• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار فیڈرل بورڈ آف ریونیونے منتخب عوامی نمائندوں کی جانب سے انکم ٹیکس کی ادائیگی کی تفصیلات پر مشتمل ڈائیرکٹری جاری کردی ہے۔گزشتہ روز منظر عام پر آنے والی اس دستاویز کے ذریعے اب پاکستانی شہریوں کے لئے یہ جاننا ممکن ہوگیا ہے کہ ان کے جو نمائندے قانون ساز اداروں میں بیٹھ کر ان پر نت نئے ٹیکس عائد کیے جانے کی منظوری دیتے ہیں، خود کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ بلاشبہ معاملات کے اخفاء اور رازداری پر مبنی پالیسیاں بدعنوانی کو تحفظ اور فروغ دینے کا ذریعہ بنتی ہیں جبکہ حقائق کے اظہار اور شفافیت پر مبنی طریق کار سے ان رجحانات کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اس بناء پر منتخب عوامی نمائندوں کی یہ ٹیکس ڈائیرکٹری ایک اچھی روایت کاآغاز ہے۔ اس سے ملک میں ٹیکس کلچر کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔ معاملات کو شفاف بنانے کے لئے موجودہ حکومت کی یہ پیش رفت نہایت مستحسن ہے جس پر وزیر اعظم، وزیر خزانہ اور ان کے ساتھی خاص طور پر مبارکباد کے حق دار ہیںتاہم اس سمت میں مزید ضروری اقدامات بھی کیے جانے چاہئیں۔کاروبار مملکت کو چلانے کے لئے وسائل کی فراہمی کا بنیادی ذریعہ شہریوں کی جانب سے ادا کیے جانے والے ٹیکسوں کی رقوم ہی ہوتی ہیں۔جبکہ اعلیٰ حکومتی عہدیدار نیزسینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان عوام کے منتخب نمائندوں کی حیثیت سے ان کے لئے قابل تقلید مثال ہوتے ہیں۔ اگر وہی واجب الادا محصولات ادا نہ کریں یا ان کی مکمل ادائیگی میں ہیرپھیر اور ٹال مٹول سے کام لیں تو وہ عام شہریوں کے لئےبری مثال بنتے ہیں۔ اس کے بعد قانونی نہ سہی کم از کم اخلاقی طور پر ان کے پاس عوام سے ٹیکسوں کی ادائیگی کا مطالبہ کرنے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا۔تاہم ارکان اسمبلی کی اس ٹیکس ڈائرکٹری کے مطابق جنھوں نے ٹیکس دیا ہے ان میں سے بھی بیشتر کی ٹیکس کی رقوم ان کے طرز بودوباش کو دیکھتے ہوئے حیرت انگیز حد تک کم ہیں جس سے ان کے بیان کی درستگی کے بارے میں شکوک و شبہات کا پیدا ہونا فطری بات ہے۔قومی اسمبلی کے ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والے 319 ارکان میں سے 108 نے انکم ٹیکس کی مد میں کوئی رقم ادا نہیں کی۔ جبکہ ٹیکس ادا کرنے والے ارکان قومی اسمبلی میں سے تین کی جانب سے بالترتیب صرف88 روپے،72 روپے اور55 روپے کی مضحکہ خیز حد تک معمولی رقم بطور انکم ٹیکس ادا کی گئی ہے۔ارکان سینیٹ کی جانب سے ٹیکس ادائیگی کی صورت حال نسبتاً بہتر رہی۔ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والے86 ارکان میں سے صرف تین نے کوئی ٹیکس نہیں دیا جبکہ14 سینیٹرز نے ٹیکس رول پر اپنا نام ہونے کے باوجود ریٹرن فائل نہیں کرایا۔پنجاب اسمبلی کے 353ٹیکس گوشوارے داخل کرانے والے ارکان میں سے176 نے کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا جبکہ ٹیکس رول پر نام ہونے کے باوجود ریٹرن فائل نہ کرنے والے ارکان کی تعداد18 رہی۔سندھ اسمبلی کے ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والے153 ارکان میں سے95 نے انکم ٹیکس کی مد میں کوئی رقم سرکاری خزانے میں جمع نہیں کرائی۔یہاں 15 ارکان نے ٹیکس رول پر نام ہونے کے باوجود گوشوارے جمع نہیں کرائے۔خیبر پختون خوا اسمبلی کے ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والے97 ارکان میں سے 61 نے کوئی انکم ٹیکس ادا نہیں کیا جبکہ27 نے ٹیکس رول پر اندراج ہونے کے باوجود گوشوارے جمع نہیں کرائے۔بلوچستان میں ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والے 61 میں سے 44 ارکان نے اپنی آمدنیوں پر کوئی ٹیکس نہیں دیا جبکہ چار ارکان نے ریٹرن فائل کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ جو مزید معلومات اس ڈائرکٹری کے ذریعے قوم کے سامنے آئی ہیں ان سے یہ محیر العقول انکشاف ہوتا ہے کہ ہمارے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی میں سے بہت بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جو کار، بینک اکاؤنٹ، زیورات اور شیئرز نہیں رکھتے۔ ارکان اسمبلی کی اکثریت کی جانب سے ظاہر کی جانے والی یہ معلومات بظاہر ناقابل یقین ہیں۔ ان کی بھاری تعداد کا یہ دعویٰ کہ ان پر انکم ٹیکس لاگو ہی نہیں ہوتا قابل تحقیق ہے۔ غلط بیانی کے مرتکب ارکان آئین فی الحقیقت بددیانتی کے مرتکب ہوئے ہیں اور آئین پاکستان کی رو سے ایسے افراد پارلیمنٹ کی رکنیت کے اہل ہی نہیں ۔ اس لئے یہ عمل ٹیکس دائرکٹری کی شاعت تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ غلط بیانی کے مرتکب ارکان سے تحقیقات کے بعد باز پرس بھی ہونی چاہئے اور قانون کے مطابق کارروائی بھی ۔ تاہم حکومت اگر اپنی مصلحتوں کی بناء پر ایسا نہ کرسکے تو عوام کو یہ فیصلہ ضرور کرلینا چاہیے کہ آئندہ انتخابات میں وہ غلط بیانی سے کام لینے والے افراد کو ووٹ نہیں دیں گے۔

اعلامیۂ امن
ہفتہ کے روز لاہور میں حکومت طالبان مذاکرات کے حوالے سے منعقد کئے جانے والے علماء و مشائخ کے کنونشن کے اختتام پر جاری کئے جانے والے ایک مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دونوں فریق فوری طور پر جنگ بندی کا اعلان کریں، ہتھیاروں کی بجائے امن کی زبان میں بات کی جائے کیونکہ طاقت کے استعمال سے ملک میں ایک نہ ختم ہونے والے خون خرابے کا آغاز ہو جائے گا اس لئے اگر مذاکرات ناکام ہوں تو بھی طاقت استعمال نہ کی جائے ۔
اگرچہ علماء کرام اور مشائخ عظام کا بڑی تعداد میں اس کنونشن میں شرکت کرنا اور حکومت طالبان بات چیت کو طاقت کا آپشن استعمال کئے بغیر ڈائیلاگ اور مکالمے کے ذریعے حل کرنے پر زور دینا غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اور اس امر کا تاثر دیتا ہے کہ مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کی ایک بڑی تعداد دہشت گردی کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی خواہاں ہے لیکن اس کنونشن میں تشنگی کا یہ پہلو بہر طور موجود ہے جسے فرقہ واریت کی چھاپ سے الگ کر کے دیکھنا مشکل ہے کیونکہ یہ ایک ہی مسلک کی جماعتوں اور تنظیموں کی عکاسی کرتا ہے اور اسے تمام مکاتب فکر کا نمائندہ اجتماع قرار دینا مشکل ہے اگر جمعیت علماء اسلام ف، دیگر مذہبی جماعتوں اور اہل تشیع کی بھی باضابطہ طور پر اس میں شرکت یقینی بنانے کا اہتمام کر لیا جاتا تو مشترکہ اعلامیہ کی ہمہ گیری اور وسعت بہت زیادہ مثبت اثرات کی حامل ہوتی اسی طرح اگر مسلم لیگ ن پی پی پی اور تحریک انصاف بھی اس میں شامل ہو جائیں تو سیاسی و مذہبی اعتبار سے اس کی نمائندہ حیثیت کہیں زیادہ پُر اثر ہوتی ہماری معاصر تاریخ میں مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے متحدہ علماء کونسل تشکیل دے کر وحدت ملی کو مضبوط کرنے کے لئے جس طرح تمام مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا تھا اگر اسی طرز پر اس کنونشن کو بھی ممکن حد تک جامع بنایا جاتا تو اس کے اثرات کہیں زیادہ وسیع اور دوررس اہمیت کے حامل ہوتے۔

معاشی اور تعلیمی گولیاں!
پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک میں دہشت گردی اور انتہاء پسندی کو ختم کرنے کے لئے ہمیں معاشی اور تعلیمی گولی استعمال کرنا ہو گی۔ افواج پاکستان انتہاء پسندی کے خاتمے اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے اور کسی حد تک درست بھی ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں بے روزگار نوجوانوں کو ورغلا کر استعمال کر رہی ہیں۔ انتہاء پسندانہ رجحانات کے سدباب کے لئے اس مائیڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جو لوگوں کو اس جانب دھکیلتے ہیںاس حقیقت سے بھی کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ عزم و حوصلے کے ساتھ نیت نیک ہو تو ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن موجودہ صورتحال میں شدت پسندی کو فروغ دینے والے رویوں کوبندوق کی گولی سے نہیں بلکہ تعلیم و صحت اور روزگار کے مواقع عام کر کے ہی کم کرنا ہی صحیح لائحہ عمل ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے کسی حد تک مسئلے کی درست نشاندہی کی ہےلیکن یہ بھی پیش نظر رکھا جانا چاہئے کہ گولی یا تو طاقت کی ہوتی ہے یا بیماری کو ختم کرنے کے لئے دوا کے طور پر استعمال کی جاتی ہے جبکہ اس وقت دہشت گردی اور انتہاء پسندی ملک کا اہم ترین مسئلہ ہے اور اس پر قابو پانے کے لئے صحت، تعلیم اور روزگار مہیا کرنے کے علاوہ جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس پر صبر و تحمل کے ساتھ عملدرآمد کرنے سے ہی اس کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے برسراقتدار آتے ہی جہاں ملک میں امن بحال کرنے کے لئے مذاکرات کا جمہوری اور صحیح راستہ اختیار کیا ہے وہیں روزگار کے ذرائع مہیا کرنے کے لئے یوتھ لون سکیم اور دوسرے پراجیکٹ پر عملدرآمد کو تیز تر کرنے کی ہدایت کی ہے۔ تاہم ضرورت ہے کہ انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ایک جامعہ منصوبہ بندی مرتب کی جائے جس کے تحت قلیل المدت اور طویل المدت پراجیکٹس بنائے جائیں خصوصاً شمالی علاقہ جات میں صنعتی و تجارتی ترقی کے لئے جن منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے ان کو ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیا جائے اس کے دوررس نتائج مرتب ہوں گے۔
تازہ ترین