کرپشن ایک ایسا مرض ہے جو چھوت کی طر ح پھیلتا ہے اور معاشرے کو کھا جاتا ہے ۔کرپشن ذاتی مفاد کیلئے اپنے اختیار ات سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کا نام ہے ۔سیاسی اداروں کے علاوہ حکومتوں کے سربراہوں سے لیکر معمولی درجے کے ملازم بھی اس میں ملوث پائے جاتے ہیں۔کرپشن کی حقیقی وجہ ہر ذریعہ سے امیر بننے کی خواہش ہے ۔ موجودہ دور کا انسان میانہ روی اور سادہ زندگی اختیار کرنا پسند نہیں کرتا ۔ ایک دوسرے خاندان ، محلے داروں ، رشتہ داروں ، دوستوں اور دشمنوں میں مقابلہ کی جنگ جاری ہے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا کم از کم برابر ہو نے کیلئے ہر جائز نا جائز طریقے استعمال کیا جاتا ہے۔ جہاںسرمایہ درانہ نظام ہوگاوہاںکرپشن لازمی ہو گی چونکہ ہمارا ملک بھی سرمایہ دارانہ نظام کی چھتر ی کے نیچے ہے ۔ اس لیے ہمارے معاشرے میںکرپشن کا ہو نا فطری بات ہے اور پسماندہ ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی کرپشن موجود ہے ۔لیکن ان ملکوں میں عوامی مسائل کا حل پہلی ترجیح اس لیے بنا رہتاہے کہ اگر حکمران جماعتیں اپنے منشور کے مطابق عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو انہیںنہ صرف عوام کے سامنے جواہدہ ہونا پڑتا ہے بلکہ آنیوالے الیکشن میں عوام ایسی سیاسی جماعتوںکو ناکام بنا دیتے ہیں اس خوف سے ترقی یافتہ ملکوں کے حکمرانوں کو عوامی مسائل کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل رکھنا پڑتا ہے ۔ ہمارے ملک میں الیکشن عوامی مسائل کو حل کرنے کیلئے نہیں لڑاجاتا بلکہ الیکشن مہم میں لگائے جانے والے بھاری سرمائے کو دس گنا زیادہ کے ساتھ واپس لینے کیلئے لڑا جاتا ہے ۔ جس ملک میں اشرافیہ کا اوڑھنا بچھونا ہی کرپشن ہو اس ملک میں دس بیس کرپٹ لوگوں کو پکڑنے سے کرپشن ختم نہیں ہو گی بلکہ اس کیلئے ایک مربوط منصوبہ بندی اور بلا امتیاز عمل کی ضرورت ہے۔ تاریخ اس بات سے باخبر ہے کہ کریشن کی بدولت قو میں برباد ہو گئیں ۔
رومن ایمپائر کی تباہی کے وقت صرف دو فیصد لوگ ایمانداررہ گئے تھے ۔ناجائز طریقوں سے دولت حاصل کر کے عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے میںسکون اور اطمینان قلب میسر نہیں آتا۔ حضرت عمر فاروقؓجب فاتح بیت المقدس کی حیثیت سے یر وشلم میں داخل ہوئے تو اونٹ پر غلام سوارتھا اور اونٹ کی باگ حضرت عمرفاروقؓکے ہاتھ میں تھی۔حضرت عمرفاروقؓکے جسم پر اونٹ کے بالوں سے تیار کردہ کرتہ تھا جس پر پیوند لگے ہوئے تھے۔ 2023ء ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے جاری کردہ قومی کرپشن سروے سے یہ تشویشناک بات سامنے آئی ہے کہ پولیس سب سے زیادہ کرپٹ ہے ، اسکے بعد ٹھیکے دینے اور کنٹریکٹ کرنے کا شعبہ ہے اور پھر عدلیہ ،اس کے بعدتعلیم اور صحت کے شعبے آتے ہیں۔ معاشرے میں انصاف کی عدم فراہمی کا سلسلہ پو لیس سے شروع ہو تا ہے ۔ جہاں اپنا بنیادی حق یعنی ایف آئی آر تک درج کروانے کیلئے یا تو رشوت دینا پڑتی ہے یا سفارش سے کام بنتا ہے اور عام آدمی اس سلسلے میں اتنا خوار ہوتا ہے کہ اکثر و بیشتر وہ اپنے نقصان کی رپورٹ درج کروانے تک کو لاحاصل خیال کرتے ہوئے تھانے کا رخ ہی نہیں کرتا ۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو ماضی کی طرح اب بھی جھوٹ کا پلندہ قرار دیا جا سکتاہے اور ہرد فعہ ایسا ہی ہوتا ہے مگر یہ کب تک چلے گا ۔ ہمیں کچھ نہ کچھ تو کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ناسور کوجڑسے اکھاڑنے کیلئے سیاسی، سماجی، اور معاشی نظام میں تبدیلی لانا ہو گی۔ پروکیورمنٹ کے شعبے کیلئے PPRAرولز موجود ہیں۔ ان کو مزید ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے ایک عجیب سی بات ہے کہ رولز موجود ہیں ،مگر ہرمحکمے کے پروکیورمنٹ کے افراد کو مکمل طور پر اس میں آگاہی نہیں ہے ۔یعنی عملہ ٹرینڈ نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ PPRAکا محکمہ زیادہ سے زیادہ سیمینار ارینج کرے تاکہ لوگ اس قانون سےواقف ہوں، پرچیزر، سیلرزاور سرکاری ملازمین رہنمائی حاصل کر سکیں۔ پروجیکٹ ڈائیریکٹرز،وائس چانسلرز وزیر اعلی اور گورنرز کیلئے اس میں رہنمائی ہے ۔پنجاب یونیورسٹی میں پہلے ہی ایک درخواست جمع ہے جس پر اس سلسلے میں کام ہو رہا ہے ۔ اینٹی کرپشن کے محکمہ میں نہایت دیانت دار، اعلی تعلیم یافتہ اور ایماندار افراد ہی بھرتی کئے جائیں۔ ان کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہ ہو۔