فتحِ مبین: ہجرت کے چھٹے سال ماہِ ذی قعد کے آخری دنوں کی ایک پُرنوررات تھی۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کفارِمکّہ کے ساتھ صلحِ حدیبیہ کے معاہدے کے بعد واپس مدینہ منوّرہ تشریف لے جا رہے تھے۔ چودہ سو صحابۂ کرام ؓ ساتھ تھے، جن کی اکثریت اس معاہدے سے خوش نہ تھی، لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلے، اللہ کے فیصلے تھے، نگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے دُور رس نتائج کا مشاہدہ فرمالیا تھا۔
اس کے باوجود آپؐ کو اپنے رفقاء کی اُداسی کی کیفیت کا بخوبی علم تھا۔ ابھی یہ قافلہ مکّہ مکرّمہ سے صرف 40کلومیٹر دُور ’’کراع الغمیم‘‘ کے مقام پر پہنچا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ’’سورۂ فتح‘‘ کا نزول فرمایا اور اس کی ابتدا ہی اس آیت سے فرمائی ’’اِنّا فتحنالک فتحاً مُّبینا۔‘‘ ترجمہ:’’بے شک (اے نبی ؐ) ہم نے آپ کو ایک کُھلی فتح دی۔‘‘
صلحِ حدیبیہ کو ربِّ ذوالجلال نے فتحِ مبین سے تعبیر فرمایا اور پھر یہ صلح نہ صرف فتحِ مکّہ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی، بلکہ اس کے دینی و دنیاوی ثمرات و برکات نے مسلمانوں کو مالا مال کردیا۔ سورت کے نزول کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام صحابۂ کرامؓ کو جمع کیا، خاص طور پر حضرت عُمرؓ کو بلایا، کیوں کہ وہ سب سے زیادہ رنجیدہ تھے۔ پھر فرمایا، ’’آج رات مجھ پر جو سورت نازل ہوئی، وہ مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث 4177)۔ اور یہ ’’سورۂ فتح‘‘ تھی، جس میں انتیس آیات اور چار رکوع ہیں۔ یہ قرآن کی 48ویں سورت ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت جابر بن عبداللہ ؓ اور بعض دیگر صحابہؓ یہ فرمایا کرتے تھے کہ ’’تم لوگ تو فتح ِمکّہ کو فتح کہتے ہو اور ہم صلحِ حدیبیہ ہی کو فتح سمجھتے ہیں۔‘‘ حضرت براء بن عازبؓ نے فرمایا کہ ’’تم لوگ تو فتح مکّہ ہی کو فتح سمجھتے ہو اور کوئی شک نہیں کہ وہ فتح ہے، لیکن ہم تو واقعۂ حدیبیہ کے وقت ’’بیعتِ رضوان‘‘ کو اصل فتح سمجھتے ہیں۔‘‘ (البدایہ والنہایہ، 4/141)۔
آنحضرت ﷺ کا خواب: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکّہ مکرّمہ سے ہجرت فرمائے چھے سال ہوچکے تھے۔ ایک رات آپؐ نے خواب میں دیکھا کہ آپؐ اپنے صحابۂ کرامؓ کے ساتھ مکّہ مکرّمہ میں عُمرہ ادا فرما رہے ہیں۔ عُمرے سے فارغ ہوکر آپؐ بیت اللہ شریف میں داخل ہوئے۔ بیت اللہ کی چابی آپؐ کے دستِ مبارک میں ہے۔ انبیاء کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں۔
صبح آپؐ نے اپنا خواب صحابۂ کرام ؓ کو سنایا، تو وہ سب فرطِ مسّرت سے سرشار ہوکر فوراً ہی مکّہ مکرّمہ جانے کے لیے بے قرار ہوگئے اور زور و شورسے تیاری شروع کردی۔ حالاں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خواب میں کسی خاص مہینے یا سال کا ذکر نہیں تھا، لیکن صحابہؓ کا جوش و خروش دیکھ کر آپؐ بھی تیار ہوگئے۔ مدینہ منورہ میں حضورؐ نے نمیلہ بن عبداللہ اللیثیؓ کو حاکم مقرر فرمایا۔ (سیرت ابنِ ہشام 99/3)۔
عُمرے کے لیے روانگی: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یکم ذی قعد6 ہجری بروز پیرروانگی کا دن مقرر فرمایا۔ صبح ہی سے مہاجرین و انصار کی ایک بڑی تعداد مسجدِ نبویؐ کے باہر جمع ہوچکی تھی۔ محدّثین نے اُن کی تعداد 14سو بیان کی ہے۔ روانگی سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غسل فرمایا۔ نیا لباس زیبِ تن کیا اور اپنی ناقہ، قصویٰ پر تشریف فرما ہوئے۔ اُمّ المومنین، حضرت سلمہؓ اس سفر میں آپ ؐکے ساتھ تھیں۔
مدینے سے دس کلومیٹر کی مسافت پر ایک مقام ذوالحلیفہ ہے، جسے آج کل ’’بیئرعلی‘‘ کہتے ہیں۔ یہاں سے آپؐ نے عُمرے کا احرام باندھا۔ اس سفر میں آپؐ کے ساتھ قربانی کے70اونٹ بھی تھے، جب کہ صحابہؓ کے پاس نیام کے اندر رکھی تلواروں کے سوا کسی قسم کا کوئی اور ہتھیار نہیں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بشربن سفیانؓ کو پہلے مکّہ مکرّمہ روانہ کردیا، تاکہ وہ خفیہ طور پر کفّار کے حالات کا مشاہدہ کرکے آپ ؐ کو اطلاع کریں۔ (معارف القرآن 56/8)۔
اہلِ مکّہ جنگ کے لیے تیار: مکّہ مکرّمہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحابہؓ کے ساتھ مکّہ کے لیے روانہ ہونے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی، چناں چہ سب قبیلوں کے سردار سر جوڑ کر بیٹھے اور فیصلہ کیا کہ کسی بھی صُورت، مسلمانوں کو مکّے میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اگر اس وقت یہ مکّے میں داخل ہوگئے، تو پورے عرب میں یہ مشہور ہوجائے گا کہ مسلمان ہم پرغالب آگئے۔ اس طرح ہم پورے عرب میں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے۔ قریش کے لوگوں کے لیے ذی قعد کا مہینہ جنگ و جدل کے لیے حرام تھا، لیکن اس کے باوجود اُن سب نے عہد کیا کہ خواہ کتنی ہی خوں ریزی ہو جائے، لیکن آپؐ کو مکّہ مکرّمہ میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔
چناں چہ فوری طور پر اپنے سب سے بہادر جنگ جُو، خالد بن ولید کو دو سو جنگجوئوں کا لشکر دے کر مکّے سے مدینہ جانے والی مرکزی شاہ راہ کے ایک مقام ’’کراع الغمیم‘‘ پر تعینات کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکّہ مکرّمہ سے دو دن کے مسافت پر ایک مقام عسفان پہنچے، تو مخبر نے اطلاع دی کہ اہلِ مکّہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے لیے پوری طرح تیاری کے ساتھ مکّے سے باہر ذی طویٰ کے مقام پر منتظر ہیں۔ جب کہ خالد بن ولید لشکر کے ساتھ کراع الغمیم کے مقام پر مسلمانوں کا راستہ روکنے کے لیے موجود ہیں۔ اس اطلاع کے بعد آپؐ نے مرکزی راستہ ترک کرکے گھاٹیوں کے درمیان سے گزرنے والا پُرپیچ راستہ اختیار کیا اور اُس گھاٹی پر پہنچے، جس سے مکّہ میں اُترتے ہیں۔(رحیق المختوم، صفحہ460)۔
ناقۂ نبویؐ کا حدیبیہ میں رُکنا: یہ جگہ حدیبیہ کے نام سے مشہور تھی۔ جب نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام اور اسلامی لشکر حدیبیہ پہنچے، تو ناقۂ نبویؐ یہاں آکر بیٹھ کے سوگئی۔ ہرچند لوگوں نے اسے اُٹھانا چاہا، لیکن وہ نہ اُٹھی، تو سب مسلمانوں کو تعجّب ہوا اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استفسار کیا۔ آپؐ نے فرمایا، ’’اس کی ایسی عادت نہیں ہے، جس ذات نے اصحابِ فیل کے ہاتھیوں کو روکا تھا، اُسی ذات نے اسے بھی بٹھا دیا ہے۔‘‘ پھر آپؐ نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا کہ ’’ہم لوگ اسی جگہ قیام کریں گے۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا، ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! یہاں تو پانی نہیں ہے۔‘‘ لیکن آپؐ نے فرمایا کہ ہمیں اِسی جگہ قیام کرنا ہے، تعمیلِ ارشاد میں لشکر کے تمام افراد نے اسی جگہ قیام کیا۔ (سیرت ابنِ اسحاق، صفحہ 590)۔
حدیبیہ میں آنحضرتؐ کا معجزہ: حضرت براء بن عازب ؓبیان کرتے ہیں کہ غزوئہ حدیبیہ کے موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہزار چار سو یا اس سے بھی زیادہ تعداد میں لوگ تھے۔ حدیبیہ کے مقام پر ایک کنویں کے قریب پڑائو کا حکم ہوا۔ کنویں میں بہت تھوڑا پانی تھا، جسے لشکر کے لوگوں نے کھینچ لیا۔ یہاں تک کہ کنواں بالکل خشک ہوگیا۔ صحابہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پانی نہ ہونے کی اطلاع دی۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کے ساتھ کنویں پر تشریف لائے اور اس کی منڈیر پر بیٹھ گئے۔ پھر فرمایا، ’’ایک ڈول میں اسی کنویں کا پانی لائو۔‘‘ آپؐ کی خدمت میں پانی پیش کیا گیا۔ آپؐ نے اس پانی سے وضو فرمایا اور کنویں میں کُلّی کی، پھر دُعا کرکے فرمایا کہ کنویں کو تھوڑی دیر کے لیے یوں ہی رہنے دو۔ کچھ دیر بعد کنویں میں اس قدر زیادہ مقدار میں پانی آگیا کہ سارا لشکر خود بھی سیراب ہوتا رہا اور اپنی سواریوں کو بھی خُوب پلاتا رہا۔(صحیح بخاری، 4151,4150)۔ صحیح بخاری کی دوسری حدیث میں حضرت مخرمہ ؓ اورحضرت مروانؓ سے روایت ہے کہ اس موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر دیا کہ اسے اس میں گاڑ دیں۔ تیر گاڑتے ہی پانی ابلنے لگا اور لشکر کے تمام لوگ پوری طرح سیراب ہوگئے۔(صحیح بخاری حدیث 2732,2731)۔
قریش کے سفیروں سے گفت و شنید: حدیبیہ کے مقام پر اہلِ مکّہ سے بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ سب سے پہلے قبیلہ بنو خزاعہ کا سردار بدیل بن ورقا (بعد میں مسلمان ہوگئے تھے) اپنے قبیلے کے چند افراد کے ساتھ ملنے آیا۔ آپؐ نے اسے بتایا کہ ہم یہاں صرف عُمرے کی غرض سے آئے ہیں۔ ہم کسی سے لڑنے کے لیے نہیں آئے۔
بدیل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام سردارانِ قریش تک پہنچایا، لیکن کفّار اپنی ضد پر اَڑے رہے۔ پھر انہوں نے احابیش قبائل کے سردار حلیس بن علقمہ کوحضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بھیجا۔ اس نے جب یہ دیکھا کہ پورا لشکر احرام باندھے ہوئے ہے اور قربانی کے اونٹ ساتھ ہیں، تو وہ آپؐ سے کوئی بات کیے بغیر واپس ہوگیا اور سردارانِ قریش کو بتایا کہ ’’مسلمان زیارت کی نیّت سے آئے ہیں، مَیں خود اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ کر آیا ہوں، انہیں زیارت سے نہ روکو۔‘‘ سردارانِ قریش ضدّی، خودسر و متکبّر لوگ تھے۔ اس مرتبہ انہوں نے مشہور سردار عروہ بن مسعود ثقفی کو آپؐ کی خدمت میں بھیجا۔ عروہ ایک نہایت زیرک، سمجھ دار اور جہاں دیدہ شخص تھا۔
وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کے دوران گردو پیش کا جائزہ بھی لے رہا تھا۔ آپؐ نے اُس سے بھی وہی بات کی کہ ہم عُمرہ ادا کرکے واپس چلے جائیں گے۔ عروہ واپس مکّہ پہنچا اور قریش کے سرداروں سے کہا کہ ’’مَیں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے درباروں میں بھی گیا ہوں، مگر خدا کی قسم! میں نے اصحابِ محمدؐ کو جس طرح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فدائی دیکھا ہے، ایسا منظر کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کے یہاں بھی نہیں دیکھا۔
ان لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) وضو کرتے ہیں، تو اُن کے اصحاب پانی کا ایک قطرہ تک زمین پر گرنے نہیں دیتے اور سب اپنے جسم اور کپڑوں پر مل لیتے ہیں۔ اب تم لوگ خود ہی سوچ لو کہ تمہارا مقابلہ کن لوگوں سے ہے۔‘‘ گفت و شنید کا سلسلہ چلتا رہا۔ قریش مسلمانوں کو اشتعال دلانے کے لیے چھاپا مار کارروائیاں کرتے رہے، لیکن ہر مرتبہ صحابہؓ کے صبر و تحمّل اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت و فراست نے اُن کی ساری تدبیروں کو ناکام بنا دیا۔(تفہیم القرآن، 5/37)۔
حضرت عثمانؓ کی سفارت کاری اور شہادت کی افواہ:اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مناسب سمجھا کہ اپنے کسی نمائندے کو مکّہ بھیجا جائے، تاکہ وہ مسلمانوں کے موقف کی وضاحت کرسکے۔ اس مقصد کے لیے پہلے حضرت عُمر فاروقؓ کو بلایا گیا، لیکن پھر اُن کی درخواست پر یہ اہم ذمّے داری حضرت عثمان بن عفانؓ کو سونپی گئی۔ حضرت عثمانؓ نے تین رات مکّے میں قیام کیا اور رئوسائے قریش کو رضامند کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
اسی دوران قریش نے رازداری کے ساتھ50تیر انداز اس کام پر لگائے کہ کسی وقت خاموشی کے ساتھ معاذاللہ آپ ؐ کا قصّہ تمام کردیں، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت پر مامور حضرت محمد بن مسلمہؓ نے کمال بہادری سے ان سب کو گرفتار کرکے آپؐ کی خدمت میں پیش کردیا۔ قریش کو جب اپنے تیر اندازوں کی گرفتاری کا عِلم ہوا، تو انہوں نے حضرت عثمانؓ کو مکّے میں روک لیا، اس کے ساتھ ہی کفار کے تیر اندازوں کی ایک جماعت نے مسلمانوں کے لشکر پر تیر برسانے شروع کردیئے، جس سے ایک صحابی، حضرت ابنِ زینمؓ شہید ہوگئے۔ اس کے ساتھ یہ خبر بھی عام ہوگئی کہ حضرت عثمانؓ کو شہید کر دیا گیا۔ (معارف القرآن، (60/8۔
بیعتِ رضوان: حضرت عثمان بن عفانؓ کی شہادت کی خبر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سخت رنجیدئہ خاطر کردیا۔ آپؐ نے فرمایا، ’’ہم جب تک عثمانؓ کی شہادت کا بدلہ نہ لے لیں، اِس جگہ سے واپس نہیں جائیں گے۔‘‘ آپؐ نے ایک درخت کے نیچے سب کو جمع کرلیا اور تمام صحابہؓ سے جاں نثاری کی بیعت لی۔ (صحیح بخاری، حدیث 4171)۔
حضرت عثمانؓ کی بیعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر لی، لیکن اسی اثناء میں حضرت عثمانؓ بھی آگئے اور انہوں نے بھی بیعت کی۔ یہ بیعت تاریخ میں ’’بیعتِ رضوان‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا، ترجمہ: ’’اللہ مومنین سے راضی ہوا، جب کہ وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے۔‘‘ (سورۂ فتح، آیت 18)۔
صلح حدیبیہ اور اس کی دفعات: بیعت کی اس خبر نے کفّارِ مکّہ کے اوسان خطا کردیئے۔ انہوں نے سہیل بن عمرو کو چند تجاویز کے ساتھ دوبارہ بھیجا۔ سہیل کے ساتھ طویل گفت و شنید کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کی تجاویز کو تسلیم کرلیا اور حضرت علیؓ سے فرمایا کہ معاہدہ تحریرکریں۔ حضرت علیؓ نے ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ لکھ کر معاہدے کی شروعات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے کی۔ سہیل نے ان دونوں الفاظ پر شدید اعتراض کیا۔ چناں چہ آپؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ یہ دونوں مٹادیں، لیکن بے ادبی کے پیشِ نظرحضرت علی ؓ نے مٹانے میں تامّل کیا۔ چناں چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے بسم اللہ کی جگہ ’’باسمک اللّھم‘‘ اور محمد بن عبد اللہ تحریر فرمایا۔
صلح نامے کی شرائط : 1۔ مسلمان واپس جائیں۔ اگلے سال آئیں اور صرف تین دن قیام کریں۔ صرف تلواریں ساتھ لائیں، وہ بھی نیام میں ہوں۔2 ۔ مکّہ سے کوئی شخص مدینہ گیا، تو واپس کردیا جائے گا، لیکن اگر کوئی مسلمان مکّہ جائے گا، تو واپس نہیں کیا جائے گا۔3 ۔ قبائلِ عرب کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ فریقین میں سے جس کے ساتھ چاہیں اتحاد کرلیں۔4 ۔ صلح نامے کی مدّت دس سال ہوگی۔ اس عرصے میں دونوں جانب مکمل امن و امان ہوگا۔ کوئی کسی پر ہاتھ نہ اٹھائے گا۔ (سیرت ابنِ ہشام 3/105)۔
زخموں سے چُور حضرت ابوجندل کی آمد: ابھی معاہدہ تحریر ہی کیا جا رہا تھا کہ قریش کے نمائندے،سہیل بن عمرو کے مسلمان بیٹے، حضرت ابوجندلؓ لہولہان حالت میں پائوں کی بیڑیاں گھسیٹتے ہوئے چلے آئے۔ وہ کفار کی قید سے فرار ہوکر زخموں سے چُور یہاں پہنچے تھے۔ شقی القلب باپ نے جب بیٹے کو دیکھا، تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا، ’’یہ ہمارا قیدی ہے، اسے ہمارے حوالے کریں۔‘‘
آپؐ نے فرمایا ’’سہیل ابھی تو معاہدے پر دستخط بھی نہیں ہوئے۔‘‘ لیکن وہ اپنی ضد پر اڑ گیا اور کہا، ’’اگر اسے واپس نہیں کروگے، تو معاہدہ نہیں ہوگا۔‘‘ (صحیح بخاری 4180-4181) حضرت ابوجندلؓ نے جب یہ دیکھا، تو التجا کی کہ ’’قریش نے مجھے نیم مردہ کر دیا ہے۔ اب یہ لوگ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ کیا تم اپنے بھائی کو ان قاتلوں کے حوالے کرنے پر تیار ہو؟‘‘ ابو جندلؓ کے ان الفاظ نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور صحابہؓ کو تڑپا کر رکھ دیا۔ حضرت عمرفاروقؓ کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاکر عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا، ’’بے شک! ہم حق پر ہیں۔‘‘ حضرت عمرؓ پھر حضرت ابوبکرؓ کے پاس پہنچے، انہوں نے فرمایا، ’’اے عُمر! حضورؐ، خدا کے پیغمبر ہیں۔ اُن کا ہر عمل اللہ کے حکم سے ہے اور ہم سب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کے تابع ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری 2732,2731)۔
ابو جندل واپس کفّار کی قید میں: ’’حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار پھر سہیل سے فرمایا کہ ’’تم ابوجندل کو میری خاطر چھوڑدو۔‘‘ لیکن اسلام دشمنی خونی رشتے پر غالب آچکی تھی۔ کہا، ’’یہ اب میرا بیٹا نہیں، بلکہ ہمارا دشمن قیدی ہے۔‘‘ وہ بڑے صبر آزما لمحات تھے۔ صحابہ کرامؓ کو اپنے بپھرے جذبات قابو میں رکھنا بڑا دشوار تھا۔ ایسے میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابوجندلؓ کے پاس تشریف لے گئے اور شفقت و محبّت بھرے لہجے میں فرمایا، ’’اے ابوجندل! اس وقت تم صبر سے کام لو۔ اللہ بہت جلد تم مظلوموں کے لیے کوئی راہ نکالے گا۔‘‘ سہیل بن عمرو نے بیٹے کی زنجیر پکڑی اور اسے گھسیٹتا ہوا واپس لے گیا۔ (سیرت ابنِ ہشام 3/106)۔
حضرت اُمِّ سلمہؓ کا مشورہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا کہ ’’سب جانور ذبح کرکے حلق کروائیں اور احرام کھول لیں۔‘‘ آپؐ نے یہ حکم تین مرتبہ دُہرایا، لیکن دل شکستہ لوگ اپنی جگہ بیٹھے رہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمے میں آئے اور حضرت امِّ سلمہؓ سے اس بات کا ذکر کیا۔
انہوں نے کہا، ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!آپؐ اپنی قربانی اور حلق کرواکر احرام کھول لیں۔‘‘ آپؐ باہر تشریف لے گئے اور خاموشی کے ساتھ اپنی قربانی کی، حجام سے سرمنڈوایا اور غسل فرماکر احرام اتار دیا۔ اب صحابہؓ کو یقین ہوگیا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا حکم یہی ہے۔ چناں چہ سب نے ایسا ہی کیا۔ (صحیح بخاری 2732,2731)۔
صلح ِحدیبیہ..... حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کی خُوب صُورت تعبیر: صلحِ حدیبیہ، دراصل وہ عظیم فتح تھی کہ جس کے بعد کفارِقریش نے مسلمانوں کی حیثیت کو تسلیم کیا۔ مکّہ اور مدینہ کے درمیان آمد و رفت اور تجارت کو فروغ ملا۔ اسلام نہایت تیزی سے پھیلا اور فتحِ مکّہ تک مسلمانوں کی تعداد دس ہزار سے کہیں زیادہ ہوگئی۔ مسلمانوں کے لیے زیارتِ بیت اللہ کے حق کو تسلیم کیا گیا۔ جنگ بندی سے مسلمانوں کو امن میسّر آیا، عرب میں اسلام تیزی سے پھیلا۔ غیرملکی بادشاہوں کو خطوط لکھ کر دین کی دعوت دی گئی۔ صلح حدیبیہ کے صرف تین ماہ بعد ہی یہودیوں کا سب سے بڑا گڑھ ’’خیبر‘‘ فتح کیا گیا۔
یہودیوں کی دیگر بستیاں فدک، وادی القریٰ اور تیماء مسلمانوں کے زیرِنگیں آگئیں۔ پورے عرب میں طاقت کا توازن مسلمانوں کے حق میں ہوگیا۔ خیبر کی فتح میں مسلمانوں کو جس بڑی تعداد میں مال و دولت ہاتھ آیا، اُس نے ان کی مادّی قوت کو بہت زیادہ مستحکم کردیا۔ اور پھر بہت جلد قریش نے معاہدہ توڑ ڈالا اور صرف بیس ماہ بعد ہی مکّہ فتح ہوگیا اور بیت اللہ شریف کی چابی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک میں تھی۔
جب کہ غرور و تکبّر کے پیکر سردارانِ قریش سرجھکائے بے چارگی و بے بسی کی تصویر بنے، اپنی قسمت کے فیصلے کے منتظر تھے۔ سب کو اپنے بھیانک انجام کی خبر تھی۔ ایسے میں اللہ کے محبوبؐ کی رُوح پرور آواز نے مکّے کی فضاؤں کو مہکا دیا۔ فرمایا، ’’آج میں تم سے وہی بات کرتا ہوں، جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کی تھی۔ ’’لاتثریب علیکُم الیوم‘‘ ترجمہ: ’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔ جائو تم سب آزاد ہو۔‘‘ (طبقات ابنِ سعد 1/283)۔