کراچی مزید ’خون خرابہ‘ کا متحمل نہیں ہوسکتا ،بہت خون دیکھ لیا۔ خون ریاستی لاٹھی پڑنے سے کسی کے زخمی ہونے کی وجہ سے نکلے یا کسی کی گولی سے کوئی سیاسی کارکن شہید ہوجائے! اس شہر پر رحم کریں۔ ابھی الیکشن میں 8دن باقی ہیں مگر نجا نے کیوں ایک انجانا سا خوف ہے بس انتخابات خیریت سے ہوجائیں اگر ملتوی ہی کرنا یا کروانا ہےتو بہتر ہےوجوہات کوئی اور تلاش کرلی جائیں۔ لسانی، فرقہ ورانہ اور سیاسی فسادات میں اس ’عروس البلاد‘ نے ایک لاکھ سے زائد لاشیں اٹھائی ہیں پچھلے پچال سال میں۔ یہ بات میں پورے اعتماد اور یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ آگ لگی نہیں لگوائی گئی اور اس کے کئی ظاہری اور پوشیدہ کردار ہیں اس پر پھر کبھی۔ اس وقت بس یہ دعا ہے کہ معاملات مزید نہ بگڑیں۔
کراچی کا ’سیاسی میدان‘ اس وقت مکمل خالی پڑا ہے۔ ایک وقت تھا جب سیاست ’نشتر پارک‘ کے گرد گھومتی تھی جس نے وہاں بڑے جلسے کرلیے وہ کامیاب۔ ذاتی طور پر میں خود ان جلسوں کا گواہ ہوں بحیثیت طالبعلم بھی اور صحافی بھی۔ یہ وہ وقت تھا جب سیاست رواداری اوربرداشت کا نام ہوتی تھی مولانا شاہ احمد نورانی ہوں یا پروفیسر غفور، پروفیسر این ڈی ہوں یا امین خٹک۔ یہ گلی محلوں کے لوگ تھے اور وہیں ملاقاتیں ہوجاتی تھیں۔ کبھی راہ چلتے تو کبھی ایک دوسرے کے گھروں میں۔ الیکشن کا وقت آتا تو اختلافی تقاریر بھی ہوتیں اور اپنے سیاسی نظریات کا پرچار بھی مگرکسی نے تہذیب کا دامن کبھی نہ چھوڑا۔ کم و بیش ملک کی سیاست میں بھی یہی رنگ حاوی رہا۔ طلبہ یونینز بھی متحرک تھیں جامعات اور کالجوں میں بھی طلبہ تنظیمیں حصہ لیتی تھیں تھوڑی بہت مارا ماری ہوجاتی تھی مگر دونوں طرف کے سمجھدار لوگ معاملے کو ٹھنڈا کرلیتے تھے۔
پھر سیاسی میدان ’نشتر پارک‘ سے قریبی باغ جناح منتقل ہوگیا جس کی ایک بڑی وجہ چالیس سال میں بڑھتی آبادی بھی ہے۔ یہ میدان پارک سے بہت زیادہ بڑا ہے نصف بھی بھر جائے تو جلسہ کامیاب۔ اب نشتر پارک لینڈ مافیا سے بچ پائے گا کہ نہیں بظاہر مشکل لگتا ہے کیونکہ مافیا کے ساتھ سیاسی تڑکہ بھی لگ جاتا ہے۔ خیر سیاست سے رواداری جاتی رہی اور معاشرے سے برداشت۔ پہلی افغان جنگ کے بعد کراچی میں بھی ایک جنگی ماحول پیدا کردیا گیا۔ افغان جہاد کے نام پر اس شہر کے ساتھ جو کھلواڑ ہوا وہ خوفناک تھا۔ سہراب گوٹھ پر بڑی تعداد میں ہیروئن اور اسلحہ زمین میں دفن کیا جاتا پھر شہر میں تقسیم، جس کے اثرات سب سے پہلے تعلیمی اداروں خاص طور پر جامعات میں محسوس ہوئے۔ یہ سیاست میں تشدد کی ابتدا تھی۔ نفرت کا یہ پودا جو ضیاء آمریت نے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے لگایا اس نے نہ صرف سندھ میں سیاسی تقسیم کو لسانی رنگ دلوایا بلکہ شہر جہاں کبھی فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوئے تھے نہ ہی اس قسم کی تنظیموں کا وجود تھا وہ سب تیارکی گئیں اور یوں سیاسی میدان جنگی میدان میں تبدیل ہوگیا۔ کراچی کے سیاسی فیصلے بدلتے رہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب اس شہر کو ’حزب اختلاف‘ کا شہر تصور کیا جاتا تھا۔ ایوب خان کے الیکشن میں فاطمہ جناح کو ووٹ دیا اور طاقتوروں کی مخالفت مول لی جس نے شہر میں پہلے لسانی فسادات کروائے۔ 1970ء کے الیکشن میں شہری سندھ بشمول کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر دائیں بازو کی جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان کے پاس تھا مگر اس وقت بھی دوسری جماعت پی پی پی ہوتی تھی۔ اسکے پہلے دور میں جس طرح زبان کے مسئلے پر سیاست کی گئی دونوں طرف سے اس لسانی کشیدگی میں اضافہ ہوا جس کو آگے جاکر ضیاء نے استعمال کیا پہلے قومی اتحاد کی تحریک میں پھر مارشل لا کے ابتدائی برسوں میں۔
1985ء کے غیر جماعتی بنیادوں پرہونے والے انتخابات میں جماعت اسلامی اور جے یو پی کو پہلا سیاسی جھٹکا لگا جب محمود اعظم فاروقی، شاہ فریدالحق جیسے لوگ بھی ہار گئے۔ اس سال شہر میں پہلا بڑا لسانی فساد ہوا بظاہر وہ ایک طالبہ بشریٰ زیدی کی حادثے میں موت تھی مگر وہ کئی لاشیں لے گئی۔ پھر مہاجر سیاست کا رنگ جس کی جھلک جماعت اور جے یو پی کے روپ میں بھٹو صاحب کے دور میں نظر آئی اب مکمل طور پر سیاسی رنگ مہاجر قومی موومنٹ کی شکل میں نظر آئی۔پہلا جلسہ اسی نشترپارک میں اور بات سندھی مہاجر اتحاد کی ،جی ایم سید کے ساتھ مل کر چلنے کی بات۔ پی آئی اے کو پنجاب ایئرلائن کہا گیا۔ بعد میں کچھ نامعلوم ہاتھوں کے ہاتھوں جو کچھ دیکھا وہ صرف خون تھا۔ قتل عام کا جو سلسلہ اس وقت سے شروع ہوا وہ اب تک تھم نہیں پارہا۔
بہرحال 1987ء اور پھر 1988ء سے ایم کیو ایم کی انتخابات میں کامیابی کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ کم و بیش 2013ء تک جاری رہا۔2013ء کے الیکشن میں ایک نئی سیاسی قوت ابھر کر آئی پاکستان تحریک انصاف ،2018ء میں تحریک لبیک اور اس کا زیادہ سیاسی نقصان ایم کیو ایم کو ہوا لیکن جماعت اسلامی کو لبیک کے آنے سے نقصان نہیں ہوا البتہ انکی اپنی سیاسی پوزیشن بہتر نہیں ہوئی۔ جب تک خود ایم کیو ایم میں مزید شگاف نہیں پڑا۔ 12؍مئی 2007ء اور 22؍اگست 2016ء دو ایسے واقعات ہیں جو پارٹی کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ اس صورتحال کا کچھ فائدہ جماعت کو پہنچنا شروع ہوا مگر اصل فائدہ پی ٹی آئی کو ہوا۔ جماعت کے فائدےکی ایک بڑی وجہ حافظ نعیم الرحمان ہیں جنہوں نے اس سیاسی بے یقینی میں خاصہ زور لگایا ہے ،جناب نعمت اللہ کے بعد جماعت میں نعیم کے وقت جان پڑی ہے مگر کیا وہ عام انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستیں لے پائے گی ؟۔ جو کچھ اس وقت ریاست کررہی ہے اس سے پی ٹی آئی کا ووٹر ردعمل میں بڑھا ہے اور غیرجانبدار ووٹر خاص طور پر نوجوان اس کو ووٹ دینے کو تیار ہے۔ تاہم پی ٹی آئی بری طرح تنظیمی بدنظمی کا شکار ہے، اب سب نظریں اس کے ووٹرز پر ہیں۔پی پی پی سب سے زیادہ تنقید کا شکار رہی کیونکہ مسلسل 15سال سےیہاں اقتدار میں ہے۔ 2018ء میں انکے پاس تین قومی اسمبلی کی سیٹیں تھیں بعد میں دو اور کا اضافہ ہوا۔ اب انکی نظریں سات یا آٹھ پر ہیں۔ان تمام جماعتوں میں سب سے زیادہ کون لے جاسکتا ہے اس کا ’فیصلہ‘ ہونا ابھی باقی ہے۔ ایم کیو ایم کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی سیٹیں واپس لے گی۔ جبکہ جماعت اسلامی خاصی پُرامید ہے کہ یہ الیکشن ان کیلئے بہتر نتائج لائے گا۔
بظاہر کراچی کے انتخابی نتائج ایک ’مکس پلیٹ‘ کی مانند نظر آرہے ہیں بس فیصلہ یہ ہونا باقی ہے کہ اس میں ’آزاد امیدواروں‘ کا کتنا تڑکہ لگانا ہے۔ اب اگر یہ ذرا زیادہ مرچ مسالے والا لگ گیا تو کہیں بدہضمی نہ ہو جائے۔