تقدیم و تدوین: عامر علی خان
صفحات: 320، قیمت: درج نہیں
ناشر: زیک بُکس، کراچی۔
فون نمبر: 8224645 - 0300
پروفیسر ڈاکٹر معین الدّین عقیل پاکستان کے ممتاز محقّق، دانش ور، معلّم اور ماہرِ تعلیم ہیں۔جامعہ کراچی اور بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی میں برسوں تدریسی خدمات سرانجام دینے کے ساتھ اہم عُہدوں پر بھی فائز رہے۔اٹلی کی ایک یونی ورسٹی میں بھی پڑھایا اور کئی برس جاپانیوں کو بھی اردو پڑھاتے رہے۔اُن کے جاپانیوں سے بطور استاد، رفیقِ کار سمیت کئی حیثیتوں سے تعلقات ہیں، جن کا ایک مظہر وہ خطوط ہیں، جو جاپانی مصنّفین اور اساتذہ و طلبہ نے اُن کے نام لکھے، زیرِ نظر مجموعہ اُنہی اردو مکاتیب پر مشتمل ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اردو میں غیر مُلکی و غیر اہلِ زبان کے خطوط کا یہ اوّلین مجموعہ ہے۔کتاب کے مرتّب، عامر علی خان، ماہرِ لسانیات ہیں اور ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔اُن کے مطابق، جاپان میں اردو زبان کے آثار 1663ء سے ملتے ہیں، جب مغلیہ دورِ حکومت میں برّ صغیر کے کچھ جہاز ران، جنھیں’’ مور‘‘ کا نام دیا گیا، ناگا ساکی کے ساحلوں پر اُترے۔ مور کا لفظ مسلمانوں کے لیے مستعمل تھا۔تاہم، جاپان میں اردو تدریس کا باقاعدہ آغاز 1908ء میں’’ ٹوکیو گائکو کوگو اسکول‘‘ سے ہوا۔
اِسی اسکول کو بعدازاں یونی ورسٹی کا درجہ دیتے ہوئے ’’ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز‘‘ کا نام دیا گیا اور زیرِ نظر کتاب اِسی جامعہ کے تعاون سے قارئین تک پہنچی ہے۔ اب وہاں کئی جامعات اور اداروں میں اردو پڑھائی جا رہی ہے، جب کہ تدریس کے علاوہ جاپان کے قومی نشریاتی ادارے،’’ این ایچ کے‘‘کی اردو سروس میں خبریں، حالاتِ حاضرہ پر تبصرے اور ثقافتی پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔
اِسی طرح وہاں ایسے جاپانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے، جو اردو زبان سے واقفیت رکھتی ہے۔گزشتہ دنوں آرٹس کاؤنسل کراچی کی عالمی اردو کانفرنس میں’’جاپان میں اردو‘‘ پر باقاعدہ ایک کام یاب سیشن بھی ہوا، جس میں کلامِ اقبال کے جاپانی زبان میں شان دار ترجمے کی تفصیلات سُن کر سامعین خوشی سے سرشار ہوگئے۔
خطوط کو اصل متن کے ساتھ پیش کیا گیا ہے تاکہ قارئین غیر اہل زبان کے اسلوب کی چاشنی سے لُطف اندوز ہوسکیں، البتہ بعض ذاتی نوعیت کی معلومات حذف کردی گئی ہیں اور ایسا کرنا ضروری بھی تھا۔اِن خطوط کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس میں مکتوب نگاروں کا تعارف بھی پیش کیا گیا ہے، اِس طرح اردو کے جاپانی دوستوں کا ایک مختصر سا تذکرہ بھی وجود میں آگیا ہے۔ گو کہ اِن خطوط کے مندرجات باہمی تعلقات کے گرد گھومتے ہیں، مگر اِس کے باوجود ان کی افادیت اور تاریخی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔