• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

پبلشر کا نام اور نمبر…؟

’’سنڈے میگزین‘‘ پڑھا۔ ’’قصص القرآن‘‘ میں حضرت عیسیٰ ابنِ مریمؑ کے قصّےکی دوسری قسط شائع ہوئی۔ میرے ریکارڈ کے مطابق یہ ’’قصص القرآن‘‘ کی31ویں قسط ہے اور شاید سنڈے میگزین میں کسی بھی مذہبی سلسلے کی یہ سب سے طویل سیریز ہے۔ اِس سے پہلے 2021 ء میں فاضل مضمون نگار کی ’’سیرتِ صحابیات‘‘ کی29اقساط شائع ہوئی تھیں، جواُس وقت تک کی طویل ترین سیریز تھی۔ اب محمود میاں نجمی نے اپنا ریکارڈ خُود ہی توڑ دیا ہے۔ اتنے کام یاب، ایمان افروز اور مفید سلسلے کو کام یابی کے ساتھ جاری وساری رکھنے پر میں فاضل مصنّف، آپ اور آپ کی ٹیم، نیز جنگ انتظامیہ کومبارک باد پیش کرتا ہوں۔ 

مَیں ایسے کئی بزرگوں سے واقف ہوں، جنہوں نے اِن مضامین کو موضوع کےاعتبار سےمختلف فائلز میں محفوظ کررکھاہے۔میری آپ سے درخواست ہے کہ اگر ایک بار نجمی صاحب کی کتب کے پبلشر کا فون نمبر شائع کردیں، تو مجھ سمیت بہت سے لوگوں کا بھلا ہوجائےگا۔ ایکسپو سینٹر کے ’’عالمی کتب میلے‘‘ میں ہمیں کہیں بھی اِن کی کتب کا اسٹال نظرنہیں آیا۔ حضرت قائدِاعظم پر ڈاکٹر معین الدین عقیل، رائو محمّد شاہد اقبال کے مضامین بہت عُمدہ تھےاورمنور مرزا تو بہترین اور مستند سیاسی تجزیہ کار ہیں ہی کہ روزمرّہ کے بدلتے حالات میں اُن کا تجزیہ بہت بھرپور ہوتا ہے۔ ( سیّد محمّد آصف، کراچی)

ج:محمود میاں نجمی کی تمام کتب امتہ البشیرایجوکیشنل سوسائٹی نے شائع کی ہیں، جن کا نمبر 8275126- 0315 ہے۔

مفید اور دل چسپ مضامین

بندہ روزنامہ جنگ کا پرانا قاری ہے اور ہر اتوار ’’سنڈے میگزین‘‘ کا شدّت سے منتظر رہتا ہے، کیوں کہ اِس میں شائع ہونے والے تمام ہی مضامین بہت مفید اور دل چسپ ہوتے ہیں۔ اِس ہفتے بھی محمود میاں نجمی کا مضمون ’’قصّہ قومِ لوطؑ کا‘‘ اور ڈاکٹر حصفہ کی ’’جدّہ‘‘ سے متعلق تحریر بہت پسند آئی۔ بابر سلیم خان کی کاوش ’’گوتم بدھ‘‘ بھی ایک معلوماتی تحریر تھی۔ بندے نے بدھ مت کے متعلق سُنا ہوا تو بہت کچھ تھا، مگر ایسی جان دار تحریر پہلی دفعہ پڑھنے کو ملی۔ اُمید ہے، آئندہ بھی ایسی خُوب صُورت تحریریں پڑھنے کو ملتی رہیں گی۔ ویسے آپ کے تمام ہی لکھاریوں کی محنت قابلِ صد تعریف ہے۔ (حیدرعلی، شاد باغ، لاہور)

ج: جی، ان شااللہ تعالیٰ بشرطِ زندگی آپ کو ایسی اچھی تحریریں ملتی ہی رہیں گی۔

بہت شاباشی دے دیں

اِس ہفتے کا سنڈے میگزین اپنی مثال آپ تھا۔ تمام مضامین، بالخصوص قوم لوطؑ ، گوتم بدھ، جدّہ اور روبوٹ سے متعلق تحریریں کافی معلوماتی تھیں۔ میری طرف سےمضامین لکھنے والے تمام لکھاریوں کوبہت شاباشی دےدیں۔ اُمید ہے کہ آئندہ بھی ایسی خُوب صُورت تحریریں ضرور پڑھنے کو ملیں گی۔ (محمّد رمضان، داروغہ والا، لاہور)

ج: جی، آپ کی شاباشی سب کو وصول پائی۔

قسط وار سلسلے پسند نہیں!!

’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا کا کوپ28 پرمضمون پسند آیا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’قصّہ حضرت عیسیٰ ابنِ مریمؑ‘‘ کی پہلی قسط پڑھی۔ ’’پیارا گھر‘‘ کی تراکیب کا جواب نہیں تھا۔ اسماء شاہ اور قراۃ العین فاروق کا شکریہ۔ سرِورق کی ماڈل کی شالزمیں اچھی فوٹوگرافی کی گئی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’واپسی‘‘ کی دوسری قسط بھی شان دارتھی۔ 

ویسےذاتی طورپر مجھے قسط وارسلسلے پسند نہیں۔ ’’متفرق‘‘ میں چوہدری قمر جہاں علی پوری نے سلطان الپ ارسلان پر اور ڈاکٹر معین الدین عقیل نے حیدرآباد دکن میں اردو زبان کے فروغ پر اچھے مضمامین تحریر کیے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ہی ذکی طارق بارہ بنکوی بھی بھارت سے موجود تھے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں مصباح طیّب نے اپنی خالہ پر ایک چھوٹی سی تحریر میں اُن کی سب خُوبیاں بیان کرکے رکھ دیں اور پروفیسر سیّد منصور علی خان کا خط ’’اس ہفتےکی چِٹھی‘‘ قرارپایا۔ 

اگلے شمارے کے ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا، ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں نجمی صاحب، ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال اور ڈاکٹر معین الدین عقیل کے مضامین لاجواب تھے۔ ماڈل کی تواِس بار آپ نے نوعدد تصاویر شائع کردیں۔ ویسے آپ کی تحریر کا بھی جواب نہیں تھا۔ ’’نئی کتابیں‘‘ بھی پسند آئیں، کیوں کہ اِس مرتبہ کوئی شعر و شاعری کی کتاب نہیں تھی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’واپسی‘‘ ختم ہوئی، لیکن جاتے جاتے آنکھیں نم کر گئی۔ آپ کی خاصی محنت سے تیار کردہ ناقابلِ اشاعت کی فہرست بھی پوری پڑھ ڈالی اور’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں شاہین کمال کی، چار بھائیوں کی بہن کی داستان سبق آموز تھی۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج:صفحات کی تعداد ہی اِتنی کم ہوگئی ہے کہ اب طول طویل تحریروں کے لیے ہمارے پاس سوائے اقساط کی صُورت اشاعت کے، کوئی طریقہ نہیں رہ گیا ہے۔ ویسےآپ کا قسط وار تحریروں پراعتراض تو بالکل ہی سمجھ سے بالاتر ہےکہ آپ توجریدے کے مستقل قاری ہیں۔

زندگی کا منشور، حصولِ جنّت کا ذریعہ

کیسی ہو، اُمید ہے، اچھی ہوگی۔ 16 صفحات کے اِس رسالے میں تم نے کیا کیا نہیں جمع کردیا۔ وہ جو دریا کوکُوزے میں سمونے والی بات ہے، وہ تم پر سو فی صد صادق آتی ہے۔ میگزین کو ہرعُمرکےافراد کے لیے قابلِ قبول بنانا بھی ایک آرٹ ہےاور یہ آرٹ کوئی تم سے سیکھے کہ16 صفحات کے اِس مختصر سے جریدے نے آج تک اپنی انفرادیت برقرار رکھی ہوئی ہے۔ پھر85 سالہ بزرگ پروفیسر سیّد منصورعلی خان بھی شریکِ محفل ہیں، توایک بچّی بھی محفل کی جان ہے۔

شاہدہ تبسم کی تلخ وشیریں باتیں، جاوید اقبال کا تلخ،کڑوا سچ، نازلی فیصل کا مکھن بَھرا سندیہ، نواب زادہ بے کار ملک کی اونگیاں بونگیاں۔ ہائے نرجس!! تمہاری ننّھی سی جان کے لیے یہ کیسےکیسے ستم نامے آتے ہیں۔ اور’’سینٹر اسپریڈ‘‘پر کیا کمال کے موتی جیسے الفاظ ہوتے ہیں۔ لگتا ہے کہ خُوب صُورت الفاظ تو تمہارے سامنے سر جُھکائے، ہاتھ جوڑے کھڑے رہتے ہیں اور یہ جو تم نے ’’قصص القرآن‘‘ کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ بس، یہ سمجھو کہ جنّت میں اپنا گھر بنا لیا ہے۔ پورے قرآنِ کریم کےقصّوں، نصیحت آموز واقعات کا اِس طرح بیان کہ دل لرز، کانپ کے ہی رہ جائے۔ 

ہم عربی سے نابلد لوگ تو قرآنِ کریم کو صرف ثواب کی کتاب سمجھ کر، پڑھ کے، چوم کےرکھ دیتےہیں یا پھر شادی بیاہ کی تقریبات، مخلوط محافل کے بعد، نامحرم مَردوں کے سامنے دلہن کے سرپررکھ کے وداع کرنے ہی کو کافی سمجھتےہیں۔ مگر… واللہ، یہ تو زندگی گزارنے کا منشور، جنّت کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے محمود میاں سے بھی اس پیرانہ سالی میں جو کام لیا ہے، یہ بس رب تعالیٰ ہی کا کرم ہے۔ اور ہاں، تمھارےجریدے میں قائدِاعظم پرمضامین پڑھنے کے بعدمنہ سے بے اختیار ہی نکلا۔ ؎ اے قائدِ اعظم! تیرا احسان ہے، تیرا احسان۔ اچھا چلو، دانشِ فرنگ کو ابھی ایک بار اور پڑھ کر پھر تبصرہ کروں گی۔ ( سدرہ فیصل، شادمان ٹائون، کراچی)

ج: آپ نے غالباً پہلی بار بزم میں شرکت کی ہے لیکن، طرزِ تحریر بہت اچھا ہے۔ جریدے کی پسندیدگی، ہماری اس قدر حوصلہ افزائی، خصوصاً دُعائے خیر کے لیے بےحد شکریہ۔ اب آئندہ بھی آتی جاتی رہیے گا۔

افکار وعمل سے دُور دُور کا واسطہ

اُمید ہے، خیریت سے ہوں گی۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ پڑھنے اور اُس پر تبصرہ کرنے میں بہت ہی مزہ آتا ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی نے ’’قصّہ حضرت عیسیٰ ابنِ مریمؑ ‘‘ لکھا، ماشاءاللہ بہترین تھا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں پولینڈ کےوزیرِاعظم، ڈونلڈٹسک سے متعلق معلومات دی گئیں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال کہتے ہیں کہ ’’دورِ حاضر کے بیش ترسیاست دانوں کا بانیٔ پاکستان کے افکاروعمل سے دُور دُور کا بھی واسطہ نہیں۔‘‘ اور یہ بالکل سچّی بات ہے کہ جناح کیپ اور شیروانی زیبِ تن کرلینے سے کوئی قائدِ اعظم محمّد علی جناح نہیں بن سکتا، جب تک کہ بانیٔ پاکستان کی عادات، نظریات اور افکار کو حرزِ جاں بناکر خُود کو اُن کی شخصیت کے سانچے میں نہیں ڈھال لیتا۔ 

وہ ایک بہترین قول ہے ناں کہ ’’شخص بن کر نہیں، شخصیت بن کر جیو، کیوں کہ شخص مرجاتا ہے، لیکن شخصیت زندہ رہتی ہے۔‘‘ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر انجم نوید نے کافی اچھی معلومات فراہم کیں۔ ڈاکٹر سیّد امجد علی جعفری نے نیند کی کمی سے متعلق بتایا کہ ’’نیند کی کمی، ورزش کے فوائد بھی ضائع کردیتی ہے‘‘ اور یہ بہت ہی اہم بات ہے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ماڈل سیدہ سعدیہ علی اپنی خوش لباسی کے سبب آپ کی کئی ماڈلز پر نمبر لے گئی۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر صائمہ اسماء ’’جلوہِ دانشِ فرنگ‘‘ کی پہلی قسط کے ساتھ آئیں اور کیا ہی شان دار اینٹری دی۔ 

بخدا تحریر پڑھ کر مَیں تو اُس میں بس جیسے کھو کے ہی رہ گئی۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’واپسی‘‘ کی تیسری اور آخری قسط کا بھی پچھلی دو اقساط کی طرح جواب نہ تھا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کی دونوں آپ بیتیاں خاصی نصیحت آموز تھیں۔ اور اب آتے ہیں، اپنے باغ وبہار صفحے، ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر، جس میں پہلے نمبرپر رہے، جاوید اقبال، لیکن دیگر خطوط نگاروں نے بھی کافی اچھے مکتوب لکھے۔ (ماہ نور شاہد احمد، میرپورخاص)

ج: اور تم نے بھی بہت اچھا خط لکھا ہے، بس، ذرا سی کسر رہ گئی، ورنہ ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ کی پکّی حق دار تھی۔

طویل، تاریخی سفرنامے کے کیا کہنے

’’حالات واقعات‘‘ میں منور مرزا کا مضمون بہت ہی جان دار اور شان دار تھا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے سلسلے ’’قصص القرآن‘‘ میں قصّہ ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام‘‘ کا دوسرا حصّہ بھی خاصا اہم اور معلوماتی تھا۔ اشاعت خصوصی‘‘ میںرائومحمّد شاہداقبال کا قائدِاعظم کی سیاست کے عنوان سے ایک بہترین مضمون پڑھنے کوملا۔ دوسرا مضمون بھی ڈاکٹر معین الدین عقیل کا تھا اور وہ بھی بہت معلوماتی تھا۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے دونوں مضامین توجّہ طلب رہے۔ ’’اسٹائل ‘‘ میں ماڈل سے زیادہ تو آپ کی تحریر اچھی تھی۔

 ’’جہانِ دیگر‘‘ میں برطانیہ کے شہر، کوونٹری پہ ڈاکٹر صائمہ اسماء کے طویل وتاریخی سفرنامے کے تو کیاہی کہنے۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں اچھا تبصرہ کیا گیا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں قیصر قصری (یہ لکھاری پاکستان سے ہیں یا کسی اور مُلک سے) کے قسط وار افسانے نے تو دل ہی جیت لیا۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات بھی سبق آموز تھے۔ اور…’’آپ کا صفحہ‘‘ کی محفل تومختلف مزاج کے حامل لوگوں کے سبب خُوب ہی رنگارنگ معلوم ہوتی ہے۔ اللہ کرے، یہ بزم سدا یوں ہی جگمگاتی رہے۔ (محمّد عثمان، شاہ پور چاکر، سانگھڑ)

ج:’’واپسی‘‘ کے لکھاری نے اپنے کسی بھی تعارف کے بغیر، یہ طویل افسانہ بذریعہ ڈاک بھیجا، تحریر کے ساتھ شہر کا نام تھا، نہ ہی کوئی فون نمبر، لیکن تحریر چوں کہ بہت اعلیٰ اور بروقت تھی، تو فوری شایع کردی گئی۔

      فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

اُمید کرتا ہوں، آپ اور آپ کی ٹیم خیریت سے ہوگی۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ تو شان دار، خُود اپنی تعریف اور اپنی مثال آپ ہے۔ سرما کی دس دن کی چُھٹیاں اورپھرسنڈے میگزین میں ’’اس ہفتے کی چِٹھی‘‘میں اپنانام… کیا بتائوں، دیکھ کرکس قدر خوشی ہوئی، آپ کا بےحد شکریہ۔ اس ہفتے کا میگزین، حسبِ معمول شان دار تحریروں پر مبنی تھا۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’قصّہ حضرت عیسیٰ ابنِ مریمؑ کا‘‘ کی دوسری اور آخری قسط معلومات سے بھرپور تھی۔ منورمرزا ’’حالات و واقعات‘‘ میں ’’پولینڈ میں آٹھ سال بعد تبدیلی‘‘ جیسی شان دار تحریر کے ساتھ آئے، جو قارئین کے لیے گویا معلومات کا ذخیرہ تھی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال نے قائدِ اعظم کی سیاست سے متعلق لکھا کہ ’’قائدِ اعظم محمّد علی جناح نے ساری زندگی انتہائی ایمان داری سے سیاست کی۔‘‘ 

بےشک، اُن کی اِس ایمان دارانہ سیاست ہی کی بدولت توہم آج ایک آزاد مملکت، پاکستان میں بس رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے سیاست دانوں کو قائدِ اعظم کے نقشِ قدم پر چلنے، اُن کی طرح ایمان داری، سچّی لگن سے اپنے فرائض کی انجام دہی کی توفیق دے۔ بابر سلیم خان کی مختصر تحریر ’’بانیٔ پاکستان، مشاہیرکی نظر میں‘‘ اچھے انداز سے مرتّب کی گئی۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں میں قائدِ اعظم کے ساتھ نواب بہادر یارجنگ کی ایک یادگار تصویر لاجواب انتخاب تھا۔ ارےہاں، میٹرک کلاس میں ہمارے سرحمزہ اسد نے ہمیں بہادر یار جنگ سے متعلق بتایا تھا کہ قائدِاعظم اُنہیں اپنا سچّا دوست، ہم درد سمجھتے تھے اور اُن کی رائے کا بڑا احترام کرتے تھے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر انجم نوید کی تحریر بہت ہی مفید لگی۔ ڈاکٹر سیّد امجد علی جعفری کا فرمان ’’نیند کی کمی، ورزش کے فوائد ضائع کردیتی ہے‘‘ تو گویا Fruitful thought of the day ہے۔ 

ماڈل سیّدہ سعدیہ علی کا خُوب صُورت شُوٹ اور نرجس ملک کا رائٹ اَپ آخر دسمبر کی ٹھنڈی میٹھی سردی کی مناسبت سے انتہائی خُوب صُورت تھا۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر صائمہ اسماء کی تحریر ’’جلوہِ دانشِ فرنگ‘‘ کی پہلی قسط سے متعلق کیا رائے دوں، حقیقتاً یہ مضمون جریدےکی جان ثابت ہوا۔ ’’نئی کتابیں‘‘ پر اس بار منور راجپوت چھائے ہوئے تھے۔۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’واپسی‘‘ کے عنوان سے قیصر قصری کا ایک شاہ کار افسانہ پیش کیا گیا، جس کی تیسری اور آخری قسط بھی لاجواب تھی۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ’’مَیں اور میری کجلائی زندگی‘‘ شاہین کمال کا انتہائی متاثر کُن، سبق آموزواقعہ تھا۔’’آپ کاصفحہ‘‘ یعنی ہمارے اپنے صفحے کے خطوط کی تو بات ہی کیا ہے۔ نئے نئے لکھاریوں کے خطوط بھی پڑھنے کو مل رہے ہیں، مگرہرخط ہی زبان و بیان کے اعتبار سےکمال، بے مثال ہوتا ہے۔ ( اشوک کمار کولھی، گوٹھ جکھراڑی، کوٹ غلام محمّد)

ج: مدح سرائی کابےحد شکریہ، لیکن اگر آئندہ ہماری کچھ خامیوں، غلطیوں کی نشان دہی بھی فرمائیں، تو ہمیں زیادہ خوشی ہوگی۔

گوشہ برقی خطوط

* جنگ، سنڈے میگزین میں ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے خطوط میں اُردو کی جو ٹانگ توڑی گئی، دیکھ کے شدید دُکھ ہوا۔ ویسے ہی رومن اندازِ تحریر نے اُردو کا بیڑا غرق کردیا ہے، اب رہی سہی کسر یہ اُردو کے بیچ میں انگریزی ڈال کےپوری کی جارہی ہے۔ آپ کے یہاں شایع ہونے والے ایک خط میں محاورے ’’سورج کو چراغ دکھانا‘‘ کو ’’سورج کو ٹارچ دکھانا‘‘ لکھا گیا، تو فوری طور پر ’’استغفراللہ‘‘ پڑھ کے جریدہ ہی بند کردیا۔ خدارا! اُردو کے ساتھ یہ ظلم بند کریں اور ایک گزارش بھی ہے کہ سائنسی و فلکیاتی لکھاری محمّد شاہ زیب صدیقی کا انٹرویو شائع کریں۔ (وقاص علی قریشی، حیدرآباد)

ج: خط میں جو محاورہ استعمال کیا گیا، وہ ارادتاً کیا گیا۔ خط لکھنے والے کو بھی اصل محاورے کا علم تھا اور ایڈٹ کرنے والے سے لےکر پڑھنے والوں تک کو بھی۔ آپ ناحق اتنے جذباتی نہ ہوں۔ اُردو کے ساتھ تو پھر بھی اتنی بُری نہیں ہوئی، جو کچھ بےچاری انگریزی کے ساتھ ہورہا ہے۔ زبانوں کے ساتھ اِس طرح کی زیادتیاں ازل سےہوتی آرہی ہیں اورابد تک رہیں گی، یہ کوئی بہت اَن ہونی بات نہیں۔ ہاں، اگر آپ اِس بہانے ’’استغفراللہ‘‘ کی تسبیح کرلیتے ہیں، تو یہ ایک اضافی فائدہ ضرور ہے۔ اور اگر اپنی ای میل کی اِملا پر بھی نظرِثانی فرمالیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔

* مَیں کافی عرصے بعد ای میل کررہا ہوں۔ اورنہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ مجھے اپ سے سخت شکوہ ہے، کیوں کہ آپ نے جریدے میں میری غزل شامل نہیں کی ۔ خیر چھوڑیں، کیسی ہیں آپ؟جواب دےکرمجھے دوبارہ ویلکم ضرور کیجیے گا۔ (ناصر ادیب ناصر، لاہور)

ج: محترم! آپ ٹھیک ہیں؟؟ ہم تو ویسے ہی ہیں، جیسے برسوں پہلے تھے۔ آپ کی غزل قابلِ اشاعت ہوتی، تو ضرور جگہ بنا لیتی۔ اوریہ آپ کی ای میل کا جواب، بالکل روٹین کے مطابق دیا گیا ہے، اب آپ کسی خوش فہمی کے زیرِ اثر اِسے ’’ویلکم‘‘ سمجھ لیں، تو آپ کی مرضی۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk