• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’نوجوانوں کا سال‘‘ قرار دینے کے باوجود ’’برین ڈرین‘‘ میں اضافہ

حالیہ مردم شماری کے مطابق 25کروڑ سے زاید آبادی کے ساتھ پاکستان دُنیا کا چھٹا بڑا مُلک ہے اور دو تہائی پاکستانی باشندوں کی عُمر 35برس سے بھی کم ہے۔ اس بنیاد پر پاکستان کو ایک ’’نوجوان مُلک‘‘ اور نوجوانوں کو اس کی ’’ڈرائیونگ فورس‘‘ کہا جائے، تو ہرگز غلط نہ ہو گا۔ لیبر فورس سروے کے مطابق، پاکستان میں نوجوانوں کی آبادی میں اضافے کا تناسب 2.7فی صد سالانہ ہے، جب کہ مُلک کی مجموعی آبادی میں بڑھوتری کی شرح 2.4فی صد ہے۔ تاہم، کسی بھی مُلک میں نوجوانوں کی کثیر تعداد کے مثبت یا منفی اثرات کا دارومدار اُس کی معاشی صورتِ حال پر ہوتا ہے۔ 

یعنی اگر کسی مُلک کی معیشت نوجوانوں کو اُن کی صلاحیتوں کے مطابق روزگار فراہم کرنے کی صلاحیت و سکت رکھتی ہے، تو نوجوانوں کی آبادی میں اضافے کے مثبت اثرات مرتّب ہوتے ہیں، لیکن اگر نئی نسل کو روزگار دست یاب نہ ہو، تو اُس میں جنم لینے والے غم و غصّے کے نتیجے میں معاشرے میں پُر تشدّد واقعات اور انتہا پسندانہ رویّوں کو فروغ ملتا ہے اور ’’ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘کے مصداق پاکستان کو بھی اپنی کم زور معیشت کے سبب اسی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ 

ایک جانب سیاسی و اقتصادی عدم استحکام، منہگائی و بے روزگاری، امن و امان کی ناقص صورتِ حال اور کرپشن سمیت دیگر وجوہ کی بنا پر ہمارے نوجوانوں کی اکثریت ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنے مستقبل سے مایوس ہوتی جا رہی ہے ، اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اور پروفیشنلز اپنے بہتر مستقبل کے لیے وطن چھوڑنے پر مجبور ہیں، تو وہیں ایسے پُر امّید اور حوصلہ مند نوجوانوں کی بھی کمی نہیں کہ جو نِت نئے ہُنر سیکھ کر ’’ڈیجیٹل انقلاب‘‘ میں اپنی ترقّی کے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔ نیز، فری لانسنگ اور ای کامرس کے ذریعے اپنی اور اہلِ خانہ کی کفالت کے علاوہ مُلکی معیشت میں بھی اپنا حصّہ ڈال رہے ہیں۔

سال2023ء پاکستانی نوجوانوں کے لیے کیسا رہا، اگر اس حوالے سے بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے، تو نسلِ نو کی فلاح و بہبود کے ضمن میں 28فروری کو سابق وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف کے فلیگ شپ پروگرام ’’پرائم منسٹرز یوتھ پروگرام‘‘ کے دس برس مکمل ہونے پر اُس وقت کے وزیرِ اعظم، میاں شہباز شریف نے سال 2023ء کو ’’نوجوانوں کے سال‘‘ کے طور پر منانے اور اس سلسلے میں مختلف تقاریب کے انعقاد کا اعلان کیا۔ 

سرکاری ٹی وی پر اپنے خطاب میں اُن کا کہنا تھا کہ محنتی اور ذہین طلبہ کو لیپ ٹاپس دیے جائیں گے، جب کہ اس قسم کی دیگر اسکیمز کی مدد سے بھی نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ دریں اثنا، حکومت کی جانب سے صنعتوں اور تعلیمی اداروں کے مابین فاصلے کم کرنے کے لیے ’’نیشنل یوتھ ایمپلائمنٹ پالیسی‘‘ تیار کرنے کا بھی اعلان کیا گیا۔ اس پالیسی کے تحت حکومت ہر سال نوجوانوں کو20لاکھ ملازمتیں فراہم کرے گی، جب کہ آئی ٹی کی روز افزوں اہمیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایک لاکھ نوجوانوں کو مختلف شعبہ جات میں تربیت فراہم کی جائے گی۔ 

واضح رہے کہ ’’پرائم منسٹرز یوتھ پروگرام‘‘ میں پرائم منسٹرز یوتھ بزنس اینڈ ایگری کلچر لون اسکیم، پرائم منسٹرز اِسکلز ڈیویلپمنٹ پروگرام، ٹیلنٹ ہنٹ یوتھ لون اسکیم، گرین یوتھ موومنٹ، ڈیجیٹل یوتھ ڈیویلپمنٹ سینٹرز، نیشنل انوویشن ایوارڈ اور پرائم منسٹرز لیپ ٹاپ اسکیم وغیرہ شامل ہیں۔

تاہم، حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے مذکورہ بالا منصوبوں کے باوجود 2023ء میں ’’برین ڈرین‘‘ کے رجحان میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا اور نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد اپنے بہتر مستقبل کی تلاش میں بیرونِ مُلک جانے پر مجبور ہو ئی۔ آبائی وطن چھوڑنے والے ان نوجوانوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پروفیشنلز بھی شامل ہیں۔ 

اس ضمن میں سامنے آنے والے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2023ء کے ابتدائی 6ماہ کے دوران 4لاکھ اعلیٰ تعلیم یافتہ و تربیت یافتہ پاکستانی نوجوان بہتر روزگار کی تلاش میں مُلک چھوڑ گئے، جب کہ گزشتہ 5برس کے دوران 2.75ملین نوجوانوں نے اپنے سُنہرے مستقبل کی خاطر مُلک کو خیر باد کہا۔ 2023ء کی پہلی ششماہی میں بیرونِ مُلک روانہ ہونے والے نوجوانوں کا تعلق 40 مختلف شعبہ جات سے تھا، جن میں طبّ، انجینئرنگ، اکائونٹس، زراعت اور دیگر سیکٹرز شامل ہیں ، جب کہ زیادہ تر پاکستانی پروفیشنلز سعودی عرب، یو اے ای، اومان، قطر، برطانیہ، امریکا، ملائیشیا، یونان اور رومانیہ روانہ ہوئے، حالاں کہ اس ضمن میں ایک انتہائی خوف ناک حادثہ بھی پیش آیا، جس کی گونج تادیر سُنی گئی۔ 

اس حادثے میں 400پاکستانیوں سمیت، جن میں نوجوانوں کی اکثریت تھی، 800تارکینِ وطن کو غیر قانونی طور پر یورپی ممالک لے جانے والی کشتی یونان کے قریب بحیرۂ روم میں ڈوب گئی۔ ڈوبنے والے افراد میں سے محض 104کو زندہ بچایا جا سکا، جب کہ سیکڑوں افراد لاپتا ہو گئے، جن میں سے اکثر کی موت کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ سانحۂ یونان کے بعد مُلک کے مختلف طبقات کی جانب سے حکومت اور متعلقہ اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ دریں اثنا، انسانی اسمگلرز کے خلاف آپریشن کا آغاز بھی کیا گیا اور اس مکروہ دھندے میں ملوّث کئی افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ 

بہر کیف، ’’بریک فاسٹ وِد جنگ‘‘ میں مہمانِ خصوصی کے طور پر خطاب کرتے ہوئے نگراں وزیر اعظم، انوار الحق کاکڑ نے مُلک سے بڑی تعداد میں باصلاحیت نوجوانوں کے انخلا کو منفی رحجان قرار دینے کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان متنوّع تخلیقی صلاحیتوں کے حامل نوجوانوں سے مالا مال ہے۔ اس طرح کے باصلاحیت افراد مستقبل میں مُلک کا اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

اس موقعے پر نگراں وزیرِ اعظم نے ایک بہتر پاکستان کے امکانات سے متعلق اپنے ویژن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہُنر مند انسانی سرمایہ کئی چیلنجز کا حل ہے۔ اسی لیے نوجوانوں کی پیشہ ورانہ تربیت کے لیے ایک ووکیشنل ٹریننگ پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ گزشتہ برس بیرونِ مُلک مقیم پاکستانی تارکینِ وطن کی جانب سے ایک اچّھی خبر یہ سامنے آئی کہ پاکستانی نژاد 16سالہ برطانوی طالبہ، ماہ نور چیمہ نے جنرل سرٹیفکیٹ آف سیکنڈری ایجوکیشن کے امتحان میں 34مضامین کلیئر کر کے ایک عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ ماہ نور برطانیہ اور یورپی یونین میں جی سی ایس ایز میں 34 مضامین کلیئر کرنے والی پہلی طالبہ ہیں۔ انہوں نے تمام مضامین میںA* گریڈ حاصل کیا۔

پاکستانی نوجوانوں میں پائے جانے والے غم و غُصّے اور مایوسی کا اندازہ 9مئی 2023ء کو رُونما ہونے والے سنگین واقعات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اُس روز چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے والے پارٹی کارکنان نے، جن میں نوجوانوں کی اکثریت شامل تھی، فوجی تنصیبات سمیت کئی سرکاری املاک کو نذرِ آتش کر دیا اور بعد ازاں جب سانحہ 9مئی میں ملوّث افراد کے خلاف پولیس اور مختلف ریاستی اداروں کی جانب سے کریک ڈائون کا آغاز کیا گیا، تو اپنے لیڈر کے اُکسانے پر اس مذموم اور وطن دشمن فعل کا ارتکاب کرنے والے کئی سیاسی رہنما اور کارکنان رُوپوش ہو گئے، جن میں سابق ایم این اے، مُراد سعید اور عمران خان کے بھانجے، حسان نیازی سمیت دیگر نوجوان شامل ہیں۔ 

دوسری جانب، سانحۂ 9مئی پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے پی ٹی آئی مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کا کہنا تھا کہ عمران خان کے گُم راہ کُن پروپیگنڈے سے نوجوان نسل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہےاور چیئرمین پی ٹی آئی نے مُلک کا مستقبل خطرات سے دوچار کر دیاہے۔ نوجوانوں میں مقبول سیاسی لیڈر، عمران خان کی گرفتاری اور پاکستان تحریکِ انصاف سے کئی اہم سیاسی رہنمائوں کی علیحدگی کے پیشِ نظر نوجوانوں کے ووٹ بینک کو اپنی جانب متوجّہ کرنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین، بلاول بُھٹّو زرداری نے اپنی انتخابی مُہم میں دیگر سیاسی جماعتوں کی قائدین اور سینئر سیاست دانوں کو ’’بزرگ‘‘ قرار دے کر سیاست سے الگ ہونے اور مُلک کی باگ ڈور نوجوانوں کے سُپرد کرنے کا مشورہ دیا۔ 

نومبر کے آخری عشرے میں چترال میں منعقدہ ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پی پی کا کہنا تھا کہ مُلک کی 70فی صد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو مُلک کو دلدل سے نکال کر جدید خطوط پر استوار کرنے کی صلاحیت اور جذبے سے مالا مال ہے۔ بلاول کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارا مُلک حیرت انگیز حد تک قدرتی وسائل اور تعمیر و ترقّی کی شان دار صلاحیتوں سے مالا مال تھا، لیکن عُمر رسیدہ قیادت نے اپنے ویژن کی کمی، سیاسی حریفوں کے خلاف بیان بازی اور اقتدار میں آنے کے بعد دولت جمع کرنے کی ہوس میں ترقی کا عمل روک دیا۔ بلاول بُھٹّو کی اس تقریر کے بعد مسلم لیگ (نون) کے رہنما، احسن اقبال کا ایک نیوز چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے اپنی جماعت کو جونیئر اور سینئر سیاست دانوں کا امتزاج قرار دیا۔ واضح رہے، قبل ازیں پاکستان مسلم لیگ (نون) کی سینئر نائب صدر، مریم نواز بھی وقتاً فوقتاً نوجوانوں کے ووٹ بینک کو ہدف بناتی رہیں۔

پی ڈبلیو سی کی ایک رپورٹ کے مطابق آٹو میشن اور آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے باعث 2030ء تک دُنیا بَھر میں کم از کم 30فی صد ملازمتیں ختم ہونے کا خدشہ ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت ڈیجٹیل لٹریسی اور ڈیٹا لٹریسی جیسی اِسکلز کی مانگ دُنیا میں سب سے زیادہ ہے اور چاہے آپ ہیلتھ کیئر ورکر ہوں یا کوئی بزنس منیجر، آپ کے لیے مصنوعی ذہانت سیکھنا اور اسے اپنے شعبے سے ہم آہنگ کرنا ناگزیر ہو چُکا ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ برسوں کی طرح 2023ء میں بھی حکومت کی جانب سے مختلف کورسز کا آغاز کیا گیا، لیکن شرحِ تعلیم اور انٹرنیٹ تک رسائی کی کمی سمیت دیگر ضروری آلات کے فقدان کے باعث ان اقدامات کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ 

دوسری جانب ملازمتیں نہ ملنے کے سبب تعلیم یافتہ پاکستانی نوجوان فری لانسنگ پلیٹ فارمز کی جانب راغب ہو رہے ہیں اور 2023ء میں اس رجحان میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس کا اندازہ پاکستان اکنامک سروے23- 2022ء کے ان اعدادو شمار سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس عرصے میں پاکستانی فری لانسرز نے مُلک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں 269.8ملین ڈالرز کا اضافہ کیا ،جب کہ آئی ٹی سیکٹر نے 156.9ملین ڈالرز کا زرِ مبادلہ کمایا۔

اسی طرح کورونا کی عالم گیر وبا کے دوران جب دُنیا بَھر میں آن لائن شاپنگ کے رُجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا، تو اس کے پیشِ نظر بڑی تعداد میں پاکستانی نوجوانوں نے بھی ای کامرس مارکیٹ میں قدم رکھا اور 2023ء میں پاکستان کی ای کامرس مارکیٹ دُنیا بھر میں 47ویں نمبر پر جا پہنچی۔ ایک اندازے کے مطابق 2023ء میں پاکستان کی ای کامرس مارکیٹ نے مجموعی طور پر 6.4ارب ڈالرز کمائے۔ اسی پیش رفت کو دیکھتے ہوئےماہِ نومبر میں نگراں وفاقی وزیر برائے آئی ٹی، ڈاکٹر عُمر سیف نے پاکستان کی آئی ٹی برآمدات بڑھانے کی اہم حکمتِ عملی کا اعلان کیا،جس کے تحت آیندہ 3برس میں آئی ٹی برآمدات 10ارب ڈالرز تک بڑھائی جائیں گی۔

ہوش رُبا منہگائی، بے روزگاری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نا اہلی کے سبب ماضی کی طرح 2023ء میں بھی نوجوانوں کی بڑی تعداد چوری و ڈکیتی سمیت دیگر جرائم کی جانب راغب ہوئی، جس کے نتیجے میں مجرمانہ سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا۔ گلوبل آرگنائزڈ کرائم انڈیکس 2023ء کے مطابق پاکستان میں جرائم کا انڈیکس بڑھ کر 3.98تک پہنچ گیا۔ نوجوانوں میں منفی طرزِ عمل کا ایک اہم سبب سوشل میڈیا کا بے جا استعمال بھی ہے۔ 

اعداد وشمار کے مطابق 2023ء میں پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی تعداد 7کروڑ سے بھی تجاوز کر گئی اور ان میں اکثریت ایسے نوجوان لڑکوں ، لڑکیوں کی ہے کہ جو سوشل میڈیا کی لَت کا شکار ہو چُکے ہیں۔ اعدادوشمار سے پتا چلتا ہے کہ 5کروڑ 70لاکھ پاکستانی فیس بُک، ایک کروڑ 83لاکھ ٹک ٹاک اور ایک کروڑ 56لاکھ انسٹا گرام کے یوزرز ہیں۔ انٹرنیٹ تک شہریوں کی بڑھتی ہوئی رسائی کے سبب نوجوان صارفین کی جانب سے 2023ء میں گزشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ آن لائن مواد تیار کر کے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کیا گیا۔ 

ہر چند کہ بعض سوشل میڈیا صارفین کا تیار کردہ مواد تعلیمی و اصلاحی تھا، لیکن بیش تر ویڈیوز نازیبا، اشتعال و ہیجان انگیز اور سَستی جذباتیت کو فروغ دینے والے مواد پر مشتمل تھیں، جن سے پاکستانی نوجوانوں میں پائے جانے والے احساسِ محرومی اور غم و غُصّے کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، سانحہ 9مئی کے بعد پی ٹی آئی کے نوجوان سوشل میڈیا ورکرز کی جانب سے ریاستی اداروں کے خلاف پوسٹس، ٹویٹس اور ویڈیوز شیئر کرنے کے عمل بھی تیزی آئی، جس کے نتیجے میں دانستہ و نادانستہ طور پر مُلک دشمن عناصر کے ہاتھوں استعمال ہونے والے ان سوشل میڈیا صارفین کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا گیا۔ تاہم، سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کو باقاعدہ ریگولیٹ نہ کیے جانے کے سبب حکومت اور متعلقہ اداروں کو مُلک میں انتشار و افتراق کا سبب بننے والے عناصر کی بیخ کنی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔