ملک میں انتخابی نتائج آنے کے بعد دوسرے مرحلے میں مرکز اور صوبوں میں حکومتیں بنانے کیلئے مشاورت اور الیکشن 2024ءکے نتائج پر ملک بھر میں بحث جاری ہے۔ سندھ کے نتائج سے شہری اور دیہی فرق نظر آرہا ہے۔ ایم کیو ایم نے کراچی اور حیدرآباد سے جبکہ باقی اضلاع میں پاکستان پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے۔ 1988ءکے الیکشن کے نتائج اور 2024ءکے الیکشن کے نتائج میں حیران کن مماثلت ہے۔ آج سے 36 سال قبل اسلامی جمہوری اتحاد (IGI) اور سندھ قومی اتحادجو سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف نو جماعتوں نے بالخصوص سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کیخلاف بنایا تھا۔تین دہائیوں کے بعد ایک بار پھر اس الیکشن میں پیپلز پارٹی کے مخالفین نے ملکر الیکشن لڑا۔ ان جماعتوں میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جے ڈی اے)، ایم کیو ایم، سندھ یونائیٹڈ پارٹی، قومی عوامی تحریک پاکستان (ایاز لطیف پلیجو)، اے این پی اور آزاد امیدوار شامل تھے، لیکن 1988ءمیں سندھ کے عوام کے اسی فیصلے کے مطابق، وہ دونوں انتخابات میں ہار گئے۔شاہ مردان شاہ خود اور انکے بیٹے سید صدر الدین شاہ، الٰہی بخش سومرو، محمد میاں سومرو، غلام مصطفی جتوئی، شفقت شاہ جاموٹ، مظفر حسین شاہ، ارباب غلام رحیم، کوڑل شاہ، عبدالحمید جتوئی۔ لیاقت علی جتوئی، اعجاز علی جتوئی، رسول بخش پلیجو، ابراہیم جتوئی، غوث علی شاہ، پیر صبغت اللہ شاہ حاضر، پیر پگارو، وریام فقیر، ممتاز علی بھٹو، اب پھر ان کے بیٹے غلام مرتضیٰ اور مسرور خان، ان کے بھتیجے شاہ نواز۔ لاڑکانہ سے جمعیت علمائے اسلام کے علی محمد حقانی اور مولانا راشد محمود سومرو، ناصر محمود سومرو اور انکی جماعت کے کئی امیدوار اس الیکشن میں ہار گئے۔ 1988ءکے انتخابات میں سندھ قومی اتحاد کے صدر جی ایم سید جنہوں نے پیپلز پارٹی مخالف کئی امیدواروں کیلئے کام کیا اور انکے انتخابی جلسوں سے خطاب کیا، سندھ قومی اتحاد کی شکست کی وجوہات پر ایک طویل خط بھی جاری کیا تھا۔1988کے الیکشن میں کراچی اور حیدرآباد کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالفین کو صرف دو قومی اسمبلی کے ممبران امیر حسین تھرپارکر اور سانگھڑ سے سید علی گوہر شاہ راشدی ہی شکست دے سکے جبکہ صوبائی اسمبلی میں سات آزاد اراکین، شاہ علی کشمور سے ، سکرنڈ سے سید امداد محمد شاہ، تھرپارکر سے سید علی مردان شاہ، ارباب فیض محمد، سانگھڑ سے غلام حیدر نظامانی، مری سے خلیفہ محمد عاقل اور غلام مرتضیٰ جتوئی آئی جی آئی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔ دوسری جانب ایم کیو ایم نے 2024 کے انتخابات میں کراچی اور حیدر آباد سے تقریباً اتنی ہی نشستیں حاصل کی ہیں۔ 2024 کے حالیہ انتخابی نتائج میں پیپلز پارٹی کے صرف دو مخالف اراکین مسلم لیگ فنکشنل کے سید راشد علی شاہ اور سانگھڑ سے غلام دستگیر راجڑ کامیاب ہوئے ہیں۔ گھوٹکی سے تین ارکان نادراکمل لغاری،جام مہتاب ڈہر، جیکب آباد سے ممتاز علی جاکھرانی آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے، قوی امکان ہے کہ یہ تینوں ارکان پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوجائیں گے۔ تاہم اس الیکشن میںکسی ایک ضلع سے بھی پاکستان پیپلز پارٹی کا مخالف امیدوار قومی اسمبلی میں کامیاب نہیں ہو سکا۔2024کے الیکشن میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 16امیدواروں نے قومی اسمبلی میں حصہ لیا، جن میں سے دو راشد محمود سومرو اور ایک ان کے بڑے بھائی ناصر محمود سومروتھے، اور صوبائی اسمبلی میں 36 امیدواروں نے حصہ لیا، تاہم انکا امیدوار جیت نہیں سکاـ انکا دعویٰ ہے کہ انہیں قومی اسمبلی میں 4لاکھ 65ہزار 7سو 97اور صوبائی اسمبلی میں 4لاکھ 20ہزار 9سو 18ووٹ ملے ہیں۔قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 208میں سندھ یونائیٹڈ پارٹی (ایس یو پی) کے امیدوار سید زین شاہ نے 58ہزار 785ووٹ حاصل کیے، این اے 226میں سید منیر حیدر شاہ نے 30ہزار 8سو 76 ووٹ حاصل کیے۔ صوبائی اسمبلی کے 6 امیدواروں میں سید زین شاہ نے پی ایس 38سکرنڈ سے 40ہزار 8سو 50، چوہدری عارف نیاز آرائیں نے پی ایس 39قاضی احمد سے 15ہزار 15، پی ایس 72گولارچی سے امیر حسن پنہور نے 24ہزار 2سو 96ووٹ حاصل کئے۔ پی ایس 78کوٹری سے سید منیر حیدر شاہ 10 ہزار 8سو 50، پی ایس 77سیہون شريف سے روشن علی برڑو 10ہزار 2سو 68، پی ایس 79 جامشوری سے ایڈووکیٹ میر احمد منگریو ایک ہزار 4 سو 42ووٹ لے سکے۔ ایس یو پی کو صوبائی اسمبلی میں کل ایک لاکھ دو ہزار سات سو دس ووٹ ملے۔قومی عوامی تحریک کے صدر ایاز لطیف پلیجو حلقہ پی ایس 60قاسم آباد سے صرف 6ہزار 922ووٹ لے سکے۔ سندھ کی ایک اور قوم پرست جماعت عوامی تحریک (رسول بخش پلیجو) نے مٹھی، گولارچی، ٹنڈو باگو، میرپورخاص، ٹنڈو الہیار، شہداد پور، سامارو اور نوشہرو فیروز کے دو حلقوں سے مجموعی طور پر 3441 ووٹ حاصل کیے، کوئی امیدوار ایک ہزار ووٹ نہ لے سکا۔ 9امیدواروں میں سے صرف دو امیدوار 500ووٹ حاصل کر سکے۔خادمین سندھ (سندھ ترقی پسند پارٹی) ڈاکٹر قادر مگسی نے پی ایس 67 بلڑی شاہ کریم سے 16ہزار 6سو 2ووٹ لیے۔ پی ایس 37نواب شاہ سے خادمین سندھ کی خاتون امیدوار مسرت ملاح 724ووٹ لے سکیں۔ جبکہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے پی ایس 32 کنڈیارو سے مس سندھو نواز گھانگھڑو نے 4ہزار 347 ووٹ حاصل کیے، پی ایس 13لاڑکانہ سے استاد لیاقت علی میرانی نے 2ہزار 65ووٹ حاصل کیے، پی ایس 2تھل سے پاکستان پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کی عروسہ لاشاری کو 66 ووٹ ملے، پی ایس 60قاسم آباد سے پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کے سید حسنین شاہ نے 571ووٹ حاصل کیے۔ پی ایس 17 نصیر آباد سے عوامی ورکرز پارٹی کے کامریڈ سنگھار نوناری نے 1150ووٹ حاصل کیے، عوامی ورکرز پارٹی کی بیگم خاتون نے پی ایس 4کشمور سے 1130ووٹ حاصل کیے۔ پی ایس 98 کراچی سے ایڈووکیٹ سید خلیل احمد شاہ عوامی راج تحریک پارٹی (غیر رجسٹرڈ) کو ایک سو 75ووٹ ملے، اسی جماعت کے امیدوار میاں الیاس عباسی کو پی ایس 110کراچی کے حلقے سے صرف 30 ووٹ ملے۔ پی ایس 110سے معروف سماجی کارکن ایڈووکیٹ محمد جبران ناصر نے 3ہزار 834ووٹ لیے۔اسی طرح حیدرآباد شہر کی دو قومی اسمبلی کی نشستوں پر ایم کیو ایم کے عبدالعلیم خانزادہ اور سید وسیم حسن نے کامیابی حاصل کی، ـ حیدرآباد شہر کی چار نشستوں میں سے ایم کیو ایم نے تین اور آزاد (پی ٹی آئی) نے ایک نشست حاصل کی ۔2024کے انتخابی نتائج میں کراچی سے پاکستان پیپلز پارٹی کے 7 امیدوار قومی اسمبلی میں کامیاب ہوئے ، جن میں ضلع ملیر سے عبدالحکیم بلوچ، ضلع مشرقی سے آغا رفیع اللہ، جام عبدالکریم جوکیو، اسد عالم نیازی، ضلع جنوبی سے مرزا اختيار بیگ شامل ہیں۔ اور لیاری سے نبیل گبول اور ضلع کیماڑی سے عبدالقادر پٹیل کامیاب ہوئے ہیں۔یاد رہے کہ 1988 کے الیکشن میں کراچی سے پاکستان پیپلز پارٹی کے صرف دو ارکان کامیاب ہوئے تھے۔ بے نظیر بھٹو (لیاری) اور امیر حیدر کاظمی منتخب ہوئے تھے۔کراچی سے پاکستان پیپلز پارٹی صوبائی اسمبلی کی صرف 10 نشستیں حاصل کر سکی، جس میں کورنگی سے فاروق اعوان۔ پانچ اميدوار ملیر سے، سعید غنی ضلع شرقی، لیاقت آسکانی (رند) کیماڑی سے، یوسف بلوچ نے لیاری سے کاميابی حاصل کی ،لیاری کی تین نشستوں میں سے پیپلز پارٹی صرف ایک نشست جیت سکی۔ جماعت اسلامی نے صوبائی اسمبلی کی 2نشستیں حاصل کیں۔ جماعت اسلامی کو قومی اسمبلی میں ایک نشست بھی نہ مل سکی۔قومی اسمبلی میں آزاد (پاکستان تحریک انصاف) ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکی جبکہ صوبائی اسمبلی میں آزاد امیدواروں نے کراچی اور حیدرآباد سے 13نشستیں حاصل کی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو ووٹ کے حوالے سے سندھ کی قوم پرست جماعت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ سندھ کے عوام نے پاکستان پیپلز پارٹی کو 1988 سے زیادہ نشستیں دے کر نئی مثال قائم کی ہے۔