السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
عرق ریزی سے لکھا گیا مضمون
ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دوہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے متبرّک صفحات شامل تھے۔ ’’بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے‘‘ کے 10 سال پر مضمون، جی ہاں، چین ہمارا ہمیشہ کا، ہر اچھے بُرے وقت کا ساتھی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ قراۃ العین حیدر ادبی سلطنت کی شہزادی ہیں۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کا مضمون ’’القدس!! مُشک بار تاریخ‘ پُرعزم جدوجہد‘‘ بہت ہی عرق ریزی سے لکھا گیا مضمون تھا۔
ویسے سمیحہ جی کا ہر مضمون ہی شان دار ہوتا ہے۔ ’’کہی ان کہی‘‘ میں اِس بار بلوچستان کے معروف اداکار و گلوکار عبداللہ غزنوی موجود تھے اور انہوں نے اپنے حوالے سےکُھل کر باتیں کیں۔ ’’اقوامِ متحدہ جنگ بندی میں ناکام کیوں؟‘‘ اِس کا جواب یہی ہے کہ وہ ممالک، جن کے پاس ویٹو پاور ہے، وہ چاہتے ہی نہیں کہ جنگ بند ہو کہ اُنہیں تو اپنے ہتھیاروں کی فروخت سے غرض ہے۔ یہ پڑھ کر بہت زیادہ خوشی ہوئی کہ اردو، فارسی اور انگریزی کے بعد آج جاپان اقبال شناسی کی نئی سرزمین ہے۔
ماشااللہ جی، آج چڑھتے سورج کی سرزمین، جاپان میں بھی شاعرِمشرق علامہ اقبال کی قدرومنزلت میں اضافہ ہوا ہے۔ ہمیں مفکّرِ پاکستان پر بے پناہ فخر ہونا چاہیے۔ ’’جب دوا ہی زہر بن جائے‘‘ پڑھ کرتو رونگٹے ہی کھڑے ہوگئے کہ پاکستان اُن تیرہ ممالک میں شامل ہے، جہاں یہ دھندا عروج پرہے۔ مَیں سوچتا ہوں، ایسے لوگوں کو کوئی خوفِ خدا نہیں۔ اُنہوں نے اللہ کو جان نہیں دینی۔ تھوڑی سی رقم کے لیے یہ انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں، اللہ پاک انہیں غارت کرے۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)
صفحات مسلسل کم کیوں؟
آپ ’’سنڈے میگزین‘‘ کے صفحات مسلسل کیوں کم کررہی ہیں۔ یہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں کا ادارہ ہے۔ اگر اخبار20روپے کا بھی فروخت ہو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اور ہاں، اگر آپ لوگ اپنی5دن کی تن خواہیں فلسطینی بچّوں کے لیے وقف کردیں گے، تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔ نیز، فلسطینی بچّوں کی شہادت سے متعلق لکھے میرے مضامین کب شایع ہوں گے۔ (شہناز سلطانہ،ناظم آباد نمبر2، کراچی)
ج: آپ کی ذہنی حالت دن بہ دن بگرتی جارہی ہے۔ ہمارے خیال میں تو آپ کو فوری طور پر کسی ماہرِ نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے۔
دیرپا اثرات کی حامل
منورمرزا اُمتِ مسلمہ، او آئی سی کی خاموشی، مجرمانہ غفلت پر بہت افسردہ تھے اور درست ہی افسردہ تھے کہ اگر بیت المقدس کی پاسبانی کےلیے مسلمان ایک نہیں ہوسکتے، تو پھر آخر کب ہوں گے۔ اِس سے زیادہ افسوس کا مقام بھلا ہمارے لیے کیا ہو سکتا ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی’’قصّہ حضرت ایوبؑ کا‘‘ کی صُورت رقم طراز تھے، پڑھ کر ذہنی و روحانی سُکون کے ساتھ معلومات میں بھی خاصا اضافہ ہوا۔ ڈاکٹر حافظ محمّد ثانی ’’مسئلہ فلسطین اورفیض‘‘ کے عنوان سے قدرے مختلف تحریر کے ساتھ آئے اور بہت ہی عُمدگی سے موضوع کو اجاگر کیا۔
پیرزادہ خالد حسن نے ’’یادداشتیں‘‘ میں شاہ انصار الہ آبادی کی نعت نگاری پر روشنی ڈالی۔ فاروق اقدس گوجر خان کے طارق بشیربھٹی کی کام یابیوں کاذکر لائے، توڈاکٹرعارف سکندری ایچ پائلوری (معدہ و آنت کی تکلیف) کے ضمن میں حفاظتی اقدامات سے آگاہ کر رہے تھے اور ماڈل سےمتعلق تواب ہر ہفتے ہی آپ کے قلم سے گویا پھول سے جھڑتے ہیں۔ بقول فراز ؎ سُنا ہے، بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں… یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ کے مضامین ’’باڈی شیمنگ، محرم رشتے، اسموگ اور کچا پپیتا‘‘ سب ہی لاجواب تھے۔ اسی طرح صفحات کو چھوٹے چھوٹے مضامین سے مرصّع کرنے کی کوشش کیاکریں، کیوں کہ مختصر اور جامع تحریریں دیرپا اثرات کی حامل ہوتی ہیں۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل کوٹ ادّو، ضلع مظفّرگڑھ)
ج: سو فی صد درست کہہ رہی ہیں آپ، خصوصاً دورِ حاضر میں تو لوگوں کے پاس طول طویل مضامین پڑھنے کی فرصت ہی نہیں رہ گئی ہے، تب ہی تو ’’کُتب بینی‘‘ مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ بلاشبہ اب مختصر سے مختصر ہی پسندیدہ ٹھہرا اور یہ واٹس اپ اسٹیٹس، فیس بُک اسٹوریز، شارٹ رِیلز اور انسٹا اسٹریکس وغیرہ اسی ’’وقت کم، مقابلہ سخت‘‘ ہی کی تو عملی تفسیر ہیں۔
شفقت اور حوصلہ افزائی
سنڈے میگزین موصول ہوا، تمام مضامین بالخصوص ’’قصّہ قوم لوطؑ‘‘، ’’روبوٹ‘‘، ’’جدّہ، جدّت و قدامت کا حسین امتزاج‘‘ کا جواب نہ تھا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی تمام تحریریں قابلِ تعریف تھیں اور سب سے بڑھ کر بلکہ انتہا درجے کی خوشی اپنی تحریر ’’گوتم بدھ: عدم تشدّد کے پرچارک‘‘ کی اشاعت پر ہوئی۔ بندہ اس شفقت اور حوصلہ افزائی پر آپ کا بے حد ممنون اور سنڈے میگزین (روزنامہ جنگ) کی ترقی و ترویج کے لیے دُعاگو ہے۔ (بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)
ج:جی… ہم وقتاً فوقتاً یہی بات گوش گزار کرتے رہتے ہیں کہ جو تحریر قابلِ اشاعت ہو، وہ باری آنے پر شائع کر ہی دی جاتی ہے۔ اب جس تحریر میں بالکل ہی کوئی دَم خَم نہ ہو، اُسے ہم بھلا کیسے شائع کریں۔
آتے ہی تخت پر…
تازہ ’’سنڈے میگزین‘‘ میں ابتدا ہی میں منور مرزا کا ’’حالات و واقعات‘‘ موجود تھا۔ ہمیشہ کی طرح بہت اعلیٰ تجزیاتی تحریر۔ جس سے مُلکی وعالمی منظرنامہ عین نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ سرِورق کی ماڈل دیکھ کر لگا، جیسے اصل بالوں کی جگہ وِگ لگا رکھی ہے۔ چہرہ غائب تھا، بس بال ہی بال دکھائی دیئے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں صائمہ فرید نے پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ قاضی پرعُمدہ تحریر لکھی کہ آدھے صفحےمیں اُن کی پوری داستانِ حیات بیان کرنا کمال ہی تھا۔ پروفیسر صاحبہ کی ماضی اور حال کی تصاویر کا انتخاب بھی عُمدہ تھا۔ ’’پیارا گھر‘‘میں حکیم حارث نسیم سوہدروی کا اخروٹ پر مضمون معلوماتی اور موسم کی مناسبت سے تھا۔ ’’متفرق‘‘ میں بابر سلیم خان نے بھی گوتم بدھ سےمتعلق آدھےصفحے پر کافی معلومات مہیا کیں۔
’’ڈائجسٹ‘‘ کا صفحہ بھی بہت اچھا ہوگیا ہے۔ ملک رضوان بزم میں کافی عرصے بعد آئے اور آتے ہی آپ نے اُن کو تخت پر بٹھا دیا۔ تو اب تو وہ یقیناً آتے جاتے ہی رہیں گے۔ اگلے ایڈیشن کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا اور’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ونگ کمانڈر(ر) محبوب حیدر سحاب کےمضامین تومیگزین کے ماتھےکا جھومر ٹھہرے۔ عرفان جاوید کا بے حد شکریہ کہ کبھی کبھی آتے ہیں، مگر ہمیشہ کسی شاہ کار کے ساتھ ہی آتے ہیں۔ جیسا کہ اس بار لیجنڈ شخصیت ضیا محی الدین پر بہت ہی عُمدہ اور پڑھنے کے لائق مضمون لے کر آئے اور ہاں، مضمون ایک ہی قسط میں ختم کرنے پر آپ کا بھی بہت شکریہ۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں روبینہ شاہد کے سنگاپورین رائس نے دل خُوش کردیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ کی ’’واپسی‘‘ کا جواب نہیں۔ ڈاکٹر قمرعباس’’ زمیں بوس عمارت‘‘ کے ساتھ موجود تھے اور ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے تینوں واقعات ہی سبق آموز رہے۔ نئی کتابوں میں ایک ہی کتاب پر تبصرہ کیا گیا، لیکن منور راجپوت نے ایسا شان دار تبصرہ کیا کہ پڑھ کے دل خُوش ہوگیا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)
ج:دراصل اِن دنوں تخت کے پرانے حاکمین کی ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں عدم شرکت کے سبب بھی نئےنئے لوگوں کو مسندِ اقتدار سنبھالنے کا موقع مِل رہا ہے۔ اور ایک طرح سے یہ اچھا بھی ہے کہ چند ایک ہی کی اجارہ داری ختم ہو رہی ہے۔ ویسے ملک محمّد رضوان ماضی میں بھی ’’اِس ہفتے کی چِٹھی‘‘ کے حق دار قرار پاتے رہے ہیں۔ اور ہاں، ماڈل پر آپ ذرا کم ہی توجّہ مرکوز کیا کریں کہ وہ کیا ہے ؎ اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبّت کے سوا۔ ’’اسٹائل‘‘ جب آپ کا شعبہ ہی نہیں، تو ناحق اس پر تبصرہ نگاری کیوں فرماتے ہیں۔ جس شوٹ کی آپ بات کررہے ہیں، وہ تھا ہی ’’ہیئراسٹائلز‘‘ پر اور ماڈل نے مختلف اسٹائلز بنا رکھے تھے، نہ کہ کسی وِگ کا استعمال کیا گیا۔
محدّب عدسے کا استعمال
سنڈے میگزین دن بدن کم زور سے کم زور تر ہوتا جا رہا ہے۔ براہِ مہربانی اس حوالے سے کوئی قدم اُٹھائیں۔ صورتِ حال یہی رہی، تو لگتا ہے، سنڈے میگزین دیکھنے کے لیے محدّب عدسے کا استعمال کرنا پڑے گا۔ کیا زمانہ تھا، جب میگزین میں زمین جنبد نہ جنبد گُل محمّد، نہ ستائش کی تمنّا، نہ صلے کی پروا، نیٹ بیتیاں اور تین مرد تین کہانیاں جیسے سلسلے شائع ہوا کرتےتھے، تو کبھی آغا ناصر کی یادداشتیں۔ صفحات میں اضافہ کرکے وہی سلسلے دوبارہ شروع کیے جائیں۔ اور ہاں، ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کا سلسلہ بند کردیں یہ سلسلہ کچھ خاص نہیں۔ پڑھ کر ہم مزید دُکھی ہو جاتے ہیں۔ اس کی جگہ ’’جو دل میں اُتر جائے‘‘ دوبارہ شروع کردیں۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج: اِس مُلک کے اتنے ہی اچھے، صفحات بڑھانے والے حالات ہوتے تو آپ اب تک یوں ہی بے روزگار، لُور لُور پِھر رہے ہوتے۔ بیش تر جریدے تو صفحۂ ہستی سے غائب ہوگئے ہیں۔ آپ شُکر کریں کہ محدّب عدسے ہی سے سہی، سنڈے میگزین دیکھ تو پا رہے ہیں۔
لاجواب تحفۂ قدرت
پُرامید ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گی۔ ماڈل حیات فاطمہ نے دل جیت لیا۔ بلاشبہ وہ بہت بہت ہی خُوب صُورت لگ رہی تھی۔ یا تو میک اَپ کا کمال تھا یا پھر وہ واقعتاً خُوب صُورت تھی، کچھ کہہ نہیں سکتا۔سچ یہ ہےکہ عورت لاجواب تحفۂ قدرت ہے۔ جی ہاں، وہ دسمبر ہی تو ہے، جس نے ہمارے کئی پیارے، جان سے پیارے ہم سے جُدا کیے ہیں۔ مَیں وہ دن کبھی نہیں بھول سکتا، جس دن وہ ہمیں چھوڑ جانے کا فیصلہ کرکے اپنے معصوم بچّے بھی چھوڑ کے چلی گئی تھی۔ ہاں، وہ بھی دسمبر ہی تھا، 2 دسمبر اور اب ہمارے گھر میں ہر رات ہی دسمبر کی رات ہے۔
مگر 2 دسمبر کی سیاہ رات تو مَیں دو دیئے آتشِ خون سے دہکا کے گھر کی دہلیز پر رکھ دیتا ہوں۔ یہی دُعا ہے، جہاں رہو، خُوش رہو۔ آہ! یہ چشمِ نم دسمبر ہی کی لمبی راتوں کا فیض ہے شاید۔ قیصر قصری کی ’’واپسی‘‘ کی پہلی قسط پڑھی اور دل تک رسائی کے لیے معدے کو سنگاپورین رائس سے بَھرا۔ پھر موسمِ سرما کی سوغات، خشک میوہ جات سے لُطف اندوز ہوئے۔ ’’قصّہ حضرت بی بی مریم بنتِ عمران علیہا السلام کا‘‘ پڑھ کر بہت اچھا لگ رہا ہے۔ اندازِ بیاں کا جواب نہیں۔ ان تمام شان دار سلسلوں کی اشاعت کا بےحد شکریہ۔ اللہ آپ سب کو ہمیشہ ہمیشہ خوش و خرّم رکھے، آمین۔ (غلام نبی لغاری، سانگھڑ)
ج: آپ عورت سے شروع ہوئے، عورت ہی پر ختم ہوگئے۔ تبصرے کی آڑ میں اپنی رام کہانی بھی لکھ ڈالی۔ ویسے جو مرد بےسبب، بلا ضرورت اپنی اِس قدر ذاتی باتیں اِس طرح کسی عوامی فورم پرکرسکتا ہے، اُس کے ساتھ گزارہ کچھ اتنا آسان بھی نہیں ہوگا۔ براہِ کرم آئندہ مندرجات تک محدود رہیں۔ ہم نے یہ تحریر بھی محض تنبیہہ کے طور پر شائع کی ہے۔
فی امان اللہ
شمارہ موصول ہوا، سحر و شام میں جلوہ نُما بلوریں آنکھوں والی ماڈل دیکھتے آگے بڑھ گئے۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا عالمی مالیاتی بحران کے چیلنج کی نشان دہی کر رہے تھے۔ معیشت پر فوکس رکھنے کی بجائے سیاسی تجربات میں الجھنے والے ممالک زیادہ مصیبت زدہ ہیں اور اُن میں ہمارا مُلک بھی شامل بلکہ سرِفہرست ہے۔ کسی بھی سیاست دان اورجماعت کو مُلکی معیشت کی کوئی فکر نہیں۔ عوام بے روزگاری، منہگائی کی دلدل میں دھنستے ہی چلے جا رہے ہیں۔ پھر ہوش رُبا یوٹیلیٹی بلز… اب پاپی پیٹ بَھریں یا یہ بِلز جمع کروائیں۔ جب کہ حُکم رانوں، سیاست دانوں کی ہنوز وہی روش ہے بس، ایک دوسرے پر الزام تراشیاں جاری ہیں۔
الیکشن سر پرہیں، مگر عوام کے مسائل کے حل کا کوئی منشور کسی کے پاس نہیں۔ کوئی اسٹیبلشمینٹ کی چھتری ملنے پر خوش،توکوئی دھتکارا ہوا مایوس ہے۔ کل کا لاڈلا،آج معتوب ہے، توکل کا معتوب آج محبوب۔ ایسے میں بھلا عوام کی حالتِ زار پرغور کی کسےفرصت ہے۔ وہی نعرے، وہی دعوے، مگر جو پیا مَن بھائے، وہی سہاگن۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے بہترین سلسلے ’’قصص القرآن‘‘ میں ’’قصّہ قومِ فرعون پرعذابوں کا‘‘ پڑھا۔ قرآنِ حکیم کے تمام قصص کی طرح اِس میں بھی بڑے اسباق پوشیدہ ہیں، بشرطیکہ کوئی عبرت حاصل کرنے والا ہو۔
فلسطین پر یہودی جو مظالم ڈھارہے ہیں، دیکھ کراندازہ ہوتاہےکہ ہولوکاسٹ کیوں کر ہوا ہوگا۔ غزہ کو جس بے دردی سے تباہ کیا جا رہا ہے۔ ہزاروں بچّے، عورتیں، مرد سفاکانہ بم باری کا نشانہ بن رہے ہیں، اسپتال، اسکول تک محفوظ نہیں اور نام نہاد مہذّب ترقی یافتہ ممالک، جو جانوروں پر ظلم پہ توصدائے احتجاج بلند کرتے ہیں، اِن لرزہ خیزہلاکتوں پرمُہربہ لب ہیں، بذاتِ خُود کسی المیے سے کم نہیں۔ وہ کیا ہے کہ ؎ حادثےسےبڑاسانحہ یہ ہوا… لوگ ٹھہرے نہیں، حادثہ دیکھ کر۔ جب کہ ڈوب مرنے کا مقام تو 57 مسلم مملک کے لیے بھی ہے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں رابعہ فاطمہ علامہ اقبال کا فکر و فلسفہ اجاگرکررہی تھیں۔ ’’رپورٹ‘‘ میں فاروق اقدس افغانوں کی بےدخلی کی تفصیلات بتا رہے تھے کہ آخر کب تک ہم اِن بِن بُلائے مہمانوں کی خدمت کرتےرہیں گے اور جواب میں سوائے احسان فراموشی، دہشت گردی، اسمگلنگ کے کچھ حاصل وصول بھی نہیں۔
میدانِ کرکٹ میں بھی احسان فراموشی کی بڑی مثال پیش کی گئی کہ جنہیں ہم نے بیٹ پکڑنا سکھایا، وہ بھارت میں ہمارے ہی خلاف بھارتی سپورٹر بن گئے۔ ’’سینٹراسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ نے اچھا رائٹ اَپ تحریر کیا۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس میں ڈاکٹر ناصر چوہدری نے رئوف ظفرسے بات چیت میں انکشاف کیا کہ مُلک میں 80 لاکھ افراد امراضِ چشم میں مبتلا اور 20لاکھ بینائی سے محروم ہیں۔ ’’نئی کتابیں‘‘ پر اخترسعیدی کا دانش ورانہ تبصرہ پڑھنے کو ملا۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں سید امیر احمد عراق، ایران کے مقدّس مقامات کی زیارت کروا رہے تھے، تو ’’پیارا گھر‘‘ میں سید آفتاب حسین نے پرائمری تعلیم کی ضرورت و افادیت پر روشنی ڈالی۔ افراح عمران نے کُھلی فضا میں سانس لینے کی مشقوں کا ذکر کیا۔ سچ کہیں تو سبھی کچھ بہت خُوب تھا،خاص طورپر’’آپ کا صفحہ‘‘ میں جو ہمیں اعزازی مسند عطا کی گئی۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)
ج: تب تو پھر آج بھی ہر طرف ’’ہرا ہرا‘‘ ہی ہوگا کہ مسندِ اعزازی تو آج بھی آپ ہی کے نام ہے۔
* ایک عرصے بعد ای میل کررہی ہوں۔ لگتا ہے، زندگی میں وقت کم اور کام زیادہ ہیں، لیکن بہرحال میگزین کا مطالعہ پابندی سے جاری ہے۔ پچھلے 16/15سالوں میں کبھی ایک میگزین بھی مِس نہیں کیا۔ غالباً یہ وہ ایک آخری چیز ہے، جس نے مجھے اُردو زبان اور پاکستانی ثقافت سے آج تک جوڑ رکھا ہے۔
آج سال کی آخری رات بھی گھر میں اکیلی بیٹھی میگزین پڑھتے پڑھتے پرانی یادوں میں کھوتی چلی گئی، تو سوچا آپ کو ایک ای میل ہی کرلوں۔ نئے سال کے خصوصی ایڈیشن کا شدت سے انتظار ہے۔ اُمید ہے، ہر سال کی طرح لاجواب ہوگا۔ آپ کی پوری ٹیم اور ہمارے سارے پیارے قارئین کو میری طرف سے نیا سال بہت بہت مبارک ہو! اِن شاء اللہ پھر جلد آنے کی کوشش کروں گی۔ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)
ج: سچ ہے، دل سے دل کو راہ ہوتی ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل ہم تمہارے بارے میں سوچ رہے تھے کہ اچانک نہ جانے کہاں غائب ہوگئی ہو، پہلے تو تقریباًہر ہفتے ہی حاضری لگاتی تھی۔
* اس ہفتے کا شمارہ سُپریٹ تھا۔ تمام مضامین بہت پسند آئے، خاص طور پر ’’قصص القرآن‘‘ بہت اچھا لگا، لیکن ایک اختلاف ہے کہ تیسری سے آٹھویں جماعت تک، جب بھی مَیں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قصّہ پڑھا، وہ اِس قصّے سے کچھ مختلف ہی تھا۔ اور براہ کرم یہ بھی بتا دیں کہ کیا میرے مضامین قابلِ اشاعت ہیں یا نہیں، کیوں کہ اُن کا ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں بھی دُور دُور تک نام و نشان نہیں۔ (محمد عمیر جمیل، منگھوپیر، کراچی)
ج: ہمارے یہاں جو ’’قصص‘‘ شائع ہورہے ہیں، وہ سو فی صد مستند ہیں۔ اُن سے متعلق آپ کو کسی قسم کا ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ ماضی میں آپ جو کچھ پڑھتے رہے ہیں، اُن میں ضرور کچھ مبالغہ آرائی ہوسکتی ہے اور آپ کے مضامین کی اطلاع جلد یا بدیر، جریدے ہی کے ذریعے ملے گی۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk