• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخابات ہونے میں کچھ دن باقی رہ گئے ہیں۔ عمران خان اور انکی جماعت کا وہ ہی حشر ہوا ہے جو مالک مکان کرایہ داروں سے کرتے ہیں۔ دوسروں کے سہارے جب جب جو اقتدار میں آیا ہے اسکا یہ ہی حال ہوا ہے۔ نواز شریف کو بھی عمران خان کی طرح کندھے استعمال کرنے کی عادت رہی ہے۔ انھوں نے سیاست کا آغاز ہی غیرجمہوری انداز سے کیا۔ آج کل نواز شریف شیروانی سلوا کر پھر رہے ہیں اور مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ شاید آنیوالے انتخابات میں اپنی جیت پر یقین رکھتے ہوئے، وہ ماضی کے اقتدار کے دوران سیکورٹی اداروں کیساتھ ہونیوالے ہنگاموں سے بچنا چاہتے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ اپنی تقریروں میں کہتے ہیں کہ میں نے سب کو معاف کردیا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر انہیں غیرجمہوری انداز سے اقتدار سے نکالا گیا تھا تو پھر انہیں یہ حق کیسےحاصل ہے کہ قانون شکن قوتوں کو وہ معاف کردیں۔ عام طور پر، ایسا لگتا ہے کہ وہ سویلین بالادستی پر سخت موقف اختیار کرنا چاہتے ہیں اور کچھ ضمانتیں چاہتے ہیں کہ وہ اس بار ملک کو بغیر کسی رکاوٹ کے چلا سکیں۔ لیکن کیا نواز شریف بدل گئے ہیں؟ کیا ان میں جمہوری روایات ہیں اور وہ سول بالادستی کی جنگ کیلئے تیار ہیں، ایسا تو کچھ نظر نہیں آرہا۔ ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف کو واپس لایا ہی کسی ڈیل کے نتیجے میں ہے کہ کچھ لو کچھ دو، اور نواز شریف ان مسائل کو پیچھے دھکیلنے کے موقع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جو ان کیلئے سب سے اہم ہیں۔ مثال کے طور پر، انھوں نے بار بار ان لوگوں کے احتساب کا مطالبہ کیا ہے جنہوں نے انھیں اقتدار سے باہر کیا مگر وہ نام لینے سے کتراتے ہیں۔ وہ عمران خان کو تو ہدف تنقید بناتے ہیں مگر جن لوگوں نے ان کیساتھ یہ سب کچھ کیا انھیں قانون کے کٹہرے میں لانے کی کھل کر بات کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔ اگر انھیں احتساب کا شوق ہے تو پھر صرف عمران خان کا احتساب کیوں؟ اتنی اخلاقی جرات تو ہو کہ جنہوں نے انھیں غیر جمہوری انداز سے اقتدار سے باہر کیا انکے نام لیکر وہ انکا احتساب کرنے کا نعرہ لگائیں لیکن ایسا تو کچھ نہیں ہورہا۔دوسری طرف جس طرح کی ماضی میں مریم بی بی تقریریں کرتی رہی ہیں اب وہ جوش بھی باقی نہیں رہا، شہباز شریف سے تو ہم سب واقف ہیں وہ تصادم کے بجائے اقتدار چاہتے ہیں ایسے میں میاں نواز شریف اگر حکومت بنانے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو آئی ایم ایف اور دیگر مسائل کا سامنا تو کرنا پڑیگا۔ ساتھ ہی معاشی مسائل اتنے خطرناک حد تک پہنچ چکے ہیں کہ نواز شریف کے تنہابس کی بات نہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ اس بار نواز شریف کیلئے اگر سہولت کاری ہوتی ہے تو کیا نواز شریف اپنے سابقہ رویوں سے مختلف نظر آئینگے یا نہیں۔ کیوں کہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد انکا سب سے پہلا نشانہ انکے محسن ہوتے ہیں۔ لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر نواز شریف اتنے مقبول رہنما ہیں تو ان کے لئےسہولت کاری کی کیوں ضرورت پڑرہی ہے۔ مخالفین کے کاغذات نامزدگی مسترد کیوں کروانے پڑ رہے ہیں ؟ نواز شریف کی مقبولیت کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ مسلم لیگ نواز کے مخالفین کے چن چن کر کاغذات نامزدگی مسترد کروانے کے بعد بھی نواز لیگ کے انتخابی امیدوار پنجاب میں بھی دوسرے جماعتوں سے مختلف نشستوں پر اتحاد کرنا چاہتے ہیں۔ نواز شریف کی سیاست پر نظر ڈالی جائے تو وہ انقلابی سیاست کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن دوسری طرف انکے بھائی میاں شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ہمیشہ ہم پلہ رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں ایسا لگتاہے کہ نواز شریف نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔ کیوں کہ جس طرح کے انتخابات وہ کروانا چاہتے ہیں وہ کسی طرح ممکن نہیں اور اگر ہو گئے تو انکے نتائج کون مانے گا ؟ شریف خاندان کے اندر بھی اختلافات نظر آرہے ہیں ۔حمزہ شہباز شریف کا آنکھوں سے اوجھل ہوجانا اس بات کا ثبوت ہے کہ میاں نواز شریف اپنے بعد صرف مریم نواز شریف کو ن لیگ کی قیادت کا اہل سمجھتے ہیں۔ محسوس یہ ہورہا ہے مستقبل میں نواز لیگ کا مستقبل تابناک نظر نہیں آتا اور مقبولیت کا ہمیں اس بات سے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ نواز شریف اور ان کی جماعت پنجاب میں بڑی الیکشن مہم کرنے سے کترا رہی ہے اسے اندازہ ہے کہ اس وقت میاں شہباز شریف کی ڈیڑھ سالہ حکومت ان پر کتنی بھاری پڑ سکتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نواز شریف نوجوانوں میں بھی اتنے مقبول نہیں جتنی مقبولیت عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری کو حاصل ہے۔ اور اس وقت نوجوان ووٹرز کی تعداد لگ بھگ 50سے 50فیصد ہے جنکا ووٹ فیصلہ کن ہوسکتا ہے۔ ان تمام خطرات کی وجہ سے پنجاب میں نواز لیگ مخالف سیاستدانوں کو اوپن فیلڈ میسر نہیں ہے اور یہ بات معیشت اور سیاست کیلئے تباہ کن ثابت ہوگی۔

تازہ ترین