اس بار آغاز ’’آپ کا صفحہ‘‘ سے کہ اقبال کے گلشن، گلشنِ اقبال، کراچی کی شاہدہ ناصر ایک بار پھر سب پہ بازی لے گئیں۔ الفاظ کے موتی سے ایسی زبردست مالا پروئی کہ کیا کہنے۔ پرنس افضل شاہین، شاہدہ تبسّم، شمائلہ ناز اور رونق افروز برقی کے نامے بھی باغ کو خُوب مہکا رہے تھے، سب کی محبّت کا شکریہ کہ اپنی چِٹھیوں میں ہمیں یاد رکھا۔ کس قدر سادہ، آسان زبان میں ’’حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ بلقیس کا قصّہ‘‘ بیان کیا گیا۔ بے شک، یہ قصّے رہتی دنیا تک حضرتِ انسان کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ 

نواب شاہ ایکسپریس سے رائو محمّد شاہد اقبال ایک اچھوتے موضوع کے ساتھ آئے، اور آتے ہی چھا گئے کہ فی زمانہ بغیر بجلی، زندگی بہت مشکل ہے۔ سارا مُلکی نظام اِسی کے دَم قدم سے چل رہا ہے۔ اب تو دُعا ہے کہ نگراں حکومت ہی ایسا کوئی کام کرجائےکہ لوگ پاکستان میں رہنے اور کاروبار کرنے کو ترجیح دیں۔ امن دوست انسان، بہترین لکھاری، ٹاک شوز کے تمام اینکرز پربھاری، منور مرزا ’’مشرق و مغرب میں تبدیلی کی ہوائیں‘‘ کے موضوع پر رقم طراز تھے۔ میرے پیارے رب کی بنائی دنیا بہت ہی حسین ہے، سو، اگر آپ کی جیب اجازت دیتی ہے، تو قدرت کے شاہ کاروں سے ضرور لُطف اندوز ہوں۔

ڈاکٹر عبدالستار عباسی کے سنگ ہم نے بھی سفرِ وسط ایشیا کیا، واللہ مزہ آگیا۔ جریدے کے بیچوں بیچ ماڈل وَردہ مُنیب کی خُوش لباسی پر نرجس ملک کا قلم جُھوما، تو ضیاالحق قائم خانی کا دل مُسکرا اُٹھا۔ ’’بِل نہیں، دِل جل رہے ہیں…!!‘‘ رؤف ظفر بجلی کے ماروں کا نوحہ لیے یہ باور کروارہے تھےکہ آئی پی پیز سے غلط معاہدے حُکم رانوں نےکیے، لیکن بھگت عوام رہے ہیں، جب کہ مفت یونٹس اور بجلی چوری کا خمیازہ بھی ہمیں ہی بھگتنا پڑرہا ہے۔

’’ہر مسئلے کا حل بندش کیوں…؟؟‘‘ پڑھا، اختر علی اختر شاید فن کاروں کے قبیلے ہی سے تعلق رکھتے ہیں، وگرنہ میرے خیال میں تو آج کل جو فلمیں، ڈرامے بن رہے ہیں، اسلامی اقدار اور پاکستانیت کےیک سرمنافی ہیں۔ کوئی توتعمیری موٹیویشن بھی ہونی چاہیے۔

فرحی نعیم کا قلمی پارہ’’قرعہ‘‘ ایک جداگانہ موضوع تھا۔ دیکھا جائے، تو سنڈے میگزین کے سب ہی لکھاری پاکستان کو ’’چمنستان‘‘ بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔ جب کہ ’’کپتان، سنڈے میگزین‘‘ نرجس ملک بھی خدمتِ انسانیت کےمشن میں اپنابھرپور کردار ادا کرتے ہوئے آگےبڑھ رہی ہیں۔ (ضیاالحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)

ج: ارے بھئی!! ہم ’’ایڈیٹر، سنڈے میگزین‘‘ ہی ٹھیک ہیں۔یہ لفظ ’’کپتان‘‘ تو سُنتے ہی جھرجھری سی آنے لگتی ہے۔ ہمارا بس چلے تو اِس جیسے جتنے الفاظ کی گزشتہ دورِحکومت میں تکرار و گردان ہوتی رہی، لغت ہی سے نکال پھینکیں۔

اللّے تللّوں سے جان چھڑوائیں

اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں متبرّک صفحاتِ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ موجود تھے۔عالمی معاشی ادارے ہماری معیشت ہرگز نہیں سدھار سکتے، جب تک ہم خُود اپنے زورِ بازو پر بھروسا نہیں کریں گے اور اپنے اللّے تللّوں سے جان نہیں چھڑوائیں گے۔ آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ سے متعلق بہت ہی دل چسپ اور سنسنی خیز معلومات فراہم کی گئیں۔ ذہنی صحت، بلاشبہ عالمی انسانی حق ہے، مگر ہمارےمُلک میں کیا ہورہا ہے۔ ’’سفرِوسط ایشیا‘‘ کی پانچویں اور چھٹی اقساط لاجواب تھیں۔ 

پاکستان میں سبز انقلاب کے لیے سرگرمِ عمل، فون گرو کے حوالے سے ’’رپورٹ‘‘ اچھی لگی۔ کیا واقعی، یہ ایشیا کی صدی ہے۔ اگر ایسا ہی ہے، تو ہمیں بھی خُوش ہوجانا چاہیے۔ دنیا کی ستّر فی صد آبادی سنگین غذائی بحران سے دوچار ہے، پڑھ کے تشویش لاحق ہوگئی۔ نابغۂ روزگار افراد کا انخلا بھی بڑا نقصان ہے۔ اگر ٹیلنٹڈ افراد ہی مُلک سے باہر چلے جائیں گے تو مُلک کا کیا بنے گا۔ 

معروف شاعر، ادیب، سابق ڈائریکٹر اکادمی ادبیات، بلوچستان افضل مراد کا انٹرویو بہترین تھا، خاص طور پر یہ جملہ بہت پسند آیا کہ ’’میرے خوابوں نے مجھے بکھرنے نہیں دیا‘‘ غزل جاوید کی ای میل کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ ’’فی الوقت تو اخباری صنعت کا جوحال ہے، انتظامیہ کو ہماری طرف سے کسی بھی نوعیت کا کوئی مشورہ گیا تو بہترین حل یہ پیش کیا جائے گا کہ بند کردیں۔‘‘ ہم واقعتاً آپ کی مجبوری سمجھتے ہیں۔ نواب زادہ بے کارملک کو بھی آپ نے خُوب جواب دیا۔ کراچی کی عروج گل عباس نے اپنے خط میں ہمارا تذکرہ کیا، تو پڑھ کے خُوشی ہوئی۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول لنگر)

ج: اللہ اس مُلک کو سلامت تاقیامت رکھے، مگر یہاں سے اللّے تللّے ختم نہیں ہوسکتے۔ مرزا غالب نے کہا تھا کہ قرض کی پیتے تھے مے، لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں… رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔ ہمیں بخوبی پتا ہے کہ ہماری اگلی کئی نسلیں بھی پیدائشی مقروض پیدا ہوں گی، لیکن ہم عیش و عشرت ترک کرنے کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔ صرف نگراں حکومت ہی کے بیرونی دورے اور اُن دوروں کی شاہ خرچیاں ملاحظہ فرمالیں۔ ہم بیرونِ ممالک عموماً بھیک مانگنے ہی جاتے ہیں، مگر طمطراق ایسا ہوتا ہے کہ اُلٹا دینے والے احساس کم تری کا شکار ہوجائیں۔

                      فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

نرجس بٹیا! سدا خوش رہو، آج بڑے دُکھی دل کے ساتھ یہ خط تحریر کررہا ہوں۔ غزہ پٹّی کےنہتّے مسلمانوں پر اسرائیلیوں کی وحشیانہ بم باری، ہزاروں معصوم بچّوں، عورتوں کا قتلِ عام کُھلی دہش گردی ہے، لیکن مسلمان حُکم رانوں اور خاص طور پر عرب ممالک کا کردار دیکھ کر ڈوب مرنے کوجی کرتا ہے۔ 58 مسلمان ممالک کو ایک چھوٹے سےاسرائیل نے ناکوں چنے چبوا دیے ہیں۔ قرآن نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے متنبّہ کردیا تھا کہ یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہوسکتے۔ آج صلیبی جنگوں میں شکست کا بدلہ لیا جارہا ہے۔ 

آخری صلیبی جنگ میں شکست کے بعد رچرڈ نے مرنے سے پہلے یہ ہی پیغام تو دیا تھا کہ مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں تب ہی ہرا سکتے ہو، جب اُن کے اندر سے شرم و حیا ختم کردو۔ سچ تو یہ ہے کہ آج لگ بھگ ہر مسلم ریاست پرکوئی میرجعفر، میرصادق ہی قابض ہے، جو ذہنی طور پر یہود و نصاریٰ اور امریکا کے غلام ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کے ساتھ مسلم میڈیا بھی حماس کے خلاف جھوٹا، شرانگیز پروپیگنڈا کرنے میں پیش پیش ہے۔ 8 اکتوبر کے ’’سنڈے میگزین‘‘ میں ’’قصّہ تعمیرِبیت المقدس‘‘ بیان کیا گیا ہے، جس میں فاضل مصنّف نے بیت المقدس اور اسرائیل کے قیام کی مختصر تاریخ بیان کی۔ ’’قصص القرآن‘‘ کے اس مضمون کی ٹائمنگ نے حیران کردیا، اسرائیل کی جارحیت کے دوران یہ مضمون بہت صحیح وقت پر اخبار کی زینت بنا۔

بہرحال، یہ بات تو اپنی جگہ برحق ہے کہ نجمی صاحب کے مضامین سےقارئین کو بہترین دینی معلومات حاصل ہورہی ہیں، خصوصاً تاریخ کے طلبہ کے لیے یہ کسی ان مول خزانے سے کم نہیں۔ بیٹا! مَیں بوڑھا آدمی ہوں، اب عُمر 85 برس سے اوپر ہوگئی ہے۔ اللہ نے تم کو بڑے ظرف کا مالک بنایا ہے، استاد ہونے کی حیثیت سے بھی کہتا ہوں کہ اللہ نے تم کو اپنے انعامات سے خُوب خُوب نوازا ہے۔ دُعا ہے،تم سداخوش وخرّم رہو۔ بس، ایک درخواست ہے، بزرگوں کی کسی غلط بات کو بھی نظر انداز کرنے کی کوشش کیا کرو۔ رائو محمّد شاہد اقبال جس موضوع پرلکھتےہیں، حق اداکر دیتے ہیں، شاباش بیٹا۔ منور مرزا فرماتے ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے بھی ہماری معیشت نہ سدھار سکے تومنور میاں! اللہ نے قرآن میں فرما دیا ہے ’’بےشک، اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ خُود اپنےآپ کو نہ بدل ڈالے۔‘‘ (سورہ رعد، آیت نمبر11)ور اِسی بات کو شاعر نےکچھ اس طرح کہا ہے۔ 

غالباً مولانا ظفر علی خان کا شعر ہے ؎ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی…نہ ہو، جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔ ذہنی صحت کے عالمی دن پر ڈاکٹر ثاقب نے فرمایا کہ مُلکی آبادی کا 10فی صد مختلف ذہنی عوارض کا شکار ہے۔ ڈاکٹر صاحب! آپ کے منہ میں گھی، شکر، پتا نہیں یہ فِگر آپ نے کہاں سے لیا۔ میرے خیال میں تو اس وقت پاکستان کی90 فی صد آبادی ذہنی عوارض میں مبتلا ہے، جس میں بڑی تعداد اسٹریس، اینزائٹی، خوف، ڈیپریشن اور ٹینشن کے مریضوں کی ہے۔ موجودہ مُلکی حالات (بشمول اقتصادی و سیاسی) عدم تحفّظ، منہگائی، ملاوٹ، چوری، ڈکیتی اور لوٹ مار نے کیا غریب، کیا امیر سب کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں۔ 

ہر شخص ہی ذہنی تنائو، دبائو کا شکار ہے اور آپ فرماتے ہیں کہ صرف10 فی صد ذہنی عوارض کا شکار ہیں۔ مطلب، باقی90 فی صد آبادی کسی قسم کی پریشانیوں میں مبتلا نہیں۔ بھائی! کیوں ہمارے زخموں پر نمک، مرچ چھڑکتے ہو۔ وہ کیا ہے کہ ؎ تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں، ہم بے زار بیٹھے ہیں۔ ’’پاکستان میں سبز انقلاب‘‘ بہترین معلوماتی مضمون تھا اوروقت کی اہم ضرورت بھی۔ اسلامی معیشت کےموضوع پررابعہ ملک کی بھی اچھی کوشش تھی۔اس پرمزید بھی لکھنا چاہیے۔ دونوں مضمون نگاروں تک شاباش پہنچا دیں اور ہاں، یہ خالدہ سمیع، ڈاکٹر حمزہ، ظہیرالدین غوری، صبیحہ عمّاد،عروبہ مرسلین، چاچا چھکن اورریحانہ ممتازبہت دن سے خطوط کی محفل سےغائب ہیں۔ کیوں، خیر تو ہے۔ (پروفیسر سیّد منصور علی خان، کراچی)

ج: سر! آپ کی ہر بات سو فی صد درست، لیکن وہ جو آپ نے بزرگوں کی غلط باتوں کو نظرانداز کرنے کی بات کی، تو ہمارا نہیں خیال کہ ہم نے آج تک کبھی کسی بزرگ کی شان میں دانستہ کوئی گستاخی کی ہے، حالاں کہ بعض بزرگ تو ایسی ایسی باتیں بھی کرجاتے ہیں کہ اگر بزرگ جان کےنظرانداز نہ کیا جائے تو دوبارہ اُن کی جانب دیکھنا بھی ممکن نہ ہو۔

گوشہ برقی خطوط

* سنڈے میگزین کے مندرجات، صفحات قابلِ تعریف ہیں، لیکن صفحات کی تعداد میں اتنی کمی بہت کَھلتی ہے۔ ایک ہفتے کی تشنگی کے بعد تو یہ اونٹ کے منہ میں زیرے والی ہی بات ہے۔ (یاسرخان، ملیرکینٹ، کراچی)

ج: اب ہم بھی کیا کریں، جب زیرہ اُگانے والوں ہی نےنہ صرف کاشت کم کردی ہے، کھاد، پانی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے، کام چھوڑ کے جانے والے دہقانوں کو روکا نہیں جا رہا، بلکہ اب تو اُنھیں فصل کےاچھے، بُرے ہونےسےبھی کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔ سو، جو مِل رہا ہے اور جب تک مِل رہا ہے، اُسے ہی غنیمت جانیے۔

* اُمید کرتا ہوں، آپ خیریت سے ہوں گی۔ آپ سے درخواست ہے کہ میرے تحریر کردہ اشعار کو جنگ، سنڈے میگزین میں جگہ دے دیں۔ (مبشر زر)

ج: اشعار، اوزان پر پورے اُترے، تو باری آنے پر شایع ہوجائیں گے۔

*مضمون بھیجنے کے بعد اُس کے پراسس ہونے اور شائع ہونے تک کتنا وقت لگتا ہے؟ سنڈے میگزین کے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے ’’گوشۂ برقی خطوط‘‘ میں آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا۔ (اسامہ اسحاق سواتی، ضلع مانسہرہ، خیبر پختون خوا)

ج : اگر کوئی تحریر بہت اچھی ہو اور کسی اہم موقعے، خصوصی دن کی مناسبت سے بھی ہو، تو اُس موقعے پر ترجیحاً بھی شایع کردی جاتی ہے۔ وگرنہ باری آنے ہی پر شایع ہوتی ہے۔ ویسے عموماً اس سارے عمل میں تین سے چار ماہ کا عرصہ لگ ہی جاتا ہے۔

* مجھے پوچھنا تھا کہ مَیں نے اپنی تحریر’’حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامات‘‘ ارسال کی تھی۔ نہ تو وہ شائع کی گئی، نہ ہی ناقابلِ اشاعت کا بتایا گیا۔ پھر مَیں نے ’’ڈائجسٹ‘‘ کے لیے تحریر بھیجی، وہ بھی نہ تو شایع ہوئی، نہ فہرست میں شامل کی گئی۔ (مستقیم نبی، نواب شاہ)

ج: فہرست مرتب تو کرلی جاتی ہے، لیکن اس کی اشاعت میں وقت لگتا ہے۔ تھوڑا انتظار فرمالیں، آپ کی خواہش پوری ہوجائے گی۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk