• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالات کے مطابق چہرے بدلنے والے ’’اینکرز اور تجزیہ کار‘‘ اپنی خوہشات کو اپنےاپنے انداز میں پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔آزادئ اظہار رائے پر یقین رکھنے والے یہ لوگ حقائق کو بیان کرتے ہوئے جھوٹ پر مبنی اپنی خواہشات کی آمیزش سے گریز نہیں کرتے لیکن ان کے چہروں سے یہ تاثر پڑھا جاسکتا ہے کہ ایک خاص گروہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی خواہش اور گرتی ہوئی مقبولیت کو سہارا دینے کی کوششوں میں ہیں۔لیکن جھوٹ اور سچ کی سیاست زدہ صحافت کے باوجود اس بات پر متفق ہیں کہ آئندہ انتخابات ملکی تاریخ کا خطرناک ترین چیلنج ہوسکتے ہیں جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے کڑا امتحان ہو گا۔ حساس اداروں کی جانب سے تیار کئے جانے والی سیکیوٹی پلان ملک بھر میں علاقائی سطح پر سیاسی وابستیوں کے علاوہ ممکنہ اشتعال انگیزی کے رحجان کی شرح کے مطابق ان علاقوں، انتخابی حلقوں اور پولنگ سٹیشنوں کو حسب معمول تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ان حلقوں میں ہنگاموں کے امکانات کے حوالے سے تفصیلی جائزہ رپورٹس مرتب کی گئیں اور سیکیورٹی کے انتہائی حساس، حساس اور معمول کی درجہ بندی کے مطابق پولنگ سے قبل اور پولنگ کے روز امن و امان قائم رکھنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔سیکیورٹی اداروں نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو انتہائی حساس قرار دیا ہے اور صوبائی انتظامیہ کو محتاط رہنے کی ہدائت کرتے ہوئے مشورہ دیا ہے کہ ریاست دشمن گروہوں کی جانب سے کئے جانے والے ہر حملہ کو روکنے کے لئے معروضی حالات کے مطابق حکمت عملی مرتب کریں۔قانون نافذ کرنے والے قومی اداروں کی جانب سے ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لئے منصوبہ بندی کریں ہے۔قومی سیکیورٹی کے ذمہ دار اداروں کے مطابق ملک کی سیکیورٹی ناقابل تسخیر بنانے اور اور ہر خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے ملک بھر میں پانچ لاکھ سے زائد فورسز تعینات کی جائے گی جن چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کی پولیس، رینجرز، فرنٹئر کانسٹیبلری، پنجاب کانسٹیبلری اور فوج کے مسلح دستے شامل ہوں گے جو ضرورت پڑنے پر میدان میں اتارے جائیں گے۔چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار، کم و پیش ایک لاکھ سندھ پولیس، ستر ہزار صوبہ خیبرپختونخوا، تیس ہزار بلوچستان اور دس ہزار اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری پولیس شامل ہوں گے۔انتخابی عمل کے دوران ممکنہ دہشت گردی اور ریاست دشمن قوتوں کا مقابلہ کرنے اور سیکیورٹی کو ناقابل تسخیر بنا کر امن و امان کو یقینی بنانا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے بڑا چیلنج ہوگا جسے پورا کرنا سیکیورٹی کے اداروں کا جنون ہوگا کیونکہ اس قدر بڑے چیلنج صرف جنون سے ہی پورے ہوسکتے خصوصاً ان حالات میں جب ملک کا ایک سیاسی لیڈر دہشت گردی، سول نافرمانی اور شرانگیزی کے ذریعے حکومت پر قبضہ کرنے پر یقین رکھتا ہے۔امن قائم رکھنے کے لئےاس قدر محتاط رویہ اور فول پروف سیکیورٹی اس لئے بھی ناگزیر ہے کہ مختلف ذرائع سے اڈیالہ جیل سے باہر آنے والے تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے پیغامات سے ان کے رویہ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ان کے نئے بیانیہ سے بہت کچھ اخذ کیا جاسکتا ہے۔اب عمران خان کی سوچ کہ انہیں ان کی خواہشات اور مرضی کے مطابق انصاف نہیں مل سکتا اس لئے اپنی خواہشات عوامی طاقت کے استعمال سے ہی حاصل ہو سکتی ہیں۔قانون نافذ کرنے والے ادارے عمران خان کےاس رویے کو سنجیدگی سے لے رہے کیونکہ ماضی گواہ ہے کہ انہوں نے ہر مرحلے پر شدت پسندی کا مظاہرہ کرنا یہاں تک کہ اقتدار ملنے میں مشکلات کا سامنا کرنے پر سول نافرمانی، بغاوت اور فوج اور فوجی تنصیبات پر حملوں کو جائز تصور کرنا ان کی ڈکشنری میں ملک و قوم کی خدمت کے زمرے میں آتی ہے۔عمران خان کے نزدیک انصاف صرف وہی ہے جو ان کی پسند کے مطابق ان کے حق میں کیا جائے ورنہ عدل و عدلیہ کے خلاف ایک ایسی زہریلی تحریک چلا کر ساری دنیا میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پاکستان میں انصاف حاصل کرنا ممکن نہیں اور اپنے آپ بغاوت سمیت سنگین ترین جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود معصوم، مظلوم اور بےگناہ ظاہر کرنے کے لئے بین الاقوامی لوبیسٹ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جس کے لئے شاتم رسول سلمان رشدی کی خدمات حاصل کرنے میں بھی شرم محسوس نہیں کی جاتی۔

تازہ ترین