• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے دنوں کراچی میں ادبی میلے یا کراچی لٹریچر فیسٹول میں برصغیر کی تحریک آزادی کے عظیم رہنما اور دنیا میں عدم تشدد کے پیامبر ایم کے گاندھی کے مورخ پوتے راج موہن گاندھی کی شرکت پر ان کی بڑی آئو بھگت اور چرچے رہے۔ میں نے سوچا محمود غزنویوں کے دیس میں گاندھیوں کا کیا کام! ہمارے تو ایک گاندھی عظیم باچاخان، خان عبدالغفار پختون گاندھی تھے جنہیں جب تک وہ زندہ رہے ہم غدار ٹھہراتے رہے۔ خان عبدالغفار خان جو انیس سو تیس کے دہائی میں تب کے صوبہ سرحد میں آزاد مدرسے کاقیام عمل میں لائے۔ جنہوں نے آن آرمڈ پٹھان یا غیر مسلح پٹھان کا تصور دیا۔ڈیورنڈ لائن کے دونوں پار باچا خان جدید پشتون قوم پرستی کے بانی تھے۔ مجھے اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ کم از کم موجودہ پختونخوا میں یہ جو مسلح شدت پسندی اور طالبانیت ہے اس کا اصل مقصد یا ہدف جدید پشتون قوم پرستی اور باچا خان کی فکر کو شکست دینا تھا۔یہ اور بات ہے کہ باچا خان کی وراثت کے سب تو نہیں لیکن کچھ دعویداروں نے ڈیورنڈ لائن کے دونوں پار حکومتوں سے خوب مال کمایا۔
جی ہاں، کچھ روز قبل عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ سندھ پر محمود غزنوی کی طرح نازل ہوںگے۔ (شاید عمران کو معلوم نہیں کہ محمود غزنوی کے قیدیوں میں عظیم مسلمان سائنس دان البیرونی بھی شامل تھے) ایک عمران خان کیا سندھ میں کئی دہائيوں سے کئی لوگ اور جماعتیں محمود غزنوی بنے ہوئے ہیں جن کا ہدف سندھ کی ہندو کمیونٹی کے لوگ ہیں۔ ہندو کمیونٹی جن کے مردوں کو ڈاکو برائے تاوان اغوا کر رہے ہیں اور بچیوں کا اکثر زبردستی مذہب تبدیل کیا جارہا ہے۔ اب ایسا ملک جہاں مسلمانوں کی اکثریت کی انکے کلمہ گو بھائيوں کے ہاتھوں جان مال اور عزت محفوظ نہیں ، جہاں کئی بعض مسلم فرقوں کے لوگوں کو بھی تحفظ حاصل نہیں وہاں بیچاری سندھ کی ہندو اقلیت کو انصاف ملے تو کیسے؟حالیہ دنوں میں سندھ میں چالیس سے زائد یرغمالی برائے تاوان ڈاکوئوں کے مختلف ٹولوں کے ہاتھوں یرغمال ہیں جن میں اکثریت ہندو شہریوں کی ہے۔ صرف روہڑی کے قریب ایک دن میں چودہ ہندو اغوا کئے گئے تھے۔ سندھ میں اغوا برائے تاوان کی وجہ سے صورتحال یہ ہے کہ سید خورشید شاہ جیسے پی پی پی رہنما کو کہنا پڑا کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کو چالیس مغوی جلد از جلد رہا کرانے چاہئيں ایسا نہ ہو ان کی تعداد ایک سو چالیس ہو جائے۔ جئے بھٹو ’’ماڑنہوں چھٹو‘‘ (جئے بھٹو بندہ چھوٹا یعنی رب حوالے)۔
سندھی اخبارات میں ہر روز پندرہ سے بیس افراد کے اغوا کی خبریں ہوتی ہیں۔ سندھ میں جو ہندو پاکستان کے کل آبادی کے دو فی صد سے بھی کم ہی سہی لیکن آباد تھے۔ صحرائے تھر جہاں سندھ کے نوّے فی صد ہندو آباد تھے وہاں گویا بابری مسجد کے واقعے سے قبل تقسیم ہوئی ہی نہیں تھی۔ویسے بھی یہ تھرپارکر یا میرپور خاص اور سانگھڑ کے ہندو زمیندار تھے جو کانگریس کے مالی مددگار تھے جنہوں نے جواہر لال نہرو سے کہا تھا کہ سندھ کو پنجاب کی طرح تقسیم نہ کیا جائے کیونکہ اس سے ان کی زمینیں ہندوستان میں چلی جائيں گی جس کا مطلب تھا وہ جواہر لال نہرو کی تعلقہ داریاں اور جاگیرداریاں ختم کردینے کی زد میں آئیں گی۔ یہ وہ حصہ تھا جس نے ہندوستان کے سیکولر مغل حکمران اکبر دی گریٹ کو جنم دیا تھا۔ ہمایوں کو پناہ دینے کے عوض رانو راجپوتوں کو جاگیریں عطا کی گئی تھیں۔ کئی برس ہوئے میں نے فلم تقسیم کار ستیش آنند کے دفتر میں اکبر دی گریٹ کا ایک نایاب مصور شدہ پورٹریٹ دیکھا تھا۔ اسی ستیش آنند کو طالبان نے کراچی سے اغوا کیا اور وہ شمالی وزیرستان سے رہا ہوئے تھے۔
حال ہی میں میرپور خاص ضلع کے غلام نبی شاہ سے ایک ٹیچر واسدیو کو دن دہاڑے اغوا کیا گیا ہے جس کا تا حال کوئی سراغ نہیں ہے۔ایسا بھی نہیں کہ ہندو کمیونٹی جن کی آبادی کا اچھا خاصہ حصہ کاروباری لوگوں پر مشتمل ہے اور یہی لوگ شہدادکوٹ سمیت شمالی اور زیریں سندھ میں تجارت کی ریڑہ کی ہڈی بھی ہیں کو صرف ایک ہی قسم کے مکتب فکر یا ڈاکوئوں کا ٹولہ اغوا کرتا ہے۔میں نے کچھ سال قبل کراچی کے پوش علاقے کے پوش اسکول سے سندھی زبان کی ادیبہ وینا شرنگی کے آٹھویں جماعت میں پڑھنے والے بھتیجے کے اغوا کے کیس کے متعلق ان کے ایک عزیز سے پوچھا تھا تو انہوں نے بغیر کسی لگی لپٹی کے جواب دیا تھا کہ ان کے بھتیجے کو سندھ کی سب سے بڑی قوم پرست جماعت کے موجودہ سربراہ نے اغوا کیا تھا جسے پھر دیگر سندھی قوم پرست رہنمائوں نے ثالثی کرواکر بھاری تاوان کے عوض اسی عظیم سندھی قوم پرست رہنما کے چنگل سے رہا کرایا تھا۔ پس سندھ کے ہندوئوں کی سندھی قوم پرست انتہاپسند یا علیحدگی پسند جماعتوں سے ہمدردیاں ہونے کی باتیں بھی لغو ثابت ہوتی ہیں۔اسی طرح کئی سندھی ہندو ڈاکٹروں، انجینئروں اور وکلاء کا بھی کن سندھی قوم پرست سورمائوں نے برائے تاوان اغوا کیا۔ایک نوجوان ہندو انجینئر کو حیدرآباد سے اغوا کر کے قتل کیا گیا اور اس کے قاتل جب گرفتار ہوئے تو انہوں نے اپنا تعلق ایک کالعدم شدت پسند تنظیم سے بتایا تھا۔لیکن ہندو کمیونٹی کیلئے سندھ میں اس سے بھی بڑی تشویشناک صورتحال مبینہ طور پر ان کی بیٹیوں کا اغوا اور پھر ان کی زبردستی تبدیلی مذہب ہے۔ ماضی قریب میں کئی کیسوں میں ایک دو ہائی پروفائل کیس میرپور ماتھیلو سے رنکل کماری اور جیکب آباد سے ایک نوجوان خاتون ڈاکٹر کے ہیں۔ کندھ کوٹ سے ایک متمول ہندو خاندان کی نوجوان لڑکی کی بازیابی کیلئے اس کے رشتہ داروں نے شنید ہے کہ عمران خان سے رابطہ کیا تھا۔
رنکل کماری کے زبردستی تبدیلیٔ مذہب کے پیچھے سرپرستی بلاول بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک گدی نشین نے کی تھی۔حالیہ دنوں میں میرپورخاص اور سانگھڑ اضلاع سے دو صغیر سن ہندو بچیوں گیارہ سالہ پوجا اور سات سالہ جمنا کو اغوا کر کے ایک مدرسے میں رکھا گیا اور بعد میں ان کے ان کی طرف سے مذہب تبدیل کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ بدقسمتی سے ماتحت عدالتیں ایسے کیسوں میں مدرسوں کی جعلی سندوں کو تسلیم کرتی ہیں۔ اپنی بچیوں کی مبینہ طور پر زبردستی تبدیل مذہب کی وجہ سے سیکڑوں ہندو خاندان خاموشی سے بھارت نقل وطنی کرچکے ہیں۔یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ نام نہاد شیڈویولڈ کاسٹ ہندو جو سندھ میں وڈیروں کے نجی جیلوں یا بیگار کیمپوں میں بند رہے تھے ان میں سے بھی کئی بھارت نقل وطنی کر گئے ہیں اور ان میں سے خاصی تعداد میں گجرات اور راجستھان کے چمڑے کے کارخانوں و دیگر فیکٹریوں میں جبری مشقت یا انتہائی سستی لیبر کر رہے ہیں۔سندھ کے لاکھوں نہیں تو ہزاروں پاکستانی ہندو شہری اس بھارت سے مستقل شہریت کا مطالبہ کرتے مارے پھر رہے ہیں جو خود پاکستان جیسا یا پاکستان سے بھی برا اپنی اقلیتوں سے سلوک کا ریکارڈ رکھتا ہے۔یہاں امریکہ لاس اینجلس میں سندھی خواتین کی ایک کانفرنس کے اشتہار پر بھارت کے پاکستانی سندھی ریفیوجیز کیلئے فنڈ میں چندے کی اپیل دیکھنے کو ملی۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ پاکستان کے سندھی ہندو شہری کی بے بسی کہاں کہاں استعمال ہونے جا رہی ہے۔پاکستان کی سلامتی اپنی اقلیتوں سے برابری اور حسن سلوک اور ان کے تحفظ سے مشروط ہے جو کہ اس صدی کے آخر تک تو شاید ہی ممکن ہو۔پھر وہی بات کہ پاکستان کے سندھی ہندو نے پاکستان سے وفاداری اور یہاں رہنے کی قیمت میں کیا کیا ادا نہ کیا ہے
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
تازہ ترین