• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی کی 18 نشستوں پر کام یابی یقینی ہے

گفتگو: محمد ہمایوں ظفر

متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے مرکزی رہنما اور ترجمان، سیّد امین الحق کراچی میں پیدا ہوئے۔ اُن کا شمار ایم کیوایم کے بانی اراکین میں ہوتا ہے۔ 1979ء میں طلبہ سیاست کا آغاز کیا اور جناح کالج میں ’’آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘‘ سے وابستہ ہوگئے۔ ایم کیوایم کے قیام کے بعد تنظیم کے اوّلین مرکزی سیکریٹری اطلاعات مقررہوئے۔ 

چار دہائیوں کے اس کٹھن سفر میں بہت سے نشیب و فراز کا سامنا کیا، کچھ عرصہ روپوشی بھی اختیار کی۔ امین الحق 1988ء 1990اور 2018ء میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔اپنی اصول پسندی، نرم گفتاری، میانہ روی اور اعلیٰ و شائستہ اقدار کی وجہ سے ہر خاص و عام میں مقبول ہیں۔ گزشتہ دنوں ہم نے ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کے لیے اُن کی سیاسی و نجی زندگی سے متعلق ایک تفصیلی نشست کی، جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔

ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما، خوش مزاج، خوش گفتار سیاست دان، سیّد امین الحق کے کچھ اوراقِ زیست

س: خاندان، ابتدائی تعلیم و تربیت سے متعلق کچھ بتائیں؟ بھائی، بہنوں کی تعداد، والد کیا کرتے تھے؟

ج: مَیں یکم جنوری1962ء کو کراچی میں پیدا ہوا۔ ہم کچھ عرصہ ناظم آباداور دستگیر میں مقیم رہے، اُس کے بعد فیڈرل بی ایریا شفٹ ہوگئے۔ میرے والد سیّد معیز الحق کا تعلق بھارت کے صوبۂ بہار کے شہرپٹنہ سے ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد میرے والد نے خاندان کے ساتھ اُس وقت کے مشرقی پاکستان کے شہر، ڈھاکا ہجرت کی، پھر وہاں سے کراچی چلے آئے اور60ء کی دہائی میں مقامی بینک میں ملازم ہوگئے۔ 1989ء میں ریٹائر ہوئے۔ ہم تین بھائی، دو بہنیں ہیں۔ سب سے بڑے بھائی، سیّد نورالحق ڈاکٹر ہیں اورحال ہی میں کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ 

اُن سے چھوٹے، سیّد عزیزالحق، شکاگو، امریکا میں مقیم ہیں۔ اُن کے بعد مَیں اور میرے بعد دوبہنیں ہیں۔ میری ایک بہن آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔ اُن کے شوہر، پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں، جب کہ چھوٹی بہن کراچی میں مقیم ہیں۔ اُن کے شوہر، پی آئی اے میں اسٹیشن منیجر تعینات تھے اور حال ہی میں ریٹائر ہوئے ہیں۔ مَیں نے1977ء میں فیڈرل اسکول، ناظم آباد سے میٹرک اور 1982ء میں جناح کالج سے بی ایس سی، جب کہ جامعہ کراچی سے تاریخ میں ماسٹرز کیا۔ اور1979ء میں جب جناح کالج میں سیکنڈ ایئر میں تھا، تواُسی دوران اے پی ایم ایس او جوائن کی۔

س: پاکستان کب، کیسے پہنچے اور پاکستان آنے کے بعد کہاں آباد ہوئے؟

ج: میرے والدین نے1947ء میں پاکستان ہجرت کی۔ وہ کچھ عرصہ مشرقی پاکستان میں رہے، پھر60ء کی دہائی میں مغربی پاکستان چلے آئے۔ والد صاحب چوں کہ بینکر تھے، اس لیے ہمارے گھریلو حالات بہت اچھے تھے۔ مغربی پاکستان شفٹ ہونے کے بعد سب سے پہلے ناظم آباد، پھر ایف بی ایریا، النورمیں آباد ہوگئے، جہاں چالیس سال مقیم رہے۔ 

بھارت میں ہمارا زمین دارگھرانہ تھا، آج بھی ہمارے بہت سے قریبی رشتے دارپٹنہ ہی میں مقیم ہیں۔ سوائے ایک خالہ کے، باقی سب بھارت ہی میں رہ گئے تھے۔ میرے ماموں، چچاسمیت کوئی پاکستان میں نہیں تھا، پہلے وہاں ہمارے گھرانے کا بہت آنا جانا تھا، لیکن پھر گزرتے وقت اور پاک، بھارت سیاسی حالات کی وجہ سے ملاقاتوں میں کمی آتی چلی گئی۔

س: بچپن کے ایّام اور ایم کیو ایم کے قیام کے حوالے سے کچھ بتائیے؟

ج: میرابچپن بڑا شان دار تھا، بڑی بے فکری، آسودگی کا زمانہ تھا، کسی چیزکی کمی نہیں تھی۔ ہماری اسکولنگ کراچی کی ہے۔ فیڈرل بی ایریا میں دوستوں کا ایک گروپ ہوا کرتا تھا، سب مل کر گھومتے پِھرتے، خُوب موج مستی کیا کرتے۔ ویسے اُس زمانے میں بڑا نظم و ضبط ہوا کرتا تھا۔ مغرب کی اذان ہوتے ہی ہم گھر کی طرف دوڑ لگادیتے کہ والدین کے ڈر، خوف کے ساتھ اُن کی عزّت واحترام کا جذبہ بھی موجود تھا۔ پھرکالج کا سلسلہ شروع ہوااور 1979ء میں، مَیں ’’آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘‘ سے منسلک ہوگیا جب کہ اے پی ایم ایس او کا قیام 1978ءمیں عمل میں آیا تھا۔ 

کچھ ہی عرصے بعد مجھے جناح کالج کا یونٹ انچارج بنادیا گیا، پھر1980ء میں مرکزی سیکریٹری اطلاعات مقرر ہوا اور جب18مارچ1984ء میں ایم کیوایم کا قیام عمل میں آیا، تو مَیں بانی اراکین میں بھی شامل تھا۔ اُس وقت ہم سترہ اٹھارہ نوجوان تھے، جن میں عظیم احمد طارق، طارق جاوید، ڈاکٹر عمران فاروق، ایس ایم طارق، طارق مہاجر، بدر اقبال، سلیم شہزاد، زرّین مجید، شیخ جاوید، آفاق احمد اور عامر خان وغیرہ تھے۔ 

ان ہی نوجوانوں نے لیاقت آباد، کراچی کے ایک چھوٹے سے گھر کی چھت پر ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی۔ آج بھی وہ دن یاد ہیں کہ کیسے ہم ٹیوشنز دے کے واپس آیا کرتے تھے، تو ہماری میٹنگز ہوا کرتی تھیں۔ ہم نے ایم کیوایم کے قیام کا پریس ریلیز جاری کیا، تو’’روزنامہ جنگ‘‘ کے اندر کے صفحے پر ایک چھوٹی سے خبر لگی تھی۔ بہرکیف، ہم نے عظیم احمد طارق کو پارٹی کا پہلا چیئرمین منتخب کیا۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکاّسی : اسرائیل انصاری)
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے… (عکاّسی : اسرائیل انصاری)

س: اپنی سیاسی پارٹی سے متعلق کچھ فرمائیے؟ کیا یہ واقعتاً پاکستان کی دیگر روایتی پارٹیوں سے مختلف ہے یا تھی، آئندہ انتخابات میں جانے کے لیے آپ کے پاس کارکردگی کے نام پر کیا ہے؟

ج: ایم کیو ایم کی کچھ باتیں بہرحال اسے دوسری جماعتوں سے مختلف بناتی ہیں۔ اوّل یہ کہ ہماری جماعت ہمیشہ نوجوانوں پر مشتمل قیادت سامنے لائی۔ دوم، سب پڑھے لکھے، اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ تھے، اور سوم ان سب کا تعلق لوئرمڈل کلاس اور مڈل کلاس سے تھا۔ یہی تین باتیں ایم کیوایم کو دیگر تمام جماعتوں سے منفرد کرتی ہیں اور اسی سبب تنظیم کے قیام کے فوری بعد کارکنوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا، عوام کا اعتماد بڑھتا چلا گیا۔ مجھے یاد ہے، جب میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد پہلی مرتبہ اسلام آباد گیا، تو میری عمر26سال دس مہینے تھی۔ 

نوجوان اور کم عُمر ہونے کی وجہ سے مجھے پارلیمنٹ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا، لیکن جب انہیں پتا چلا کہ ہمارا تعلق ایم کیوایم سے ہے، تو پھرعزّت و احترام سے اسمبلی ہال لے جایا گیا۔ اور جہاں تک ہماری کارکردگی کا تعلق ہے، تو جب بھی تھوڑا بہت اختیارملا، ہم نے خلوصِ نیّت سے شہری سندھ، کراچی، حیدرآباد اور میرپورخاص وغیرہ کے مسائل حل کرنے کی حتی الامکان کوشش کی۔1990-91ء اور اس کے بعد2003ء سے2010ء تک بے شمار ترقیاتی کام کروائے۔1989ء میں ایم کیوایم نے ناظم آباد میں کراچی کا پہلافلائی اوور بنایا۔ 1990ء میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس نے کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کا نظم و نسق بخیر و خوبی سنبھالا اور کے ایم ڈی سی آج بھی کراچی کے بہترین میڈیکل کالجز میں شمار ہوتا ہے۔

پھر 2005ء سے 2008ء تک بھی ہم نے بہت کام کیا۔ شہر میں بڑی تعداد میں فلائی اوورز، انڈرپاسزتعمیر کیے، سڑکوں اورٹرانسپورٹ کے نظام میں بہت بہتری لائے۔ ہم نے اپنے ویژن کے تحت کام کیا۔ بعدازاں، 2018ء کے انتخابات میں کام یاب ہونے کے بعد تین بڑے کام کیے۔ جیسا کہ مَیں اپنی وزارت کو دوحصّوں میں تقسیم کرتا ہوں، یعنی ہم نے پورے پاکستان کے لیے اورپھر شہر کراچی کے لیے کیا کام کیے، تو پاکستان کے لیے جو تین کام کیے، وہ یہ کہ جب میں نے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کی وزارت سنبھالی، تو اُس وقت آئی ٹی ایکسپورٹ ایک ملین ڈالرزتک تھی۔ لیکن جب 8اگست 2023ء کواسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد مَیں وزارت سے فارغ ہوکر دفتر سے نکل رہا تھا، تو الحمدللہ ہماری آئی ٹی ایکسپورٹ ایک بلین سے بڑھ کر دواعشاریہ چھے بلین ڈالرزتک پہنچ چکی تھی۔ یاد رہے، ملک کی تمام 44وزارتوں میں، واحد میری وزارت تھی، جہاں اتنی تیزی دیکھی گئی، جب کہ دوسری وزارتوں میں کسی میں چارفی صد، تو کسی میں دواور کسی میں تین فی صد ہی اضافہ ہوا۔ 

دوسری اہم بات جو میری جماعت فخر سے کہہ سکتی ہے، وہ یہ کہ آپ کو یاد ہوگا کہ60اور 70کی دہائی میں ہمیں گاڑیاں بنانے کے بڑے مواقع ملے، لیکن ہم نے نہیں بنائیں، نتیجتاً آج ہم صرف آلٹو ہی پر گزارہ کررہے ہیں، حالاں کہ اگرہم اُس وقت گاڑیاں بنانا شروع کرتے، تو آج ہم بی ایم ڈبلیو بھی بنارہے ہوتے۔ بہرحال، ہم نے اس سے سیکھا اور میری جماعت نے مجھ سے کہا کہ آپ کو ’’میڈ اِن پاکستان‘‘ پر کام کرنا ہے۔ لہٰذا22اپریل 2020ء کو مَیں نے وزارت سنبھالتے ہی پہلے ہفتے میں ’’موبائل فون مینوفیکچرنگ پالیسی‘‘ بنائی اور مئی 2020ء میں ای سی سی سے منظور کرواکرجون کے مہینے میں بجٹ کے ساتھ اسے بھی منظور کروالیا۔ یاد رہے کہ پاکستان میں پہلا موبائل فون1989ء میں آیا، لیکن کسی کو ملک میں موبائل فون بنانے کاخیال نہیں آیا۔

یہ ہماری وزارت، ہماری جماعت کی سوچ تھی، میرا ویژن تھا کہ ہمیں ’’میڈ اِن پاکستان‘‘ پر کام کرنا ہے، اور الحمدللہ، آج پاکستان میں تیس کے قریب موبائل فون مینوفیکچرنگ کمپنیز، لاکھوں کی تعداد میں نہ صرف اسمارٹ فونز بنارہی ہیں، بلکہ ایکسپورٹ بھی کررہی ہیں اور یہ بہت بڑا کام ہے، جوہماری وزارت کے زیرِانتظام ہوا۔ تیسرا اہم کام ہم نے یہ کیا کہ وفاقی کابینہ سمیت پاکستان کی 44وزارتوں کوڈیجیٹلائزڈ پیپرلیس کردیا۔

س: ملک کے نوجوانوں کو آئی ٹی، کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی جانب راغب کرنے اور اس سے استفادے کے حوالے سے آپ کے ذہن میں کیا خاکہ ہے؟

ج: دنیا میں سائبرسیکوریٹی، آرٹی فیشل انٹیلی جینس سمیت تیزی سے نئی نئی ٹیکنالوجیز سامنے آرہی ہیں۔ سو، ہم نے بھی اپنے ملک کے نوجوانوں کو اس جانب راغب کرنے کے لیے اس پر خاصا کام کیا۔ اس حوالے سے ایک میگا منصوبے کے تحت 42ارب روپے کی لاگت سے کراچی میں آئی ٹی پارک کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہماری سابقہ وزارت نے ضابطے کی تمام کارروائی مکمل کرنے کے بعد کراچی ائرپورٹ سے متصل زمین، سول ایوی ایشن سے خریدی۔ اِس آئی ٹی پارک کی تکمیل کے بعد لگ بھگ دس ہزار افراد کو روزگار فراہم ہوگا، سیکڑوں کی تعداد میں اسمال، میڈیم انٹرپرائزز کمپنیز بھی قائم ہوں گی، جن سے روزگار اور ترقی و خوش حالی کے نئے مواقع ملیں گے۔ 

اس پارک کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے اور اس کی تکمیل کے بعد اِن شاء اللہ 210آئی ٹی فرمز کے 84ہزار سے زائد اسپیشلسٹس اسٹیٹ آف دی آرٹ سہولتوں سے فائدہ اٹھاسکیں گے۔ یہاں ملازمتوں کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی سے استفادے کی ٹریننگ بھی دی جائے گی، تاکہ موجودہ نسل جدّت سے لیس ہوکرآگے بڑھے۔ گیمنگ اور اینی میشن پر نوجوان بڑا کام کررہے ہیں۔ ایک اندازہ ہے کہ اگلے تین سال میں لگ بھگ پوری دنیا میں اس کی 25بلین ڈالرز کی مارکیٹ ہوگی، تو ہم نے بھی اس ضمن میں خاصا کام کیا۔ 

ہم 1.6بلین روپے کی لاگت سے لاہور اور کراچی میں سینٹرفار ایکسیلینس فار گیمنگ اینڈ اینی میشن کے دوسینٹر کا قیام عمل میں لارہے ہیں، جن سے نوجوانوں کو روزگار کے بڑے مواقع حاصل ہوں گے۔ یہاں سے تربیت حاصل کرکے نکلنے والے بچّے آگے جاکے خود لاکھوں روپے ماہانہ کمائیں گے۔ علاوہ ازیں، سندھ کے دوسرے بڑے شہر، حیدرآباد کے لیے 62کروڑ روپے کی لاگت سے سندھ یونی ورسٹی شہری کیمپس اور حیدرآباد مین کیمپس میں بھی نیشنل اینکیوبیشن سینٹرکا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے۔

س: ماضی اور آج کی ایم کیوایم میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں اور آئندہ انتخابات میں ایم کیوایم کو کہاں دیکھ رہے ہیں، کیا تمام دھڑوں کے انضمام کے بعد سیٹس کا حصول ممکن ہے؟

ج: بے شک، ماضی کی ایم کیو ایم بہت منظم تھی، لیکن آج کی ایم کیو ایم کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ تمام دھڑوں کے انضمام کے ساتھ اس میں نیاخون بھی شامل ہوا ہے۔ آج ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں مصطفیٰ کمال بھائی اور ڈاکٹر فاروق ستار بھائی متحد ہوکر کام کررہے ہیں، سارے فیصلے باہمی مشاورت سے ہورہے ہیں تاکہ مستقبل میں شہری اور دیہی سندھ کے مسائل حل کیے جاسکیں۔ 

جہاں تک الیکشن کے بعد ہمارے مستقبل کا سوال ہے، تو آپ دیکھ لیں کہ جس طرح لوگ جُوق درجُوق ایم کیوایم میں شمولیت اختیار کررہے ہیں، تو کارکنان کا اعتماد بھی بحال ہورہا ہے۔ جو ساتھی گھربیٹھ گئے تھے، وہ بھی متحرک ہوگئے ہیں، تو ہمیں یقین ہے کہ کراچی کی 22قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے اِن شاء اللہ 18نشستوں پر توایم کیوایم پاکستان ہی کام یابی حاصل کرے گی۔ نیز، حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر، نواب شاہ کی صوبائی اسمبلی کی روایتی نشستیں بھی ایم کیو ایم پاکستان ہی لے گی۔

س: آپ کی اپنی جماعت میں انتخابات کا کیا طریقہ کار ہے اور پارٹی کا موجودہ انتخابی ڈھانچا کیسا ہے؟

ج: ایم کیوایم کا انتخابی ڈھانچا بہت مضبوط اور اچھی شکل میں موجود ہے۔ ہرتین سال بعد انٹرا پارٹی الیکشن کا انعقاد ہوتا ہے۔ کارکنان باقاعدہ خفیہ رائے دہی کے ذریعے ووٹ دیتے ہیں، پھر رابطہ کمیٹی کے اراکین منتخب کیے جاتے ہیں۔ ایم کیوایم کے تنظیمی ڈھانچے میں زون، سیکٹر، یونٹس اور سب یونٹ وغیرہ شامل ہیں، اور یہی ہماری کام یابی کی ضمانت بھی ہیں۔ 2014ء سے 2016ء تک ایم کیوایم کے ساتھ بہت سختی برتی کی گئی، لیکن اس کے باوجود تنظیمی ڈھانچے کی بدولت یہ آج بھی اُسی طاقت کے ساتھ موجود ہے۔

س: موجودہ ڈھانچے میں کون کون شامل ہیں؟

ج: خالد مقبول صدیقی بھائی کنوینئر، جب کہ چارسینئرڈپٹی کنوینئرہیں، جن میں سیّد مصطفیٰ کمال، ڈاکٹر فاروق ستار، نسرین جلیل اور عامرخان، اس کے علاوہ ڈپٹی کنوینئرز ہیں، اُن کے بعد رابطہ کمیٹی ہے، جو فیصلہ سازی کی ذمّے دار ہے، لیکن تمام فیصلے باہمی مشاورت ہی سے کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد سی او سی اور سب سے آخر میں سیکٹرز ہیں، جوتمام معاملات چلاتے ہیں۔

س: آپ کو لگتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں ایم کیو ایم ماضی کی طرح بھاری مینڈیٹ حاصل کرپائے گی؟

ج: جی، ہمیں پوری اُمید ہے کہ ہماری نشستیں ماضی کے مقابلے میں زیادہ ہوں گی۔

س: اس مرتبہ کس جماعت کے حکومت بنانے کے زیادہ امکانات ہیں۔

ج: میرے خیال میں مسلم لیگ، نون پنجاب میں مضبوطی کے ساتھ موجود ہے، تونظرآرہا ہے کہ صوبہ پنجاب میں نون لیگ کی حکومت بنے گی اور وفاق میں بھی نون لیگ ہی کام یاب ہوتی نظرآرہی ہے۔

س: اگر نون لیگ حکومت بنالیتی ہے، تو ایم کیوایم، پاکستان اس کی اتحادی ہوگی؟

ج: جی بالکل، جس طرح ہماری اُن سے گفتگو ہورہی ہے، رابطے جاری ہیں۔ ہم ایک ساتھ کام کررہے ہیں اور پھر نگراں حکومت سے قبل بھی سولہ مہینے نون لیگ کے ساتھ اچھی ورکنگ ریلیشن شپ رہی ہے، تو ہم اسی ورکنگ ریلیشن شپ کو جاری رکھیں گے۔

س: آپ کے خیال میں دیہی سندھ اور شہری سندھ کی تفریق کو کس طرح ختم کیاجاسکتا ہے؟

ج: ایم کیوایم پاکستان، ہرگزرتے دن کے ساتھ حاصل ہونے والے تجربات سے فائدہ اٹھانے اور ماضی کی کوتاہیوں سے سبق سیکھنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ ہمارا دیرینہ مطالبہ ہے کہ دیہی اور شہری سندھ کی تفریق ختم کی جائے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی نااہل حکومت اس خلیج کو وسیع تر کرتی چلی جارہی ہے۔ تاہم، اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے سندھی بھائی بھی رابطہ کمیٹی کے رکن ہیں، ہماری خواہش ہے اُنہیں قومی، صوبائی اور یوسی چئیرمین کا انتخاب لڑوایا جائے، تاکہ آپس کی خلش کو کم سے کم کیا جاسکے۔

س: آپ اس رائے سے متفق ہیں کہ ایم کیوایم بھرپور مینڈیٹ کے باوجود سندھ کے شہری علاقوں کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے، اگر پارٹی چاہتی تومسائل حل کرکے اپنی بہترین کارکردگی سے کراچی، حیدرآباد کو ہمیشہ اپنی مٹّھی میں رکھ سکتی تھی؟

ج: ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق سیکھتے ہوئے ایم کیوایم پوری کوشش کررہی ہے کہ دیرینہ مسائل کو ہر صورت حل کیا جائے۔ ہماری خواہش ہے کہ تعلیم یافتہ، دیانت دار افراد، خصوصاً نوجوانوں کوسامنے لایا جائے، اس طرح نہ صرف کوتاہیوں کا ازالہ ہوگا، بلکہ عوام کے دل بھی جیتے جاسکتے ہیں۔

س: ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی کے تعلقات کس نہج پر ہیں اور انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی سے اتحاد ناگزیر ہوگیا، تو کیاکریں گے؟

ج: ایم کیوایم اور پیپلزپارٹی کے درمیان کبھی خوش گوار تعلقات نہیں رہے۔ 1970ء کے انتخابات میں ایم کیوایم تو نہیں تھی، لیکن کراچی اور حیدرآباد کےعوام نے اُس وقت بھی پیپلزپارٹی کو مسترد کیا تھا، آج بھی مسترد کررہے ہیں۔ ہم انتخابات میں کام یابی کے بعد حکومت بنانے والی کسی بھی پارٹی سے وزیروں، مشیروں یا گورنر شپ کا تقاضا نہیں کریں گے، بلکہ اس مرتبہ اٹھارہویں ترمیم کو اس کی رُوح کے مطابق لاگو کرنے کے لیے آئینی ترمیم پیش کریں گے، جس کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ پیسے، جو وفاق صوبوں کوتو دیتا ہے، لیکن صوبائی حکومت نچلی سطح پر منتقل نہیں کرتی۔ وہ پوری ایمان داری کے ساتھ نچلی سطح پر منتقل کیے جائیں، تاکہ عوام کے مسائل حل ہوپائیں۔

س: کیا آپ کی جماعت کو اسٹیبلشمینٹ کا بھی تعاون حاصل ہے؟

ج: یہ تاثر غلط ہے، ایسا بالکل نہیں ہے، ہمارے ساتھ 2018ء کے انتخابات میں جوکچھ ہوا، سب جانتے ہیں کہ کس طرح آر ٹی ایس سسٹم قصداً بٹھا کرایم کیوایم کے پولنگ ایجینٹس کو پولنگ اسٹیشن سے باہر نکال دیا گیا۔ کراچی شہرکے نتائج کا اعلان 24گھنٹوں کے بجائے48 گھنٹوں بعد کیا گیا، اور پی ٹی آئی کوہماری 14نشستیں دے دی گئیں۔ بہرحال، آج بھی ہم اپنی ریاست، مسلّح افواج اور ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اورایم کیوایم پاکستان، ماضی کی تمام کوتاہیاں بھول کرنئے عزم و ولولے سے آگے بڑھ رہی ہے۔

س: ایم کیو ایم جداگانہ تشخّص کے حوالے سے شہرت رکھتی ہے، تو آپ کے پاس ایم کیو ایم کو قومی دھارے میں لانے کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل ہے؟

ج: ایم کیوایم میں اب مُلک کی تمام زبانیں بولنے والے افراد شامل ہیں، حتیٰ کہ سندھی، پنجابی، پشتواوربلوچی قومیتوں سے تعلق رکھنے والے رابطہ کمیٹی کے رکن بھی ہیں۔ اب ایم کیو ایم جو بھی فیصلہ کرتی ہے،اس میں سب کی رائے شامل ہوتی ہے۔

س: ملک میں بڑھتی منہگائی اورغربت کے خاتمے کے لیے ایم کیوایم کے نئے منشورمیں کیا ہے؟

ج: ایم کیوایم کا ہمیشہ سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ کسی طوربھی منہگائی پر قابو پایاجائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو میرٹ پر ملازمتیں دی جائیں، جب قابلیت بنیاد ہوگی اورلوگ میرٹ پر بیورو کریسی میں آئیں گے، اچھے فیصلے کریں گے، تو پھر معاملات قابو ہی میں رہیں گے۔ ایم کیوایم کو جب جب موقع ملا، اس نے منہگائی کے خلاف آواز بلند کی اور ہمیشہ اپنے عوام اور کارکنان کے ساتھ کھڑی رہی۔

س: آپ کے خیال میں اس وقت ملک کا اہم ترین مسئلہ کیا ہے؟

ج: دیکھیں، مسائل تو بہت ہیں، تاہم میرے نزدیک دوباتیں بہت اہم اور ضروری ہیں۔ اوّل جمہوری روایات، دوم سیاسی استحکام۔ جب کہ سیاسی استحکام ہی سے منسلک معاشی استحکام ہے کہ مضبوط معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام نہایت ضروری ہے۔ یہ دونوں لازم وملزوم ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارا ملک معیشت کے حوالے سے ہمیشہ ہی غیر مستحکم اور غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار رہتا ہے۔ جب تک ہمارے یہاں سیاسی استحکام نہیں ہوگا، معاشی استحکام بھی نہیں آسکتا، لہٰذا میرے نزدیک اس وقت ملک کا اہم ترین مسئلہ جمہوری روایات کے ساتھ سیاسی اور مضبوط معاشی استحکام کا نہ ہونا ہے۔ 

مَیں سمجھتا ہوں کہ ملک میں اگر سیاسی استحکام ہو، ہر اسمبلی اور وزیرِاعظم اپنی پانچ سالہ مدّت پوری کرے، تو کوئی وجہ نہیں کہ ملک ترقی کی راہ پر گام زن نہ ہوسکے۔ اور اس کے لیے ٹیکس نیٹ بڑھانا بہت ضروری ہے، کیوں کہ ٹیکس نیٹ بڑھنے ہی سے دیگر معاملات بھی بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے۔ نیز، مضبوط معاشی نظام کے لیے ہمیں نج کاری کی طرف بھی جانا پڑے گا۔ بسز، ٹرینز، جہازیا بینکس وغیرہ چلانا، حکومت کا کام نہیں، یہ نجی اداروں کا کام ہے۔ 

ماضی میں جھانکیں تو اندازہ ہوگا کہ 50ء اور 60ء کی دہائی میں ملک تیزی سے ترقی کررہا تھا۔ اسی طرح اردگرد کے ممالک کا جائزہ لیں تو بھی یہی پتا چلے گا کہ وہاں اس طرح کی تمام سروسز جب حکومتی دائرئہ اختیار سے نکل کر پرائیویٹ سیکٹر میں گئیں، تو ممالک ترقی و خوش حالی کی راہ پر گام زن ہوئے۔ ہمارے پاس بھی اس کی مثالیں موجود ہیں۔70ء کی دہائی میں جب بینکس کے حالات بگڑنے کے بعد 90ء کی دہائی میں اس شعبے کی نج کاری کی گئی، تویکے بعد دیگرے تمام بینکس کی حالت بتدریج بہتر ہوتی چلی گئی۔ اسی طرح ’’ٹی اینڈ ٹی‘‘ کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔

س: لیکن کے۔الیکٹرک کی مثال آپ کیسے دیں گے، نجی شعبے میں جانے کے بعد اس کا کیا حال ہوا؟

ج: کسی بھی ادارے کی نج کاری کے وقت عوام کے مفادات کو اوّلیت دینا بہت ضروری ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے کے۔الیکٹرک کے ضمن میں ایسا نہیں ہوا۔ یہ ادارہ تونج کاری کے بعد ایک مافیا کا روپ دھار کر کراچی کے عوام کے لیے اذیت کا سبب بن گیا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اس ادارے پر حکومت کی مکمل گرفت ہونی چاہیے۔ اسے درست کرنے کی ذمّے داری ’’نیپرا‘‘ کی ہے اور اسے چاہیے کہ اسے ٹھیک طریقے سے آگے لے کرچلے۔

س: کراچی کے مسائل کے حل کے ضمن میں آپ کے اہم ترین مطالبات کیا ہوں گے؟

ج: سب سے پہلے تو ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ مقامی حکومت کوبااختیارکیا جائے۔ مسائل چاہے، سیاسی، انتظامی، مالیاتی ہوں یا پانی کی فراہمی کے حوالے سے ’’کے فور منصوبہ‘‘، یا ٹرانسپورٹ کے حل کے لیے ’’ریپڈ ماس ٹرانزٹ منصوبہ‘‘ تمام منصوبے اور مسائل ایک بااختیار میئر، ڈسٹرکٹ چیئرمین اور یوسی چیئرمین ہی حل کرسکتا ہے۔ جب تک مالیاتی اختیارات نہیں دیے جائیں گے، اُس وقت تک صُورتِ حال بہتر نہیں ہوگی۔

س: یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ کراچی، جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، اب کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے، تو آپ کے خیال میں اس کی ذمّے داری کس پرعاید ہوتی ہے؟

ج: کراچی، بے شک روشنیوں کا شہر تھا اور 2004ء سے 2007ء تک اس کا شمار دنیا کے بارہویں تیزی سے ترقی کرنے والے شہرمیں ہورہا تھا، لیکن بدقسمتی سے پیپلزپارٹی کے دَورِ حکومت میں کراچی بتدریج کچرے کا ڈھیر بن گیا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ اس کا شمار دنیا کے چوتھے بدترین شہروں میں ہونے لگا ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے پچھلے پندرہ سال میں کراچی کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اِن شاء اللہ ایم کیو ایم آئندہ انتخابات میں کام یابی کے بعد اپنے اتحادیوں کےساتھ مل کر حکومت بنائےگی اور دوبارہ کراچی کو روشنیوں کا شہر بنا کر دکھائے گی۔

س: شہر کی خُوب صُورتی، بیوٹی فیکیشن کے لیے آپ کے ذہن میں کوئی منصوبہ ہے؟

ج: بیوٹی فیکیشن بھی ہونی چاہیے، لیکن اب چوں کہ جدید تصورات سامنے آرہے ہیں، تو اب ہمیں اس سے آگے بڑھ کربھی سوچنا ہوگا، مثلاً پارکس اور مالز وغیرہ کو فری وائی فائی کی سہولت فراہم کی جائے، تاکہ وہاں جانے والے لوگ اس سہولت سے فائدہ اٹھاسکیں۔ ہماری جماعت نے اپنے منشور میں کراچی کی بیوٹی فیکیشن کے ساتھ آئی ٹی کی سہولتوں کو بھی سرفہرست رکھا ہے۔ تو پہلی ترجیح کے طور پر تو شہر کے مختلف مقامات پر موجود انڈرپاسز، فلائی اوورز اور چورنگیوں کو مزید بہتربنایا جائے گا۔پھر جدید ترین پارکس کا قیام عمل میں لائیں گے۔

س: کراچی کے بلدیاتی نظام کے لیے کئی میئرز آئے، کچھ نے شہر کی بہتری کے لیے کچھ اقدامات بھی کیے، آپ کس کے کام سے متاثر ہوئے؟

ج: ڈاکٹرفاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کا دَور بہترین تھا۔ ان دونوں کی خدمات کو شہر کراچی کے باسی اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ ان کے دَور میں انتہائی برق رفتاری اورتیزی سے شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے کام ہوئے۔

س: مرکز میں کس سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کا تجربہ زیادہ خوش گوار رہا؟

ج: آخری اتحاد نون لیگ کے ساتھ رہااور یہ تجربہ بہت اچھا تھا۔ ایم کیو ایم نے ان کے ساتھ مل کرکئی تعمیری کام کیے۔

س: آپ کی پسندیدہ ترین سیاسی شخصیت؟

ج: کارزارِ سیاست میں کئی لوگوں سے ملاقاتیں رہیں۔ اپنی جماعت کے مختلف لوگوں سے بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ تاہم، مَیں اپنے پورے سیاسی کیریئر میں شہید چیئرمین، عظیم احمد طارق سے بے حد متاثررہا، وہ میری پسندیدہ ترین سیاسی شخصیت تھے۔ عظیم احمد طارق بھائی اعلیٰ تعلیم یافتہ، انتہائی نفیس انسان تھے۔ 

وہ سکھاتے، بتاتے بھی تھے اور باوقار طریقے سے معاملات کاتعیّن بھی کرتے تھے، قدرت نے انھیں تحریر و تقریر کے فن سمیت بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ وہ جب تقریر کرتے، تو مکمل سکوت چھا جاتا، یوں محسوس ہوتا کہ کوئی دانش وَر گفتگو کررہا ہے۔ وہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں روانی سے تقریر کرتے تھے، یہ سچ ہے کہ ان کی شہادت کے بعد پارٹی اور مہاجرقوم کو بہت نقصان پہنچا۔

س: نجی زندگی، اہلیہ، بچّوں سے متعلق کچھ بتائیں۔ کیا بچّوں میں سے کوئی سیاسی میدان میں قدم رکھے گا؟

ج: میری اہلیہ، نگہت آفرین گھریلوخاتون ہیں۔ انہوں نے جامعہ کراچی سے گریجویشن کیا۔ وہ میرے اچھے اور بُرے وقت میں ہمیشہ ساتھ کھڑی رہتی ہیں۔ میرا زیادہ تر وقت چوں کہ سیاسی مصروفیات میں گزرتا ہے، تو گھرکے تمام معاملات وہی دیکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے تین بچّے عطا فرمائے۔ میری بڑی بیٹی منزہ حق، سوشل میڈیا پر بہت سرگرم ہے۔ 

اسکول کے زمانے میں مقابلہ تقاریر میں حصّہ لیتی رہی ہے۔ اب ایم بی بی ایس فائنل ایئر میں ہے۔ چھوٹی بیٹی، مناہل حق بھی خاصی سرگرم اور فعال ہے۔ وہ لاء کی تعلیم حاصل کررہی ہے، یہ خاندان کی پہلی بیٹی ہے، جو قانون دان بننے جارہی ہے، جب کہ بیٹا، سیّد مصطفیٰ حق ابھی سولہ برس کا ہے اور اولیولز میں ہے۔ ویسے میری چھوٹی بیٹی مناہل کا سیاست کی طرف رجحان ہے۔

س: کھانا پکانے میں بھی کچھ دل چسپی ہے یا صرف، کھاناکھانے میں؟ کون سی ڈشز اچھی لگتی ہیں یا خود بنا سکتے ہیں؟

ج: جہاں تک کھانا پکانے کی بات ہے، تو اس معاملے میں سمجھیں صفرہوں۔ بس، بہترین قسم کی چائے اور آملیٹ بناسکتا ہوں۔ ہاں البتہ لذیذ کھانے کا بے حد شوقین ہوں اور دال، آملیٹ کے علاوہ باربی کیوبہت پسند ہے۔

س: کتب/شاعری سے شغف ہے؟ کس مصنّف یا شاعر کو پڑھنا پسند کرتے ہیں؟

ج: زیادہ تر سیاسی موضوعات پر کتابیں پڑھی ہیں، اب مصروفیات کی وجہ سے مطالعے کا موقع نہیں ملتا، تاہم اخبار باقاعدگی سے پڑھتا ہوں۔ ویسے مجھے آٹو بائیوگرافیز پڑھنا زیادہ پسند ہے۔ قدرت اللہ شہاب کی ’’شہاب نامہ‘‘ آج بھی جب کبھی موقع ملتا ہے، تو ضرور پڑھتا ہوں۔

س: تنقید کے کس حد تک قائل ہیں؟کوئی تنقید کرے، تو کیسا لگتا ہے؟

ج: میں اپنے دوستوں، خیرخواہوں سے ہمیشہ کہتا ہوں کہ میرے کسی عمل، تقریر یا بیان پر اعتراض ہو، تو تنہائی میں ضرور بتائیں، تاکہ میں اپنی تصحیح کرسکوں۔

س: بچپن کا کوئی ایسا واقعہ، جسے یاد کرکے آج بھی لبوں پہ مسکراہٹ آجاتی ہو؟ زندگی کا کوئی یاد گار لمحہ؟

ج: بچپن میں تو ایسے بہت سے لمحات تھے، جو آج یاد آتے ہیں، تو ہنسی آجاتی ہے۔ مجھے یاد ہے، جب ہم ناظم آباد میں رہتے تھے، تو اسکول جاتے ہوئے اکثر بچّوں کو ٹائر چلاتے ہوئے دیکھتا، تو میرا بھی بڑا دل کرتا کہ میں بھی ٹائر چلائوں۔ ایک روز اسکول سے چھٹی کی، تو موقع ہاتھ آگیا اور دوپہر میں خاموشی سے ٹائر چلانے نکل گیا۔ پہلی بار ٹائر چلانے میں بہت مزہ آرہا تھا، لہٰذا چلاتے چلاتے بہت دُور نکل گیا۔ کافی دیربعد جب گھر پہنچا، توخوب پٹائی ہوئی۔ اب وہ واقعہ یاد کرتا ہوں تو بہت ہنسی آتی ہے۔

س: کسبِ معاش کے لیے پہلی ملازمت یا پیشہ کیا اختیار کیا تھا۔

ج: 1984ء میں پہلی ملازمت ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کی، جہاں تین ہزار روپے تن خواہ ملتی تھی، جو اُس زمانے کی بہت اچھی تن خواہ تھی، اس میں مزید فائدہ یہ تھا کہ سات بونس بھی ملتے تھے کہ بونس ملنے پر انسان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں ہوتا۔

س: آپ کا کوئی راز؟

ج: میرا تو کوئی ایسا راز نہیں، البتہ میرے سینے میں کئی شخصیات کے راز ضرور محفوظ ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انھیں راز ہی رہنا چاہیے۔1989ء میں، جب مَیں رکن قومی اسمبلی تھا، محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی گئی تھی، تو اس حوالے سے بھی کئی باتیں ہیں، لیکن بہرحال، اعتماد کا رشتہ برقرار رہنا چاہیے، اس لیے ساری باتیں راز ہی رہنے دینا چاہتا ہوں۔

س: کوئی ایسا کام، جو لاکھ کوشش کے باوجود مکمل نہیں کرسکے۔

ج: مَیں نے بحیثیت وفاقی وزیر کے ایم سی اور ڈی ایم سیز میں کرپشن اور مسائل کے حل کے لیے حتی الامکان کوششیں کیں۔ رابطہ کمیٹی کے ساتھ مل کر بھی بڑی کوششیں کیں کہ کسی طرح کرپشن پر مکمل قابو پایا جائے، لیکن بہرحال ناکام رہا۔

س: موسیقی کا شوق کس حدتک ہے؟

ج: جب موقع ملتا ہے، اچھے گانے، غزلیں سُن لیتا ہوں، مہدی حسن کے گانے شوق سے سُنتا ہوں۔ کبھی رات میں سونے کے لیے لیٹتا ہوں، تو ہلکی آواز میں جگجیت سنگھ کو بھی سُننااچھا لگتا ہے۔ بس، پندرہ بیس منٹ سُننے کے بعد سوجاتا ہوں۔

س: ای میلز چیک کرتے ہیں، میسیجز کا جواب دیتے ہیں؟

ج: واٹس ایپ پر آنے والے میسیجز باقاعدگی سے چیک کرتا ہوں، گوکہ میرے پاس روزانہ1200 سے1500 تک پیغامات آتے ہیں، لیکن کوشش کرتا ہوں، رات کو کم ازکم اہم پیـغامات تو ضرور دیکھ لوں اور اہم پیغامات کا جواب بھی ضروردیتا ہوں۔

س: شاپنگ کس کے ساتھ کرنا پسند کرتے ہیں؟خریداری کرتے وقت بھاؤ تاؤ کرتے ہیں؟

ج: عموماً خریداری میری اہلیہ کرتی ہیں، بھائو تائو بھی وہی کرتی ہیں، مَیں کبھی کبھاراُن کے ساتھ چلا جاتا ہوں۔

س: کبھی کوئی سچّا دوست ملا،جس کی دوستی پر فخر محسوس ہو؟آپ اچھے دوست ہیں یا آپ کے دوست اچھے ہیں؟

ج: مجھے سب ہی سچّے دوست ملے، جن پر مجھے فخر ہے۔ سب ہی سے خلوص، اعتماد اور اعتبار کا رشتہ ہے۔ میرے بچپن کے دوست ہمیشہ اچھے بُرے وقتوں میں میرے ساتھ کھڑے رہے اور آج بھی ساتھ کھڑے ہیں۔

س: ایک دُعا، جو ہمیشہ لبوں پر رہتی ہے؟

ج: اللہ تعالیٰ پاکستان کو قائم و دائم رکھے اور ہمارا مُلک ہمیشہ ترقی و کام رانی کی منازل طے کرتا رہے۔

’’شادی اریجنڈ ہے، لیکن پسند بھی شامل تھی، رشتہ طے ہونے کے بعد بتایا گیا کہ ’’تمہیں ہیرا ملا ہے‘‘ اہلیہ، نگہت آفرین

سیّد امین الحق کی اہلیہ نگہت آفرین کا آبائی تعلق بھی پٹنہ، بھارت سے ہے۔ انھوں نے اپنی شادی سے متعلق بتایا کہ ’’ہماری شادی ویسے تو ارینجڈ ہے، لیکن اس میں ہماری پسند بھی شامل ہے۔ ہم آپس میں رشتے دار ہیں، اُن کی والدہ، میری والدہ کی پھوپی تھیں۔ 

انہوں نے مجھے اپنے بھائی کی شادی میں دیکھا، اوروالدہ سے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا، تو اُن کی والدہ نے میری والدہ سے بات کی، اس طرح رشتہ طے ہوگیا۔ رشتہ طے ہونے کے بعد مجھے بتایاگیا تمہیں تو ’’ہیرا‘‘ ملا ہے، ہروقت ہنستا، مسکراتا رہتاہے، لیکن شادی کے بعد پتا چلا کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے، اگرچہ ٹھنڈے مزاج کے تو ہیں، لیکن جب غصّہ آتا ہے، توبہت شدید ہوتا ہے، لیکن خیر، فوراً اتر بھی جاتا ہے اور تھوڑی دیر بعد سب بھول بھال جاتے ہیں۔‘‘ شوہر کے سیاست دان ہونے سے متعلق کہتی ہیں کہ ’’اِن کے سیاست میں ہونے کی وجہ سے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی، لیکن جب 22اگست 2016ء کا واقعہ پیش آیا، تو ہم سب بہت پریشان ہوگئے تھے۔‘‘

’’ڈاکٹر بن کر بابا کا خواب پورا کروں گی‘‘ منزہ حق…

’’قانون پڑھنے کا شوق بابا کو دیکھ کر ہوا‘‘ مناہل حق

سیّد امین الحق کی سب سے بڑی صاحب زادی، منزّہ حق ایم بی بی ایس فائنل ایئر میں ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’بابا نے ہمیں بہت پیار، محبّت دی، کبھی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی، ہماری غلطیوں پر ہمیشہ پیار سے سمجھاتے ہیں۔ مَیں ان شاء اللہ جلد ڈاکٹر بن کر بابا کا خواب پورا کروں گی۔‘‘ چھوٹی صاحب زادی مناہل حق، لاء کی تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ 

اس حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ، ’’قانون پڑھنے کا شوق بابا کی وجہ سے ہوا، اگرچہ وہ قانون دان نہیں، ایک سیاسی شخصیت ہیں، لیکن چوں کہ سیاست اور قانون کا چولی دامن کا ساتھ ہے، تو مَیں نے قانون دان بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور پھر میرے خیال میں ایک بہترین قانون دان، بہترین سیاست دان بھی بن سکتا ہے، جیسا کہ بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی مثال سب کے سامنے ہے۔‘‘

’’بابا ہم سے بہت پیار کرتے ہیں‘‘ سیّد مصطفیٰ حق

امین الحق کے صاحب زادے، سیّد مصطفیٰ حق ابھی سولہ برس کے اور اولیولز کے طالب علم ہیں۔ اپنے والد سے متعلق کہتے ہیں کہ’’مَیں نے اُنھیں ہمیشہ خوش باش دیکھا ہے۔ بابا اگرچہ بہت مصروف رہتے ہیں، لیکن اہم مواقع جیسے ’’پیرنٹس ٹیچرمیٹنگ‘‘ وغیرہ کے لیے وقت نکال کرضرور شرکت کرتے ہیں۔ انھیں ہم تینوں کی پیدائش کی تاریخ بھی ازبر ہے۔ ایک دفعہ بابا آٹھ دس دن کے لیے لاہور گئے ہوئے تھے، تو اُسی دوران میری سال گرہ بھی تھی، مَیں اسکول سے آیا، تو بابا گھر پر نہیں تھے، مَیں اُداسی سے سوچنے لگا کہ آج میری سال گرہ ہے، لیکن بابا گھر پر نہیں، وہ ہوتے، تو کتنا اچھا ہوتا۔ 

خیر، تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بابا اچانک آگئے، وہ صرف چھے سات گھنٹے کے لیے اپنی مصروفیات چھوڑ کر محض میری سال گرہ منانے لاہور سے کراچی آئے تھے اور کیک بھی ساتھ ہی لائے تھے، پھر ہم کو ڈنرپرلے کرگئے اورپھر رات کو واپس لاہور چلے گئے۔ بابا ہم تینوں سے بہت پیار کرتے ہیں اور ہمیں بہت سپورٹ بھی کرتے ہیں۔‘‘