سہیل وڑائچ
ماجد نظامی
عادل منیر، شیراز قریشی
عبداللہ لیاقت، مجتبیٰ نقوی، حنا خان
الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت تمام سیاسی جماعتیں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات میں کم ازکم پانچ فیصد خواتین امیدوار نامزد کرنے کی پابند ہیں۔ لیکن تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں یا تو اس شق پر عمل نہیں کرتیں یا محض کوٹہ پورا کرنے کے لیے ایسی نشستوں پر خواتین کو ٹکٹ جاری کر دیے جاتے ہیں جہاں سے ان کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ تاہم 8فروری 2024 کو متوقع انتخابات میں جہاں خواتین امیدواروں کی تعداد میں 82 فیصد اضافہ ہوا ہے وہیں بہت سے ایسے حلقے بھی ہیں جہاں سے خواتین جیتنے کے لیے براہ راست مقابلہ کر رہی ہیں۔
جن میں پاکستان مسلم لیگ ن کی مریم نواز، سائرہ افضل تارڑ، تہمینہ دولتانہ، پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ ڈاکٹر یاسمین راشد، زرتاج گل وزیر، عائشہ نذیر جٹ، اسی طرح گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس سے سائرہ افضل، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، ڈاکٹر راحیلہ مگسی، پاکستان پیپلزپارٹی سے شازیہ عطاء مری، نفیسہ شاہ، استحکام پاکستان پارٹی سے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور دیگر آزاد خواتین امیدوار شامل ہیں۔ تاہم2018کے انتخابات میں صرف آٹھ خواتین براہ راست الیکشن جیت کر قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔
ان میں پیپلز پارٹی کی نفیسہ شاہ، شازیہ مری اور شمس النسا بھی شامل تھیں۔ ان ہی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر غلام بی بی بھروانہ اور زرتاج گل نے بھی جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کی ۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی مہناز اکبر عزیز، بلوچستان عوامی پارٹی کی زبیدہ جلال اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی جانب سے سابق سپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئی تھیں۔
پاکستانی سیاست میں قیام پاکستان سے لے کر موجودہ دور تک بہت سی خواتین نے نمایاں خدمات انجام دی ہیں جن کی تفصیل قارئین کی نذر ہے۔
محترمہ فاطمہ جناح
مادرِ ملت کے نام سے جانی جانے والی فاطمہ جناح کا شمار پاکستان کی تحریک آزادی کے اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ان سے محبت اور عقیدت کا بڑا سبب یہی ہے کہ وہ اپنے بھائی قائدِ اعظم محمد علی جناح کی پرجوش حامی تھیں، لیکن فاطمہ جناح کی اپنی شخصیت بھی کچھ کم اہم نہیں۔فاطمہ جناح 1893 میں پیدا ہوئیں اور1901میں والد کی وفات کے بعد وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ رہنے لگیں۔ تاہم میدانِ سیاست میں وہ اپنے بھائی کے شانہ بشانہ رہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی تشکیل ہوئی تو محترمہ فاطمہ جناح بمبئی صوبائی ورکنگ کمیٹی کی رکن بن گئیں اور 1947 تک اس میں کام کرتی رہیں۔
مارچ 1940 میں انہوں نے مسلم لیگ کے قراردادِ لاہور کے جلسے میں بھی شرکت کی۔ محترمہ فاطمہ جناح کی کوششوں کی بدولت ہی فروری 1941 میں دہلی میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی۔ تقسیمِ ہند اور اقتدار کی منتقلی کے دوران فاطمہ جناح نے خواتین کی امدادی کمیٹی بنائی اور یہی وہ تنظیم تھی جس نے بعد میں آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن (اپوا) کی شکل اختیار کر لی جس کی بنیاد رعنا لیاقت علی خان نے رکھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد مہاجرین کی آبادکاری کے لئے انہوں نے بے پناہ کام کیا۔ بعد ازاں وہ میدانِ سیاست میں بھی واپس آئیں اور صدرِ پاکستان کے انتخابات میں حصہ لیا۔
بیگم نصرت بھٹو
ان کا تعلق ایران سے تھا۔ وہ سابق وزیر اعظم اور بانی پاکستان پیپلز پارٹی کی شریک حیات تھیں ، جنہوں نےذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی باگ دوڑ سنبھالی۔ ان کی اولاد میں بینظیر بھٹو، مرتضی بھٹو، شاہنواز بھٹو اور صنم بھٹو شامل ہیں۔ نصرت بھٹو 1996میں محترمہ بے نظیر کے حکومتی دور میں میر مرتضیٰ بھٹو کے ماروائے عدالت قتل کے بعد ذہنی توازن کھو بیٹھی اور ا آخری ایام تک بے نظیر بھٹوکے خاندان کے ساتھ دبئی میں مقیم رہیں اور 23 اکتوبر2011اتوار کو دبئی میں انتقال کر گئیں۔
بے نظیر بھٹو
بے نظیر بھٹو پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔وہ ایشیا میں بھی خواتین رہنما کے طور پر پاکستان کی پہچان تھیں ۔ پاکستان کے پہلے انقلابی راہنما ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی ہونے کی وجہ سے ان کی زندگی سیاست کے اتار چڑھاؤ میں رہی۔ بے نظیر بھٹو دو بار وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر فائز رہیں مگر مدت مکمل نہ کر سکیں۔
اپنی سیاسی زندگی کے ابتدائی ایام میں ہی انہوں نے اپنے والد کے سیاسی دشمنوں کی طرف سے انتقامی کارروائیوں کا سامنا کیا ۔ صعوبتیں اور تکالیف برداشت کیں ۔ ان کے والد ذو الفقار علی بھٹو کی دلیرانہ شہادت اور ان کے عوام دوست رویوں کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی اپنے عروج تک پہنچی، 2007ء میں ان کی غیر متوقع موت نے پاکستان کے سیاسی حالات کو بدل کر رکھ دیا۔
بیگم نسیم ولی خان
یہ عوامی نیشنل پارٹی کی مایہ ناز خاتون رہنماتھیں۔ وہ خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں عوامی نیشنل پارٹی کی پارلیمانی لیڈر اور اس کی سابق صوبائی صدر رہیں۔ یہ قدامت پسند سیاسی گھرانے سے تھیں اور میدانِ سیاست میں وہ 1975 میں اس وقت منظر عام پر آئیں جب اُن کے شوہر اور پشتون قوم پرست جماعت نیشنل عوامی پارٹی کے صدر ولی خان کو گرفتار کر لیا گیااور اُس وقت کے وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اُن کی پارٹی پر پابندی عائد کر دی۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں بیگم نسیم ولی خان نے اے این پی کی باگ دوڑسنبھال لی اور حیدرآباد جیل سے اپنے شوہر اور این اے پی کے درجنوں ساتھیوں کی رہائی کے لئے ایک کامیاب مہم چلائی۔
اپنی سیاست کے ابتدائی دنوں میں ہی بیگم ولی خان نے اس وقت ایک نئی تاریخ رقم کی جب وہ 1977کے عام انتخابات میں جنرل نشست پر خیبرپختونخوا سے منتخب ہونے والی پہلی خاتون بنیں اور مسلسل تین بار اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ انہوں نے اے این پی کی صوبائی صدر کی حیثیت سے بھی تین بار خدمات انجام دیں۔ بعض سیاسی اختلافات کی بناء پر بیگم نسیم ولی خان نے 2014 میں عوامی نیشنل پارٹی (ولی) کے نام سے اپنی سیاسی جماعت کا آغاز کیا۔ وہ اپنی پارٹی بنانے والی چارسدہ کی پہلی پختون خاتون تھیں۔
بیگم تہمینہ دولتانہ
بیگم تہمینہ دولتانہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ ممتاز دولتانہ کے بھائی ریاض دولتانہ کی بیٹی ہیں۔ بیگم کلثوم نواز کے ساتھ مشرف دور میں اے آر ڈی بنانے میں انہوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔ علاوہ ازیں ضلع وہاڑی سے الیکشن میں منتخب ہوئیں۔ اس بار یہ این اے 158 وہاڑی سے الیکشن لڑرہی ہیں اور ان کا مقابلہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار طاہر اقبال سے ہے۔ بیگم تہمینہ دولتانہ زیادہ تر مخصوص نشست پر ہی ایوان بالا میں آتی ہیں۔
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان
این اے 70 سیالکوٹ سے استحکام پاکستان پارٹی کی جانب سے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان انتخاب لڑ رہی ہیں۔ فردوس عاشق اعوان دو مرتبہ ممبر قومی اسمبلی رہ چکی ہیں، اس کے علاوہ وہ تحریک انصاف کی حکومت میں وزیراعظم پاکستان اور پھر وزیر اعلیٰ پنجاب کی خصوصی مشیر بھی رہی ہیں۔ یہ ایک روائتی حلقہ ہے جہاں ان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے ارمغان سبحانی سے ہوگا۔ ارمغان سبحانی کئی مرتبہ ایم پی اے اور ایم این اے رہ چکے ہیں۔
ان کے والد عبدالستار وریو اور چچا چوہدری اختر علی وریو کئی بار ممبر قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ اس حلقے سے 5 مرتبہ چوہدری امیر حسین مرحوم ممبر قومی اسمبلی اور سپیکر قومی اسمبلی بھی رہے۔ اس کے علاوہ اس حلقے سے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار حافظ احمد رضا آزاد کشمیر اسمبلی میں متحرک رہے ہیںاور اب پاکستان کی سیاست میں حصہ لے رہے ہیں۔پیپلز پارٹی سے سید اشتیا ق الحسن گیلانی اور تحریک لبیک سے محمد شاہدبھی اس حلقے سے امیدوار ہیں۔
مہرین انور راجہ
سابق وزیر مملکت اور پاکستان پیپلز پارٹی کی امیدوار برائے قومی اسمبلی مہرین انور راجہ این اے 51مری کم پنڈی سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔گزشتہ انتخابات میں اس حلقے سے مسلم لیگ ن سیٹ جیتتی رہی ہے۔ یہ حلقہ شاہد خاقان عباسی کا حلقہ ہے جو کہ اس مرتبہ الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے۔ تاہم سابق صوبائی وزیر و جنرل سیکرٹری مسلم لیگ ن پنجاب راجہ اشفاق سرور کے بیٹے راجہ اسامہ اشفاق اس حلقے سے الیکشن میدان میں اتر رہے ہیں۔
سائرہ افضل تارڑ
سائرہ افضل تارڑ سابق صدر رفیق تارڑ کی بہو اور سابق ایم این اے افضل حسین تارڑ کی بیٹی ہیں۔ میاں افضل حسین تارڑ نے 2008 میں اپنی بیٹی سائرہ افضل تارڑ کو انتخابی میدان میں اتارا تھا،جو کہ پہلی مرتبہ 2008 کے جنرل الیکشن میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئیں جبکہ 2013 کے جنرل الیکشن میں اسی حلقہ سے دوسری بار منتخب ہو کر ایوان زریں کا حصہ بنیں۔
2018 میں ہونے والے عام انتخابات میں وہ اپنے روائتی حریف شوکت بھٹی سے الیکشن ہار گئیں۔ موجودہ انتخابات میں ان کا مقابلہ این اے 67 حافظ آباد سے انیقہ مہدی بھٹی سے ہے جو کہ تحریک انصاف کی حمایت یافتہ امیدوار ہیں۔
ڈاکٹر نفیسہ شاہ
نفیسہ شاہ 2001 سے 2007 تک ضلع خیرپور کی ناظم کے طور پر خدمات انجام دیتی رہیں۔ 2008اور 2013 کے عام انتخابات میں وہ سندھ سے خواتین کی مخصوص نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ جبکہ 2018کے عام انتخابات میں انہیں حلقہ این اے 208 سے پاکستان پیپلز پارٹی کی امیدوار کی حیثیت سے ایک بار پھر رکن قومی اسمبلی منتخب کر لیا گیا۔ موجودہ انتخابات میں یہ این اے 202 خیرپور سے میدان میں اتریں گی جہاں ان کا مقابلہ جی ڈی اے کے غوث علی شاہ اور پی ٹی آئی کی عنبرین ملک سے ہے۔
ڈاکٹر یاسمین راشد
پاکستان تحریک انصاف کی اہم رکن ڈاکٹر یاسمین راشد مخصوص نشست پر ایم پی اے اور وزیر صحت رہ چکی ہیں۔اس سے قبل وہ اسی حلقہ سے ایک مرتبہ میاں نواز شریف اور پھر عدالت کی جانب سے ان کی نااہلی کے بعد بیگم کلثوم نواز کے مقابلے میں الیکشن لڑیں۔ لیکن دونوں مرتبہ ہار گئیں تھیں ۔ اس مرتبہ پھر ان کا مقابلہ روائتی طور پر قائد مسلم لیگ ن میاں نواز شریف کیساتھ ہے ۔ تمام نظریں اس حلقے پر مرکوز ہیں کیونکہ تحریک انصاف کا ووٹ بینک یہاں پر بڑی تعداد میں موجود ہے۔
شازیہ عطاء مری
2002 کے عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی رکن بنی اور 2008 میں خواتین کی مخصوص نشست پر پیپلز پارٹی کی جانب سے سندھ صوبائی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ جبکہ 2010 تک سندھ کی وزیر اطلاعات بھی رہیں۔ 2013 میں انہوں نے پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کا الیکشن ضلع سانگھڑ سے لڑا اور کامیابی حاصل کی اور 2018 میں بھی اسی حلقے سے کامیابی رہیں۔
ان کے والد عطا محمد مری 1967 میں مشرقی پاکستان کے ممبر، 1970 میں ممبر قومی اسمبلی اور80 کی دہائی میں مجلس شوری کے ممبر بھی رہے ۔جبکہ1990 سے 1993 تک سندھ اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بھی رہے۔ان کی والدہ پروین مری 1985 سے 1986 تک ممبر سندھ اسمبلی رہی۔ اس بار شازیہ مری این اے 209 سانگھڑ سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔
راحیلہ مگسی
سندھ کے ضلع ٹنڈوالہ یار کی بات کریں تو یہاں پر جی ڈی اے کی جانب سے انتخاب لڑنے والوں میں ایک نمایاں نام راحیلہ مگسی کا نظر آتا ہے۔ راحیلہ مگسی 2005 سے 2010تک ضلع ٹنڈوالہ یار کی ناظم رہیں۔ 2013 میں مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی اور 2015 میں مسلم لیگ ن کی سینیٹر منتخب ہوئیں۔2018 میں مسلم لیگ ن سے راہیں جدا کر کے جی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا مگر ناکام ہوگئیں، اس بار راحیلہ مگسی این اے 217 ٹنڈوالہ یار سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔
زرتاج گل وزیر
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما زرتاج گل وزیر 2018میں ڈی جی خان سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 191 سے کامیاب ہو کر وزیر مملکت برائے ماحولیات رہیں۔ قبل ازیں اس حلقے سے 2013 میں سردار اویس احمد خان لغاری اور 2002 میں سردار محمد سیف الدین خان کھوسہ نے کامیابی حاصل کی تھی۔تاہم گزشتہ انتخابات میں انہوں نے اس حلقے میں روایتی طور پر انتہائی بااثر فیملی سے تعلق رکھنے والےلغاری خاندان کے سردار اویس احمد خان لغاری کو شکست دی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار وہ این اے 185 سے پارٹی پوزیشن کمزور ہونے کے باوجود اپنی جیت برقرار رکھ پائیں گی یا نہیں۔
کنول شوزب
1997 میں تحریک انصاف میں شامل ہوئیں۔2018 میں سینیٹ کے الیکشن میں شامل ہوئیں مگر کامیابی نہ حاصل کر پائی۔پھر 2018 میں قومی اسمبلی کی ریزروسیٹ پر منتخب ہوئی۔ اس کے بعد پارلیمانی سیکرٹری بھی رہیں۔ عمران خان کی تحریک عدم اعتماد کے بعد متعدد رہنماؤں کی طرح انہوں نے بھی نشست سے استعفی سے دے دیا۔
تاہم اس بار بہاولپور کے اس حلقے سے ان کا مقابلہ 2 سوتیلے بھائی پاکستان پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار سابق ایم این مخدوم سید علی حسن گیلانی پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار سابق ایم این اے مخدوم سید سیمع الحسن گیلانی سے ہوگا۔
مریم نواز شریف
این اے 119لاہور سے ن لیگ کی سینئر نائب صدر مریم نواز نمایاں امیدوار ہیں۔ اس حلقے کو مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور وہ پہلی بار یہاں سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑرہی ہیں۔ مریم نواز نے 2018 میں بھی اسی حلقے سے کاغذات جمع کروائے تھےلیکن الیکشن سے پہلے ہی انہیں نا اہل کر دیا گیا تھا ۔ 2018 کے انتخابات میں اس حلقے سے مسلم لیگ نواز کے علی پرویز ملک نے تحریک انصاف کے جمشید اقبال چیمہ کوشکست دی تھی۔ 2013 میں متعدد بار ایم این اے رہنے والے پرویز ملک مرحوم یہاں سےکامیاب ہوئے تھے۔ اس حلقے میں مریم نواز کا مقابلہ پی ٹی آئی حمایت یافتہ شہزاد فاروق ،پیپلز پارٹی کے افتخار شاہد اور مرکزی مسلم لیگ ن کے فلاح انسانیت فائونڈیشن سے وابستہ حافظ عبدالرؤف سے ہے۔
مہر بانو قریشی
مہر بانو قریشی پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی بیٹی ہیں جو اپنے والد کی نااہلی کے بعد انہی کے حلقہ انتخاب سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ اس سے پہلے وہ این اے157 کی نشست جو ان کے بھائی زین قریشی نے خالی کی تھی وہاں ہونے والے ضمنی انتخاب میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے سید علی موسیٰ گیلانی سے نشست ہار گئیں تھیں۔ 2024میں بھی ان کا مقابلہ سید علی موسیٰ گیلانی سے ہوگا۔
سیدہ نوشین افتخار
یہ نقشبندی سلسلے کی اہم شخصیت سید افتخار الحسن گیلانی کی بیٹی ہیں۔ والد سید افتخار الحسن گیلانی کی وفات کے بعد 10 اپریل 2021 کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں انہوں نے تحریک انصاف کے علی اسجد ملہی کو شکست دی، یوں پہلی مرتبہ رکن قوم اسمبلی منتخب ہوئیں۔ اس بار پھر این اے 73 ڈسکہ سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں اور ان کے مدمقابل دوبارہ علی اسجد ملی کھڑے ہیں جن کو تحریک انصاف کی حمایت حاصل ہے۔
عالیہ حمزہ
2018 کے عام انتخابات میں پنجاب سے خواتین کی مخصوص نشست پر پاکستان تحریک انصاف کی امیدوار کی حیثیت سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔27 ستمبر 2018 کو وزیراعظم عمران خان نے انہیں وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے ٹیکسٹائل مقرر کیا۔ اپریل 2022 میں تمام تحریک انصاف کے اراکین کے ساتھ انھوں نے بھی قومی اسمبلی کی سیٹ سے استعفیٰ دیا۔ اس بار یہ این اے 118 لاہور سےمیدان میں ہیں اور ان کا مقابلہ حمزہ شہباز شریف سے ہے جبکہ پی پی پی کے شاہد عباس، جماعت اسلامی سے محمد شوکت اور تحریک لبیک سے عابد حسین بھی انتخابی میدان میں اتریں گے۔
سائرہ بانو
سائرہ بانو ایک پاکستانی سیاست دان ہیں جو اگست 2018 سے پاکستان کی قومی اسمبلی کی رکن ہیں۔ ماضی میں وہ فضائی میزبانی کے شعبہ سے منسلک رہی ہیں۔ وہ 2018 کے عام انتخابات میں سندھ سے خواتین کی مخصوص نشست پر گرینڈ ڈیموکر یٹک الائنس (GDA) کی امیدوار کے طور پر پاکستان کی قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئیں۔
تاہم 2024 کے عام انتخابات میں یہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس پارٹی سے این اے 210 سانگھڑ سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں او ر ان کا مقابلہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین کے صلاح الدین جونیجوسے ہے۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے کامران عزیز غوری اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے محمد ذاکر شیخ بھی انتخابات میں حصہ لیں گے۔
شہربانو سلطان بخاری
یہ عبداللہ شاہ بخاری کی پوتی ، باسط سلطان بخاری کی بیٹی ہیں۔ 2024کے عام انتخابات میں ان کے چچا ہارون سلطان بخاری جمیعت علمائے اسلام (ف) سے ان کے مد مقابل این اے 177 سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چچا بھتیجی میں سے کون اس سیٹ پر کامیاب ہوتا ہے۔
ماضی میں میں ہونے والے انتخابات کی بات کی جائے تو 2008 اور 2013 میں اس حلقے سے جمشید احمد خان دستی جبکہ 2018 میں رضا ربانی کھر کامیاب قرار پائے تھے۔ اس بار یہ این اے 177 مظفر گڑھ سے انتخابی میدان میں اتریں گی اور ان کا مقابلہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ معظم جتوئی سے ہوگا۔
غلام بی بی بھروانہ
غلام بی بی بھروانہ 5 مرتبہ ممبر اسمبلی رہنے والے غلام حیدر بھروانہ اور 4 مرتبہ ایم این اے بننے والی سلیم بی بی بھروانہ کی بیٹی ہیں۔ جبکہ ان کے نانا ملک غلام حیدر بھروانہ بھی ایم این اے رہ چکے ہیں۔ غلام بی بی بھروانہ آزاد جبکہ ان کی والدہ سلیم بی بی تحریک انصاف کی حمایت یافتہ ہیں جو کہ اس سے پہلے بھی تحریک انصاف کی ٹکٹ پر ایم پی اے رہ چکی ہیں۔
تاہم اس مرتبہ غلام بی بی بھروانہ نے حلقہ تبدیل کیا ہے اور وہ جھنگ سے اپنے آبائی حلقے چنیوٹ آ گئی ہیں اور یہاں سے مسلم لیگ ن کی جانب سے سید رضا بخاری کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ ان کی والدہ سلیم بی بی پہلے ہی یہاں سے ایم پی اے تھیں۔ وہ2018 میں پی ٹی آئی میں شامل ہوئیں اور محمد احمد لدھیانوی کو ہرا کر رکن قومی اسمبلی بنیں۔ تحریک انصاف میں اختلافات کی وجہ سے یہاں دو امیدوار غلام محمد لالی اور غلام بی بی بھروانہ میدان میں ہیں۔
شذرہ منصب کھرل
ننکانہ صاحب کے مشہور سیاسی کھرل خاندان سے بہت سے اہم نام سامنے آئے ہیں جن میں سب سے اہم نام رائے منصب علی کھرل تھے جو کہ 5مرتبہ ایم این اے رہے اور ایوب خان دور سے سیاست میں متحرک تھے۔ 2015میں ان کی وفات کے بعد ان کی بیٹی شذرہ منصب کھرل سامنے آئیں جو ضمنی الیکشن میں کامیابی حاصل کر کے قومی اسمبلی میں داخل ہوئیں۔ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات میں شذرہ منصب پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار و سابق ایم پی اے برگیڈئیر اعجاز شاہ سے انتہائی کم مارجن سے ہار گئیں۔ اس مرتبہ پھر اس روائتی حلقے این اے 112 ننکانہ شہر میں شذرہ منصب اور اعجاز شاہ صاحب کا مقابلہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اور امید کی جارہی ہے کہ یہ بہت کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔ اس کے علاوہ اس کے مد مقابل پاکستان پیپلز پارٹی سے شاہ جہاں بھٹی اور تحریک لبیک سے ابرار احمد مقابلہ کر رہے ہیں۔
انیقہ مہدی بھٹی
ضلع حافظ آباد میں دو ہی سیاسی حریف بھٹی برادری اور تارڑ برادری ہیں۔ این اے 67 حافظ آباد کی اس نشست پر مہدی بھٹی کی صاحب زادی انیقہ مہدی بھٹی سائرہ افضل تارڑ کے مد مقابل انتخاب لڑ رہی ہیں۔ پورے پاکستان میں یہ ہی حلقہ ہے جہاں دو خواتین براہ راست قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہی ہیں۔ اب تک سائرہ افضل تارڑ اور بھٹی فیملی تین بار آمنے سامنے آچکے ہیں جن میں سائرہ افضل تارڑ نے دو بار برتری حاصل کی ہے۔ ان کے علاوہ اس حلقے میں ان کا مقابلہ تحریک لبیک کے امیدوار سید عطا الحسنین اور پیپلز پارٹی کے امیدوا رسید وسیم الحسن نقوی ہوگا۔
ریحانہ امتیاز ڈار
عثمان ڈار اور عمر ڈار کی تحریک انصاف سے وابستگی کی وجہ سے آنے والی مشکلات کے بعد ان کی والدہ ریحانہ امتیاز ڈار این اے 71 سیالکوٹ شہر سے میدان میں ہیں۔ ڈار فیملی اس حلقے میں اپنا اہم مقام رکھتی ہے۔ ریحانہ امتیاز ڈار کے شوہر امتیاز الدین ڈار سیالکوٹ کی شہری سیاست میں سرگرم رہے اور تحصیل ناظم سیالکوٹ رہے۔
جبکہ ان کا مقابلہ 6 مرتبہ ممبر قومی اسمبلی رہنے والے مسلم لیگ ن کے امیدوارخواجہ آصف سے ہے۔ انہوں نے اپنے آبائی علاقے سیالکوٹ سے 1993، 1996، 2002، 2008، 2013 اور 2018 میں لگاتار انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔تاہم اس حلقے سے پیپلز پارٹی سے خواجہ اویس مشتاق اور جماعت اسلامی سے طاہر محمود بٹ بھی میدان میں اتریں گے۔
قیصرہ الٰہی
گجرات شہر سے چوہدری سالک اور ان کی پھوپی قیصرہ الٰہی ایک دوسرے کے خلاف این 64 گجرات سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ دونوں کی انتخابی مہم ایک ہی گھر سے چلائی جا رہی ہے۔ یک جان دو قالب سمجھے جانے والے چوہدری برادران کے اختلافات نے پاکستانی سیاست میں بھونچال پیدا کر دیا تھا۔ تاہم ان دنوں ظہور الٰہی پیلس میں ایک طرف پی ٹی آئی کے بینرز ہیں اور دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ق کے جھنڈ ے آویزاں ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں جانب پوسٹرز اور بینرز پر چوہدری ظہور الٰہی کی تصاویر لگی ہیں۔2018 میں چودھری پرویز الٰہی کی خالی کردہ چکوال کی نشست پر چودھری سالک حسین نے کامیابی حاصل کی، بعدازاں شہباز دور میں وفاقی وزیر بھی بنے۔ علاوہ ازیں مبین ارشدپیپلز پارٹی سے،ساجد شریف جماعت اسلامی سےاورچوہدری عبدالکریم تحریک لبیک سے میدان میں اتر رہے ہیں۔
کوثر پروین بھٹی
این اے 69 منڈی بہاؤالدین سے کوثر پروین بھٹی الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ کوثر پروین سابق سیکرٹری پنجاب اسمبلی اور چوہدری پرویزالٰہی کے دست راست محمد خان بھٹی کی اہلیہ ہیں۔ سابق ایم پی اے ساجد خان بھٹی کی چچی ہیں۔ جبکہ ان کے مد مقابل ٹبہ مانک بوسال سے تعلق رکھنے والے ناصر اقبال بوسال مشہور زمانہ زمیندارچوہدری مانک بوسال کے پوتے اورچوہدری اقبال بوسال کے بیٹے ہیں۔ وہ 2 مرتبہ ایم این اے بن چکے ہیں۔ ان کے والد اقبال بوسال بھی ممبر قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے فخر عمر حیات بھی الیکشن میں حصہ لیں رہے ہیں۔
شاندانہ گلزار خان
2018 کے عام انتخابات میں خیبرپختونخوا سے خواتین کی مخصوص نشست پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ تب وزیراعظم عمران خان نے انہیں وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے کامرس مقرر کیا۔ 2019 میں انہیں تین سالہ مدت کے لئے کامن ویلتھ پارلیمنٹری ایسوسی ایشن کی پارلیمانوں اور مقننہ جات کی خواتین ارکان کے نیٹ ورک، کامن ویلتھ ویمن پارلیمنٹیرینز کی چیئرپرسن منتخب کیا گیا۔
ایمان طاہر صادق
ایمان طاہر2024 کے انتخابات میں این اے 50 اٹک سےحصہ لے رہی ہیں۔ اس حلقے میں تین بڑے امیدوار میدان میں ہیں ۔جن میں تحریک انصاف کی ایمان طاہر، ن لیگ کے ملک سہیل کمڑیال اور تحریک لبیک کے سربراہ حافظ سعد رضوی شامل ہیں۔2018 کے عام انتخابات میں میجر طاہر صادق نے اٹک کی دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور یہ نشست خالی کر دی ۔ضمنی انتخاب میں ملک سہیل کمڑیال نے ن لیگ کے ٹکٹ پر یہاں سے کامیابی حاصل کی جو کہ ملک لال خان آف کمڑیال کے بیٹے ہیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے 10اقلیتی ارکان کیلئے مجموعی طور پر 37 امیدواروں کی حتمی لسٹ جاری کی گئی ہے۔ جس میں مسلم لیگ ن کے10 پیپلزپارٹی کے7امیدوار، جے یو آئی کے 5، جماعت اسلامی کے4، ایم کیو ایم کے 3 اور تحریک لبیک کے2 ، استحکام پاکستان پارٹی، جی ڈی اے، اے این پی، نیشنل پارٹی اور بی این پی کا بھی ایک،ایک امیدوار اس دوڑ میں شامل ہے۔
عام انتخابات2018 میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی اور سندھ اسمبلی کی جنرل نشست پر 3اقلیتی امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ جن میں قومی اسمبلی کے حلقہ 222 تھرپارکر سے پیپلز پارٹی کے امیدوار ڈاکٹر مہیش کمار ملانی واحد اقلیتی سیاستدان تھے اور یہ قومی اسمبلی کی جنرل نشست پر کامیاب بھی ہوئے ۔ ان کے علاوہ ہری رام کشوری لال نے میرپور خاص کے حلقہ پی ایس 47 اور پی ایس 81 سے گیان چند اسیسرانی براہ راست اسمبلی پہنچے۔
علاوہ ازیں پاکستان بھر میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں ملک میں رہنے والی اقلیتی برادری نہ صرف اپنے ووٹ ڈالنے کے حق کو استعمال کرنے کے حوالے سے پرعزم دکھائی دیتی ہے بلکہ وہ ایوانوں میں بھی اپنے نمائندگان کو زیادہ تعداد میں دیکھنے کی خواہاں ہےتاکہ ان کے مسائل کے حل کے لیے بھی اسمبلی میں اقدامات کئے جائیں۔ پاکستان میں جہاں مخصوص نشستوں پراقلیتی اراکین منتخب ہوتے ہیں وہیں کچھ حلقے ایسے بھی ہیں جہاں سے یہ براہ راست انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ جس کی تفصیل زیر نذر ہے:
ڈاکٹر مہیش ملانی
این اے 215 سے انتخاب لڑنے والےڈاکٹر مہیش ملانی کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے ۔ یہ ملک کی نامور کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر بھی ہیں۔ انہوں نے اپنی بنیادی تعلیم سندھ سے حاصل کی اور بعد ازاں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنےکے ساتھ ہی ساتھ ملکی سیاست میں بھی سرگرم رہے۔ تھرپارکر سے پہلی مرتبہ2008 میں براہِ راست ایم این اے منتخب ہوئےاور ایک بار رکن سندھ اسمبلی بھی رہے ہیں۔ اس مرتبہ بھی وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
ہری رام کشوری لال
پی ایس 45 میر پور خاص سے انتخابات میں حصہ لینے والےہری رام کا تعلق پاکستان کی ہندو برادری سے ہے ۔ ان کی پیدائش پاکستان کے شہر میر پور خاص میں ہوئی ان کی بنیادی تعلیم میٹرک اور پیشے کے لحاظ سے یہ ایک زمیندار ہیں۔ سیاست میں بھی بہت سرگرم ہیں اور ان کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔
یہ واحد غیر مسلم ہیں جنہوں نے پہلی مرتبہ جنرل الیکشن میں سندھ کی صوبائی نشست سے حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی۔ ہری رام 5 مرتبہ قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ 2012 سے2018 تک یہ سینیٹ کے رکن بھی رہے ہیں۔ موجودہ الیکشنز میں یہ دوبارہ پی ایس 45 سے میدان میں اتر رہے ہیں۔یاد رہے کہ ہری رام پاکستان پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے سینئر ممبر بھی ہیں۔
ڈاکٹر سویرا پرکاش
ڈاکٹر سویرا پرکاش خیبر پختونخوا کے پسماندہ علاقے بونیر سے پہلی مرتبہ صوبائی اسمبلی کی نشست پی کے 25 بونیرسے جنرل الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں جس کا چرچہ پوری دنیا میں ہورہا ہے۔ ان کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے اور یہ اپنے علاقے میں خواتین ونگ کی جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر سویرا پرکاش ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں۔ ان کے والد اوم پرکاش بھی ڈاکٹر ہیں جو خود بھی سوشل ورکر ہیں اور پچھلے 35 سال سے علاقے کی خدمت کر رہے ہیں۔ اوم پرکاش میڈیکل سنٹر کے نام سے اپنا ادارہ چلا رہے ہیں۔
چوہدری سخاوت مسیح
پاکستان پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کے مقابلے میں این اے 76نارووال سے اقلیتی امیدوار چوہدری سخاوت مسیح کو نامزد کیا ہے۔ 15 سال سے یہ اقلیتی ونگ کے صدر بھی ہیں۔ نارووال کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہونے جارہا ہے کہ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے یہ پہلے امیدوار ہیں۔
یعقوب نعیم گل
فیصل آباد کے حلقےپی پی 115 سے پاکستان پیپلزپارٹی نے یعقوب نعیم کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کے امیدوار میاں طاہر جمیل اور تحریک انصاف کے شیخ شاہد جاوید میدان میں اتریں گے۔
جماعت احمدیہ پاکستان کے پریس سیکشن نے 8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات سے لا تعلقی کااعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انتخابات مخلوط طرز پر ہو رہے ہیں اس کے باوجود عقیدے کے اختلاف کی بنا پر مذہبی تفریق کرتے ہوئے صرف احمدیوں کے لئے الگ ووٹر لسٹ بنائی گئی ہے ۔ ووٹرز کی رجسٹریشن اور ووٹر لسٹوں کی تیاری کا کام مکمل ہوچکا ہے۔
اس وقت پاکستان میں ایک ووٹر لسٹ ہے جس میں مسلمان ہندو، مسیحی، سکھ ، پارسی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والےپاکستانی شامل ہیں جبکہ صرف احمدیوں کے لئے الگ ووٹر لسٹ بنائی گئی ہے جس کے اوپر ’’ قادیانی مرد خواتین“ تحریر ہے۔ محض مذہب کی تفریق کی بنا پر امتیازی سلوک روا رکھتے ہوئے الگ فہرست کا اجراء، احمدی پاکستانی شہریوں کو انتخابات سےالگ رکھنے اور ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کی ایک ارادی کو شش ہے۔
یہ تفریق اور امتیاز بنیادی انسانی حقوق ، حضرتقائد اعظم کے فرمودات اور آئین پاکستان اور مخلوط طرز انتخاب کی روح کے سراسر خلاف ہے ۔جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان عامر محمود نے کہا ہے کہ درج بالا صور تحال کے پیش نظر جماعت احمد میں پاکستان کی عام انتخابات میں شمولیت ممکن نہیں اس لئے جماعت احمدیہ پاکستان نے عام انتخابات 2024 سے اعلان لا تعلقی کا فیصلہ کیا ہے اوراگر ان انتخابات میں کوئی فرد بطور احمدی حصہ لیتا ہے تو وہ کسی صورت احمدیوں کا نمائندہ نہیں کہلا سکتا اور نہ ہی احمدی اسےاپنا نمائندہ تسلیم کر لیں گے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے 10اقلیتی ارکان کیلئے مجموعی طور پر 37 امیدواروں کی حتمی لسٹ جاری کی گئی ہےجس میں مسلم لیگ ن کے 10 پیپلزپارٹی کے7 امیدوار،جے یو آئی کے 5،جماعت اسلامی کے4، ایم کیو ایم کے3، تحریک لبیک کے2 امیدوار بھی میدان میں اترے ہیں۔ دیگر جماعتوں میں استحکام پاکستان پارٹی، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس،عوامی نیشنل پارٹی اوربلوچستا ن نیشنل پارٹی کا بھی ایک،ایک امیدوار اقلیتی نشستوں کی دوڑ میں شامل ہے۔
اگر عام انتخابات2018کی بات کی جائے تو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی اور سندھ اسمبلی کی جنرل نشست پر3اقلیتی امیدوار کامیاب ہوئے تھے، جن میں قومی اسمبلی کے حلقہ 222تھرپارکر سے پیپلز پارٹی کے امیدوار ڈاکٹر مہیش کمار ملانی وہ واحد اقلیتی سیاستدان تھے، جو قومی اسمبلی کی جنرل نشست پر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مقابلے میں جی ڈی اے کے امیدوار ارباب ذکا اللہ تھے۔ ان کے علاوہ ہری رام کشوری لعل نے میرپور خاص کے حلقہ پی ایس 47پر ایم کیو ایم پاکستان کے مجیب الحق کو شکست دی۔ پی ایس 81پر گیانومل جامشورو اتحاد کے ملک چنگیز کو شکست د ے کر اسمبلی میں پہنچے۔