السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
قسط وار سلسلے بند کردیں
تازہ میگزین کے سب ہی سلسلے بہت عُمدہ ہیں۔ ویسے محمود میاں نجمی، رائومحمّد شاہد اقبال اورمنورمرزاکی موجودگی ہمیشہ ہی اچھی لگتی ہے، کیوں کہ اِن ہی صاحبانِ علم کی وجہ سے ہمیں اتنےعُمدہ عُمدہ مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میرا مَن پسند سلسلہ ہے، پڑھ کربہت لُطف آتا ہے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی کہانی ’’شکستِ آرزو‘‘ پسند آئی۔ استوتی اگرول نے ’’ایک عورت کی کرم کتھا‘‘ کی صُورت بھارت سے بہت اچھا ترجمہ کرکےبھیجا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں مسز ثوبیہ ممتاز کو آپ کا تفصیلی جواب یقیناً پسند آیا ہوگا۔ یوں تو میگزین کے تمام ہی سلسلےپڑھنےسےتعلق رکھتے ہیں۔
مگر منور مرزا کے’’حالات و واقعات‘‘ کا تو کوئی مول ہی نہیں۔ کیا خُوب لکھاکہ ’’یہ ایشیا کی صدی ہے۔‘‘ ’’پیاراگھر‘‘ بھی بہترین سلسلہ ہےاور اِس بار تو کھانے پینے کا بھی خاصا سامان تھا۔ گلاب رائے نے تھرپارکر سے، سُکھ رام داس کی داستان بہت اچھے انداز میں بیان کی ہے، پڑھ کر بےحد خوشی ہوئی۔ اب میگزین کے صفحات چوں کہ خاصے کم ہوگئے ہیں، تو آپ کو چاہیے کہ قسط وار سلسلے بندکردیں۔ اورہاں، اس مرتبہ آپ نےتمام خطوط، اور برقی خطوط کےبھی جوابات عنایت کیے،آپ کابےحد شکریہ۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج: ارے بھئی، صفحات کم ہونے کے سبب ہی تو قسط وار سلسلوں کی تعداد بڑھی ہے۔ وگرنہ کسی تین، چارصفحات پرمشتمل مضمون کو تو ایک ساتھ بھی چھاپا جا سکتا تھا۔ اب کل 16صفحات ہیں، تو کوشش ہوتی ہے کہ خواہ آدھے آدھے صفحے کی صُورت ہی سہی، مستقل سلسلے بہرحال کوَر ہوتے رہیں اور طویل تحریروں کو اقساط میں شایع کردیا جائے۔
زیادہ پڑھا لکھا نہیں
’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے ’’قصص القرآن‘‘ سلسلے میں ’’قصّہ حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ بلقیس کا‘‘ بیان کیا گیا۔ بہت زبردست معلوماتی مضمون تھا، اگلی قسط کا شدت سے انتظار ہے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں اقصیٰ منور ملک نے سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سےمتعلق بہترین معلومات فراہم کیں۔ رائو محمّد شاہد اقبال نے پاک فوج کےناقابلِ فراموش مِشنز پر روشنی ڈالی۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر احمد سلمان غوری دل کے امراض کا مفصل بیان لائے۔ خاصا معلوماتی اور بہت غور سے پڑھنے والا مضمون تھا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ کے تحت منور مرزا کی پورےعالمی منظرنامے پر بھرپور نظر ہے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر عبدالستار عباسی ’’سفرِ وسط ایشیا‘‘ کے ساتھ چھائے نظر آتے ہیں۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رئوف ظفر نے ریل کےعروج وزوال کی کہانی بہترین انداز سے بیان کی۔
ڈائجسٹ میں اسماء صدیقہ نے افسانہ ’’مداوا‘‘ خُوب لکھا۔ نعتِ رسول مقبول ﷺ کے اِک اِک شعر پر’ ’آمین‘‘ کہا۔ اگلے شمارے میں ’’قصص القرآن‘‘ کی دوسری اورآخری قسط پڑھی، معلومات میں بےحد و حساب اضافہ ہوا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال سوال کرتے ہیں کہ ’’کیا پاکستان میں بھی کبھی بجلی سستی ہوگی؟‘‘ تو فی الحال تو ہمارا جواب نفی ہی میں ہے۔ رئوف ظفر کی’’رپورٹ‘‘ بہت ہی خوف ناک تھی۔ اِس مرتبہ ہیلتھ اینڈ فٹنس اور ناقابلِ فراموش کےصفحات شامل نہ ہوئے، لیکن ہمارا خط شامل تھا،بہت بہت شکریہ۔ ہمیں لگتا ہے، ہمارے دو خط ایک ساتھ شائع کرنا آپ کی مجبوری ہے، جسےاب ہم نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے۔ آپ بلاوجہ ٹینشن نہ لیں۔ مَیں چوں کہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں، اس لیے کبھی کبھار الٹی سیدھی باتیں لکھ جاتا ہوں، درگزر کر دیا کریں (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی، نمبر 3، کراچی)
ج: ہمارے خیال میں تو آپ کئی ڈگری ہولڈرز سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ ہیں کہ تعلیم جو فہم و ادراک،اعلیٰ ظرفی عطا کرتی ہے،آپ ان صِفات سے بہرحال متصّف ہیں۔
گھروں کا مستقل مکین
’’سنڈے میگزین‘‘ ہر اتوار قارئین کو پوری شدّت سے اپنی جانب متوجّہ کرتا ہے۔ اِس کے معلوماتی، تفریحی سلسلے خاندان بھر کو گرفت میں لیے رہتے ہیں اور یہ آج سے نہیں، برسوں سے اِسی طرح بے شمار گھروں کا مستقل مکین ہے۔ خاص طور پر جب سے ’’آپ کا صفحہ‘‘ اس جریدے کا حصّہ ہے، اَن گنت لوگ صرف اِس ایک سلسلے کے سبب میگزین سے جُڑے ہوئے ہیں۔ (شری مرلی چند/ گوپی چند گھوکھلیہ، ریلوے اسٹیشن روڈ، مہرمحلہ، نزد کنک شاہ بخاری درگاہ، شکارپور)
ج : اَن گنت لوگ اخبارات و جرائد سے جُڑے ہوتے، تو آج اخباری صنعت کا یہ حال نہ ہوتا کہ ہردوسرے روز کسی نہ کسی اخبار، جریدے کے بند ہونے ہی کی اطلاع آرہی ہوتی ہے۔
کچھ نہ کچھ کشید کیا
بہت ہی پیارے دوست، بلکہ دوستوں کے دوست ہردل عزیز سابق میٹرو پولیٹن کشمنر کراچی، ڈاکٹر سیّد سیف الرحمان کے والدِ محترم واعظ الرحمان اس دارِفانی سے اپنے مالک حقیقی کی طرف لوٹ گئے۔ اللہ اُن کو غریقِ رحمت کرے۔ یہ ’’کڈنی ہل پارک‘‘ ڈاکٹر سیّد سیف الرحمان جیسے جواں ہمّت، پُرعزم اورعالی دماغ شخص اور اُن کی جفاکش ٹیم ہی کی محنتوں کا ثمر ہے کہ آج یہ آکسیجن ٹینک، اہلیان کراچی کو تازہ ہوائوں کےجھونکےبخشتا ہے۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ کی ساری تحریریں، ہمیشہ کی طرح بہت اُجلی، معلوماتی ہی پائیں۔ تمام تر صفحات ہی سے کچھ نہ کچھ ضرور کشید کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ، آپ کی ٹیم اور ادارے کو کلمۂ حق بلند کرنے کی توفیق دیئے رکھے۔ (ضیاء الحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)
ایڈیشن دیکھ کے دل بَھر آیا
مَیں اپنے خیالات کا اظہار کس طرح کروں۔ سوچتی ہوں، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کے مضمون سے ابتدا کی جائے کہ اُن کا مضمون ’’سفرِ حجاب‘‘ پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ ایک اور مضمون تھا، بعنوان، ’’حجاب عورت کا آہنی حصار‘‘ اُس میں بھی قرآن و حدیث کے حوالہ جات شامل تھے، وہ بھی بہت پسند آیا۔ ویسے عمومی طور پر جب پردے کی بات کی جاتی ہے، آپس میں خیالات کا اظہار ہوتا ہے، تو سامنے والے سے یہی جواب ملتا ہے کہ ’’آپ کس زمانے کی بات کررہی ہیں؟‘‘ ایسا لگتا ہے، جیسے کوئی بہت غلط بات کردی ہو۔ ہم باہر ممالک جاکر تو پردے کا بڑا ڈھونگ رچاتے ہیں، مگراپنے مُلک کا حال بیان سے باہر ہے۔ ٹیلی ویژن کا کوئی چینل کھول لیں، لگتا ہے، میڈیا سے تو دوپٹا فنا ہی ہوگیا ہے۔ نیوز کاسٹرز تک دوپٹّے کے بغیرآتی ہیں، حالاں کہ اینکرز، نیوز کاسٹرز وغیرہ شوبز کا حصّہ تو نہیں۔
یہ تو جتنے زیادہ مہذّب و شائستہ انداز میں سامنے آئیں گی، اُتنی ہی بھلی لگیں گی۔ لوگ اُن کی بات زیادہ غوراورتوجّہ سےسُنیں گے۔ مجموعی طور پر پورا معاشرہ ہی پستی میں گرتا جارہا ہے۔ پچھلے دنوں بازار جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک خاتون دکان دار کو بار بار’’یار‘‘ کہہ کر مخاطب کررہی تھیں اور وہ پٹھان دکان دار بار بار عاجزانہ درخواست کررہا تھا کہ ’’باجی! آپ ہمیں چچا، ماموں، تایا کچھ بھی بولو، مگر اللہ کے واسطے یار مت کہو۔‘‘ مَیں تو شرمندگی سے زمین ہی میں گڑ گئی۔ مجھے پتا ہے کہ یہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کا فارمیٹ نہیں۔ بس، آپ کا ’’عالمی یومِ حجاب ایڈیشن‘‘ دیکھ کر دل بَھر آیا۔ اللہ پاک آپ کو اور جملہ لکھاریوں کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ (راشدہ فصیح، فیڈرل بی ایریا، کراچی)
ج: سب کچھ تو آپ نے کہہ ڈالا ہے۔ اب ہم ’’آمین، ثم آمین‘‘ ہی کہہ سکتے ہیں۔
میرے مضامین شائع ہوں گے؟
فلسطین خون میں نہا گیا اور24 کروڑ عوام، بشمول پنجاب حکومت کیوں خاموش ہیں۔ امت مسلمہ کہاں مرگئی ہے۔ کیامیرے مضامین کبھی شائع ہوں گے؟ کیا فلسطین کبھی آزاد ہوگا۔ میرا فلسطین سے متعلق مضمون ہی شائع کردیں۔ (شہناز سلطانہ و رمشہ طاہر، ناظم آباد، کراچی)
ج: آپ کا چند سطری خط ہی اس قدربے سروپا ہوتا ہے کہ مضامین کی اشاعت کا سوچ کر بھی ہول اُٹھنے لگتے ہیں۔ ہم ہر اُس تحریر پر محنت کرلیتے ہیں، جس میں رتّی بَھر بھی رمق ہو، مگر بخدا آپ کی تحریریں مُردہ ہی نہیں، حنوط شدہ معلوم ہوتی ہیں۔ اِن کا کچھ نہیں ہوسکتا۔
مشورہ پسند آیا
سرِورق پر اُجلی رنگت، گورے مُکھڑے والی ماڈل دیکھتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کہہ رہے تھے کہ ’’یہ ایشیا کی صدی ہے۔‘‘ چین کے ترقی کی طرف گام زن رُوٹ، وسط ایشیا تک تجارتی سامان کی ترسیل سے یورپ تک کی منڈیوں پر چھا گیا، جب کہ خطے کے دوسرے ممالک سنگاپور، جنوبی کوریا، بھارت، بنگلا دیش بھی ترقی کی راہ پر سرپٹ دوڑ رہے ہیں، مگر پاکستان ابھی تک اپنی ترجیحات ہی طےنہیں کرسکا۔
اندرونی اقتدار کی کشمکش میں الجھی سیاسی پارٹیوں کے پاس اس حوالے سے سوچنے کی فرصت ہی نہیں اور کہنے والا کہہ رہا ہے۔ ؎ دوڑو، زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔ بالکل درست کہا، منور مرزا نے کہ ’’مخلص قیادت کا فقدان ہے۔‘‘ ’’سنڈے میگزین‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال ’’عالمی یومِ خوراک‘‘ کی مناسبت سے نگارش لائےکہ دنیا سنگین غذائی بحران سے دوچار ہے، ہمیں بھی پانی اور خوراک احتیاط سے استعمال کرنے چاہئیں۔ ڈاکٹر روبینہ مختار بریسٹ کینسر سے متعلق آگاہی دے رہی تھیں۔ ’’سر چشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی، قصّہ برادرانِ یوسف علیہ السلام لائے۔
گرچہ بچپن سے یہ قصّہ سُنتے آئے ہیں، مگر شاید اندازِ بیاں کا فرق ہے کہ اِس بار پڑھنا بہت ہی اچھا لگا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں رابعہ فاطمہ خوراک کی اہمیت و حفاظت کا درس دے رہی تھیں، تو ’’سنڈے برنچ‘‘ میں ثناء توفیق خان، اقبال شاکر اور آسیہ محمّد عثمان نے چٹ پٹے کھانوں کی تراکیب سے آگاہ کیا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ کا مشورہ پسند آیا کہ اچھے کپڑے، اچھے وقت کے لیے بچاکر رکھنے کے بجائے ہر وقت کو اچھا سمجھ کر استعمال کریں۔
’’رپورٹ‘‘ میں رؤف ظفر شکوہ کُناں تھے کہ مُلکی ناگفتہ بہ حالات نے تعلیم یافتہ، ہُنرمند افراد کو مُلک چھوڑنے پر مجبور کردیا ہے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں وحید زہیر نےشاعر، ڈراما نگار، سابق ڈائریکٹر اکادمی ادبیات، افضل مراد سے اچھی بات چیت کی۔ ’’متفرق‘‘ میں گلاب رائے نے سُکھ رام داس کی داستانِ حیات گوش گزار کی اور اب آپہنچے ہیں اپنے صفحے پر، دو سال بعد آنے والی عروج عباس کی چٹھی کو اعزاز ملا، اچھا لگا۔ جب کہ ہمارا نامہ بھی بزم کا حصّہ تھا۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)
فی امان اللہ
روکو، روکو، ارے بھئی روکو، دسمبر آرہا ہے، سردی، ویرانی وافسردگی، خاک، دھول تواپنے ساتھ لائے گا ہی، جاتے جاتے 2023ء کو بھی لے اُڑے گا۔ مہینے کے آخری دن لوگ جب بادلِ نخواستہ گرم لحافوں، رضائیوں، کمبلوں سے صبحِ دَم نکلیں گے، تو سماعتوں سے پہلی آواز یہی ٹکرائے گی کہ ’’نیا سال مبارک‘‘۔ گویا ایک ہی رات میں ایک سال بیت جائے گا۔ کچھ لوگ نئے سال کی آمد پرخوش باش، تو کچھ بیتےسال کےادھورے سپنوں کارونا روتے ملیں گے۔ خیر، یہ سلسلہ تو صدیوں سے چلا آرہا ہے اورتاحشررہے گا۔ ہمیں تو یہ بات پریشان کیے دےرہی تھی کہ ہماری طویل رُوپوشی، خاموشی سے کہیں پیارے قارئینِ جریدہ، خصوصاً نامہ نگار یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ اُن کا ’’چاچا‘‘ بھی سال 2023ء کے ساتھ دنیا سے سدھارا۔
اللہ کا شُکر ہے کہ ہم حیات ہیں۔ میگزین کی محبّت، قارئین کی رفاقت کی آرزو دوبارہ اِس طرف کھینچ لائی ہے۔ خطوط کا تسلسل برقرار نہ رہا، میگزین کامطالعہ البتہ جاری وساری تھا۔ محمود میاں نجمی کےایمان افروزمقالے، قصص القرآن و قصص الانبیاء کے حوالے سے تحاریر ایمان کو تازہ کیے رہیں۔ ہمایوں ظفر کے مرتّب کردہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ واقعات اکثر مواقع پریاد آجاتے۔ ’’عالمی ایّام‘‘ ایڈیٹر صاحبہ کبھی نہیں بھولتیں۔ سالِ گذشتہ کے مدرزڈے، فادرزڈے، ویمنز ڈے، شوگرڈے، مزدورڈے،بچّہ ڈے(یومِ اطفال) وغیرہ کےمواقع پر دل چسپ، معلومات سے بھرپور تحریریں پڑھنے کو ملیں۔ ساتھ ہی فاروق اقدس، منورمرزا،رئوف ظفر، رائومحمّد شاھد اور منور راجپوت کے علاوہ ہونہار وذہین شفق رفیع کی نگارشات بھی دل میں اُترتی رہیں۔ ہاں، طلعت عمران کی کمی ضرور محسوس ہوئی۔
اداروں میں تبادلے ہوتے رہتے ہیں، یہ روٹین کا عمل ہے اور اِس عمل میں کچھ بُھلا دئیے جاتے ہیں، مگرکچھ یاد رہ جاتے ہیں۔ جیسےطاہر حبیب آج تک یاد ہیں کہ اُن کی تحریرمیں جامعیت و انفرادیت ہوا کرتی تھی۔ ’’اسٹائل‘‘ کےصفحات ہم اُس وقت پڑھتے تھے، جب نرجس ملک اپنی شاعرانہ تحریر سے ماڈل کے حُسن کو بھی جِلا بخش دیتیں۔ مگراب توغالباً وہ مجبوراً ’’مرتا کیا نہ کرتا‘‘ کے مصداق ہر ہفتے ہی یہ ڈیوٹی انجام دے رہی ہیں۔ اُن کی ایک سُرخی تو دِل میں اُتر گئی کہ ’’سُرخ پوشاک میں آئےگا، توچھا جائے گا…‘‘جب کہ شُوٹ میں ماڈل، ہرانداز میں سُرخ پہناوازیبِ تن کیے ہوئے تھی۔
اب دیکھیں، نئے سال میں کس رنگ کی پوشاک دیکھنےکوملتی ہے۔ ہاں، 2023ء میں بہت دل چسپ، یادگار سفرنامے بھی پڑھنےکو ملے۔ احمد حسن رانجھا کا ’’دہلی نامہ‘‘ تو ذہن میں نقش ہوگیا۔ مکّہ ومدینہ کے قدیم وجدید ادوار کی24اقساط کابھی جواب نہ تھا۔ علاوہ ازیں، کچھ توجّہ اِدھر بھی، اِک رشتہ، اِک کہانی، یادداشتیں، پیارا گھرسب ہی سلسلے معلومات اورلطف دوبالا کرتےرہے۔ اب بات کرلیں ’’ہائیڈپارک‘‘ کی۔ راجا سلیم کا اچانک غائب ہونا باعثِ تشویش ہے۔ اب یہ نہیں پتا، وہ ناراض ہیں یا اپنی رانی کے دبائو میں ہیں۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ اُن کی غیر حاضری سے کئی اورکومسندِ خاص پر براجمانی کا موقع ضرورمل گیا۔ آخرمیں ایک درخواست، دوماہ قبل میری فیملی کو بہت بڑا دھچکا لگا۔ پہلے بڑے بھائی اس فانی دنیا سے کُوچ کرگئے، پھر دودن بعد بڑی بہن (بھائی سےچھوٹی) اور دو ہفتے بعد چھوٹی بہن۔ یعنی صرف تین ہفتوں میں فیملی کی تین قریبی ہستیاں داغِ مفارقت دے گئیں۔ اُن سب کی مغفرت کے لیے دُعائےخیرکی درخواست ہے۔ (چاچا چھکن، گلشنِ اقبال، کراچی)
ج: انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ رب العزت مرحومین کوغریقِ رحمت فرمائےاور پسماندگان کو صبرِجمیل عطا کرے۔ راجا صاحب نے برقی خط کے ذریعے اپنی خیریت کی اطلاع دے دی تھی۔ غالباًوہ ای میل آپ کی نظرسےنہیں گزری۔ اُن کی کچھ ذاتی مصروفیات ہیں، ممکن ہے، سالِ نو سے دوبارہ خط وکتابت کا آغاز ہوجائے۔
* مَیں ’’سنڈے میگزین‘‘ بہت ہی ذوق وشوق سے پڑھتی ہوں اور میری دلی خواہش ہے کہ میری بھی کوئی تحریر ضرور جریدے کا حصّہ بنے۔ مہربانی فرما کر مجھے بھی ایک موقع عنایت فرما دیں۔ (محمّدعبداللہ بٹ)
ج: ای میل میں صیغہ مونث کا استعمال کیا ہے، آخر میں نام عبداللہ بٹ لکھا ہے۔ آپ خاتون ہیں یا مرد، ہمیں کیسے پتا چلے۔ اور وہ جو ہم نے موقع عنایت فرمانا ہے، اُس کے لیے کیا ہمیں آپ کے گھر آنا ہوگا، کیوں کہ موقعے کے حصول کے لیے آپ نے کوئی تحریر تو عنایت فرمائی نہیں۔
* دیکھیں ذرا، اچھائی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے۔ مجھ سے کوئی غلطی یا کوئی ناراضی ہے تو بتائیں۔ بھلا ایسے بھی کوئی کرتا ہے کہ اپریل سے جون کے مہینے تک مَیں نے کیا کچھ نہیں بھیجا میگزین کے لیے، مگر اللہ جانے کیوں شایع نہیں ہوسکا۔ اب مَیں ایسا بھی بُرا نہیں لکھتی۔ کم ازکم نام ناقابلِ اشاعت کی فہرست ہی میں شامل ہوجاتا۔ یوں بھی ’’پیارا گھر‘‘ تراکیب کے بغیر نامکمل ہی لگتا ہے۔ (ثناء توفیق خان، ماڈل کالونی، ملیر، کراچی)
ج: تمہاری بھیجی گئی تراکیب شایع کردی جائیں گی۔
* 28 اگست کا شمارہ بہت خاص تھا۔ مدثر اعجاز کے محاوات و استعارات نے تو میرے14طبق روشن کردئیے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں سلمیٰ اعوان کے الفاظ کا چنائو بے حد پسند آیا۔ ’’مَیں نے ٹوکری ریڑھی پر پھینکی اور اُس کی طرف لپکی۔‘‘ اور پھر چائے بننے کا عمل بھی بہت عُمدگی سے بیان کیا۔ (امیر خان، کراچی)
ج: پورے افسانے میں سے جو جملہ آپ نے منتخب کیا ہے، اُس میں ہمیں تو ہرگز کوئی خاص بات نظر نہیں آئی۔ ممکن ہے، قارئین کو دکھائی دے جائے، جیسے آپ کو دکھائی دی۔
* کیسے مزاج ہیں آپ کے۔ مَیں نے جشنِ آزادی کے موقعے پر ’’ناقابلِ فراموش‘‘ صفحے کے لیے ایک تحریر بھیجی تھی، مگر جلدی میں اپنا پتا اور موبائل فون نمبر لکھنا بھول گیا تھا۔ (مستقیم نبی، نواب شاہ)
ج: تو تحریر بھیجنے کی ایسی بھی جلدی کیا تھی۔ ذرا تسلّی سےدیکھ بھال کے بھیجتے۔ لیکن خیر، اگرتحریراچھی ہو تو ہم پتے کے بغیر آنے والی تحریریں بھی شایع کرہی دیتے ہیں۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk