• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مذاکراتی عمل تعطل اور بے یقینی کا شکار ہونے کے پس منظر میں حکومتی و عسکری حلقوں کے تمام تر تحفظات شکوک و شبہات اور عوام میں پائے جانے والے غم و غصے کے باوجود طالبان ترجمان کے اس بیان کو حوصلہ افزا ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ تحریک طالبان حکومت سے مذاکرات میں سنجیدہ ہے۔ جنگ بندی کے لئے تمام گروپوں سے رابطہ ہو گیا ہے اور ان کے درمیان کسی فیصلے پر متفق ہونے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ ایف سی اہلکاروں کے قتل پر مہمند ایجنسی کے طالبان سے وضاحت طلب کی گئی ہے۔ اسی طرح کی شکایات خود طالبان کو بھی ہیں۔ ایسے واقعات کی روک تھام مذاکرات کی کامیابی کے لئے ضروری ہے۔ طالبان نے اگر یہ بیان سنجیدہ غور و فکر کے بعد جاری کیا ہے اور اس پر نیک نیتی سے عمل بھی کرنا چاہتے ہیں تو ملک کے امن اور سلامتی کے مفاد میں یہ ایک نیک فال ہے۔ یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ تقریباً دو ہفتے کے مذاکراتی عمل کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے متعدد واقعات میں درجنوں افراد جن میں سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی شامل ہیں زندگی سے محروم کر دیئے گئے جس روز یہ بیان جاری کیا گیا اسی روز پشاور اور جنوبی وزیرستان میں فورسز پر حملے ہوئے جس میں ایک میجر سمیت دو اہلکار شہید اور کئی زخمی ہو گئے۔ جوابی کارروائی میں تین شدت پسند بھی مارے گئے۔ یہ شکایت کہ سکیورٹی فورسز طالبان کے ساتھیوں کو ہلاک کر رہی ہے اسی صورت میں ختم ہو سکتی ہے جب دونوں طرف سے فائر بندی ہو اور اس پر موثر عملدرآمد بھی کیا جائے۔ اگر ایک فریق دوسرے پر حملہ کرے گا تو فطری طور پر دوسرا فریق اس کا جواب دے گا اور نقصان بھی ہو گا۔ اسی لئے محب وطن حلقے روز اول سے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ پرتشدد کارروائیاں روک کر جنگ بندی کا اعلان کیا جائے۔ یہ اعلان حکومتی اور طالبان کمیٹیوں کی پہلی ملاقات میں ہی ہو جانا چاہئے تھا مگر طالبان قیادت کا تمام گروپوں پر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ اب اگر ان میں رابطہ بحال ہو گیا ہے تو مذاکرات کی کامیابی کے لئے طالبان نیک نیتی اور خیرسگالی کے اظہار کے لئے فائر بندی کا فوری اعلان کر دیں۔ حکومت پہلے سے اس کے لئے تیار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قوم دس سال سے زائد عرصہ سے جاری دہشت گردی اور آگ اور خون کے اس کھیل سے تنگ آ چکی ہے۔ اب جبکہ امن کے لئے مذاکرات کا آغاز ہوا ہے تو اس موقع کو ضائع نہ کیا جائے۔ آئرلینڈ میں جنگ کے خاتمے کے لئے مذاکرات ہوئے اور سری لنکا میں آپریشن ہوا مگر امن آخرکار بات چیت کے نتیجے میں ہی قائم ہوا۔ افغانستان میں ملاعمر کی زیرقیادت طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو پاکستان واحد ملک تھا جس نے دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود اس حکومت کو تسلیم کیا اور ملاعمر کی بڑی مدد کی۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر کے طالبان حکومت کو تتر بتر کر دیا تو لاکھوں افغانوں نے پاکستان میں پناہ لی اور اب تک اس کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ پاکستانی طالبان اسی صورت حال کی پیداوار ہیں۔ انہیں چاہئے کہ پاکستان نے افغانستان میں طالبان کی جو مدد کی اس کے بدلے میں اب پاکستان کو خدا را اس کا امن لوٹا دیں۔ امریکہ اتحادیوں کی مدد سے طویل جنگ لڑنے کے بعد مذاکرات ہی کے ذریعے افغانستان سے واپس جا رہا ہے۔ طالبان اب افغانستان کو سنبھالنے کی فکر کریں۔ طالبان شوریٰ ریاست کے خلاف لڑنے والے تمام گروپوں کو اپنے کنٹرول میں لائے اور امن کے لئے کام کرے۔ حکومت نے امن مذاکرات تمام سیاسی پارٹیوں کے اتفاق رائے سے شروع کئے تھے۔ انہیں اس عمل کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی علماء کرام بھی آگے آئیں۔ مناسب ہو گا کہ اب مذاکراتی کمیٹیوں کی بجائے حکومت اور طالبان قیادت کے درمیان براہ راست بات چیت ہو تاکہ حساس اور نازک معاملات کے فیصلے بالمشافہ گفتگو سے طے ہو سکیں۔ بالواسطہ مذاکرات طویل ہونے کی وجہ سے تخریبی عناصر کو غلط فہمیاں پھیلانے کا موقع مل جاتا ہے جبکہ قوم بلاتاخیر امن کی نوید سننے کی منتظر ہے۔

آئین و قانون کی بالادستی
پاکستان کے سابق فوجی سربراہ اور آرمی چیف ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف، جنھیں آئین کی پامالی اور غداری کے الزام میں مقدمے کا سامنا ہے، بالآخر گزشتہ روز عدالت عظمیٰ میں پیش ہوگئے۔جنرل مشرف کو اس مقدمے میں گزشتہ ماہ کے اوائل میں عدالت میں طلب کیا گیا تھا لیکن اپنی رہائش گاہ سے عدالت کی جانب آتے ہوئے راستے میں مبینہ طور طبیعت خراب ہوجانے کی وجہ سے وہ اسپتال چلے گئے تھے۔ اس کے بعد مقدمے کی متعددتاریخوں پر عدالت انہیں پیش کیے جانے کا حکم دیتی رہی لیکن اس پر عمل نہیں کرایا جاسکا۔ اس دوران وکلائے صفائی کی جانب سے علاج کے لئے انہیں بیرون ملک بھیجنے پر بھی زور دیا گیا لیکن میڈیکل رپورٹوں سے اس کی ضرورت ثابت نہیں کی جاسکی۔ خصوصی عدالت کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے جاتے رہے تاہم یہ پورا معاملہ حکومت کی کسی مداخلت کے بغیر غیرجانبدارانہ عدالتی عمل کے تحت آگے بڑھتا رہا اور منگل کے روز ملزم جنرل مشرف کی عدالت میں پیشی کی شکل میں اس میں نہایت اہم اور نمایاں پیش رفت ہوئی۔اس کے بعد ان افواہوں میں کوئی وزن نہیں رہا کہ فوج کے سابق سربراہ کے اقدامات کو آئین وقانون کی کسوٹی پرپرکھا جانا ممکن نہیں۔ ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کی جس روایت کا آغاز جنرل مشرف کے ہاتھوں معطل ہونے والی اعلیٰ عدلیہ کی بحالی کی شکل میں کم و بیش پانچ سال پہلے ہوا تھا، جنرل مشرف کی عدالت میں پیشی سے وہ روایت مزید مستحکم ہوئی ہے۔توقع ہے کہ اس کے بعد یہ مقدمہ فطری رفتار سے آگے بڑھے گا ، فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد جنرل مشرف کو اپنی صفائی کا پورا موقع ملے گا، عدالت پر کسی بھی جانب سے دباؤ ڈالنے کی کوئی کوشش نہیں کی جائے گی اور میرٹ کے مطابق معاملے کا فیصلہ ہوگا۔ وطن عزیز کو درپیش گوناگوں مسائل کے باوجود حالات کا یہ پہلو نہایت امید افزاء ہے کہ ملک میں آئین وقانون کی بالادستی ، بے لاگ انصاف اور عدلیہ کے احترام کی روایات پختہ تر ہورہی ہیں ، یہ بلاشبہ پاکستان کی روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔

ایران و پاکستان تحمل سے کام لیں
ایران اور پاکستان کے باہمی تعلقات قیام پاکستان کے بعد پہلے دن سے انتہائی برادرانہ اور دوستانہ ہیں۔ حکومتوں کے آنے جانے سے یہ تعلقات کبھی متاثر نہیں ہوئے۔ سرحدوں کے متصل ہونے کی وجہ سے پڑوسی ملکوں میں جو مسائل پیدا ہوسکتے ہیں، دونوں برادر ملکوں میں بھی ہوتے رہے ہیں۔ لیکن یہ مسائل کبھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں کسی تلخی کا سبب نہیں بنے۔تاہم حال ہی میں ایرانی علاقے میں سرحدی محافظوں کے اغواء کے بعد ایرانی وزیر خارجہ نے یہ بیان دے کر کہ اغواء کرنے والے ان لوگوں کو پاکستان لے گئے ہیں اور پاکستانی حکومت نے انہیں بازیاب نہ کرایا تو ایران اپنے مغویوں کی تلاش کے لیے اپنی فوجیں پاکستان میں داخل کردے گا، صورت حال کو کسی معقول وجہ کے بغیر کشیدہ بنادیا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان نے اس بیان پر پاکستانی موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایرانی حکام کو آگاہ کیا جاچکا ہے کہ ایف سی نے پورے علاقے کی تلاشی لی ہے اورمغوی ایرانی سرحدی محافظوں کے پاکستان میں داخلے یا موجودگی کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ممکن ہے کہ اغوا کار اور مغوی تاحال ایرانی علاقے میں ہی چھپے ہوئے ہوں۔ ایران اور پاکستان کی سیکوریٹی حکام اس مسئلے کے حل کے لیے مستقل رابطے میں ہیں ۔انہوں نے ایرانی وزیر خارجہ کے بیان کو انتہائی تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران کو پاکستان میں فوج بھیجنے کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔ ایران نے ایسا کیا تویہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوگی۔ بلاشبہ ایران کا یہ ردعمل غیرضروری ہے۔ ایرانی حکام کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ پورے خطے میں غیرریاستی قوتیں سرگرم ہیں اور علاقے کے تمام ملکوں کی حکومتیں باہمی تعاون ہی سے ان پر قابو پاسکتی ہیں۔ اس لیے ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہونے کی باتیں کرنے کے بجائے پاکستان اور ایران دونوں کو تدبر اور تحمل کے ساتھ باہمی تعاون کے ذریعے ان معاملات کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے جیسا کہ اب تک ہوتا رہا ہے۔
تازہ ترین