برطانیہ میں 50 سال سے زاید عُمر کے 8ہزار 958 افراد پر مسلسل دس برس تک مختلف تجربات کیے گئے، جن کا مقصد یہ جاننا تھا کہ آیا دماغ کے لیے ورزش سے حاصل کردہ فوائد کم سونے سے ضائع تو نہیں ہو جاتے۔
بعدازاں، ماہرین نے اِس تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جو افراد روزانہ چھے سے آٹھ گھنٹے کی نیند لیتے ہیں، خواہ اُن کی عُمر ستّر سال سے زاید ہی کیوں نہ ہو، وہ جسمانی اور علمی کام بہتر طور پر سرانجام دے لیتے ہیں۔اِس تحقیق سے ایک بات یہ بھی ثابت ہوئی کہ جو افراد جسمانی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں، اُن کا اعصابی نظام صحت مند رہتا ہے اور یہ سرگرمیاں اُنہیں رعشے، بھولنے کے مرض یا یاد داشت کی کمی سے بچائے رکھتی ہیں۔
اُدھر امریکا میں ہونے والی ایک طبّی تحقیق سے پتا چلا کہ وہاں10فی صد افراد عتاہٹ، یعنی ذہنی جبلّتوں کے انحطاطdementia میں مبتلا ہیں، جب کہ22 فی صد افراد علمی ادراک کی کم زوری cognitive impairmentکا شکار ہیں۔
ماہرین اپنے مشاہدے کی بنیاد پر یہ رائے رکھتے ہیں کہ جو افراد ٹھیک سے اور پُرسکون نیند لیتے ہیں، روزانہ ورزش کرتے ہیں یا زیادہ نوافل پڑھتے ہیں، اُنہیں ڈیمینشیا جیسے مرض میں مبتلا ہوتے کم ہی دیکھا گیا ہے۔ Mikaela Bloomberg نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ چھےسے آٹھ گھنٹے کی نیند اور روزانہ صبح سویرے کی ورزش ڈیمینشیا سے بچائے رکھتی ہے۔
دراصل بے سکون نیند اِس مرض کی پہلی علامت ہے، پھر رفتہ رفتہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ کیفیت علمی و ادراکی کاموں کی انجام دہی میں حائل ہونے لگتی ہے۔50سے60 سال کی عُمر کے افراد کا، جو کم سوتے اور زیادہ جسمانی کام کرتے ہیں،کچھ ہی برسوں بعد علمی کام کا معیار بہت کم ہو جاتا ہے۔70 سال سے زاید عُمر کے وہ افراد، جن کی نیند کچھ کم تو ہے، لیکن ورزش باقاعدگی سے کرتے ہیں، وہ اپنی ذہنی صحت کو کسی حد تک برقرار رکھنے میں کام یاب رہتے ہیں۔
اب تک ہونے والی تمام تر تحقیقات سے یہ بات تو واضح ہوچُکی ہے کہ نیند کی کمی سے جسمانی اور علمی، دونوں طرح کے امور پر منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں، البتہ اِس امر پر اب بھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ نیند اور ورزش کس طرح دماغی صحت کو متاثر کرتی ہیں، ممکن ہے کہ اِس کی وجہ کچھ ادویہ کا غیر محتاط استعمال ہو، مگر اصل اسباب کا تعیّن مزید تحقیقات ہی سے ہوسکے گا۔ (مضمون نگار، ڈاؤ یونی ورسٹی اور بقائی میڈیکل یونی ورسٹی، کراچی سے وابستہ رہ چکے ہیں)