حکمرانوں نے آئی ایم ایف کے ہاتھوں وطن عزیز کا سودا کردیا۔ مملکت خداداد میں 76سال گزر جانے کے بعد بھی ہر طرف بے چینی اور بے کلی کی فضا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہ، رہنما، کارکنان اور صاحب اقتدار کے ارکان بھی حیرت و پریشانی کا شکار نظر آرہے ہیں۔ ہر طرف ہاہاکار مچی ہے۔ ایسا معلوم ہو تا ہے کچھ ایسا ہونے جا رہا ہے جس کی کسی کو کچھ خبر نہیں، کوئی غرض نہیں، ہاں اگر غرض ہے تو اپنی سرمایہ کاری اور اپنے مفادات سے جس سے انہیں ہر حال میں منافع ہی منافع درکار ہے نقصانات سے ان کا دور کا بھی واسطہ نظر نہیں آرہا۔اہل درد اور محب وطن تجزیہ کار اور سیاست کار بخوبی سمجھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ اسکے نتائج کیا ہونیوالے ہیں۔ دراصل قصہ شاید اس طرح سے بنایا جا رہا ہے کہ دنیا کی بڑی سپر پاور جس کے دست نگر سابق تمام حکمراںرہے اور اسکی سرپرستی کو تسلیم کرتے رہے ہیں۔ جب ا نہیں یہ احساس ہوا کہ دنیا میں تیزی سے ابھرتی ہوئی قوت جو کبھی نہ کبھی اس کی جگہ لے سکتی ہے اسے اس کے پیروں پر کھڑا نہ ہونے دیا جائے لیکن چین نے امریکا کو بھی ناکوں چنے چبوا دیے ہیں۔ اس کی طرف سے روز بروز خطرہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ امریکا اپنی اہمیت و وقعت قائم رکھنے اور بچانے کیلئے اپنے زیر نگرانی چھوٹے ممالک کو اپنے قابو میں رکھنے کیلئے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ پہلے وہ ان پر قرضوں کا بوجھ ڈالتا ہے پھر بھی اگر قابو میں نہ آئیں تو اسلحہ کے زور پر انہیں مجبور و بے بس کردیتا ہے۔پاکستان اسلامی دنیا کا پہلا اور واحد ملک ہے جس نے ہزاروں پابندیوں اور بندشوں کے باوجود ایٹمی قوت حاصل کی تھی وہ بھی امریکا کے زیر سایہ رہتے ہوئے، یہ بات کسی بھی طرح آج تک امریکیوں کو ہضم نہیں ہوئی، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس مملکت اسلامیہ کو کس طرح خاک چٹائی جائے، کس طرح مکمل طور پر بے بس کرکے اپنے قابو میں رکھا جائے۔چین سے دوستی یا تعلقات کوئی نئی بات نہیں ۔ امریکا کی رضا مندی اور خواہش کے مطابق ہی پاکستانی حکمرانوں نے چین سے دوستی کا ہاتھ ملایا تھا اس میں ہر دو طاقتوں کے مفادات تھے امریکا کی سوچ یہ تھی کہ پاکستان کو استعمال کرکے چین کو اپنے قابو میں کرلیا جائے اور چین کی کوشش رہی کہ پاکستان کے ذریعے مشرق وسطیٰ اور یورپ کی منڈیوں تک باآسانی رسائی مل پائے۔ اس سبب چین اپنے ملکی خزانوں کے منہ کھول کر پاکستان کے ساتھ دوستی کے نام پر سرمایہ کاری کرتا آرہا ہے اور اسکی زندہ مثال سی پیک ہے۔ پاکستان جو خطے کا اہم ترین ملک ہے اسکی سرحدیں بھارت، چین، روس، افغانستان، ایران ملتی ہیں اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہی امریکا نے اس کو اپنے کیمپ میں شامل کیا تھا۔ اس سے اس نے خوب فائدہ بھی حاصل کیا۔ اس کے باوجود امریکی حکام کی تسلی نہیں ہو پا رہی کہ پاکستان کو کس طرح قابو میں رکھ کر اپنے مفادات پورے کیے جائیں۔اب امریکہ نے نئی حکمت عملی اختیار کی ہے اس نے پرانے حکمرانوں کو جنہوں نے ان کے حکم سے سر تابی کرتے ہوئے ایٹمی دھماکہ ہی نہیں کیا بلکہ چین سے تعلقات بھی مضبوط بنیادوں پر استوار کر لیے۔ پہلے ان حکمرانوں کو رسوا کیا اور ان پر مقدمات کی بھرمار کرا دی تاکہ آنے والے نئے حکمران کو بھی یہ احساس رہے کہ اگر امریکی حکام سے سرتابی کی گئی تو ان کا حشر ان سے بھی برا ہوسکتا ہے، اب دوبارہ سے انہی کو آگے لایا جارہا ہے، ان کی حمایت کی جا رہی ہے اور نگران حکومت اس وجہ سے ملک کے اثاثے گروی رکھ کر غیر ملکی مالی اداروں کی شرائط مان رہی ہے۔ ابآئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے اپنی من مانی شرائط پر پاکستان کو مقروض کرکے قابو میں رکھا جا رہا ہے۔ اب پاکستان کی معیشت اور اقتصادیات مکمل طور پر امریکہ کے ہاتھوں میں ہے وہ اپنی من مانی کرنے کا پورا اختیار رکھتے ہیں، دراصل جب بینک کسی کو قرضہ دیتا ہے تو کوئی نہ کوئی گارنٹی مانگتا ہے ایسے ہی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے بھی شورٹی مانگی ہوگی۔ اللّٰہ جانے ہمیں کب تک اس امتحان سے گزرنا ہوگا۔ حکمران کب تک یونہی عوام کو بے وقوف بناتے رہیں گے۔ اب دیکھنا ہے کہ اگر انتخابات ہو جاتے ہیں تو وطنِ عزیز پر کون حکمرانی کرے گا۔