ہندوستان میں مسلمانوں بالخصوص حیدر آباد کی مملکتِ آصفیہ کے دورِ حکومت میں دیگر علاقوں کی طرح مراٹھواڑہ میں بھی اردو زبان و ادب کو غیر معمولی عروج اور شُہرت ملی۔ اُس دَور میں مراٹھواڑہ نے اردو زبان و ادب کے ایک زرخیز خطّے کی حیثیت سے ایسے علما، شعرا اور مصنّفین پیدا کیے، جن کا تخلیق کردہ ادب اور علمی و دینی نثر پارے پورے جنوبی ایشیاکی اسلامی تہذیبی و ادبی تاریخ میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ اُس زمانے کے مسلمان محقّقین اور مؤرخین نے ایسی شان دار تصانیف اور تواریخ مرتّب کیں، جو ہمارے لیے معلومات کے بیش بہا ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں۔
ان میں نصیر الدّین ہاشمی کی تصنیف، ’’دکن میں اردو‘‘، محی الدّین قادری زور کی تصانیف، ’’دکنی ادب کی تاریخ‘‘، ’’اردو شہ پارے‘‘ اور ’’داستانِ ادبِ حیدر آباد‘‘، رفیعہ سلطانہ کی تصنیف، ’’اردو نثر کا آغاز و ارتقا (انیسویں صدی سے قبل)‘‘ اور محمد علی اثر کی مرتّب کردہ،’’دکنی اور دکنیات؛ ایک وضاحتی کتابیات‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔
علاوہ ازیں، پورے ہندوستان کی سطح پر اردو ادب کے حوالے سے لکھی گئی جامع تواریخ جیسا کہ ’’تاریخِ ادبِ اردو (جِلد اوّل)‘‘ از ڈاکٹر جمیل جالبی، ’’علی گڑھ، تاریخِ ادبِ اردو (جِلد اوّل)‘‘ از علی گڑھ یونی ورسٹی، اور ’’تاریخِ ادبِ اردو‘‘ از ڈاکٹر تبسّم کاشمیری و ڈاکٹر گیان چند ، سیّدہ جعفر کی ’’تاریخِ ادب ِاردو‘‘ (چارجلدیں) اور نفیس الدّین فریس کی’’تاریخِ ادب ِاردو‘‘ وغیرہ دکنی ادب کے آغاز و ارتقا سے متعلق معلومات کے بیش بہا خزینے ہیں اور تحقیق کا یہ سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہے۔
اس سلسلۂ تواریخ کے ساتھ ایک متوازی سلسلۂ تصانیف وہ بھی ہے، جو تذکرۂ ہائے شعرا و مصنّفین کی صُورت مختلف محققین و مصنّفین کی کوششوں سے منظرِ عام پر آتا رہا ہے اور اٹھارویں صدی کے وسط میں قائم ہونے والی یہ مستحکم روایت آج بھی قائم ہے، جس کی ایک جدید اور خاصی مبسوط مثال ’’حیدر آباد کے شاعر‘‘ اور ’’حیدر آباد کے ادیب‘‘ (مرتّبہ، زینت ساجدہ اور سلیمان اریب) ہیں۔ یہ تصانیف دُنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے حیدر آباد دکن کے شعرا اور ادبا کےتذکرے پر مشتمل ہیں۔
دوسری جانب مذکورہ بالا تصانیف کے ساتھ ایسے تحقیقی مطالعے اور تنقیدی جائزے بھی وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے، جو کہیں مبسوط اور کہیں جزوی طور پر بلدہ ٔحیدر آباد سمیت سابقہ مملکتِ آصفیہ کے دیگر شہروں اور علاقوں کے ادبا و شعرا کے احوال، تذکروں اور مطالعات و تعارف پر مشتمل ہیں۔ اس ضمن میں ’’محبوب الزمن، تذکرۂ شعرائے دکن‘‘ از عبدالجبار خاں ملکا پوری، ’’تذکرۂ سُخن ورانِ دکن‘‘ از تسکین عابدی، ’’سخن ورانِ حیدر آباد‘‘ از سیّد بشیر احمد، ’’پُھول بن (تذکرہ شعرائے دکن)‘‘ از سکندر نامی اور ایک حد درجہ معیاری و مبسوط تصنیف، ’’دکن میں اردو شاعری، ولی سے پہلے‘‘ (مصنّف :محمد جمال شریف، مرتّبہ:محمد علی اثر) قابلِ ذکر ہیں۔ زیرِ نظر مضمون میں تواریخ اور تذکروں کے جتنے بھی حوالے ضبطِ تحریر میں لائے گئے ہیں، یہ سب ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ کے مصداق اور محض اس بات کا اشارہ ہیں کہ ہندوستان میں اردو ادب کی تاریخ کے موضوع پر مختلف ادوار میں کیسی کیسی تصانیف سامنے آتی رہیں، جن کی نظیر ہندوستان کے دیگر علاقوں اور ریاستوں میں بہ مشکل ہی ملتی ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، تو اس کی ایک حالیہ مثال علیم الدّین علیم کی کاوش، ’’تذکرۂ شعرائے مراٹھواڑہ‘‘ہے۔ مذکورہ تصنیف میں خاص طور پر مراٹھواڑہ کے شعرا اور اُن کے کلام کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ گرچہ مراٹھواڑہ کے نمایندہ ، معروف شعرا کا تذکرہ مملکتِ آصفیہ حیدر آباد دکن کی اردو شاعری سے متعلق سامنے آنے والی تصانیف میں بھی ملتا ہے، جس کی ایک بہت عُمدہ مثال ’’مراٹھواڑہ میں اردو شاعری‘‘ از سلیم محی الدّین ہے، لیکن وہ ایک عمومی جائزے اور مطالعے پر مبنی ہے اور اُس تصنیف میں صرف صفِ اوّل و دوم کے شعرا کا احاطہ کیا گیا ہے، جب کہ مقامی اور کم معروف شعرا کا تذکرہ مشکل ہی نظر آتا ہے، جو قابلِ فہم بھی ہے، لیکن بہر حال، ایسے شعرا، ادبا اور مصنّفین کا بھی، جن کی شُہرت بوجوہ اپنے علاقوں ہی تک محدود رہی، یہ حق ہے کہ اُن کی شناخت بھی اُن کے علاقوں کی نسبت سے شمار میں آئے اور جب علاقائی مناسبت سے ادب کی تاریخ مرتّب ہو، تو اُن کا ذکر بھی اس تاریخ میں متعلقہ سطح پرشامل ہو۔ یوں علیم الدّین کی یہ کاوش نہ صرف مراٹھواڑہ کی تاریخ و تہذیب کے ایک خلا کو پُر کرنے کا سبب بنی بلکہ یہاں کے گوشہ نشین یا غیر معروف شعرا کو ادبی دُنیا سے متعارف کروانے کا وسیلہ بھی ثابت ہوئی۔ لہٰذا، اس تصنیف میں شامل شعرا، چاہے وہ عہدِ ماضی سے تعلق رکھتے ہوں یا عصرِ حاضر میں اپنی تخلیقی جولانیاں دکھارہے ہوں، یقیناً مؤلف کی اس توجّہ اور کاوش پر اُن کے ممنون رہے ہوں گے کہ ؎اپنا لہو بھی سرخیِ شام و سحر میں ہے۔
’’تذکرۂ شعرائے مراٹھواڑہ‘‘ میں جن شعرا کا ذکر کیا گیا ہے، اُن میں مراٹھواڑہ کے چھوٹے بڑے قصبات کے علاوہ بیجا پور، گلبرگہ، اورنگ آباد اور حیدر آباد جیسے بڑے علمی و تہذیبی مراکز کے شعرا بھی شامل ہیں، جو اپنی جگہ ایک دبستان کی حیثیت رکھتے ہیں اور بہ طور دبستان مبسوط سے مبسوط و مستقل مطالعات کا موضوع بنتے رہے ہیں۔ نیز، مذکورہ کاوش میں ایسے شعرا کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے کہ جنہوں نے پہلی مرتبہ کسی تصنیف میں جگہ پائی اور ایسے متعدّد تخلیق کار بھی شامل کیے گئے کہ جو اس وقت مراٹھواڑہ کی بہ جائے دُنیا کے مختلف ممالک میں مقیم ہیں۔
علاوہ ازیں، یہ اَمر بھی قابلِ ستایش ہے کہ مؤلف اپنے علمی و ادبی منصوبوں کے سلسلے میں ضروری مواد و مآخذ کے حصول کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے اور اپنی تمام تر جستجو و محنت سے مفیدِ مطلب مواد حاصل کر ہی لیتے ہیں۔ ان کی سابقہ تصانیف و مقالات سے بھی اُن کے معیار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، جب کہ یہ کاوش تو تاریخِ اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ہم ذاتی طور پر بھی مؤلف کے ممنون ہیں کہ مذکورہ تصنیف کا تعلق ہماری جائے پیدائش، اودگیر اور اس کے آس پاس کے شہروں اور اضلاع کے تہذیبی و معاشرتی ماحول سے بھی ہے، جس کی ادبی تاریخ میں بڑی اہمیت اس وجہ سے بھی رہی ہے کہ جس طرح اٹھارویں صدی کے اوائل میں ولی دکنی نے اورنگ آباد سے دہلی جا کر دکنی زبان اور شاعری کے اسالیب سے شمالی ہند کے شعرا کو متعارف کروایا تھا، اسی طرح اودگیر کے بھی ایک نام وَر شاعر، محمد فقیہ درد مند نے ولی کے زمانے ہی میں دہلی جا کر اپنی روحانی وابستگیوں کے نتیجے میں نقشبندیہ سلسلے کے اکابر سے روابط پیدا کیے اور انہیں اپنی شاعری سے حد درجہ متاثر بھی کیا ،جو بعد ازاں تواریخِ ادب کا ایک موضوع بھی بنا۔ گویا مراٹھواڑہ ہی کے دو نمایندہ اور ممتاز ترین شعرا، ولی دکنی اور فقیہ دردمند ہی نے دراصل دکنی زبان اور اس کے شعری اسالیب سے شمالی ہند کو متعارف کروایا اور ایک نہ ختم ہونے والا ادبی و تہذیبی رشتہ استوار کیا، جو آگے چل کر مزید گہرا ہوتا چلا گیا۔
ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’متفرق‘‘
یوم دفاعِ پاکستان، سرتاج الانبیاء حضرت محمدﷺ کا اسوۂ حسنہ، سرورِ کونین، خاتم النبیینﷺ کی سیرتِ طیبہ (مولانا قاری محمد سلمان عثمانی) ٭نئے گیس کنیکشنز پر پابندی، جدید غلامی سے نجات کا عالمی دن(صغیر علی صدیقی، کراچی) ٭وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا (اسما معظّم،کراچی) ٭پانی، اُسوۂ رسولﷺ پر دَورِ حاضر میں عمل، ختمِ نبوتؐ (ارسلان اللہ خان، کراچی) ٭آسمان کا آخری تحفہ(ڈاکٹر طاہر محمود، لاہور) ٭فلسطین کے مجاہدوں کے نام (بتول آرائیں) ٭لینڈ مافیا کا علاج (ثاقب خان) ٭میرے درد کو جو زبان ملے (ماریہ حسان) ٭کیوں کر خس و خاشاک سے دب جائے مسلمان، قائدِ اعظم اور فلسطین (ریطہ فرحت)٭تعلیم اور نوجوان (طیّبہ سلیم، کراچی) ٭برداشت کا عالمی دن (نعمان حیدر حامی، بھکر) ٭اقبال، ایک ذی فہم شاعر (عبدالجبّار سلہری) ٭پردہ گرتا ہے(جبیں نازاں)٭تھوڑی سی انسانیت (شائستہ عابد) ٭غزوۂ موتہ اور غزہ معرکہ(حافظ بلال بشیر) ٭بینکرز نائٹ (خواجہ تجمّل حسین، کراچی) ٭ماحولیاتی مسائل (رمضان مغل) گھریلو تشدد کی شکار رضوانہ اور طبی عملے کی کاوشیں (نادیہ ارشد)٭ معلومات تک رسائی (مبشّرہ خالد) ٭بڑھتی آلودگی اور اس کا تدارک(سیّد محمد نبیل جیلانی) ٭اسلامیانِ برصغیر کے محسن ( حکیم راحت نسیم سوہدروی)۔