• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ سائیں کے فضل وکرم سے ہم نے انگریز کو ہندوستان چھوڑ کر جانے سے پہلے برصغیر کے بٹوارے پرراضی کرلیا۔ انگریز نے ہندوستان چھوڑنے سے پہلے ہندوستان کا بٹوارہ کیا۔ اس طرح ہمیں پاکستان ملا، بلکہ ہم نے انگریز سے پاکستان حاصل کیا۔ انگریز کو برصغیر کے بٹوارے پر راضی کرنا کوئی چھوٹی موٹی بات نہیں تھی۔ ہم نے بر صغیر کی تاریخ الٹ پلٹ کررکھ دی۔ ایک موروثی مکان کے بٹوارے کی خاطر فیملی کے ارکان آپس میں لڑ پڑتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجاتے ہیں۔ قتل وغارتگری پر اتر آتے ہیں۔ انیس سو سینتالیس میں تو ایک ملک کا بٹوارہ ہوا تھا۔ برصغیر میں خوفناک فسادات کی آگ بھڑک اٹھی۔ ان فسادات میں ہم نے دل کھول کر جانوں کی قربانی دی۔ ہمارے آبائواجداد شہید ہوئے۔ ہندو اور سکھ جہنم رسید ہوئے۔ انیس سو سینتالیس میں لگی ہوئی آگ کی چنگاریاں برصغیر میں آج تک سلگ رہی ہیں۔ مروجہ حالات کے پیش نظر سلگتی ہوئی چنگاریاں قیامت تک سلگتی رہیں گی۔

ایک آزاد وطن کی خاطر ہم نے بے حساب قربانیاں دیں۔ ہم نے اپنا تاریخی ورثہ دیرینہ دشمن کے دیس میں چھوڑ دیا۔ ہمارے آبائوآجداد نے یہ نیک کام اچھا نہیں کیا۔ تاج محل جیسا ورثہ ہم نے ہندوستان کے حوالے کردیا۔ تب ٹیکنالوجی بہت ترقی کر چکی تھی۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد کی بات ہے۔ مصر میں اسوان ڈیم بنانے کیلئے یوینسکو کے تعاون سے فرعون کے دیوہیکل مجسمے اور منسلک عمارتیں اپنی اصلی جگہ سے اٹھاکر محفوظ جگہ منتقل کی گئی تھیں۔ دنیا بھر سے سیاح آج تک سائنس دانوں کا غیر معمولی کارنامہ دیکھنے کیلئے بہت بڑی تعداد میں مصر آتے رہتے ہیں۔ یونیکسو کی مدد سے ہم بھی تاج محل کراچی لاسکتے تھے۔ غیر ملکی سیاح لاکھوں کی تعداد میں تاج محل دیکھنے کیلئے ہندوستان آتے رہتے ہیں۔ ہندوستان کے خزانے بیرونی کرنسی ڈالر، پائونڈ اور یورو سے بھرتے رہتے ہیں۔ اگر ہم تاج محل اٹھا کر کراچی لے آئے ہوتے، توآج ہمارے خزانے ڈالر ، پائونڈ اور یورو سے کچھا کھچ بھرے ہوئے ہوتے۔ مگر ہمارے آبائواجداد نے ایسا نہیں کیا۔ اس بات کو پون صدی گزر چکی ہے۔ اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں جگ گئیں کھیت۔

بہرحال ہم نے اپنے لئے ایک آزاد وطن حاصل کرلیا۔ پاکستان مل جانے کے بعد ہم نے انگریزوں سے چن چن کر بدلہ لینے کی ٹھان لی۔ بدلہ لینے کا ہمارا طریقہ اہنساپر مبنی تھا۔ یعنی بغیر جنگ وجدل اور خون خرابے کے غنیم اور حریف کو، یعنی دشمن کو نیست ونابود کرنا۔ وہ کام ہم نے بخوبی کیا۔ کراچی میں انگریز کے دور کی چند بچی کھچی عمارتوں میں سے ایک عمارت وکٹوریا میموریل کے نام سے بن کر تیار ہوئی تھی۔دیدہ زیب تھی وہ عمارت آج تک ہے۔ انگریز کی اکثر بنائی ہوئی عمارتوں پر دوچیزیں نمایاں ہوتی تھیں، ایک گنبد اور دوسرے گھڑی جس کو گھڑیال کہا جاتا تھا۔ انگریز کےدور میں صرف انگریز نے اینگلو اورینٹل عمارتیں نہیں بنوائی تھیں، کراچی کو دیدہ زیب بنانے میں پارسی اور ہندوئوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا۔ فقیر کی رائے میں کراچی کی سب سے خوبصورت عمارت میونسپل کارپوریشن ڈی جے سائنس کالج، سندھ ہائی کورٹ اور ہندوجیم خانہ کی تھی، ہندو جیم خانہ بھی سیٹھ گوپال گوردھنداس موہاٹا نے بنوایا۔ جیم خانہ کے ساتھ کرکٹ گرائونڈ ہوتاتھا۔ اسی گرائونڈ پر جے نائومل کھیلتے تھے۔ جے نائومل انیس سو چھبیس کی آل انڈیا کرکٹ ٹیم کے لئے سلیکٹ یعنی منتخب ہوئے تھے۔ آج کل ہندو جیم خانہ گرائونڈ پر پولیس کے بے رونق اور بھدے سیکڑوں فلیٹ بنے ہوئے ہیں۔ یہ کراچی پولیس کی قبضہ گیری کی پہلی واردات ہے۔

تاریخ کا ایک طالب علم برنس روڈ کے اطراف وکٹوریا میموریل کے نام سے ایک دیدہ زیب عمارت کی کھوج میں لگ گیا۔ انگریز نے رانی وکٹوریا کی گولڈن جوبلی کے موقع پر رانی کیلئے دویادگار بنائی تھیں، ایک کلکتہ میں اور دوسری کراچی میں کراچی کیلئے ایک خوبصورت عمارت میوزیم کیلئے بنوائی تھی۔میوزیم کی خوبصورت عمارت، جس پر ایک گنبد بھی بنا ہوا تھا، برنس روڈ کے قرب وجوار میں تھی۔ بلکہ آج تک اپنے جاہ وجلال سے اپنی جگہ موجود ہے۔ برنس روڈ کو بھائی لوگوں نے انگریز سے بدلہ لینے کیلئے غائب کردیا۔برنس روڈ کو نیا نام محمد بن قاسم روڈ دیا۔ اب آپ وکٹوریا کی یاد میں بنا ہوا عظیم الشان میوزیم دیکھنے کیلئے برنس روڈ ڈھونڈتے پھریں۔ دیواروں سے سرٹکرائیں، آپ کو نہ ملے گا برنس روڈ اور نہ ملے گا یادگار میوزیم۔انگریز سے ہمیں بدلہ تو لینا تھا، اس لئے میوزیم کی بیش بہا نوادرات ہم نے نکال کر باہر پھینک دیے اور اس کی جگہ ہم نے کوئی سرکاری دفتر کھول دیا۔ اس کے بعد اس دیدہ زیب عمارت میں کئی دفاتر کھلے۔ آج کل وہاں سپریم کورٹ کی ذیلی عدالت کا دفتر کھلا ہوا ہے۔ وہاں پہنچنے کیلئے آپ کو برنس روڈ نہیں ملے گا۔ آپ کو وہاں پہنچنے کیلئے محمد بن قاسم روڈ سے آنا پڑے گا۔

سپریم کورٹ کے زیر استعمال عالیشان عمارت انگریز کے دور کی ان چند باقی بچ جانے والی عمارتوں میں سے ایک ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے ہمارے بدلے کی بھاوئوں سے محفوظ رہی ہیں۔ دوسری عمارتوں میں موہٹہ پیلس، سندھ اسمبلی، سندھ ہائی کورٹ ، کراچی میونسپل کارپوریشن، سینٹ پیٹرک اسکول، کراچی گرامر اسکول، بی وی ایس پارسی اسکول، ماما پارسی گرلز اسکول، گورنر ہائوس کراچی پورٹ ٹرسٹ، ہندو جیم خانہ جسے بھائی لوگوں نے کھنڈر بنادیا تھا، ازسر نو موہٹہ پیلس کی طرح خوبصورت بنایا گیا۔ پارسیوں کے ذاتی استعمال میں آنے والی عمارتیں اب تک تباہی سے بچی ہوئی ہیں۔ ورنہ بھائی لوگوں نے تو کراچی کی ایک شناخت بولٹن مارکیٹ کو سرے سے غائب کردیا ہے۔ برنس روڈ، فرئیر روڈ، جمشید روڈ، صدر کے چپے چپے پر انگریز، پارسی، اور ہندوئوں کی لاجواب عمارتیں ہم نے اجاڑ کر رکھ دی ہیں۔ حشر نشر کی کہانیاں جاری رہیں گی۔

تازہ ترین