السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
غیر مشروط محبت
سنڈے میگزین سے ہماری محبّت غیر مشروط ہے۔ خط شامل ہو یا نہ ہو، ہم جریدے کا مطالعہ پورے ذوق و شوق سے کرتے ہیں اور آج اگر ہم دو چار جملے لکھنے کے اہل ہیں، تو یہ اِس سنڈے میگزین ہی کے مرہونِ منّت ہے۔ اللہ سے دُعا ہے کہ یہ جریدہ یونہی پَھلتا پُھولتا رہے۔ (شری مُرلی چند جی گوپی چند گھوکھلیہ، شکارپور)
ج: براہِ مہربانی اپنی دُعا سے لفظ ’’یونہی‘‘ ایڈٹ کر دیں، کیوں کہ اگر جریدہ ’’یونہی‘‘ پَھلتا پُھولتا رہا تو پہلے 32 صفحات سے 16 کا ہوا ہے۔ آئندہ کہیں 16 سے8 صفحات کا نہ ہو جائے۔
ترجمہ شُدہ افسانے شامل کریں
’’حالات وواقعات‘‘ میں تومنور مرزا ہی چھائے رہے اور انہوں نےایک ایک پہلو پر خُوب روشنی ڈالی، جب کہ اُن کی یہ بات تو سو فی صد سچ لگی کہ سلامتی کائونسل کے ویٹو پاور رکھنے والےممالک اپنےمفادات پرکوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں، اِسی لیے اقوامِ متحدہ جنگ بندی میں ناکام ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے’’قصص القرآن‘‘ سلسلے میں ’’قصّہ قومِ عاد کی تباہی کا‘‘ بیان ہوا۔ ہم اگر اِن قصّوں ہی سے کچھ سبق اور عبرت حاصل کرلیں تو انداز واطوار میں کافی تبدیلی آسکتی ہے۔’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر معین الدین عقیل نے بتایا کہ جاپان، اقبال کے نظریات سے فائدہ اُٹھا رہا ہے، جان کر بے انتہا خوشی ہوئی۔ ’’رپورٹ‘‘ میں رئوف ظفر نےبھی بہت فکر انگیز موضوع پر قلم اُٹھایا۔
بےشک، غیرمعیاری، جعلی ادویہ نے بھی لوگوں کا بہت بیڑہ غرق کیا ہے۔ ’’انٹرویو‘‘ میں وحید زہیر نے اینامولکا ایوارڈ2023 ء جیتنے والی بلوچستان کی باصلاحیت مصوّرہ سعدیہ راٹھور سے بات چیت کی۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر شکیل احمد ذیابطیس کے عالمی یوم پرخصوصی مضمون لائے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ازہر منیر کا فارسی زبان سے ترجمہ شدہ افسانہ بہت ہی مزے کا تھا۔ آئندہ بھی اِس طرح کے افسانے ضرور شامل کریں۔ ڈاکٹر عزیزہ انجم اور ارسلان اللہ خان ارسل نے فلسطین کی صورتِ حال پرتوجّہ مبذول کروائی، تو ’’متفرق‘‘ میں لائبریری کو دماغی صحت کا اسپتال قرار دیا گیا۔ ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ کئی ممالک میں کتب بینی کےذریعے دماغی امراض کا علاج کیا جا رہا ہے۔ اور اب آیئے، آپ کا صفحہ کی طرف، اِس میں ہمارے خط سے پہلے خادم ملک کا خط جگمگا رہا تھا، دیکھ کر حد درجہ خوشی ہوئی۔ اورہاں، آپ کا بہت بہت شکریہ،آپ نے’’داعی‘‘کےمعنی خاصی وضاحت سے سمجھائے۔ (سیّد زاہد علی، شاہ فیصل کالونی نمبر3، کراچی)
ج: آپ کی خوشیاں بھی کتنی چھوٹی چھوٹی ہیں۔ خادم ملک کا خط ساتھ شامل ہوگیا اور آپ کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ آفرین ہے بھئی۔
غرباء ، عوام کا اخبار…؟؟
بہت بہت شکریہ، میرے تمام خطوط کا جواب دینے کا، مگر مَیں سوال تو پھر وہی کروں گی کہ فلسطین سے متعلق میرے مضامین کب شائع کریں گی۔ مَیں پچھلے 35 سال سے جنگ پڑھ رہی ہوں۔ 2020ء سے تاحال جنگ سرمایہ داروں، امیروں، لاڈلوں کا ترجمان بنا ہوا ہے۔ آخر کب یہ غرباء اور عوام کا اخبار بنے گا۔ سنڈے میگزین کے صفحات بڑھائیں پلیز اور اقراء کا صفحہ ہفتے میں کم از کم دو بار شائع ہونا چاہیے۔ (شہناز سلطانہ، رمشا طاہر، ناظم آباد، کراچی)
ج: اگر تو ہمارے پچھلے تمام جوابات پڑھنے کے بعد آپ نے یہ خط لکھا ہے، تو پھر تو ہماری جانب سے 21 توپوں کی سلامی قبول کیجیے اور اب ہمارے پاس آپ کے لیے صرف ایک جواب ہے کہ ’’کچھ امراض واقعی لاعلاج ہوتے ہیں۔‘‘
محوِ حیرت ہوں کہ…
سال 2023 ء میں بس ایک مرتبہ آپ کی محفل میں شرکت کی۔ اب دوسری بار خط لکھ رہی ہوں، مگر یہ خط چوں کہ دسمبر کے اختتام پر لکھ رہی ہوں، تو یقیناً اگلے سال ہی شائع ہوگا۔ میگزین باقاعدگی سےپڑھتی ہوں،دینی تحریریں، سفرنامے، ناقابلِ فراموش، انٹرویو، آپ کا صفحہ اوراِک رشتہ، اِک کہانی میرے مَن پسند صفحات ہیں۔ کچھ عرصے سے درمیانی صفحات کے شوٹس سے متعلق آپ کا قلم خُوب ہی چل رہا ہے۔ تحریر پڑھ کے مزہ آجاتا ہے۔ اس مرتبہ روبوٹس سے متعلق پڑھ کر تو مَیں حیران ہی رہ گئی، خاص طور پر وہ روبوٹ، جو زچگی کے مسائل کے ضمن میں طلبہ کی تربیت کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ ؎ محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی۔
اپنی خالہ نائلہ کے بارے میں تیسری بار تحریر لکھ کر روانہ کی تھی، ساتھ والد اور والدہ سے متعلق بھی لکھا تھا۔ انتظار خالہ سے متعلق تحریر کا زیادہ تھا، کیوںکہ والدہ بہشتی تو ہو چُکی ہیں اور والد صاحب کو پتا ہی نہیں تھا کہ مَیں نے اُن کے بارے میں کچھ لکھا ہے، مگر خالہ کو بتا چُکی تھی، اِس لیے وہ منتظر تھیں۔ مگر پھر والد صاحب سے متعلق تحریر پہلے چَھپ گئی۔ بہرحال،خالہ سےکہا کہ’’مزید صبرکریں‘‘ ویسے مجھے تو دوسرے لوگوں کی کہانیاں پڑھ کر بھی بہت اچھا لگتا ہے کہ اِن رشتوں ہی سے تو دنیا کی خُوب صُورتی برقرار ہے۔ (مصباح طیّب، سرگودھا)
ج : اب تک تو یقیناً آپ نے خالہ سے متعلق تحریر بھی ملاحظہ کرلی ہوگی۔ ۔ اور خالہ پڑھ کرخوب خوش بھی ہوں گی۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ سلسلہ آپ ہی کا نہیں، کئی لوگوں کا مَن پسند ہے، اسی لیے جاری و ساری بھی ہے۔ حتیٰ کہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ سے زیادہ ڈاک اِس سلسلے کے لیے وصول پاتی ہے۔
کوئی عملی پیش رفت نہیں
حسبِ معمول، حسبِ روایت اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے متبرّک صفحات شامل تھے۔ منور مرزا نے بجا فرمایا کہ دو سُپر طاقتوں کے سربراہان جو بائیڈن اور شی جن پنگ کی بیٹھک عالمی امن و استحکام کے لیے بہت ہی اہم تھی۔ اے کاش! اس بیٹھک میں اسرائیل، فلسطین جنگ ختم کروانےپر بھی بات ہوتی، کوئی عملی پیش رفت سامنے آتی۔ اللہ پاک جلدازجلدفلسطینی عوام کےحق میں کوئی بہترین فیصلہ فرما دے۔
بہت خوشی ہوئی کہ معروف مصنّف، محقّق،یارجان بادینی دنیا بَھر کی بلوچ آبادیوں کی تلاش میں ہیں اور یہ بھی سو فی صد درست ہے کہ روبوٹ ہمارا دوست ہے، دشمن نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں تواِن روبوٹس سے بہت کام لیے جا رہے ہیں ۔ سعودی عرب کے خُوب صُورت شہر جدّہ کے بارے میں بتایا گیا کہ جدّہ، جدّت و قدامت کا حسین امتزاج ہے۔ واللہ، متبّرک ملک کا متبّرک شہر۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں پانچوں نظمیں فلسطین کے مظلموں کی ترجمانی کررہی تھیں۔ یہ پڑھ کر دُکھ ہوا کہ ہالینڈ میں تارکینِ وطن، مسلم مخالف پارٹی کی فتح ہوئی ہے۔ اس بار ’’شخصیت‘‘ میں لیجنڈ جینٹلمین ضیا محی الدین تھے۔ ریڈیو پر اُن سے بہت سے لوگوں نےدرست تلفّظ کی ادائی سیکھی۔ وہ توگویا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ اللہ اُن کی مغفرت فرمائے۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
تحریر میں روانی، یک سوئی نہیں!!
آپ سے ملاقات کے لیے آفس آیا تھا، لیکن بتایا گیا کہ آپ ایک میٹنگ میں مصروف ہیں۔ سو، واپس چلا آیا۔ یہ جو مضمون مَیں آپ کے لیے چھوڑے جارہا ہوں۔ یہ ایک درویش صفت انسان کی اپنی برادری، جماعت سے چھیالیس سالہ طویل وابستگی اور جدوجہد کے ساتھ بے لوث کارکردگی کا مختصرعکس ہے۔ گرچہ میری تحریرمیں روانی، یک سوئی نہیں، کیوں کہ پیشے کےلحاظ سے ڈاکٹر ہوں لیکن اُردو تحریر کو یا یوں کہیے رسم الخط کو شکیل بھائی نے تختی لکھوا کر کسی حد تک بہتر کیا ہے۔ اس کے لیےمیں ان کا شُکر گزار ہوں۔ کاٹ چھانٹ، نوک پلک درست کرنا آپ کا حق ہے، اگر آپ نے حوصلہ افزائی کی، تو وقت نکال کر مُلک کی کئی گم نام ہستیوں کو، جو پاکستان سے باہر ہیں،سنڈے میگزین کےذریعے متعارف کروائوں گا۔ہمیشہ خوش وخرّم، صحت و عافیت سے رہیں۔ ( ڈاکٹر مہراللہ شمسی)
ج: ڈاکٹرصاحب! آپ سمیت ہر لکھاری سے گزارش ہےکہ اگر’’سنڈے میگزین‘‘کےلیے کچھ لکھنےکا ارادہ کریں، تو پہلے جریدے کے مندرجات پر ضرور نگاہ ڈالیں، خصوصاً جو صفحات قارئین کی تحریروں سے مرتّب ہوتے ہیں، اُن کا فارمیٹ لازماً دیکھیں۔ آپ کی تحریر ’’سنڈے میگزین‘‘ کے فارمیٹ کے مطابق نہیں، یہ ایک انٹرویو کی شکل میں ہے، جب کہ انٹرویوزکا استحقاق صرف اسٹاف کے پاس ہے۔
بہرحال، چوں کہ آپ نے اِس تحریر پر خاصی محنت کررکھی ہے، توہم کوشش کریں گے کہ ایڈٹینگ کے بعد کسی صفحے میں ایڈجسٹ کر لیں۔ دوسری بات یہ کہ عمومی صحافیوں کی طرح ہم غیرضروری طور پر کسی سے بھی ملاقات نہیں کرتے اور اخلاقی طور پربھی کسی خاتون سے اپوائنٹمینٹ لیے بغیر ملاقات کے لیے جانا کوئی مناسب بات نہیں۔ اور…یہ تختی لکھوانے والے شکیل بھائی کون ہیں؟؟
آنکھ میں آنسو کی طرح…
کیا لکھوں، کیسے لکھوں، فلسطین میں معصوم پھولوں پربموں کی بارش جاری ہے۔ مسلم حُکم ران صرف زبانی جمع خرچ کرکے بری الذمہ ہوچُکے ہیں۔ فلسطین، انبیاء کی سرزمین لہولہو ہے، آخر ہم مسلمان کب جاگیں گے۔ پچھلے چند دِنوں سے روز میگزین سامنے رکھ کر لکھنے کا ارادہ کرتا ہوں، مگر سچ پوچھیں، نہیں لکھا جارہا۔ سب بکھرے بکھرے سے لفظ ہیں، دل پارہ پارہ ہے۔ لگتا ہے کہ لکھنا ہی بھول گیا ہوں، الفاظ ساتھ نہیں دے رہے، قلم چل نہیں پارہا۔
بس، ربِ دوجہاں سے دُعا ہے کہ یامالکِ کون و مکاں! اِن بےبسوں، لاچاروں، معصوموں کی آزمائش ختم کردے۔ فلسطینی مجاہد تو ہماری آنکھ میں آنسو، دل میں دھڑکن کی طرح بستے، آتی جاتی سانسوں کی مانند ہیں۔ یااللہ! اِن پر اپنا رحم و کرم فرما۔ جریدے میں فلسطین سے متعلق شایع ہونے والا اِک اِک لفظ صدقۂ جاریہ ہے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ (ضیاالحق قائم خانی، جھڈو، میرپورخاص)
ج: بے شک، فلسطین سے متعلق ہر مسلمان کے کچھ ایسے ہی جذبات و احساسات ہیں۔ اللہ پاک سے یہی دُعا ہے کہ کوئی ایسی سبیل بن جائے کہ مسئلۂ فلسطین کا کوئی دیرپا، مستقل، پائیدار حل نکل آئے۔
تکمیلِ خواہشات کا سال
اے کاش! یہ سال سب کی تکمیلِ خواہشات کا سال ثابت ہو۔ آپ کی پوری ٹیم اپنی بہترین کام یابیوں کے ساتھ شادوکام ران رہے۔ اے کاش! مُلک میں ہر طرف خوشیاں رقصاں ہو، ہر چہرہ مسرت و شادمانی سے دمکتانظرآئے۔ امن وآشتی کا دَور دورہ ہو۔ اے کاش! اے کاش…!! ہمارا مُلک بہترین، مخلص حُکم رانوں کے انتخاب میں کام یاب ہو۔ اور ہمارا ’’سنڈے میگزین‘‘ یونہی ہرہاتھ میں جگمگاتا رہے۔ آمین۔ جریدے کے لگ بھگ تمام ہی سلسلے حسبِ روایت معلومات سے بھرپور اور ہماری امنگوں کے عین مطابق تھے۔ (نرجس مختار، خیرپورمیرس)
ج: اللہ پاک آپ کی زبان مبارک کرے۔ گرچہ ہمارے اعمال تواِن دعائوں کی تکمیل کا اشارہ نہیں دیتے، لیکن نااُمیدی بھی بہرحال گناہ ہے۔ سو، آپ کی طرح ہم بھی خُوش گُمان و خُوش اُمید ہی رہنے کی کوشش کریں گے۔
فی امان اللہ
شمارہ موصول ہوا۔ سرورق پر فسوں طراز کی ماڈلنگ دیکھتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا ہالینڈ میں مسلم تارکینِ وطن مخالف پارٹی کی فتح کی رُوداد سُنارہے تھے۔ مسلم دشمنی تو یورپ، امریکا کی رگ رگ میں رچی بسی ہے۔ یہ لوگ تو جیسے اسلاموفوبیا کے پروپیگنڈے کے حصار ہی میں مقیّد ہوکر رہ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ پر اسرائیلی بربریت کے باوجود اِن کی حکومتیں خاموش ہیں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ونگ کمانڈر (ر) محبوب حیدر سحاب سقوطِ ڈھاکا پر لکھی شاعری کا تذکرہ لائے، جس سے سارے پرانے زخم تازہ ہوگئے۔
اب توبس یہ عُمر بھر کا روگ ہے، ساری زندگی اِسی غم کی آگ میں سلگتے رہنا ہے۔ ’’شخصیت‘‘ میں عرفان جاوید شان دار، سدا بہار لہجے کے حامل، لیجنڈ ضیا محی الدین کی سوانحِ حیات، دل کش انداز میں پیش کررہے تھے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں آپ کے رائٹ اَپ نے تو فسوں طراز کے حُسن کو ملکوتی حُسن میں تبدیل کردیا، سونے پر سہاگا غالباً اِسی کو کہتے ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں حکیم حارث نسیم سوہدروی موسمِ بہار کی سوغات، خشک میوہ جات کی صحت کے لیے افادیت بیان کرتے نظر آئے۔ بات یہ ہے کہ عوام النّاس بھی اِن کی افادیت سے بخوبی واقف ہیں، مگر جب جیب ہی اجازت نہ دے، تو بندہ کہاں جائے۔ اب تو اِس سونے کے بھائو ملنے والی سوغات کو صرف خواص ہی استعمال کرسکتے ہیں۔ تین چاردہائی پہلے کی بات ہے، ہردوسرے شخص کی جیب میں چلغوزے اور ہر پانچویں، چَھٹے شخص کی جیب میں پستہ، بادام ہوا کرتا تھا۔
کسی چوپال یا فٹ پاتھ پر آگ کے الائو کنارے بیٹھ کر لوگ کھاتے جاتے اور ساتھ گپ شپ کرتے۔ روبینہ شاہد دل تک رسائی کے لیے سنگاپورین رائس کا نُسخہ لائیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں قیصرقصری ’’واپسی‘‘ کے عنوان سےغزہ پر اسرائیلی بربریت کےتناظر میں بہترین افسانہ لکھ لائے۔ ہزاروں سال سے راندۂ درگاہ قوم کو مغرب نے ناحق ہی فلسطینیوں پرمسلّط کردیا ہے۔ ڈاکٹر قمر عباس، ڈاکٹر طاہر مسعود کی نظمیں متاثرکُن تھیں۔ ’’متفرق‘‘ میں محمّد بشیر جمعہ مشترکہ خاندانی کاروبار کو نفع ونقصان میں برابر قراردے رہے تھے۔ ارسلان اللہ خان، بابائے کیمیا، جابر بن حیان کی سائنسی ایجادات سے متعارف کرواگئے۔ وہ اقبال نے کیا فرمایا ہے کہ ؎ تھےتو وہ آباء تمہارے ہی، مگرتم کیا ہو… ہاتھ پرہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو۔
جن کی تخلیقی کتب یورپ میں دیکھ کرعلاّمہ اقبال کا دل سیپارہ ہوگیا تھا۔ یورپ اُن ہی کتب سے فائدہ اُٹھا کر ترقی کی کئی منازل طے کرگیا اور ہم غفلت برتتے برتتےپستی کےگڑھےہی میں جا گرے۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے تینوں واقعات نصیحت آمیز تھے۔ منور مرزا نے نئی کتابوں پر اچھا تبصرہ کیااور’’آپ کا صفحہ‘‘پرہماری چِٹھی ایک بارپھراعزازی مسند پر براجمان تھی۔ شکریہ، یہ گیان، بیان، سمجھ داری اِسی ’’میگزین اکیڈمی‘‘ سے سیکھی ہے، جس کی آپ پرنسپل ہیں۔ ویسےباقی لکھاری بھی اچھی کاوشیں لائے۔ ( شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)
ج: تو لیجیے، استانی جی کی طرف سے ایک اور خلعتِ فاخرہ قبول فرمائیے۔
* مَیں سنڈے میگزین کی انتظامیہ، بالخصوص ایڈیٹر صاحبہ کا تہہ دل سے شُکر گزار ہوں کہ میرا مضمون ’’ایچ پائلوری انفیکشن‘‘ شائع کیا۔ مضمون کی انتہائی مہارت کے ساتھ ایڈیٹنگ کی گئی، جو قابلِ صد تعریف ہے۔ (ڈاکٹر ایم عارف سکندری، کھوکھر محلہ، حیدرآباد، سندھ)
ج: جزاک اللہ۔عمومی طور پر تو فی زمانہ، ممنون ہونے کا رواج تقریباًختم ہی ہوگیا ہے۔
* اُمید ہے، خیریت سے ہوں گی۔ آپ سے گزارش یہ تھی کہ یہ میرا ایک چھوٹا سا مضمون اگر آپ کو مناسب لگے تو ’’سنڈے میگزین‘‘ میں شائع کردیں۔ یہ میرے لیے بڑی خوشی کی بات ہوگی۔ ایک بار ضرور دیکھیے گا، آپ کو ضرور پسند آئے گا۔ (عثمان عاشق)
ج: عثمان! ای میل کے ساتھ منسلک آپ کی تحریر بار بار پڑھ کے دیکھی، بخدا ایک لفظ پلّے نہیں پڑا۔ کٹی پَھٹی، آدھی ادھوری کُل چار سطروں کی تحریر، غالباً آپ سے بھیجنے میں غلطی ہوئی ہے، کیوں کہ بہرحال ای میل کے ساتھ منسلک تحریر کو تو تحریر کہنا بھی غلط ہوگا۔
* گزارش ہے کہ ’’سنڈے میگزین‘‘ میں کم از کم ایک صفحہ تو بچوں کے لیے مختص کردیں۔ جس میں وہ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کا اظہار کرسکیں اوراپنی ڈرائنگ، کہانیاں، نظمیں وغیرہ بھیج کے اپنی فنی صلاحیتوں کو پروان چڑھا سکیں۔ (محمّد فیصل شہزاد، شیخو پورہ سٹی)
ج: ’’سنڈے میگزین‘‘ کے صفحات تو دن بہ دن کم سے کم ہوتےجارہے ہیں۔ بچّوں کے لیے باقاعدہ ایک بڑا رنگین صفحہ موجود ہے۔ آپ کو اُس سےاستفادہ کرناچاہیے۔ شیخوپورہ میں آپ ہمارے ’’نیٹ ایڈیش‘‘ سے مستفید ہوسکتے ہیں۔
* کیسی ہیں آپ؟ یہ میری پہلی ای میل ہے۔ مَیں آپ کا میگزین بہت شوق سے پڑھتی ہوں۔ بہت شان دار ہے۔ مَیں چاہتی ہوں کہ آپ بچّوں کے لیے بھی ایک صفحہ مخصوص کریں، جس میں بہت سی کہانیاں ہوں۔ میرے خط کا جواب ضرور دیجیے گا۔ (حانیہ نور، لاہور)
ج: حانیہ! بچّوں کے لیے ایک بڑا رنگین صفحہ موجود ہے، جو کراچی سے ہر اتوار کو شائع ہوتا ہے۔ سنڈے میگزین جس قدر منحنی سا ہوچُکا ہے، اب اِس میں مزید کسی نئے سلسلے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk