• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منتخب حکومت کا قیام بس اب چند روز کی مسافت پر ہے اور اس حکومت کو بلا مبالغہ جس بڑے چیلنج سے نبرد آزما ہونا ہے وہ تشویش ناک معاشی صورتحال ہے اور معاشی ترقی کیلئے بنیادی شرط امن و امان کی بہتر حالت ہے ۔ جب تک وطن عزیز سے دہشت گردی کامکمل قلع قمع نہیں کردیا جاتا اس وقت تک یہ گمان بھی کرنا کہ معاشی بہتری آ سکتی ہے، دیوانے کا خواب ہی ہوگا۔ دہشت گردی کا جیسے ہی ذکر سامنے آتا ہے تو بلوچستان کا سوال سر فہرست دکھائی دیتا ہے ۔ بد قسمتی سے یہ ایک ایسا سوال ہے جو آزادی کے بعد سے بارہا سامنے آ کھڑا ہوتا ہے اور اس وقت سے آج تک اس کا مستقل حل تلاش نہیں کیا گیا۔ بلوچستان کا سوال کیا ہے ؟ بلوچستان کا سوال یہ ہے کہ وہاں پر مستقل بنیادوں پر یہ تاثر موجود ہے کہ وہ پاکستان کی حکومت میں مشترکہ طور پر شامل نہیں ہے بلکہ انکو اورانکی رائے کو پامال کر دیا جاتا ہے اور اس پامالی کی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کومعاشی حقوق سے محروم رکھ کر ملک کی اشرافیہ ان وسائل سے اپنی ہوس پوری کرے۔ اب یہ تاثر درست ہے یا غلط اس بحث کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ احساس موجود ہے اور اسکو دور کرنا قومی فریضہ ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر عبد النبی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ صوبے میں تعلیمی ترقی کا معیار تسلی بخش نہیں اور انھیں صوبے کے نو جوانوں کا مستقبل تابناک نظر نہیں آتا۔ نوجوانوں کیلئےنہ تو تعلیمی ادارے ہیں اور نہ ہی استاد ، اسکے باوجود اگر کوئی نو جوان کسی نہ کسی طرح تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کیلئے کوئی ملازمت نہیںہے ۔یہ محرومی انہیں قوم پرست ،عسکریت پسند گروہوں کا حصہ بننے پر ابھار سکتی ہے ۔

یہ وہ وجوہات ہیں کہ جنکی وجہ سے بلوچستان کے تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ دونوں طبقات سے ایسے افراد ان عناصر کو حاصل ہوجاتے ہیں جو صرف جذبات کا استعمال کرتے ہوئے ان کو مسلح کارر وائیوں کی طرف راغب کردیتے ہیں ۔ قوم ،ملک ،مذہب کے نام پر مشتعل کرنا کسی حد تک آسان ہوتا ہے تاریخ کو اپنے زاویہ نظر سے پیش کیا جاتا ہے اور پھر صرف خون خرابہ مقدر بنتا ہے ،مزید بد قسمتی کی بات یہ ہوتی ہے کہ کچھ افراد دانشور بننے یا کہلانے کے شوق میں انکا ساتھ دینا شروع کردیتے ہیں اور انکو مظلوم بنا کر پیش کردیتے ہیں حالانکہ اگر بلوچستان کی ترقی کیلئےکسی بھی نوعیت کی کوئی خواہش موجود ہے تو ان تمام طبقات سے کوسوں دور رہنا چاہئے جو کسی بھی طرح کی دہشت گردی میں ملوث عناصر سے کوئی بھی تعلق رکھتے ہیں ۔ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرنی چاہئے کیونکہ بلوچستان کے مسائل حل نہ ہونے کا سب سے بڑاسبب ہی یہ ہے کہ وہاں پر بار بار مسلح کارروائیاں شروع کردی جاتی ہیں اور پھر ان دہشت گردی کے اقدامات کی وجہ سے یکطرفہ طور پر ریاست کو کارروائی کرنے سے بھلا کیسے روکا جا سکتا ہے ؟ برطانوی نو آبادیاتی حکومت کے خاتمہ کے بعد 1948 میں ہی شہزادہ عبد الکریم نے اپنے سات سو ساتھیوں سمیت افغانستان کی سرحد کو عبور کیا اور وہاں سے مسلح کارروائیوں کا آغاز کر دیا اور اس روز سے ہی ریاست بہت چوکنا ہو گئی کہ یہ معاملات کو کسی سیاسی زاویہ سے طے کرنے کی بجائے یہ حربہ بھی استعمال کر سکتے ہیں حالانکہ پاکستان کے ساتھ الحاق کے حوالے سے ایک خواب کا بھی ذکر کیا جاتا ہے ۔ پھر اسکے بعد ایک مسلسل تاریخ ہے جس میں بلوچستان یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر صفدر کیانی ، بلوچستان ریزیڈنشل کالج کے وائس پرنسپل خالد محمود بٹ ، گورنمنٹ کامرس کالج کوئٹہ کے پروفیسر امانت علی ، گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری اسکول مستونگ کے جاوید احمد لودھی سمیت مقتولین کی ایک بڑی تعداد ہے، جنکا واحد قصور کسی دوسرے صوبے سے ہونا تھا ۔ مسنگ پرسنز تو کتنے ہیں اور کتنے خود کو مسنگ پرسن ثابت کرکے دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور خود ساختہ’’دانش ور‘‘ صاحبان انکے دکھ میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں مگر ان اساتذہ سے لے کر دیگر افراد کے قتل کے ذکر پر انکوسانپ سونگھ جاتا ہے۔ نئی منتخب حکومت کے سامنے یہی پہاڑ جیسے مسائل کھڑے ہونگے اور ان تمام مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ پاکستان میں آئین کی مکمل طور پر عمل داری ہو اور یہ تصور مضبوط کیا جائے کہ ملک میں کچھ بھی آئین کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ اسی راستے سے بلوچستان میں مشترکہ حاکمیت کا تصور قائم کیا جا سکتا ہے اور ریاست پر مشترکہ ملکیت کا احساس اجاگر ہو سکتا ہے۔ اگر مستقبل میں بھی حکومت سازش کا ہی شکار ہوتی رہی تو اس کے سب سے زیادہ منفی اثرات بلوچستان پر پڑیں گے اور دہشت گرد، انکےحامیوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہے گا۔

تازہ ترین