• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے یقیناً ایسے حضرات کی کمی نہ ہوگی جن کی توقعات اوج ثریا تک پہنچی ہوئی ہیںاور نتیجتاً وہ سلامتی کی برسات ہونے اور امن کے شگوفے پھوٹتے دیکھ رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اس حوالے سے کسی بھی لمحے کوئی خوش فہمی تھی نہ ہے۔یہ’’مذاق رات‘‘ کامیاب ہوں چاہے ناکام، ہمیں ہر دو صورتوں میں سوائے خزاں یا خشک سالی کے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ افسوس خون خرابہ ہماری تقدیر میں لکھا جاچکا ہے اور ہونی کو کوئی ٹال نہیں سکے گا۔ اس تماتر کج فہمی و تلخ نوائی کے باوجود حالیہ مذاکرات کا ایک مثبت پہلو بھی ہے وہ یہ کہ ان مذاکرات نے بہت سے پردہ نشینوں کو قوم کے سامنے بے نقاب کردیا ہے۔ برسوں سے یہاں بے گناہ انسانوں کو جس طرح خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے چیتھڑے بنا کر اڑایا جارہا تھا اس پر قوم کا ہر دل دردمند دکھی ہوتا، غم و غصے اور نفرت کا یہ لاوا جب مذہبی انتہا پسندوں کی طرف امڈتا تو بڑی فنکاری کے ساتھ اس کا رخ امریکہ، اسرائیل اور کبھی بھارت کی طرف موڑ دیا جاتا ،منافقانہ اسلوب اپناتے ہوئے ایسی راز داری بیان کی جاتی کہ گویا پراسرار پردے گراتے ہوئے خفیہ سازشی ہاتھ بے نقاب کئے جارہے ہیں’’جی ہمارے خلاف گہری عالمی سازشیں ہورہی ہیں غاروں میں رہنے والے بے چارے طالبان بھلا ایسے وسائل کہاں رکھتے ہیں یہ تو یہود و ہنود کی گہری سازشیں ہیں وہی یہ خود کش حملے اور بم دھماکے کروارہے ہیں‘‘ مزید یہ کہ ’’کوئی مسلمان کلمہ گو تو ایسی حرکت کر ہی نہیں سکتا، خواہ مخواہ ہر چیز طالبان کے گلے مڈھ دی جاتی ہے‘‘۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’طالبان اور القاعدہ کا تو کہیں کوئی وجود ہی نہیں ہے یہ اصطلاحات تو امریکیوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے گھڑ رکھی ہیں‘‘۔ جب پکڑے جانے والے دہشت گردوں کے حوالے سے شواہد پیش کئے جاتے تو ایک دوسری منطق شروع کردی جاتی کہ طالبان یا القاعدہ جو بھی ہیں یہ سب امریکہ کے یا یہود و ہنود کے گھڑے ہوئے یا تیار کردہ لوگ ہیں، ہمارے ملک کی بربادی کے لئے ان کی ڈوریاں باہر سے ہلائی جارہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔حکومت اور طالبان کے مذاکرات نے آج پوری قوم پر سچ اور جھوٹ کو پوری طرح واضح کردیا ہے کہ بے گناہ انسانوں کی زندگیوں سے کھیلنے والے کوئی غیر نہیں ہمارے اپنے ہیں، ان کی ڈوریاں ہلانے والے بھی کہیں دور نہیں ہمارے اپنے درمیان موجود ہیں۔ ان کی وکالت کرنے والے آج لاکھ کہیں کہ ہم ان کے نمائندے نہیں ہیں لیکن ان کا دوغلا پن اور غیر سنجیدہ رویہ سب پر عیاں ہے، ڈھکوسلے کا پردہ بھی قدرت نے چاک کردیا ہے کہ کوئی مسلمان ایسی حرکت نہیں کرسکتا اب لگتا ہے کہ شاید دنیا کی کوئی اور قوم ایسا اعزاز اپنے سینے پر سجانے کا حوصلہ ہی نہیں رکھتی یہ انہی کا کام ہے جن کے حوصلے ہیں زیاد۔ طالبان کو ہم نے کبھی اسلام دشمن نہیں سمجھا، حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ہم سے زیادہ پکے سچے بلکہ راسخ العقیدہ مسلمان ہیں، اصل مسئلہ فہم اسلام کا ہے وہ دیانتداری سے اپنے آپ کو خالص اور حقیقی اسلام کا وارث سمجھتے ہیں اور ہم جیسوں کے اسلام کو وہ مغرب زدہ یا ملاوٹ زدہ اسلام خیال کرتے ہیں۔ ہمیں ان کے اس موقف سے بھی تکلیف نہیں ہے۔ طالبان بھائیوں کی خدمت میں ہماری صرف ایک گزارش ہے کہ وہ مرنے اور مارنے کی غیر ضروری مشق بند فرمادیں۔ اپنے تیئں اپنے خالص اور حقیقی اسلام پر وہ نہ صرف یہ کہ پوری مضبوطی سے ڈٹ جائیں بلکہ اسے عوام الناس کے قلوب و اذہان میں تندہی سے انڈیلنے میں بھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔ ا پنے اپنے نقطہ ہائے نظر کی تبلیغ و اشاعت کا یہی حق وہ اپنے سے مختلف خیالات رکھنے والوں کو بھی دے دیں۔ مانا کہ ہمارافہم اسلام مغرب زدہ اور ملاوٹی ہے یہ بھی عین ممکن ہے کہ ان کا تصور اسلام محمد عربیؐ والا خالص عربی اور حقیقی ہو ، اگر یہ بات ثابت ہوگئی تو عوام ضرور انہیں لبیک کہیں گے لہٰذا عامۃ المسلمین کو اپنا ہمنوا بنانے کے لئے وہ بلا خوف و خطر ابلاغ کے تمام تر ذرائع استعمال کرتے ہوئے ہمیں بھی آزادی اظہار کا حق بخش دیں۔حکومتی مذاکرات کار اپنے بلند بانگ دعوئوں کے برعکس اگر محض یہ نقطہ منوالیتے تو ہم بھی کہتے کہ واقعی کوئی آئوٹ پٹ نکلا ہے ورنہ محض نشتند، گفتند اور برخاستند کا حاصل تو لاحاصل ہے بلکہ اس اٹھک بیٹھک کے دوران جس طرح بے دریغ وحشیانہ حملے ہوئے ہیں اور انسانی خون بہا ہے اس پر طالبان کی طرف سے یہ نئی بات کہی گئی ہے کہ وہ اس کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکاری ہیں یہ ’’کارنامہ‘‘ کسی تیسری طاقت نے کیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ چاہے طالبان سے کوئی امن معاہدہ ہو بھی جائے تب بھی خود کش حملے اور بم دھماکے رکنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ کیا اس کے بعد کسی تیسری طاقت سے مذاکرات کا ڈرامہ رچایا جائے گا، اگر وہ جند اللہ ہیں یا لشکر جھنگوی والے تو کیوں نہ ایسے ہی کالم نگاروں کی قیادت میں ایک مذاکراتی ٹیم ان کے لئے بھی تشکیل دے دی جائے۔
اگر یہ دہشت گردی امریکہ، اسرائیل اور بھارت کے ایجنٹ کروارہے ہیں تو کیا بہتر نہیں کہ ایجنٹوں کو منہ لگانے کی بجائے ایک ایک مذاکراتی ٹیم ان ہر سہ ممالک سے مذاکرات کے لئے بھی بنادی جائے، اگر ہمیں ان تینوں ممالک سے ا تنی دشمنی ہے تو ان کے ایجنٹوں سے اتنی محبت کیوں ہے؟ عجیب منطق ہے دھماکے یہود و ہنود کروارہے ہیں اور مذاکرات اپنے مسلمان طالبان بھائیوں سے کررہے ہیں جو کبھی ایسی غیر انسانی و غیر اسلامی حرکت کر ہی سکتے۔ یہاں طالبان اور القاعدہ جیسے گروہوں نے جس قدر بے دریغ انسانی خون بہایا ہے اس سے ہزارواں حصہ خون ریزی اگر کسی غیر مسلم نے کی ہوتی تو ملک بھر میں بعض تنظیموں نے ایک طوفان کھڑا کر دینا تھا۔ ڈرون حملوں کے خلاف پھیلائی گئی منافرت ہمارے سامنے ہے۔
انسانیت تو یہ ہے کہ جو مار رہا ہے وہ اپنا کیسے ہے، اگر ہم مرے ہوئے نہیں ہیں تو پھر اس کی شرائط پر اس سے مذاکرات کیوں کریں؟ نہتے لوگوں پر مسلح حملہ کرنا، نظری، فکری یا مذہبی اختلاف رائے پر موت کے گھات اتاردینا، کیا اس سے بڑا بھی کوئی ظلم ہوسکتا ہے؟ جن کے پیارے مرے ہیں کوئی ان کے دل سے پوچھے؟ ٹھیک ہے اتمام حجت بڑی اچھی بات ہے لیکن عوامی سطح پر جب رائے عامہ ان قاتلوں کے خلاف اپنی بلندیوں کو چھو رہی تھی موجودہ حکومت نے اس حساس موقع کو ساتھ ضائع کردیا۔ آپ کے اس’’مذاق راتی‘‘ کھیل میں جب وہ قرآن و سنہ اور نفاذ شریعت کے نعرے لگائیں گے تو کیا اس کے بعد اپنے اس روایتی مسلم سماج سے کیا آپ ا نہیں ایک نئی توانائی نہیں دلوائیں گے تاکہ خود کش حملوں جیسے مظالم کے نئے مواقع انہیں مہیا کئے جاسکیں آئندہ جو بے گناہ مریں گے ان کا خون کس کی گردن پر ہوگا؟
تازہ ترین